loading

معتبر روایات میں وارد ہوا ہے کہ بچے کی پیدائش کے  ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے۔ عقیقہ کرنا مستحب تاکیدی ہے۔ فرق نہیں پڑتا پیدا ہونے والا مولود لڑکا ہے یا لڑکی۔ ہر دو کا عقیقہ کرنا مستحب ہے۔ ذیل میں مراجع عظام کے فتاوی کی روشنی میں عقیقہ کے مسائل کو ذکر کیا جا رہا ہے۔

آیت اللہ سیستانی کی نظر میں:

۱۔ جو بچہ یا بچی پیدا ہو اس کا ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب ہے۔ اگر کسی عذر کی وجہ سے یا بغیر کسی عذر کے ساتویں دن عقیقہ نہ کیا جا سکے تو عقیقہ ساقط نہیں ہوتا بلکہ جب موقع اور استطاعت میسر آئے عقیقہ کرنا مستحب ہے اگرچے بچہ یا بچی جوان ہو جائے یا بڑھاپے میں پہنچ جائے۔ بلکہ اگر ایک شخص اپنی زندگی میں عقیقہ نہیں کر سکا تو اس کی موت کے بعد اس کا عقیقہ اس کی جانب سے کیا جا سکتا ہے ۔

۲۔ عقیقہ میں فقط تین جانوروں میں سے کسی جانور کو ذبح کیا جا سکتا ہے: ۱۔ بھیڑ بکریاں، ۲۔ گائے، ۳۔ اونٹ (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے)۔

۳۔ عقیقہ میں جانور کو ذبح کرنا ضروری ہے ، ایسا نہیں کیا جا سکتا کہ جانور کی قیمت کو صدقہ کر دیا جائے تو عقیقہ ادا ہو جائے۔

۴۔ مستحب ہے کہ عقیقہ والا جانور موٹا اور صحت مند ہو۔ بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ بہترین عقیقہ والا جانور وہ ہے جو جتنا موٹا ہو۔

۵۔ کہا جاتا ہے کہ مستحب ہے کہ جس جانور کا عقیقہ کیا جائے اس میں قربانی والے جانور کی تمام شرائط پائی جاتی ہوں، یعنی عقیقہ والا جانور تمام عیب و نقص سے سالم ہو، اگر اونٹ ہو تو پانچ سال سے کم عمر نہ ہو، اگر گائے یا بیل ہو تو دو سال سے کم نہ ہو، اگر بھیڑ یا دنبہ ہو تو ساتھ ماہ سے کم عمر نہ ہو۔ البتہ یہ ثابت نہیں ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ عقیقہ اصل میں بکری (بکرے) کا گوشت ہوتا ہے اس لیے یہ قربانی کے جانور کے برابر نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ عقیقہ میں ہر شرط قربانی کے جانور والی پائی جائے۔

۶۔ عقیقہ کے جانور کے ٹکڑے کیے جائیں تو اس کی ہڈیوں کو نہ توڑا جائے۔

۷۔ مستحب ہے کہ عقیقہ کا چوتھا حصہ دائی کو دے دیا جائے اور مستحب ہے کہ دائی کو آگے کی دستی یا پیچھے ران دی جائے۔

۸۔ عقیقہ کا گوشت یا گوشت کو پکا کر بانٹنا جائز ہے۔

۹۔ عقیقہ کے گوشت کو پکار کر مومنین کو دعوت دینا جائز ہے۔ افضل یہ ہے کہ مومنین کی تعداد دس یا اس سے زائد ہو اور وہ بچے کے لیے دعا کریں۔

۱۰۔ بچے کا باپ اور اس باپ کے زیر کفالت جو کوئی ہے خصوصا ماں، ان سب کے لیے عقیقہ کا گوشت کھانا مکروہ ہے۔ بلکہ احتیاط مستحب کی بناء پر ماں کو عقیقہ کا گوشت ترک کرنا چاہیے۔ اس طرف توجہ رہے والدین اور جو باپ کے زیر کفالت ہے اس کا عقیقہ کا گوشت کھانا مکروہ ہے حرام نہیں۔ اس لیے کھا لیں تو اس سے کوئی حرام جنم نہیں لیتا۔

۱۱۔ عقیقہ کا مذکر اور مؤنث ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لیے بچی کے لیے نر جانور کو اور بچے کے لیے مادہ جانور کو بھی ذبح کیا جا سکتا ہے۔

۱۲۔ عقیقہ کے جانور کا گوشت جدا کیا جائے تو مستحب ہے کہ اس کی ہڈیاں نہ توڑی جائیں۔

۱۳۔ اگر کوئی روزِ عید قربانی کرتا ہے اور اس قربانی میں کوئی حصہ دار نہیں تو وہ قربانی عقیقہ سے کفایت کرے گی اور قربانی و عقیقہ ہر دو شمار ہو جائے گا۔ البتہ اگر قربانی میں کسی کو شریک کیا جائے تو یہ قربانی عقیقہ سے کفایت نہیں کرے گی اور عقیقہ کرنے کا استحباب باقی رہے گا۔

۱۴۔ عقیقہ میں شراکت نہیں ہو سکتی اور عقیقہ میں حصہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ [1]سیستانی، سید علی حسینی، آفیشل ویب سائٹ۔

عقیقہ کی دُعا

احادیث میں عقیقہ کی درج ذیل دعا وارد ہوئی ہے: 

پہلی دعا:

شیخ کلینی  ~ نے الکافی میں امام جعفر صادق# سے روایت نقل کی ہے جس میں امام صادق# فرماتے ہیں کہ جب عقیقہ کرو تو یہ دعا پڑھو:

بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ اللَّهُمَ‏ عَقِيقَةٌ عَنْ فُلَانٍ (اس جگہ اس کا نام لیا جائے جس کا عقیقہ کیا جا رہا ہے)، لَحْمُهَا بِلَحْمِهِ، وَدَمُهَا بِدَمِهِ، وَعَظْمُهَا بِعَظْمِهِ، اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ وِقَاءً لآِلِ مُحَمَّدٍ .[2]الكلينى، محمد بن يعقوب، الكافی، ج ۱۱، ص ۳۹۹۔

دوسری دعا: 

شیخ کلینی ~  نے الکافی میں امام جعفر صادق# سے روایت نقل کی ہے جس میں امام صادق# فرماتے ہیں کہ جب عقیقہ كو ذبح كرو تو یہ دعا پڑھو:

{ يا قَوْمِ‏ إِنِّي بَرِي‏ءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفاً مُسْلِماً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ‏، إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي‏ وَمَحْيايَ وَمَماتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ لا شَرِيكَ لَهُ وَبِذلِكَ أُمِرْتُ‏ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ}، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَتَقَبَّلْ مِنْ فُلَانِ بْنِ فُلَان.[3]كلينى، محمد بن يعقوب، الكافی، ج ۱۱، ص۴۰۱۔

(جس بچے کا عقیقہ کیا جا رہا ہے اس جگہ اس کا نام لیا جائے۔  یہ دعا پڑھنے کے بعد جانور کو ذبح کر دیا جائے)
Views: 674

پڑھنا جاری رکھیں

اگلا مقالہ: علم فقہ میں مثل اور مثلی