loading

{حدیث یوم}

قطع رحمی کے اسباب

ارشادخداوندی ہے:

فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ

ترجمہ:

اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے توزمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور قطع رحمی کرو گے۔

شرح:

شریعت الٰھی ، خصوصاً جھاد کا معطل ھونا: شریعتِ ربانی‘ خصوصاً جہاد کو عملاً اختیار کرنے سے افراد اُمت کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ جرائم دب جاتے ہیں اور آپس میں ربط و ضبط اور اتحاد پیدا ہوتا ہے۔اس کے برعکس جب احکامِ شریعت‘ خصوصاً جہاد کو معطل کیا جائے تو اس سے جرائم کی کثرت ہوگی‘ آپس میں لڑائی جھگڑے ہوں گے جو قطع رحم کی ایک صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُم [1]محمد۲۲      اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے توزمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور قطع رحمی کرو گے۔

رشتہ داروں کی بدسلوکی:بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر اگر زیادتی ہوجائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: وَجَزَآئُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا  [2]شوری۴۰اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے توزمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور قطع رحمی کرو گے۔’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے‘‘، اور فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ [3] البقرہ ۲:۱۹۴ ’’جو تم پر دست درازی کرے‘ تم بھی اُسی طرح اس پر دست درازی کرو‘‘ کے مصداق‘ برابر برابر مقابلہ کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ چنانچہ رشتہ داروں میں سے جو بھی اس کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہے تو یہ بھی اُسی طرح بُرا سلوک کرنا چاہتا ہے۔ اسی کا نام قطع رحمی ہے۔

صلہ رحمی کی اہمیت سے غفلت: صلہ رحمی کی بڑی اہمیت ہے اور اللہ کے ہاں اس کا بڑا ثواب ہے ۔ اس کی یہ فضیلت کیا کم ہے کہ:

صلہ رحمی‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑنے کا ذریعہ ہے اور قطع رحمی‘ اللہ سے کٹ جانے کا۔ اس سے رزق میں وسعت‘ عمر میں برکت اور دنیا میں تعمیر ہوتی ہے۔

یہ عمل کی قبولیت اور دخولِ جنت کا ذریعہ ہے۔صلہ رحمی کے لیے صدقہ‘صلہ رحمی بھی ہے اور صدقہ بھی۔

یہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی ایک نشانی ہے۔

اس سے آدمی کے احترام‘اس کی عزت اور اس کے رعب کی حفاظت ہوتی ہے۔

اس سے دل کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔یہ پیٹھ پیچھے دعا کا ذریعہ ہے۔

اس سے آدمی بُری موت مرنے سے محفوظ ہوجاتا ہے۔

اس کے سبب گناہ مٹ جاتے ہیں اور خطائیں معاف ہوجاتی ہیں۔

یہ جنت میں اعلیٰ درجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے‘ وغیرہ۔

جو آدمی ان فضائل اور صلہ رحمی کی اس اہمیت سے بے خبر ہوگا تو لازماً اس میں کوتاہی کرے گا کیونکہ: اَلنَّاسُ اَعْدَائٌ لِّمَا جَھِلُوْا ، لوگ جس چیز سے بے خبر ہوتے ہیں اُس کے دشمن ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہ‘ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَ [4] یونس ۱۰:۳۹

بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انہوں نے اس چیز کو جھٹلایا جو ان کے احاطہ علم میں نہیں آئی اور ابھی اس کا انجام بھی ان کے سامنے نہیں کھلا، اسی طرح ان سے پہلوں نے بھی جھٹلایا تھا، پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا۔

غلط تربیت: بعض اوقات غلط تربیت کی وجہ سے بھی آدمی رشتہ داروں کو بھول جاتا ہے‘ بلکہ انھیں  تکلیف پہنچاتا ہے۔ چنانچہ رشتہ داری کا مفہوم‘ اس کی اہمیت اور اس کا مقام و مرتبہ اسے بے فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وہاں کسی طرح بھی صلہ رحمی کا خیال پیدا نہیں ہوتا۔ ان حالات میں بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں صلہ رحمی کا کوئی خیال نہیں ہوتا‘ نہ وہ اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔

معاشرے کی کوتاھی:بعض اوقات معاشرے کے اہل فکرودانش افراد‘ قطع رحمی کرنے والوں میں حقوق اور ذمہ داریوں کی ادایگی کا شعور اُجاگر کرنے میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ قطع رحمی کرنے والوں سے بائیکاٹ تو کیا عدمِ دل چسپی کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا کہ قطع رحمی کرنے والے کو محسوس ہو کہ اس کے مفادات خطرے میں ہیں۔ جب معاشرہ اپنے اس فرض کو پورا نہیں کرتا تو قطع رحمی کرنے والا مزید جرأت اور استقلال کے ساتھ اپنی    ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے سامنے کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھتا جو اس کو سیدھا کرے اور سرکشی اور ظلم سے روکے۔

رشتہ داروں کی لاپروائی: بعض اوقات رشتہ دار بھی قطع رحمی کرنے والے کے بارے میں اپنے فرض کی ادایگی سے لاپروائی کرتےہیں کہ اس کو نصیحت کریں‘ اس کی اصلاح کریں‘ ترغیب و ترہیب سے کام لیں۔ جب رشتے دار کا رویّہ یہ ہو تو قطع رحمی کرنے والا بھی اپنے کام پر شیرہوجاتا ہے اور اس کو جاری رکھتا ہے۔

انجام سے بے خبری: خوش قسمت ہے وہ جو دوسروں سے عبرت حاصل کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو اس انجام کا علم ہو جو ماضی اورحال میں قطع رحمی کرنے والوں کا ہوچکا ہے۔ اس لیے کہ معاملات اور حقائق کے تمام پہلوئوں سے بے خبری سخت نقصان کا باعث بنتی ہے۔ قطع رحمی کے بڑے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ اس کے نتائج نہ صرف افراد کے لیے بلکہ مجموعی طور پر پوری اُمت کے لیے بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔جو لوگ ان نتائج سے بے خبرہوتے ہیں‘  وہ لامحالہ قطع رحمی میں آگے بڑھتے ہیں اور اس کو جاری رکھتے ہوئے کسی نقصان کا خوف دل میں نہیں رکھتے۔

منابع:

منابع:
1 محمد۲۲
2 شوری۴۰
3 البقرہ ۲:۱۹۴
4 یونس ۱۰:۳۹
Views: 11

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم