loading

تاریخ و سیرت پرمشتمل احادیث
سے بحث کے  اصول

تحریر: سید محمد حسن رضوی
10/19/2022

انسانی ایحاد کردہ علوم میں ایک وسیع علم تاریخ ہے۔ تاریخ کے کئی شعبہ جات ہیں جن میں گزشتہ زمانے کے حوادث و واقعات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ پر کئی ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں تاریخ کو مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے اہم منابع میں سے ایک احادیث مبارکہ میں وارد ہونے والی تاریخ ہے۔ کتبِ احادیث میں تاریخ کو لینے سے پہلے ہمیں جاننا ہو گا کہ کتب سے حدیث لیتے ہوئے ہمیں کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کتبِ احادیث میں کسی بھی حدیث سے مطلب لینے کے لیے تین مراحلسے گزرنا ضروری ہے:

۱۔ سندِ حدیث:

سند کی جانچ پڑتال کے ذریعے سے ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث امام معصومؑ سے صادر ہوئی ہے۔ اگر امام معصومؑ سے صادر ہونے کا علم نہ ہو تو اس کی نسبت امامؑ کی طرف نہیں دی جائے گی۔ ہمارے اکابر محدثین نے انتہائی زحمت اور مشقت کے بعد اور اپنی طور پر خوب جانچ پڑتال کے بعد احادیث مبارکہ کو اپنی کتبِ احادیث میں درج کیا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ شیعہ محدثین کو جو حدیث بھی امامؑ کی طرف منسوب نظر آئی اس کو انہوں نے اپنی کتاب میں درج لیا اور کونسی حدیث قابل اعتماد اور قابل عمل ہے اس کے تعین و تحقیق کی ذمہ داری بعد والے علماء اعلام کے سپرد کر دی !! یہ تجزیہ و تحلیل درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قدماء اکابر شیعہ محدثین حدیث مبارک لینے میں انتہائی حساس تھے اور جانچ پڑتال اور قرائن و شواہد کی اساس پر احادیث نقل کرتے اور اپنی کتب کی زینت بناتے تھے۔ اس لیے اگر کوئی حدیث کتبِ اربعہ یا معتبر کتب میں ہو تو اس کی سند کی تحقیق راوی کی اساس پر بھی کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شواہد اور قرائن کی مدد سے بھی تحقیق کی جا سکتی ہے۔

۲۔  دلالتِ حدیث:

اس کا تعلق متنِ حدیث اور مضمونِ روایت سے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حدیث کے متن میں جو ظاہری معنی بیان کیا گیا ہے آیا وہ واضح ، روشن اور قابل فہم ہے یا نہیں ۔ اس مقام پر ہم نے الفاظ سے ظاہر ہونے والے معنی پر توجہ رکھنی ہے اور ظاہری معنی کو ہی حاصل کرنا ہو گا۔ اگر حدیث کے ظاہری معنی روشن نہ ہو بلکہ مبہم اور مجمل ہوں تو ایسی صورت میں یہ حدیث ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہو گئی اگرچے اس روایت کی سند صحیح کیوں نہ ہو۔ دلالتِ حدیث کے مرحلے میں ہم حدیث کے معنی اور مفہوم سے بحث کرتے ہیں۔

۳۔  حجیتِ حدیث:

 اگر حدیث کے معنی واضح اور روشن ہوں تو تیسرے مرحلے میں ہم داخل ہو جائیں گے اور جائزہ لیں گے کہ آیا یہ معنی ہمارے لیے حجت ہے یا نہیں؟ کیونکہ اگر ایک حدیث کا ظاہر ہونے والا معنی قرآن کریم سے تو نہیں ٹکرا رہا ، یا دیگر معتبر احادیث سے تعارض اور ٹکراؤ تو نہین رکھتا ، یا عقل و براہینِ حکمت سے متصادم تو نہیں ہے !! اگر کسی وجہ سے حدیث کے ظاہری معنی قابل قبول نہ ہوں یا قابل عمل نہ ہوں تو وہ حدیث ہمارے لیے سند صحیح ہونے کے باوجود حجت نہیں رہے گی۔

تاریخ سے مراد اور اس کی اقسام:

