loading
{علم المنطق}
قیاس اقترانی حملی اور چار اشکال

تحریر: سید محمد حسن رضوی

منطق میں قیاس اقترانی کی دو قسمیں جاتی ہیں جن میں سے پہلی اقترانی حملی  اور دوسری اقترانی شرطی کہلاتی ہے۔ اہل منطق نے قیاس اقترانی حملی کی چار اَشکال بیان کی ہیں جن میں سے پہلی شکل بدیہی اور واضح ہے جس میں حد اوسط نتیجہ میں اصغر کے اکبر کے ساتھ تعلق و ربط پر دلالت کرتی ہے۔ بقیہ تین اشکال چونکہ طبع سے دُور ہیں اس لیے ان کے اثبات کے لیے برہان کا سہارا لیا جاتا ہے۔ذیل میں قیاس اقترانی حملی کی پہلے عمومی شرائط کو بیان کیا جاتا ہے جس کے بعد ہم ہر شکل میں جاری ہونے والی خاص شرط کو ملاحظہ کریں گے۔

قیاس اقترانی حملی کی عمومی شرائط:

قیاسِ اقترانی کی پانچ عمومی شرائط بیان کی گئی ہیں:

۱۔ حد اوسط کا تکرار، ضروری ہے کہ حد اوسط صغری اور کبریٰ میں بغیر کسی فرق کے تکرار ہو۔

۲۔ دو مقدموں میں سے ایک کا موجبہ ہونا۔ دو سالبہ سے نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ دونوں سالبہ ہو تو حدِ وسط نتیجہ میں اصغر اور اکبر کے درمیان ربط اور تعلق ایجاد نہیں ہو پائے گا۔
۳۔دو مقدموں میں سے ایک کلی ہو، اگر دونوں مقدمے جزئی ہوں تو حدِ وسط نتیجہ میں اصغر اور اکبر کے درمیان تعلق اور ربط کو ایجاد نہیں کر پائے گا کیونکہ جزئی کی دلالت فی الجملہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ معلوم نہیں ہو پائے گا کہ اس مورد میں اکبر اصغر کے لیے ثابت ہے یا ثابت نہیں ہے۔

۴۔ نتیجہ کا دونوں میں مقدموں میں اَخس کے تابع ہونا، اگر قیاس میں ایک سالبہ اور موجبہ ہو تو نتیجہ سالبہ کے مطابق نکلے گا۔ اسی طرح اگر قیاس میں ایک کلی اور ایک جزئی ہو تو نتیجہ جزئی کے مطابق نکلے گاکیونکہ سالبہ اور جزئی اخس المقدمتین ہیں۔

۵۔ سالبہ صغریٰ اور کبریٰ جزئیہ سے کبھی نتیجہ نہیں نکلتا ہے۔[1]مظفر، محمد رضا، المنطق، ص ۲۴۶۔

شکل اول میں جاری خاص دوشرطیں:

شکل اول سے مراد قیاس کے مقدمات کا اس طرح سے ہونا ہے کہ ’’حدِ اوسط‘‘ صغریٰ میں محمول اور کبریٰ میں موضوع بن رہا ہواور نتیجہ میں ’’اصغر‘‘ صغریٰ کا موضوع اور ’’اکبر‘‘ کبریٰ کا محمول قرار پائے گا۔ اہل منطق نے شکل اول میں جاری ہونے والی عمومی شرائط کے علاوہ درج ذیل دو خصوصی شرائط عائد کی ہیں:

۱۔ صغری موجبہ ہو۔

۲۔ کبریٰ کلی ہو۔ [2]مظفر، محمد رضا، المنطق، ص ۲۴۸۔

:

صغرى: ليس بعض الحيوان بإنسان.

كبرى: كل ناطق إنسان.

نتيجة: فليس بعض الحيوان بناطق.

Views: 8

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: دشمن اسلام معاویہ بن مغیرہ
اگلا مقالہ: حضرت عثمان بن عفان نہج البلاغہ کے آئینے میں