loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۵۴}

ولایت فقیہ کلامی و فقہی بحث ہونا

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ولایت فقیہ دین کے اہم ترین امور میں سے ہے۔ دین دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ اصول اور فروع۔ اصول کی ابحاث کو علم کلام میں اور فروع کی ابحاث کو علم فقہ میں پڑھا جاتا ہے۔اصول  دین میں تقلید نہیں ہوتی اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ علم کلام  سے مربوط مسائل عقل و نقل سے سمجھنا خود انسان پر ضروری ہیں۔ جبکہ فقہی امور میں بعض جزئیات جن کا سمجھنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے، ان میں تقلید کی جا تی ہے۔ولایت فقیہ کلامی بحث ہے یا فقہی بحث؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ولایت فقیہ اصل میں کلامی بحث ہے۔ لیکن مختلف جہات سے ولایت فقیہ کے موضوع کو فقہ میں بھی بحث کیا جاتا ہے۔

کلامی یا فقہی بحث ہونے میں فرق

بعض افراد نے یہ شبہہ ایجاد کیا کہ ولایت فقیہ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن یہ ایک فقہی مسئلہ ہے اور مکلف کو چاہیے کہ اس مسئلے میں اپنے مرجع تقلید کی طرف رجوع کرے۔ جو فقیہ کہے گا بس اسی پر عمل کرے۔ یہ اشتباہ ہے۔ اصل میں ولایت فقیہ کلام کی بحث ہے۔ اور کلام میں جو امر عقلی دلیل سے ثابت ہو جاتا ہے وہ قابل تقلید نہیں رہتا بلکہ خود دلیل حجت بن جاتی ہے۔ پس اگر ثابت ہو جاۓ کہ ولایت فقیہ کلامی مسئلہ ہے تو اس میں ہم کسی مجتہد کی طرف رجوع نہیں کر سکتے۔ اس کے بر عکس اگر فقہی مسئلہ ہے تو ہر مکلف اپنے مرجع تقلید کی طرف رجوع کرے گا اور اس سے پوچھے گا کہ اس کا وظیفہ ولایت فقیہ کے متعلق کیا بنتا ہے؟ یہاں پر ہمارے لیے پہلے یہ معیار واضح کرنا ضروری ہے کہ کلامی بحث کہتے کسے ہیں؟ کلامی بحث اور فقہی بحث ہونے کا معیار کیا ہے؟ اگر کلامی بحث ہے تو کس طرح سے؟ اور اگر فقہ میں بھی ولایت فقیہ کو بحث کیا گیا ہے تو وہ کس جہت سے بحث کیا گیا ہے؟

علوم کی تقسیم

یہ امر واضح کر دیا جانا ضرویری ہے کہ قرآن کریم یا روایات میں ایسی کوئی تقسیم موجود نہیں ہے کہ دین کی کونسی بات فقہ سے مربوط ہے اور کونسی بات کلام سے۔ علوم کی شعبہ جات کی جہت سے تقسیم بعد کے ادوار میں ہوئی۔ ایک شعبہ دین کا تفسیر کہلایا، ایک حدیث، عقائد، فقہ، رجال وغیرہ کہلایا۔ یہاں پر ایک بہت ہی اہم سوال ابھرتا ہے۔ علوم کس اساس پر ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ علم کلام اور علم فقہ میں کیا فرق ہے؟ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ فلاں موضوع علم کلام کا ہے یا علم فقہ کا؟ اس کے جواب میں مختلف نظریات ہیں۔ بعض نے بیان کیا کہ کسی علم کی بحث کرنے کی روش اس کو دوسرے علوم سے جدا کرتی ہے۔ دیگر نے کہا کہ علم کی غرض و غایت سے اسے دوسرے علوم سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ موضوع سے علوم ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ مصنف کا نظریہ بھی یہی ہے کہ موضوع کی اساس پر ایک علم دوسرے علوم سے جدا ہوتا ہے۔ صاحب کفایہ کا نظریہ ہے کہ علوم کے اغراض و مقاصد انہیں ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں۔ امام خمینیؒ نے اس نظریہ پر نقد کیا اور فرمایا کہ کسی علم کا ہدف تب سامنے آتا ہے جب اس علم کے قضایا اور مسائل ہمارے سامنے ہوں۔ مسائل کی سنخ کی وجہ سے علوم ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ علم کے مسائل، موضوع اور محمول سے مرکب ہوتے ہیں۔ مسائلِ علم وجود میں آئیں تو تب ہدف کا بھی پتہ چلتا ہے۔ پس علوم ایک دوسرے سے ہدف کی وجہ سے نہیں بلکہ مسائل کی وجہ سے جدا ہوتے ہیں۔ امام خمینیؒ کے نظریہ پر نقد کرتے ہوۓ اور درحقیقت اسی نظریہ کو مزید ترقی دیتے ہوۓ صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائیؒ نے فرمایا کہ ایک علم کا مسئلہ بھی تب سامنے آتا ہے جب موضوع اور محمول ہوں۔ موضوع ہوگا تو تب محمول بھی ثابت ہوگا۔ پس مسئلے یاقضیے سے پہلے موضوع ہوتا ہے۔ موضوع، محمول اور ان کے درمیان نسبت کے آ جانے کے بعد مسئلہ ایجاد ہوتا ہے۔ اس لیے علوم ایک دوسرے سے مسائل کی وجہ سے نہیں بلکہ موضوعات کی بنا پر جدا ہوتے ہیں۔

ایک غلط نظریہ اور اس کا جواب

بعض نے کہا ہے کہ علوم کو جدا کرنے کا معیار دلیل کی نوعیت پر منحصر ہے۔ ان کے بقول اگر بحث کے اوپر بیان کی جانے والی دلیلیں عقلی ہیں تو وہ کلامی بحث ہوگی اور اگر نقلی دلیلیں دی جا رہی ہیں تو وہ فقہی بحث ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ بہت سے فقہی مسائل ایسے ہیں جن کی دلیل عقلی ہے۔ اور بہت سے کلامی مسائل ایسے موجود ہیں جن کی دلیل صرف نقل ہے۔ جیسا کہ قبر و حشر و میزان کے مسائل ہیں۔ یہ سب ابحاث علم کلام میں پڑھی جاتی ہیں۔ ان مسائل کو عقل درک نہیں کر سکتی اور نا ان پر عقلی دلیل دی جاتی ہے۔ بلکہ یہ سب امور نقل سے ثابت ہیں۔  لیکن یہ سب کلام کے موضوعات ہیں۔اسی طرح سے بہت سی فقہی ابحاث ہیں جن پر نقلی دلیل تو موجود نہیں ہے بلکہ خالصتا عقلی دلیل پر کھڑی ہیں۔ جیسا کہ شہید باقر الصدرؒ کا حق الطاعہ کا نظریہ ہے۔ حسن و قبح کا نظریہ، مقدمہ اور ذی المقدمہ کا نظریہ بھی عقلی اساس پر کھڑا ہے۔

علم کلام اور علم فقہ میں فرق

ہر وہ بحث جو اللہ تعالی کی ذات، صفات اور افعال سے مربوط ہو وہ علم کلام کا مسئلہ قرار پاۓ گی۔ اور ہر وہ بحث جو فعل مکلف سے مربوط ہو وہ علم فقہ سے مربوط ہوگی۔ یعنی فعل الہی کی بحث علم کلام کا موضوع ہے اور فعل مکلف کی بحث علم فقہ کا موضوع ہے۔مثلا فقہ میں آپ طہارت، نماز، روزہ پڑھتے ہیں یہ سب موضوعات مکلف کی انجام دہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ نماز پڑھنا واجب ہے، روزہ ترک کرنا حرام ہے وغیرہ۔ فقہ میں ہر مسئلہ اس نکتے کے گرد گھومتا ہے کہ مکلف نے فلاں کام کرنا ہے یا نہیں کرنا۔ جبکہ علم کلام میں موضوعات اللہ تعالی کی ذات، اس کی صفات اور افعال سے مروبط ہوتے ہیں۔نبوت، امامت، وحی، یہ سب مسائل کلام سے مربوط ہیں۔ حجت الہی بنانا، اس کی اطاعت کرنا، شریعت اتارنا اس کی حفاظت کرنے والا مقرر کرنا، یہ سب اللہ تعالی کے افعال ہیں۔ ولایت فقیہ در اصل فعل الہی سے تعلق رکھتی ہے اس لیے کلامی بحث ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں چند مقدمات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ زمین خدا کی ہے۔ اس پر سب مخلوقات بھی خدا کی ہیں۔ گزشتہ اقساط میں ہم نے قرآن کریم کی آیات اور عقلی ادلہ سے ثابت کیا کہ مخلوق پر حکومت بھی اللہ کی ہے۔ کائنات پر حاکم قوانین بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہیں۔ شریعت بھی الہی ہے اور اس کو نافذ کرنے والا شخص بھی اللہ تعالی کی طرف سے منصوب ہے۔ قرآن کریم کی آیت کے مطابق ایک چھوٹا سا ذرہ بھی اللہ کی ذات سے پوشیدہ نہیں ہے۔[1] زلزال: ۷۔ ان سب عقیدوں پر ایمان رکھنے کے بعدجب ہم زمانہ غیبت میں پہنچتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالی نے معاشروں کی حاکمیت کس کے ذمہ لگائی ہے؟ جب تک انبیاء کرام اور آئمہ معصومینؑ تھے تو ان ادوار میں تو شریعت کو بتانے والے، اور نافذ کرنے والے وہ خود تھے۔ اگر ان ادوار میں شریعت، دین، قوانین اور الہی حکمرانوں کی ضرورت تھی تو آج بھی تو ضرورت ہے۔ بلکہ آج کے جدید دور میں تو الہی حاکم کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ تو کون ہے آج کے دور میں جو معاشروں کی الہی طرز پر مدیریت کرے؟ کیا اللہ تعالی کو پتہ تھا یا نہیں کہ زمانہ غیبت ہوگا؟ اگر پتہ نہیں تھا تو خود اللہ تعالی کی ذات پر حرف آتا ہے۔ لیکن اگر پتہ تھا کہ زمانہ غیبت آۓ گا تو پھر آج کے دور میں کیا کریں؟

دین کی تعطیلی کا نظریہ

زمانہ غیبت میں اگر اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کوئی حاکم موجود نہیں ہے تو پھر دین کی تعطیل لازم آۓ گی۔ اللہ تعالی نے دین، شریعت اور انبیاء و آئمہ اس لیے بھیجے تھے کہ لوگ ان کے مطابق الہی راستوں پر چلیں۔ یہ ضرورت اگر آئمہ اور انبیاء کے دور میں موجود تھی تو کیا یہ ضرورت آج غیبت کے دور میں ختم ہو گئی؟ دین کے اترنے کا فلسفہ، عدل و انصاف کا قیام، یہ ساری ضروریات آج ختم ہو گئیں؟ کیا اللہ تعالی نے انسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے؟ یا اللہ تعالی نے کوئی تدبیر رکھی ہے؟ رہنمائی کا کونسا دستور آج کے دور کے لیے اتارا ہے؟ یا ہماری مرضی پر چھوڑ دیا ہے کہ جو کریں اور جو نا کریں۔ اگر پہلے کے ادوار میں دستور تھا تو آج کے لیے کیوں نہیں؟ اور اگر دستور رکھا ہے تو وہ کیا ہے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالی نے زمانہ غیبت کے لیے کوئی دستور بیان نہ کیا ہو۔ اس لیے الہی دستور موجود ہے۔ اور اگر موجود ہے تو یہ فعل الہی ہے۔ اور فعل الہی ہمیشہ علم کلام کا مسئلہ ہوگا۔ اللہ تعالی نے زمانہ غیبت میں امت کے لیے ولایت فقیہ کا دستور رکھا ہے۔زمانہ غیبت میں اللہ تعالی کی جانب سے جامع الشرائط فقیہ کا معاشروں پر حاکمیت کے لیے منصوب ہونا یا نہ  ہونا فعل الہی ہے۔ جس دلیل سے ہم ثابت کریں گے کہ اللہ تعالی نے زمانہ غیبت میں فقیہ کو ولایت دی ہے  یہ دلیل کلامی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالی کے فعل کو ہم ثابت کر رہے ہیں۔ ابھی بحث یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے ولی فقیہ کو زمانہ غیبت میں معاشروں پر حاکمیت کا حق دیا ہے یا نہیں؟ ہر دو صورت میں چونکہ یہ بحث فعل الہی سے مربوط ہو جاتی ہے اس لیے اصالتا کلامی بحث ہے۔جس طرح سے نبیﷺ نے اپنے بعد اللہ تعالی کے حکم سے دستور بیان کیا۔ امیرالمومنینؑ کی ولایت اللہ تعالی کی طرف سے حکم کے بعد اعلان ہوئی۔ وہ بھی دستور الہی تھا۔ اللہ تعالی کے رسولﷺ امت کو تنہا ان کے اپنے حال پر نہیں چھوڑ کر گئے۔ اسی طرح سے بارہویں امام بھی جب پردہ غیبت میں جانے لگے شیعوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ کر نہیں گئے۔ بلکہ نائب چھوڑ کر گئے۔ اور ہمارا عقیدہ ہے کہ امام کا فعل در اصل اس کا اپنا فعل نہیں ہوتا بلکہ اس کا فعل اللہ تعالی کی اتباع میں ہوتا ہے۔ امام نے امت کے لیے دستور بیان فرمایا۔ نیابت کا نظام متعارف کروایا۔ یہاں سے ولایت فقیہ ایک کلامی مسئلہ بن جاتا ہے۔

ولایت فقیہ کی فقہی بحث

زمانہ غیبت میں ولی فقیہ کے تعین کی شرائط کیا ہیں؟ یہ بحث فعل مکلف سے تعلق رکھتی ہے اور فقہی بحث ہے۔ ولی فقیہ کی لوگوں پر اطاعت کرنا واجب ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ بھی فقہی ہے۔ ولی فقیہ کے کیا وظائف ہیں اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ یہ بحث بھی فقہ سے متعلق ہے۔ با الفاظ دیگر ایک ولی فقیہ کا وظیفہ ہے اور ایک امت کا وظیفہ ہے۔ یہ دونوں بحثیں فقہ سے مربوط ہیں۔ ولایت فقیہ کے عنوان سے جب حکم آتا ہے تو وہاں اطاعت ہے، اگر فتوی ہے تو وہاں تکلیف ہے۔ تکلیف اور اطاعت میں فرق کرنا ضروری ہے۔ اگر حکم ہے تو دوسرے فتاوی کی طرف رجوع کرنا درست نہیں ہے۔ ولایت فقیہ کے ساتھ اطاعت کا مورد ہے۔ ہمارے اکثر فقہاء کرام نے ولایت فقیہ کا فقہی جائزہ لیا ہے۔ جب ایک بحث کا فقہی جائزہ لیں تو اس کے نتائج بھی فقہی نکلتے ہیں۔ لیکن اگر اس بحث کا کلامی جائزہ لیں تو اس کے نتائج نظریاتی نکلتے ہیں۔ امام خمینیؒ، شہید باقرالصدرؒ، شہید مطہریؒ، رہبر معظم امام خامنہ ای اور مصنف نے اس کا علم کلام میں جائزہ لیا۔ جب طلاب کرام عموما ولایت فقیہ پر بحث کرتے ہیں تو اس کو فقہی تناظر میں مدنظر قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اشتباہات کا شکار ہوتے ہیں۔

دینی نصاب میں ولایت

طلاب دینی جو مدارس میں تعلیمی نصاب پڑھتے ہیں اس میں صرف دو جگہوں پر ذیلی ابحاث میں ولایت فقیہ کا ذکر آتا ہے۔ کتاب البیع میں نابالغ بچے کی خرید و فروخت کی بحث میں ولی کا ذکر ہوتا ہے۔ اور قضاوت کے باب میں مقبولہ عمر بن حنظلہ کی روایت میں بحث کی جاتی ہے۔ اگر کسی عالم دین نے صرف یہی حصہ پڑھا ہے اور ولایت فقیہ پر حملہ کرتا ہے یہ قطعا درست روش نہیں ہے۔ ۲۰۰ سال پرانی کتاب کی ابحاث کے ذیل میں آپ ایک بحث کو پڑھیں اور اس بحث پر لکھی جانے والی جدید کتابوں کا مطالعہ کیے بغیر رد کر دریں یقینا یہ علمی روش نہیں ہے۔ جبکہ آج کے دور میں یہ موضوع کئی جوانب سے علمی حلقوں میں بحث ہو رہا ہے۔ اس موضوع پر کئی جوانب سے قلم اٹھایا گیا ہے۔ جو شخص اس موضوع کی جامعیت کا حق ادا کرے اور دقیق طور پر تمام جوانب سے اس کا مطالعہ کرے وہ ایک علمی تبصرہ کر سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے جامعیت سے مطالعہ نہیں کیا تو اس سے بحث کرنا ہی نہیں بنتا۔ ہم ولایت فقیہ کو علم کلام کے ذیل میں مطالعہ کر رہے ہیں، جب ولایت فقیہ علم کلام میں ثابت ہو جاتی ہے تو تب وظائف کی دنیا آتی ہے اور فقہ میں اس کا دروازہ کھلتا ہے۔ علم کلام میں ولایت فقیہ ثابت ہوجانے کے بعد یہ بحث بنتی ہے کہ ولی فقیہ کے وظائف کیا ہیں؟ اور امت کی ذمہ داری کیا ہے؟ ان دونوں موضوعات کو جدا کرنا ضروری ہے۔ خود ولایت فقیہ کے موضوع کا ثابت ہونا یا رد ہونا علم کلام کا مسئلہ ہے۔ جب ثابت ہو جاۓ کہ ولایت فقیہ موجود ہے تو اب علم فقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بتاۓ ولی فقیہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور امت پر ولی فقیہ کی اطاعت ضروری ہے یا نہیں؟