تاریخ سے مراد ماضی میں گزرے ہوئے حوادث اور واقعات ہیں۔ یہ رونما ہونے والے واقعات کبھی تاریخی کتب میں دیکھنے کو ملتے ہیں اور کبھی ان کا تذکرہ قرآن کریم کی آیات اور احادیث مبارکہ میں نظر آتا ہے۔ ماضی کے حوادث کسی بھی جگہ پر ہوں وہ تاریخ کا ہی حصہ کہلائیں گے۔ اس طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ بالخصوص تاریخِ اسلامی کو لینے کے منابع متعدد ہیں جن میں سے اہم منابع درج ذیل ہیں:
۱۔ قرآن کریم
۲۔ احادیث مبارکہ
۳۔ تاریخ و سیرت کی معروف کتابیں
۴۔ علم رجال کی کتابیں
۵۔ ادب و اشعار
۶۔ آثار قدیمہ
اسلامی تاریخ کا باب تاریخ کے دیگر ابواب سے ہمیں جدا کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے پیش نظر خصوصی طور پر یہی باب مطمع نظر ہے۔ بلا شک و شبہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی کتب میں موجود تاریخ زیادہ معتبر اور حقیقت کے زیادہ قریب ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم کتبِ احادیث سے تاریخ کو سندِ حدیث کے قواعد کی روشنی میں لیں گے اور پہلے یہ مطالعہ کریں کہ یہ حدیث سندی طور پر صحیح ہے یا نہیں !! یا ایسا نہیں ہے بلکہ حدیث کی کتاب سے تاریخی واقعہ یا حادثہ کو لے لیا جائے گا ، چاہے وہ سندی طور پر صحیح ہو یا غیر صحیح ، ہر دو صورت میں تاریخی حادثہ کتبِ احادیث سے لے لیا جائے گا اور تحزیہ و تحلیل کے مرحلہ میں جائزہ لیں گے کہ یہ واقعہ یا حادثہ رونما ہوا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

پہلا نظریہ: تاریخی احادیث کو سندی اساس پر لینا

بعض فقہاء و علماء قائل ہیں کہ احادیث مبارکہ میں تاریخی واقعات کو حدیث کی سند کی اساس پر لینا چاہیے۔ اگر سند صحیح ہو تو واقعہ قابل قبول ہے اور اگر سند معتبر نہیں ہے تو واقعہ بھی غیر معتبر کہلائے گا۔ معروف عالم رجالی شیخ آصف محسنی اسی اساس کتبِ احادیث سے تاریخ لینے کے قائل تھے۔ اسی طرح بعض دیگر فقہاء نے بھی تاریخی شخصیات اور تاریخی واقعات کی تحقیق سندی اساس پر کی ہے جیساکہ آیت اللہ خوئی کی معجم رجال الحدیث میں مختلف تبصروں سے ان کی روش کا علم ہو جاتا ہے کہ وہ احادیث میں موجود تاریخ کو وثاقتِ راوی کی اساس پر قبول کرتے تھے۔ ہمارے متعدد فقہاء کرام اسی نظریہ کے قائل ہیں اور رجالی و اصولی ضوابط احادیثِ تاریخ پر جاری کرتے ہوئے تاریخ لیتے ہیں۔ اس علمی نظریہ کے نتائج بڑے پیمانے پر معاشرے کے اندر مختلف پھیلے ہوئے واقعات کو ردّ کرنے کی صورت میں سامنے آتے ہیں، مثلاً احادیث میں معتبر اسانید سے وارد ہوا ہے کہ خلیفہ دوم کا نکاح امام علیؑ کی بیٹی جناب ام کلثوم سے ہوا۔ جو سندی اساس پر تاریخی واقعات لینے کے قائل ہیں وہ واضح طور پر اس عقد کو قبول کرتے ہیں ، جیساکہ متعدد مراجع عظام اور مجتہدین یہی نظریہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح اس نظریہ کے مطابق جناب جابر بن عبد اللہ انصاریؓ نے امام حسینؑ کے روضہ مبارک کی زیارت چہلم والے دن نہیں کی کیونکہ اس واقعہ کی سند ضعیف ہے۔ اس طرح کے اور کثیر واقعات اور حوادث ہیں جن پر اس مبنی اور نظریہ کے اثرات سامنے آتے ہیں۔

تاریخی احادیث کو تحلیلی بنیاد پر لینا:

مختلف علماء قائل ہیں کہ سندی جانچ پڑتال فقہی مسئلہ کے استنباط اور شرعی احکام کے اخذ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ جبکہ تاریخی حوادث کو احادیث سے لینے کے لیے ہمیں سندی تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم اس واقعہ کو قبول کریں گے اور علمی انداز میں تحلیل کر کے نتیجہ لیں گے۔ ممکن ہے علمی تحلیل کے نتیجہ میں حدیث میں وارد ہونے والا واقعہ معتبر ثابت ہو اور ہم کئی مطالب اس سے اخذ کر لیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ واقعہ مختلف وجوہات کی بناء پر مسترد کر دیا جائے کیونکہ تاریخی تجزیہ و تحلیل کے معیار کے مطابق اس کا برپا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس طور پر ضعیف السند احادیث بھی ہمارے لیے اہمیت کی حامل قرار پائیں گی۔

