loading

{حدیث یوم}

بد گمانی کے نقصانات

تدوین :بلال حسین

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں:

 ایاکمْ والظَّنَّ فَانَّ الظَّنَّ أکذَبُ الْکذْبِ، “

ترجمہ:بدگمانی سے پرہیز کرو، کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے”۔ [1]بحارالانوار، ج۷۲، ص۱۹۵

لفظ ظن کی معانی:ظن بمنی گمان ہے۔

شرح حدیث:

بد گمانی ایک بہت ہی خطرناک قسم کی روحانی بیماری ہے اور بہت سی ناکامیابیوں اور ما یوسیوں کا سر چشمہ ہے ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی روح کو عذاب و الم میں مبتلا کر دیتی ھے اور اسکے برے اثرات انسانی شخصیت سے نا قابل محو ھوا کرتے ھیں ۔رنج و غم ہی وہ مرکز احساس ہے جہاں سے ممکن ہے بد گمانی کا آغاز ہوتا ہو اور احساسات و جذبات میں ایک شدید انقلاب و طوفان کا سبب بنتا ہو ، بد گمانی کا بیج جو اس راہ گزر سے مزرعہٴ قلب میں بویا جاتا ہے وہ انسانی افکار و اندیشوں پر ناگوار و تلخ اثرات مرتب کرتا ہے ۔جس کا آئینہ روح بد گمانی کے غبار سے کثیف و تاریک ہو چکا ہو اس میں محض یھی نھیں کہ آفرینش کی خوبیاں و زیبا ئیاں اجاگر نھیں ہو سکتیں بلکہ سعادت و خوش بختی اپنی صورت بدل کر ملال و نکبت بن کر ظاہر ہوتی ہے اور ایسا شخص کسی بھی شخص کے کردار و افکار کو بے غرض تصور نہیں کر سکتا ۔ اس قسم کے اشخاص کی روحانیت چونکہ منفی ہے اس لئے ان میں مثبت قوت مقصود ہوتی ہے ۔ اور ایسے لوگ اپنے افکار بد سے اپنے لئے مشکلات پیدا کر لیتے ہیں ۔ اور اپنی طاقت کو ایسے حادثات میں غور و فکر کر کے بتاہ و بر باد کر لیتے ہیں جن سے شاید ان کا زندگی میں کبھی سابقہ بھی نہ پڑے ۔

جس طرح حسن ِظن رکھنے والے شخص کی طاقت اس کے اطرافیوں میں اثر انداز ہوتی ہے اور وہ شخص اپنے آس پاس کے لوگوں کی روح امید کو طاقت بخشتا ہے اسی طرح بد گمان شخص اپنے آس پاس کے لوگوں کے دلوں میں رنج و غم کی کاشت کرتا ہے اور لوگوں کے اس چراغ امید کو خاموش کر دیتا ہے جو زندگی کے پیچ و خم میں ضو فشاں رہتا ہے ۔

بد گمانی کے برے اثرات صرف روح تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ جسم پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس کی بیماریوں کا علاج مشکل ہو جاتا ہے ۔ ایک عظیم طبیب کہتا ہے : جو شخص ہر ایک سے بد گمانی رکھتا ہو اورہر چیز کے بارے میں غلط نظر یہ رکھتا ہو اس کا علاج کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے جتنا دریا میں خود کشی کی نیت سے چھلانگ لگانے والے کو بچانا مشکل ہے ۔ جو شخص ناراضگیوں اور ہیجان کے درمیان زندگی بسر کرتا ہو اس کو دوا دینا ایسا ہی ہے جیسے کھولتے ہوئے روغن زیتون میں پانی ڈالنا اس لئے کہ دوا کا اثر مرتب ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ روح اعتمادکی مالک ہو اور وہ اپنے سکون فکر کی حفاظت کر سکتا ہو ۔

بد گمان شخص کے اندر کنارہ کشی دوسروں کے داتھ مل جل کر رہنے سے اجتناب کے اثرات با قاعدہ مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں اور اسی نا پسندیدہ عادت کے تحت وہ شخص اپنے اندر استعداد ترقی کو کھو بیٹھتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ ناپسندیدہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ خود کشی کی ایک علت فکر و روح پر بد گمانی کا مسلط ہو جانا بھی ھے اور اس قسم کے نا قابل بخشائش گناہ کا ارتکاب اسی وجہ سے کیا جاتا ہے ۔

اگر آپ اپنے معاشرہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ لوگ جو ایک دوسرے کے بارے میں گفتگو کیا کرتے ہیں وہ سب بغیر مطالعہ بغیر غور و فکر اور بد گمانی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اور اسی کے داتھ داتھ ان کی قوت فیصلہ بھی کمزور ہوتی ہے لیکن پھر بھی صحیح و اطمینان بخش تشخیص سے پہلے اپنا حتمی فیصلہ دے دیتے ہیں ۔ ایسے لوگ بلا تصور کی تصدیق کے قائل ہوتے ہیں ۔ کبھی ان کی گفتگو میں شخصی غرض بھی نمایاں ہوتی ہے اور یھی سب سے بڑا وہ عیب ہے جس کی وجہ سے رشتہ الفت و محبت ٹوٹ جاتےہے ۔ اتحاد قلبی ختم ہو جاتا ایک دوسرے پر اعتماد کا سلسلہ نابود ہو جاتاہے اوران کے اخلاقیات تباہ و بر باد ہو جاتے ہیں ۔

بہت سی ایسی عداوتیں اور دشمنیاں جن کا نقصان افراد و اجتماع کے لئے نا قابل جبران ہوتاہے وہ ان خلاف واقع بد گمانیوں کی پیدا وار ہوتی ہیں ۔ معاشرے کے مختلف طبقات میں بد گمانی رخنہ اندازی کرتی ہے ۔ انتہا یہ ہے کہ یہ بد گمانی دانشمندوں اور فلسفیوں کو بھی متاثر کر دیتی ہے ہر قوم و ملت کے مختلف ادوار میں ایسے دانشمند پیدا ہوئے ہیں کہ اسی بد گمانی کی وجہ سے ان کے طرز تفکر میں گھری تاریکی پائی جاتی ہے اور یہ حضرات علم و دانش کے سہارے ہمیشہ جامعہ ٴ بشریت کی خدمت کرنے کے بجائے نظام آفرینش میں نقد و تبصرہ کر کے اسی کی عیب جوئی کرتے رہے ہیں اور اس طرح ان لوگوں نے اپنے مسموم افکار غلط منطق کے ذریعہ معاشرے کی روح کو مسموم بنا دیا ۔ مبادی اخلاق بلکہ مبادیٴ عقائد کو بھی مورد ِ استہزا قرار دیا ۔ بعض فلسفیوں میں بد گمانی اتنی شدید ہو گئی تھی کہ انھوں نے انسانی آبادی کی بڑھتی ہوئی تعداد اور فقر و فاقہ کے خوف سے وحشت زدہ ہو کر انسانی نسل کو محدود کرنے کے لئے ہر چیز کو جائز قرار دے دیا یہاں تک کہ انسانی آبادی کو کم کرنے کے لئے وحشیانہ قتل و غارتگری خونریزی کو بھی جائز قرار دے دیا تھا ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر دنیاکے لوگ ان کے زہریلے خیالات پر عمل کرتے تو آج اس روئے زمین پر علم و تمدن کا کوئی وجود بھی نہ ہوتا ۔

منابع:

منابع:
1 بحارالانوار، ج۷۲، ص۱۹۵
Views: 11

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم
اگلا مقالہ: حدیث یوم