loading

لفظ ولی اور مولی کے قرآنی معنی

تحریر: سید محمد حسن رضوی

ولی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اصلی حروف ’’و-ل- م‘‘ ہیں۔ عربی لغات میں اس کلمہ کے متعدد معانی بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے اہم معانی درج ذیل ہیں: 

۱)   قُرب ، قريب ہونا: اس معنی کو اصلی و حقیقی معنی قرار دیا گیا ہے۔
۲) ناصر و مددگار 
۳) دو يا دو سے زائد چيزوں كے درميان كچھ حاصل ہونا
۴)  صاحب التحقيق بيان كرتے ہيں کہ دو چيزوں كے درميان رابطہ قائم ہوتے ہوئے ايك شىء کا دوسرى شىء كے پیچھے واقع ہونا ۔

صحیح بخاری  میں مولی بمعنی اولی بالتصرف

اہل سنت کے معروف محدث محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ۲۵۶ ھ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے مولی کے معنی اولی بکم ذکر کیے ہیں۔ چنانچہ وہ اہل سنت حضرات جو یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ مولی بمعنی اولی عربی لغت میں وارد نہیں ہوا درست نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں وارد ہوا ہے:

{ {مَوْلاَكُمْ} [آل عمران: 150]: «أَوْلَى بِكُمْ» }
مولاکم (آل عمران: ۱۵۰) یعنی تمہارے اوپر جو اولویت رکھتا ہے۔ [1]http://lib.efatwa.ir/42174/6/146/أَوْلَى بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری،ج ۶، ص ۱۴۶،  کتاب : ۶۵، تفسیر القرآن، سورہ حدید

شیخ مفید کی نظر میں مولی کے معنی

شیخ مفید~ نے اہل لغت کے ایک مبنی کو اختیار کرتے ہوئے یہ نظریہ اختیار کیا ہے کہ عربی کے ایک کلمہ کا جو مصدری معنی ہے وہ اس کلمہ کے تمام مشتقات میں باقی رہتا ہے۔ اس طور پر اگر ہم کلمہِ مولی یا ولی کو ملاحظہ کریں تو اس کے اصلی حروف ’’و-ل-ی‘‘ کا ایک اصلی معنی اولی بالتصرف ہے۔ اس کے بعد شیخ مفید~ نے  ’’مولی‘‘ کے دس مزید معانی ذکر کیے ہیں اور اپنے اس نظریہ یعنی مولی بمعنی اولی پر قرآن کریم، احادیث مبارک ، عربی اشعار، عربی لغت اور عربی نثر سے مختلف دلائل پیش کیے ہیں اور اس بات کو ثابت کیا کہ مولی کا معنی اولی بالتصرف ہے۔ نیزدوسری اور تیسری صدی ہجری کے اہل سنت محدثین نے بھی مولی بمعنی اولی کی تصریح کی ہے جیساکہ اوپر صحیح بخاری سے مجاہد کا قول نقل کیا گیا ہے۔ اولی بالتصرف کے علاوہ مولی کے دیگر معانی بھی وارد ہوئے ہیں جن کے بارے میں شیخ مفید ~ نے یہ تحریر کیا ہے کہ ان سب معانی میں دقت کریں تو اولی بالتصرف کا معنی آپ کو نظر آئے گا۔ وہ معانی درج ذیل ہیں:
🔹 غلام
🔹 مالك
🔹صاحب
🔹 چچا زاد
🔹 مدد گار
🔹 پڑوسى[2]معجم مقاييس اللغۃ ، ج ۱۳ ، ص ۲۰۲ ، مادة : ولى 

شیخ مفید~ نے قرآن کریم سے مولی بمعنی اولی کے لیے جو دلیل پیش کی ہے وہ سورہ حدید آیت ۱۵ کو پیش کیا ہے:

{فَالْيَوْمَ لا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَةٌ وَلا مِنَ الَّذينَ كَفَرُوا مَأْواكُمُ النَّارُ هِيَ مَوْلاكُمْ وَبِئْسَ الْمَصير} [3]سورہ حدید: ۱۵، اس آیت کو ذکر کرنے کے بعد شیخ مفید~لکھتے ہیں کہ اللہ جل اسمہ کی مراد ’’مولاکم‘‘ سے اولی بکم ہے جیساکہ تفسیر میں آیا ہے اور محققینِ اہل لغت نے ذکر کیا ہے۔[4]شیخ مفید، محمد بن نعمان، اقسام المولی فی اللسان، ص ۲۸، ناشر: المؤتمر العالی لاألفیۃ الشیخ المفید، ۱۴۱۳ ھ

 ولايت كی اقسام :

لفظِ ولايت بھى ’’ ولى ‘‘ سے مشتق ہے جس ميں قريب ہونے اور نزديكى كے معنى پائے جاتے ہيں ۔ ولايت كے مختلف معنى كا علم روايت اور اس كے سياق سے ہو گا ۔ كيونكہ روايات ميں ولايت كے درج ذيل معانى امام على #كے ليے استعمال ہوئے ہيں :

۱) ولايت بمعنى خلافت:

ولايت سے مراد يہ ہے كہ امام على# نبى اكرم كے بعد تمام عالم اسلام كے خليفہ برحق اور اللہ كى طرف سے معين كردہ امام و حاكم و سیاستدان ہيں ۔ ولايت كے اسى معنى پر مشتمل معروف روايت ہے جسے ’’ حديث غدير ‘‘ كے عنوان سے موسوم كيا جاتا ہے ۔ ولايت كے اس معنى كے مطابق امام على# تمام دنيا كے وہ حاكم ہيں جسے اللہ تعالى نے حقِ حكومت ديا اور يہ حق ديا كہ وہ لوگوں پر حكومت كريں اور اللہ تعالى كے قوانين كو دنيا پر نافذ كريں ۔ ولایت کا یہ پہلو اسلام کا سیاسی نظام اور سیاسی تدابیر سے مربوط ہے۔ معاشروں کے اوپر اللہ تعالی نے حکمران بنا کر بھیجا ہے نہ کہ انتخاب کا حق دیا ہے ۔ البتہ اس الہی حکمران کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ضرور دیا ہے۔ یہی وہ ولایت ہے جس میں آئمہ اطہار& کی نیابت ممکن ہے جیسے جناب مالک اشتر >نے مصر میں ، جناب عثمان بن حنیف >نے بصرہ میں نیابت میں ولایت کے منصب کو سنبھالا۔ عصر حاضر میں امام زمان# کی ولایت کی نیابت میں سیاست و حکومت کو با شرائط با بصیرت فقیہ نامدار کا سنبھالنا ولایت فقیہ کہلاتا ہے۔ ولایت فقیہ میں ولایت سے مراد یہی ولایت یعنی اسلام کا سیاسی نظام مراد ہے اور فقیہ سے مراد با شرائط مجتہد مرا د ہے۔

۲) ولايت سے مراد علم و قدرت :

جس طرح سورج كى ايك كرن يا شعاع اس كے جتنے نزديك ہو گى اتنا اس شعاع ميں حرارت كى شدت اور نور و روشنى ہو گى ۔ اسى مثال سے ہم قربِ الہى كے فلسفے كو سمجھ سكتے ہيں ۔ كوئى بھى ذات اللہ تعالى كے جتنا قريب ہوتى جائے گى اتنا ہى اس ذات كے نور ، علم و قدرت ميں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ يہى وجہ ہے كہ انبياء و رسل اور آئمہ & معجزہ اور كرامات كى قدرت ركھتے ہيں ، جيسے رسول اللہ  كا انگلى كے ايك اشارہ سے چاند كو دو ٹكڑے كر دينا ۔   رسول اللہ كے معجزات و کرامات آنحضرت کے بے پناہ علم و قدرت كو بيان كرتا ہے جو اللہ تعالى كے قريب ہونے كى وجہ سے اللہ تعالى نے انہيں عطا فرمايا ہے ۔ اسى طرح امام على#كو اللہ تعالى نے اپنے قريب تر ہونے كى بناء پر خصوصى علم و قدرت كا حامل قرار ديا ہے ۔ اس كو ولايتِ تكوينى سے تعبير كيا جاتا ہے  جس میں نہ نیابت ممکن ہے اور نہ یہ منصب کے طور پر قابل تفویض ہے بلکہ یہ اللہ تعالی کی عنایات ہیں جو اس کے خاص اور چنے ہوئے بندوں پر جاری ہوتی ہیں۔ ولایت فقیہ سے ہر گز اس نوع کی ولایت مراد نہیں ہے۔ 

۳) ولى بمعنى دوست و محب :

متعدد روايات ميں نبى اكرم نے امام على #سے محبت اور دوستى ركھنے كا حكم ديا ہے ۔ اس معنى ميں ولايت سے مراد امام على #سے اظہار عشق و محبت كرنا اور ان كے دشمنوں سے نفرت كرنا ہے ۔ اس معنى ميں رسول اللہ نے بھى امام على# سے ولايت قائم كى اور ان امام # كے دشمنوں سے اظہارِ براءت كيا اور ان كے محبوں سے محبت كا اظہار فرمايا ۔ نیز امام على # نے بھى محبت و عشق رسول ميں اس معنى ميں ولایت كا عملى مظاہرہ كيا ۔ امام على # سے بڑھ كر كوئى محبِ رسول نہيں ہے ۔

🔻 اسى معنى ميں ہم لفظِ ’’ تولّا اور تبرّا ‘‘ استعمال كرتے ہيں ۔ تولّا یعنی امام على #سے محبت و عشق كا اظہار كرنا اور تبرّا  یعنی امام # كے دشمنوں سے اظہارِ براءت كرنا ۔ جو شخص بھى امام على # سے محبت كا دعوى كرے اسے ’’ موالى ‘‘ كہتے ہيں ۔ شیعہ اور موالى ميں يہى فرق ہے كہ شیعہ اظہارِ محبت كے ساتھ ساتھ كاملا اطاعتِ امام # بھى كرتا ہے جبكہ موالى صرف محبت كا اظہار كرتا ہے ۔

منابع:

منابع:
1 http://lib.efatwa.ir/42174/6/146/أَوْلَى بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری،ج ۶، ص ۱۴۶،  کتاب : ۶۵، تفسیر القرآن، سورہ حدید
2 معجم مقاييس اللغۃ ، ج ۱۳ ، ص ۲۰۲ ، مادة : ولى
3 سورہ حدید: ۱۵
4 شیخ مفید، محمد بن نعمان، اقسام المولی فی اللسان، ص ۲۸، ناشر: المؤتمر العالی لاألفیۃ الشیخ المفید، ۱۴۱۳ ھ
Views: 12

پڑھنا جاری رکھیں

اگلا مقالہ: فطرت قرآن و روایات کی روشنی میں