loading
{شرح تفسير الميزان}
آیت مباہلہ کی تفسیر
درس: شرح تفسير الميزان
استاد: رضا عابدينی
تحریر: سید محمد حسن رضوی
قرآن کریم میں آیت مباہلہ سورہ آل عمران آیت ۶۱ ہے:
{فَمَنْ حَاجَّكَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ‏ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبين‏؛  }. [1]آل عمران: ۶۱۔مباہلہ کے آداب اور طریقے روایات میں بیان کیے گئے ہیں کہ تین دن روزہ رکھو اور غسل کرو اور کھلے آسمان تلے بیابان میں مباہلہ کرو۔ الکافی میں ایک روایت وارد آئی ہے جس میں امامؑ سے پوچھا گیا کہ ہم جو دلیل لاتے ہیں وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر رد کر دیتے ہیں اس وقت امامؑ نے فرمایا کہ تم مباہلہ کرو۔ امام جعفر صادق ؑ سے روایت منقول ہے: 
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي مَسْرُوقٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قُلْتُ إِنَّا نُكَلِّمُ النَّاسَ فَنَحْتَجُّ عَلَيْهِمْ بِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ:{أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ‏؛   [2]نساء:۵۹۔  فَيَقُولُونَ نَزَلَتْ فِي أُمَرَاءِ السَّرَايَا فَنَحْتَجُّ عَلَيْهِمْ بِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: { إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ؛  [3]مائدۃ: ۵۵۔ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَيَقُولُونَ: نَزَلَتْ فِي الْمُؤْمِنِينَ، وَنَحْتَجُّ عَلَيْهِمْ بِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: { قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى؛  [4]شوری: ۲۳۔ فَيَقُولُونَ: نَزَلَتْ فِي قُرْبَى الْمُسْلِمِينَ، قَال:‏ فَلَمْ أَدَعْ شَيْئاً مِمَّا حَضَرَنِي ذِكْرُهُ مِنْ هَذِهِ وَشِبْهِهِ إِلَّا ذَكَرْتُهُ، فَقَالَ لِي: إِذَا كَانَ ذَلِكَ فَادْعُهُمْ إِلَى الْمُبَاهَلَةِ، قُلْتُ: وَكَيْفَ أَصْنَعُ ؟ قَالَ: أَصْلِحْ نَفْسَكَ ثَلَاثاً وَأَظُنُّهُ قَالَ: وَصُمْ وَاغْتَسِلْ وَابْرُزْ أَنْتَ وَهُوَ إِلَى الْجَبَّانِ فَشَبِّكْ أَصَابِعَكَ مِنْ يَدِكَ الْيُمْنَى فِي أَصَابِعِهِ، ثُمَّ أَنْصِفْهُ وَابْدَأْ بِنَفْسِكَ وَ قُلِ: اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْأَرَضِينَ السَّبْعِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الرَّحْمَنَ الرَّحِيمَ، إِنْ كَانَ أَبُو مَسْرُوقٍ جَحَدَ حَقّاً وَادَّعَى بَاطِلًا فَأَنْزِلْ عَلَيْهِ حُسْبَاناً مِنَ السَّمَاءِ أَوْ عَذَاباً أَلِيماً، ثُمَّ رُدَّ الدَّعْوَةَ عَلَيْهِ فَقُلْ: وَإِنْ كَانَ فُلَانٌ جَحَدَ حَقّاً وَادَّعَى بَاطِلًا فَأَنْزِلْ عَلَيْهِ حُسْبَاناً مِنَ السَّمَاءِ أَوْ عَذَاباً أَلِيماً، ثُمَّ قَالَ لِي: فَإِنَّكَ لَا تَلْبَثُ أَنْ تَرَى ذَلِكَ فِيهِ فَوَ اللَّهِ مَا وَجَدْتُ خَلْقاً يُجِيبُنِي إِلَيْه‏.[5]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۴، ص ۴۰۱۔
آیت مباہلہ میں  ’’ تَعالَوْا‘‘ عرب معاشرے میں احترام کے طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ذکر کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں اگر عالی اپنے سے کمتر کو بلائے تو ’’اَنْزِلْ‘‘ کہتا ہے اور اپنے برابر سمجھتے ہوئے یعنی مساوی کو بلائے تو ’’إِلَىَّ‘‘ کہتے ہیں اور اگر کمتر عالی کو بلائے تو ’’تعالوا‘‘ کہتے ہیں۔ عرب لفظِ تعالوا احترام کی وجہ سے استعمال کرتے ہیں۔ آیت کریمہ ’’ أَبْناءَنا ‘‘ سے مراد امام حسن ؑ اور امام حسینؑ ہے ۔یہاں ’’ أَبْناءَنا ‘‘ کو مقدم کرنے کی ایک وجہ احتمالی طور پر یہ  بیان کی جاتی ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی تھی اس لیے یہاں مقدم کیا گیا ہے، جیساکہ عرب معاشرے میں بیٹیوں کو دفنا دیا جاتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا نواسوں پر ابن یا ابناء کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ قرآن کریم کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہوئے آئمہؑ نے بیان کیا ہے کہ نواسوں پر ابناء کا اطلاق ہوتا ہے، شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضاؑ میں مامون کے ساتھ امام رضاؑ کا ایک مناظرہ ذکر کیا ہے جس میں مامون کے اعتراض پر امام رضا ؑ جواب دیتے ہیں:

أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ{  وَ مِنْ ذُرِّيَّتِهِ داوُدَ وَ سُلَيْمانَ وَ أَيُّوبَ وَ يُوسُفَ وَ مُوسى‏ وَ هارُونَ وَ كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ- وَ زَكَرِيَّا وَ يَحْيى‏ وَ عِيسى‏ وَ إِلْياسَ …‏ }. [6]انعام: ۸۴۔  مَنْ أَبُو عِيسَى يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ فَقَالَ: لَيْسَ لِعِيسَى أَبٌ، فَقُلْتُ: إِنَّمَا أَلْحَقْنَاهُ بِذَرَارِيِّ الْأَنْبِيَاءِ ^ مِنْ طَرِيقِ مَرْيَمَ ÷ وَكَذَلِكَ أُلْحِقْنَا بِذَرَارِيِّ النَّبِيِّ مِنْ قِبَلِ أُمِّنَا فَاطِمَةَ ÷، أَزِيدُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: هَاتِ، قُلْتُ: قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: { فَمَنْ حَاجَّكَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبين‏   }. [7]آل عمران: ۶۱۔ [8]صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، ج ۱، ص ۸۴۔

اسی طرح الکافی میں امام باقرؑ سے روایت وارد ہوئی ہے: 

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ظَرِيفٍ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قَالَ [لِي‏] أَبُو جَعْفَرٍ ×: يَا أَبَا الْجَارُودِ مَا يَقُولُونَ لَكُمْ فِي الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ؟ قُلْتُ: يُنْكِرُونَ عَلَيْنَا أَنَّهُمَا ابْنَا رَسُولِ اللَّهِ ’، قَالَ: فَأَيَّ شَيْ‏ءٍ احْتَجَجْتُمْ عَلَيْهِمْ ؟ قُلْتُ: احْتَجَجْنَا عَلَيْهِمْ بِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ×:{وَ مِنْ ذُرِّيَّتِهِ داوُدَ وَ سُلَيْمانَ وَ أَيُّوبَ وَ يُوسُفَ وَ مُوسى‏ وَ هارُونَ وَ كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ وَ زَكَرِيَّا وَ يَحْيى‏ وَ عِيسى‏؛  }[9]انعام: ۸۴-۸۴۔،  فَجَعَلَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ مِنْ ذُرِّيَّةِ نُوحٍ ×، قَالَ: فَأَيَّ شَيْ‏ءٍ قَالُوا لَكُمْ؟ قُلْتُ: قَالُوا قَدْ يَكُونُ وَلَدُ الِابْنَةِ مِنَ الْوَلَدِ وَلَا يَكُونُ مِنَ الصُّلْبِ، قَالَ: فَأَيَّ شَيْ‏ءٍ احْتَجَجْتُمْ عَلَيْهِمْ؟ قُلْتُ: احْتَجَجْنَا عَلَيْهِمْ بِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى لِرَسُولِهِ : { فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ   }. [10]آل عمران: ۶۱۔

اسی طرح شیخ مفید نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں امام علی× کی سب سے عظیم فضیلت  آیت مباہلہ میں ’’أَنْفُسَنا ‘‘ کو قرار دیا گیا ہے۔ شیخ مفید الفصول المختارۃ میں ذکر کرتے ہیں:

وَحَدَّثَنِي الشَّيْخُ أَدَامَ اللَّهُ عِزَّهُ أَيْضاً قَالَ: قَالَ الْمَأْمُونُ يَوْماً لِلرِّضَا × أَخْبِرْنِي بِأَكْبَرِ فَضِيلَةٍ لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ × يَدُلُّ عَلَيْهَا الْقُرْآنُ قَالَ فَقَالَ لَهُ الرِّضَا × فَضِيلَتُهُ فِي الْمُبَاهَلَةِ قَالَ اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ {فَمَنْ حَاجَّكَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ‏ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبين‏؛   [11]آل عمران: ۶۱۔ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَكَانَا ابْنَيْهِ، وَدَعَا فَاطِمَةَ ÷ فَكَانَتْ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ نِسَاءَهُ، وَدَعَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ × فَكَانَ نَفْسَهُ بِحُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ أَجَلَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ وَأَفْضَلَ، فَوَجَبَ أَنْ لَا يَكُونَ أَحَدٌ أَفْضَلَ مِنْ نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ بِحُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ فَقَالَ لَهُ الْمَأْمُونُ: أَ لَيْسَ قَدْ ذَكَرَ اللَّهُ الْأَبْنَاءَ بِلَفْظِ الْجَمْعِ وَإِنَّمَا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ ابْنَيْهِ خَاصَّةً وَذَكَرَ النِّسَاءَ بِلَفْظِ الْجَمْعِ وَإِنَّمَا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ ابْنَتَهُ وَحْدَهَا؟! فَلِمَ لَا جَازَ أَنْ يَذْكُرَ الدُّعَاءَ لِمَنْ هُوَ نَفْسُهُ وَيَكُونَ الْمُرَادُ نَفْسَهُ فِي الْحَقِيقَةِ دُونَ غَيْرِهِ، فَلَا يَكُونُ لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ × مَا ذَكَرْتَ مِنَ الْفَضْلِ؟! قَالَ فَقَالَ لَهُ الرِّضَا ×: لَيْسَ بِصَحِيحٍ مَا ذَكَرْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَذَلِكَ أَنَّ الدَّاعِيَ إِنَّمَا يَكُونُ دَاعِياً لِغَيْرِهِ كَمَا يَكُونُ الْآمِرُ آمِراً لِغَيْرِهِ، وَ لَا يَصِحُّ أَنْ يَكُونَ دَاعِياً لِنَفْسِهِ فِي الْحَقِيقَةِ كَمَا لَا يَكُونُ آمِراً لَهَا فِي الْحَقِيقَةِ، وَإِذَا لَمْ يَدْعُ رَسُولُ اللَّهِ رَجُلًا فِي الْمُبَاهَلَةِ إِلَّا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ×، فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّهُ نَفْسُهُ الَّتِي عَنَاهَا اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ وَجَعَلَ حُكْمَهُ ذَلِكَ فِي تَنْزِيلِهِ، قَالَ فَقَالَ الْمَأْمُونُ: إِذَا وَرَدَ الْجَوَابُ سَقَطَ السُّؤَالُ. [12]شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الفصول المختارۃ، ص ۳۸۔

’’أَنْفسنا‘‘ کا مطلب نساءنا سے قریب تر ہے۔ اگرچے نساءنا سے مراد جناب سیدہ ؑ ہیں لیکن اس کے باوجود ’’أَنْفسنا‘‘ میں قرب زیادہ پایا جاتا ہے حتی ’’حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنَّ‘‘ یا ’’فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّيَ ‏‘‘ یا ’’لَحْمَكَ لَحْمِي وَدَمَكَ دَمِي‏‘‘ ان سب اسلوب اور معانی سے قریب ’’أَنْفسنا‘‘ ہے۔حدیث ثقلین میں جس طرح قرآن کریم تمام الہٰی سماوی کتابوں پر مہیمن اور غالب ہے اسی طرح اہل بیت ؑ حدیث ثقلین میں گذشتہ تمام حجتوں پر غالب ہیں اور یہ بہترین دلیل ہے کہ امام علیؑ انبیاءؑ سے افضل ہیں۔ 

’’نَبْتَهِلْ‘‘ کا لغوی معنی لعنت نہیں ہے ۔ البتہ  نَبْتَهِل  کا لازمہ لعنت نکلتا ہے جس کی وجہ سے اس کا معنی لعنت کرنا کر دیا جاتا ہے جوکہ غلط نہیں ہے۔ آخر آیت میں کاذبین پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ کاذبین پر الف لام ’’ال عہدی‘‘ ہے  نہ کہ استغراق یا جنس کے معنی میں ہے۔ پس وہ لوگ جن کے دلوں میں جھوٹ ثابت ہو گیا اور وہ صفت مشبہ کے طور پر ان کے وجود میں ثابت ہو گئی ۔ اگرچے بلا شک وشبہ ہر جھوٹ جو انجام پاتا ہے اس کا تعلق لعن سے ہوتا ہےاور نظامِ ہستی میں جھوٹ کو موردِ لعن قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس آیت میں باہمی مباہلہ کے درمیان جھوٹے پر لعنت کی بات کی گئی ہے جس کی وجہ سے کہا گیا ہے الکاذبین پر ال عہدی ہے ۔

نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ یہ چار شخصیات مباہلہ کی دعوت میں شریک تھیں۔ 

 

منابع:

منابع:
1, 7, 10, 11 آل عمران: ۶۱۔
2 نساء:۵۹۔
3 مائدۃ: ۵۵۔
4 شوری: ۲۳۔
5 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۴، ص ۴۰۱۔
6 انعام: ۸۴۔
8 صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، ج ۱، ص ۸۴۔
9 انعام: ۸۴-۸۴۔
12 شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الفصول المختارۃ، ص ۳۸۔
Views: 14

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حضرت ہودؑ قرآنی آیات کے تناظر میں