تاریخ کی اقسام اور بہتر قول:

تاریخ کی تین اہم اقسام ہمارے سامنے آتی ہیں جنہیں شہید مطہری اور متعدد غربی و شرقی مؤرخین نے بیان کیا ہے۔

۱۔  تاریخِ نقلی:

اس سے مراد کتبِ تاریخ یا منابع تاریخ جیسے قرآن و حدیث و کتبِ تواریخ و سیرت سے کسی واقعہ کو نقل کر دینا اور اس کی تحلیل نہ کرناہے۔ اس قسم کی تاریخ میں سارا زور تاریخی واقعات کی جمع آوری اور اس کا نقل کرنے پر ہوتا ہے۔ عالم اسلام میں زیادہ تر تاریخ اسی طرح سے نقلی طور پر ییان کی گئی ہے، جیسے تاریخ طبری، تاریخ کامل، شیخ مفید کی کتاب الارشاد، الخرائج و الجرائح، أعلام الوری، کشف الغمۃ وغیرہ۔ یہ تاریخ اس اعتبار سے ہمارے لیے انتہائی اہم اور فائدہ مند ہے کہ اس جہت سے کتابیں تحریر کرنے کے نتیجہ میں ہمارے پاس وافر طور پر تاریخی واقعات اور حوادث جمع ہو گئے جن سے ہم بحث کر سکتے ہیں۔ اگر تاریخ نقلی نہ ہوتی تو قواعدِ تاریخ کو جس علمی مواد پر استعمال کرنا ہے وہ مواد اصلاً میسر نہ ہوتا اور تاریخ کی زمین بنجر بیابان کا سماں پیش کر رہی ہوتی۔ مؤرخین نے زحمت کر کے اس نوعِ تاریخ کو کتب میں تحریر کیا ہے۔ البتہ اس ایک فائدہ کے علاوہ تاریخ نقلی کا ہمیں کوئی فائدہ حاصل نہیں۔

۲۔ تاریخ علمی:

اس میں علمی قواعد اور سنن تاریخ کے ضوابط کی روشنی میں تاریخی واقعات کی تحلیل کی جاتی ہے۔ اس موضوع پر قلیل کتب موجود ہیں۔ ہمارے پیش نظر یہی قسم ہے۔

۳۔  تاریخ تطبیقی:

اس کو فلسفہِ تاریخ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس قسمِ تاریخ میں ہم تاریخی واقعات کو عصرِ حاضر میں عبرت و رہنمائی کا ذریعہ بنائیں گے اور تاریخ کو آئینہ بناتے ہوئے اپنے مستقبل کا اہتمام کریں گے۔ شہید مطہری اس نوعِ تاریخ کے قائل تھے اور تاریخی واقعات و حوادث کی تحلیل عصرِ حاضر میں فائدہ اٹھانے کی غرض سے کرنا چاہتے تھے۔ بلا شک و شبہ یہ تاریخ کی یہی قسم کامیاب اور بہترین سرمایہ ہے۔

شہید مطہریؓ نے مختلف تاریخی شخصیات اور واقعات تاریخ تطبیقی اور فلسفہِ تاریخ کے پیش نظر زیر بحث قرار دیا ہے ، جیسے مختار ثقفی کے بارے میں شہید مطہری کی رائے، واقعہِ کربلا سے متعلق تحلیلی گفتگو۔ قرآن و حدیث اور کتبِ تواریخ میں موجود تاریخ سے ہمارے پیش نظر علمی و تطبیقی تاریخ ہے نہ کہ نقلِ قول کی حد تک تاریخ۔ لہٰذا ہم یہاں اگر ایسی احادیث پیش کریں جوکہ تاریخی شخصیات سے متعلق ہیں یا تاریخی حوادث سے مربوط ہیں تو ہمارے پیش نظر اس کی سندی جانچ پڑتال اور فقہاء و رجال کے ماہرین کی آراء کی جمع آوری نہیں ہے بلکہ ان حوادث کی علمی تحلیل اور اس تحلیل سے عصر حاضر میں نتائج کو لینا ہے۔

 

Views: 62