loading
{  دروس ولايت فقیہ:قسط۱۴}

الہی قانون اور بشری قانون

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

انسان کو اللہ تعالی نے آزادی عطا کی ہے۔ اس آزادی کو حدود میں رکھنے کے لیے انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں مغربی مفکرین اور اسلامی مفکرین کا اتفاق ہے کہ انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ ایک چھوٹا سا ادارہ بھی اگر آپ بنانا چاہیں اس کے اندر اگر قوانین حاکم نہ ہوۓ تو یہ ادارہ نہیں چل سکے گا۔ حتی معاشرے کی ابتدائی ترین اکائی خانوادہ بھی قانون کے بغیر نہیں باقی رکھا جا سکتا۔ مثلا اگر بچوں کے دین کا اہتمام نہ کیا گیا اور ان کو دینی محافل میں آپ خود نہ لے کر گئے، ان کی مادی ضروریات پوری کیں اور معنویت کی طرف توجہ نہ دی تو گمراہ ہو جائیں گے۔ ایسا بھی نہیں کہ جبری طور پر بچوں کو دین کی طرف راغب کیا جاۓ لیکن یہ ضرور ہے کہ ایک ایسی صورت اختیار کی جاۓ کہ بچے فطرتی امور سے قریب رہیں اور معنویات کو قبول کرنے میں ہم ان کی معاونت کریں۔ پس قانون کی شکل میں یا ہدایت کی صورت میں ہمیں اس امر کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔
گزشتہ تحریر میں ہم نے بیان کیا کہ انسان کی سرکش طبع کی وجہ سے قانون کی ضرورت پیدا ہوئی اگر سب انسان فطرت کے مطابق زندگی گزارتے تو قانون کی ضرورت نہ پڑتی۔ ہمیں فطرت کو ابھارنے کی ضرورت ہے یہی کام رسول اللہ ﷺ نے کیا جب مدینہ میں حکومت تشکیل دی تو مسلمانوں میں اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم کی۔ ابتداۓ اسلام میں ہم ان فطری امور کو بہت دیکھتے ہیں مثلا جنگ میں جب ایک پیاسے زخمی مسلمان بھائی نے دوسرے پیاسے بھائی کو دیکھا تو پانی پلانے والے کو کہا کہ اسے پانی پلاؤ بعد میں مجھے پلانا، یا مسلمانوں کا مہاجرین کے لیے اپنے گھروں کو پیش کرنا اور ان کی مہمان نوازی یہ ایثار اور قربانی کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی فطرت کو ابھارا اور ان مسلمانوں نے یہ عظیم مثالیں قائم کیں۔ لیکن اگر انسان کو اس کی طبع کے میلان پر چھوڑ دیں تو یہی انسان سرکش اور طاغوت بن جاتا ہے۔

قانون بنانے کا حق

ہم نے جان لیا کہ انسان طبیعی میلان بھی رکھتا ہے اور فطرت بھی۔ اس مقدمے کے بعد ہم پر واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کی طبع کو قابو میں رکھنے کے لیے قانون کی ضرورت ہے۔ لیکن اساسی ترین سوال یہ ہے کہ قانون بناۓ کون؟ قانون الہی ہو یا بشری؟ ایک ادارے میں قانون بنانے ہیں ان کو کون وضع کرے؟ کیا ادارے کا مدیر قانون بناۓ یا ادارے میں کام کرنے والا؟ ایک معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیں قانون کی ضرورت ہے، یہ قانون عوام بنائیں؟ سیاستدان بنائیں؟ کون بناۓ؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ انسان عبد ہے اور عبد کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔

قانون بنانے والا کیسا ہو؟

قانون بنانے والے میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں؟ اور خود قانون میں کونسی خصوصیات ہونی چاہئیں؟ پہلے سوال کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ قانون بنانے والے میں مندرجہ ذیل خصوصیات کا ہونا ضروری ہے:
۱۔ عالم ہو جاہل نہ ہو۔
۲۔ قانون بنانے میں انصاف سے کام لے، کسی پر ظلم نہ کرے۔
۳۔ اپنے علم پر اسے یقین ہو، شکوک و شبہات یا احتمالات کی بنا پر قانون نہ بناۓ۔
۴۔ صاحب حکمت ہو، کوئی ایسا قانون نہ بناۓ جو بعد میں باعث نقصان ثابت ہو۔
دوسرا سوال بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قانون کیسا ہو؟ اس قانون میں کونسی خصوصیات ہوں؟
۱۔ قانون سعادت مندی کا راستہ بتاۓ۔ قانون ایسا نہ بنایا جاۓ جو انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آۓ۔
۲۔ قانون انسان کی نشو و نما کا باعث بنے۔ اس کی صحت و سلامتی کا ضامن ہو۔
کائنات میں ہمیں انسانوں اور باقی مخلوقات کا مجموعہ نظر آتا ہے۔ کیا انسان اس کائنات کے بارے یا اپنے بارے میں اس مقدار کی وسیع معلومات رکھتا ہے کہ ایسا جامع اور کامل قانون بنا سکے؟ یعنی کیا انسان یہ سب جانتا ہے کہ وہ کیا کرے کیا نہ کرے؟ کس چیز سے کیا سلوک کرنا ہے اور کیا سلوک نہیں کرنا؟ حشرات، چوپاۓ، اور جانوروں سے کیا سلوک رکھے؟ دریا، سمندر، نباتات اور جمادات سے کیا تعلق واسطہ رکھے؟ کونسی چیز اس کے لیے مضر ہے اور کونسی مفید؟ کیا انسان ان سب کے بارے میں ان سب خصوصیات کو رکھتا ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں کہ قانون بنانے والے میں یہ خصوصیات ہونی چاہیئں؟ کیونکہ اگر کوئی ذات یہ خصوصیات نہیں رکھتی، قانون کو علمی بنیادوں پر نہیں بنا سکتی، قانون کو شکوک و شبہات اور احتمالات کی بنیاد پر بناتی ہے تو اس ذات کو قانون بنانے کا کوئی حق نہیں۔ اگر اس نے قانون بنایا بھی تو وہ انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آۓ گا۔ صرف ایک ذات ہے جو ان سب خصوصیات کی مالک ہے اور وہی ذات ایسا قانون بنا سکتی ہے جو سعادت مند بھی ہو اور انسان کے لیے نفع بخش۔ اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔

اس لیے قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:
«اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ»؛اس برہان کے تحت ہم کہتے ہیں کہ قانون صرف الہی ہونا چاہیے۔  .[1] انعام: ۵۷۔

بشری قانون کی ممانعت

انسان اور جہان تکوین کے مقام، اور اپنی ہستی کے وجود میں اللہ تعالی کے عبد ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ انسان قانونگذاری میں بھی اللہ تعالی کا عبد ہے۔ انسان چار پہلو رکھتا ہے اور چاروں پہلوؤں میں اللہ تعالی کا محتاج ہے۔
۱۔ انسان کی ذات
۲۔ انسان کی صفات
۳۔ انسان کا فعل
۴۔ انسان کے فعل کا اثر
انسان اپنی ذات اور صفات میں خدا کا محتاج ہے اگر خدا نے اسے وجود نہ دیا ہوتا تو اس کی ذات نہ ہوتی، خدا نے اسے وجود دیا اور بعد میں اسے اعلی انسانی اوصاف سے نوازا۔ انسان فعل انجام دینے اور اس فعل کے مؤثر ہونے میں بھی خدا کا محتاج ہے۔ جب انسان ان سب چیزوں میں محتاج ہے تو وہ کیسے سعادت مند قانون بنا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج تک جتنے بھی بشر نے قانون بناۓ چند سالوں میں ہی ان کا مضر ہونا سب پر عیان ہو گیا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب جب بھی کوئی قانون بناتا ہے تو خود پچاس سال بعد اس کو خود باطل کر دیتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ یہ غلط ہوا۔ یعنی تین چار نسلیں تباہ کر کے پتہ چلتا ہے کہ یہ تو غلط ہو گیا۔ ضروری ہے کہ ایسے قانون کو معاشرے میں حاکم کیا جاۓ جو کامل ہو اور جامعیت رکھتا ہو۔ افسوس کی بات ہے کہ آج اسلامی معاشروں میں قانون اور نظام ان افراد کا بنایا ہوا ہے جو اصلا الہی قانون کے قائل نہیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی نظام فرانس کا دیا ہوا، عدالتی نظام برطانیہ کا دیا ہوا، اور تعلیمی نظام بھی انہیں مغربیوں کا دیا ہوا۔

عالم تشیع میں قانون

اگر شیعہ دنیا میں دیکھا جاۓ تو شیعہ نے جزئیات اور انفرادی دنیا کے لیے تو الہی قانون کو تسلیم کیا۔ آج بھی پوری دنیا میں مجتہد کا فتوی شیعہ تسلیم کرتا ہے چاہے وہ مغرب زمین کا شیعہ ہو یا مشرق زمین کا۔ اگر معاملہ زندگی کے جزئی معاملات کا ہے، عبادات کا یا بالفرض طلاق اور نکاح کا تو یہاں پر ہم فتوی کو قبول کرتے ہیں۔ یہاں پر واضح رہے کہ فتوی سے مراد فقیہ کی اپنی مرضی نہیں کہ اس نے یہ بات پسند کی ہے تو ہم بھی مان لیں۔ فتوی سے مراد ایک فقیہ کا قرآن و روایات سے ایک فقہی مسئلہ استخراج کرنا ہے نا کہ اس کی اپنی بات۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ فتاوی کا اثر انسان کی اجتماعی زندگی سے زیادہ انفرادی زندگی سے مربوط ہے۔ لیکن یہ وہ چیز نہیں جو یہاں ہمارے مدنظر ہے اور اسلام کو مطلوب ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اجتماعی طور پر الہی قانون کو مانا جاۓ اور اس کے مطابق زندگی گزاری جاۓ۔ یعنی ہمارے سیاسی، عدالتی، تعلیمی، اقتصادی اور دفاعی نظام الہی قانون کے مطابق ہوں۔[2] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۵۳تا۵۵۔

آخر میں یہ سوال ابھار کر تحریر کو ختم کیا جا رہا ہے کہ کیا الہی قانون کا ہونا کافی ہے؟ یعنی اگر الہی قانون موجود ہو لیکن اس قانون کو لاگو کرنے والا نہ ہو تو کیا صرف قانون کا ہونا کفایت کرے گا یا قانون کو نافذ کرنے والا بھی ہونا چاہیے؟ اس سوال کا جواب آئندہ تحریروں میں پیش کیا جاۓ گا؟

منابع:

منابع:
1 انعام: ۵۷۔
2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۵۳تا۵۵۔
Views: 44

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: نظم و ضبط اور قانون
اگلا مقالہ: نبوت کی ضرورت پر نقلی دلائل