ایک موضوع کا کلامی اور فقہی ہونا

ممکن ہے کہ ایک موضوع ایک ہی وقت میں کلامی بھی ہو اور فقہی بھی ہو۔ جہت مختلف ہو جانے سے اس کا علمی شعبہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر عدل ہے۔ عدل کا ایک معنی ہے اگر کوئی عدل نہ کرے تو وہ ظالم ہے۔ جہاں پر بھی عدل نہ ہو وہاں ظلم ہے درمیانی صورت نہیں ہے۔ عدل کی نسبت اگر اللہ تعالی کی طرف ہو تو یہ کلامی بحث ہو جاۓ گی۔ لیکن عدل کی نسبت انسان کی طرف بھی دے سکتے ہیں۔ اس صورت میں یہ فقہی بحث ہوگی۔ عدل الہی اور عدل انسانی میں فرق ہے۔  انسان پر عدل کرنا ضروری ہے۔ پس یہاں پر یہ فعل انسان بن جاتا ہے۔ اگر کوئی عدل نہیں کرتا وہ حرام کام انجام دیتا ہے اس صورت میں بھی یہ فقہی بحث ہے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی پر عدل کرنا واجب ہے۔ اس کا مطلب اور ہے۔ اور جب کہا جاتا ہے کہ انسان پر عدل کرنا واجب ہے اس کا مطلب کچھ اور ہے۔ یہاں پر بعض نے اعتراض کیا کہ ہم کون ہوتے ہیں کہ اللہ تعالی پر کوئی چیز واجب قرار دیں؟ جبکہ انہوں نے سمجھا نہیں ہے۔ علم کلام میں واجب کا مطلب کچھ اور ہے اور علم فقہ میں واجب کا معنی کچھ اور ہے۔ فقہ میں واجب کا مطلب یہ ہے کہ ایک مولا نے کسی امر کو اپنے عبد پر ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن اللہ تعالی کے لیے جب لفظ واجب بولا جاتا ہے اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ یہ وہ امر ہے جو خدا کی ذات سے جدا نہیں ہو سکتا۔ علمی اصطلاح میں اگر موضوع سے محمول جدا نہ ہو سکتا ہو تو اسے قضیہ ضروریہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالی پر عدل کرنا واجب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے عدل جدا نہیں ہو سکتا وہ ہمیشہ عدل کرتا ہے۔ علم فقہ میں وجوب کے مقابلے میں حرمت ہے۔ اور علم کلام میں وجوب کے مقابلے میں امتناع ہے۔
نتیجہ ہمارے سامنے اس طور پر آتا ہے کہ ولایت فقیہ کلامی مسئلہ ہے۔ زمانہ غیبت میں اللہ تعالی نے انبیاء اور آئمہ کی نیابت میں فقہاء کو معاشروں پر حکمرانی کا حق دیا ہے یا نہیں؟ یہ بحث فعل اللہ ہے۔ پس کلامی بحث ہے۔[2] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۱تا۱۴۴۔

منابع:

منابع:
1 زلزال: ۷۔
2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۱تا۱۴۴۔
Views: 15

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت فقیہ میں فقیہ سے مراد
اگلا مقالہ: ولایت و امامت اہل تصوف کی نظر میں