loading

فلسفہ اخلاق اور مختلف اخلاقی مکاتب

تحریر : سید محمد حسن رضوی
09/18/2023

علم اخلاق اور فلسفہ اخلاق میں فرق کیا جاتا ہے ۔ علم اخلاق ہر دور میں علماء و دانشوروں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے اور ہر انسانی معاشرے نے اپنے افکار و نظریات کے مطابق اخلاق سے گفتگو کی ہے۔ ذیل میں ہم پہلے اخلاق کی لغوی تعریف کو جانتے ہیں اور اس کے بعد مختصر دور پر علم اخلاق اور فلسفہ اخلاق میں فرق کو ملاحظہ کریں گے اور مختلف مکاتبِ اخلاقی کا اسلامی اخلاق کے ضمن میں جائزہ لیں گے۔

کلمہِ اخلاق کے لغوی معنی:

کلمہِ اخلاق جمع کا صیغہ ہے جس کا مفرد خُلُقآتا ہے۔ابن فارس لکھتے ہیں کہ اس مادہ ’’خ-ل-ق‘‘ کے دو اصلی معنی ہیں: ۱۔ شیء کی مقدار کا معین ہونا، ۲۔ شیء کا نرم ہونا، اس پہلے معنی سے خُلُق آتا ہے جس کا مطلب سجیت یعنی سرشت میں ہونے کے ہیں۔ [1]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۲۱۴۔ابن اثیر جزری لکھتے ہیں کہ خُلُق کا معنی دین ، طبع اور سجیت ہے  ، اس کی حقیقت انسان کی باطنی صورت ہے۔ جس طرح انسان کی ظاہری صورت، اس صورت کے اوصاف اور معانی ہیں اسی طرح انسان کی باطنی صورت ، اس کے اوصاف و معانی کو خُلُق کہتے ہیں۔ ثواب اور عقاب انسان کے باطنی صورت کےاوصاف کا تعلق انسان کی ظاہری صورت و اوصاف سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ [2]ابن اثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج ۲، ص ۷۰۔

علم اخلاق کا اجمالی تعارف:

علم اخلاق کا شمار ان موضوعات میں ہوتا ہے جس پر قدیم تہذیبوں کے عمیق نوشتے ہم تک پہنچے ہیں۔ انسانی معاشروں کے ارتقائی سفر میں اخلاق کا بنیادی کردار ہے۔ انبیاء و رسلؑ کے علاوہ حکماء اور دانشوروں نے اس علم کی بنیادوں کو قوی کیا اور انسانی فضائل اور رذائل کے موضوع پر معارف کو رقم کیا۔ انسان کے انہی زحمتوں اور مشقتوں  کے آثار میں ایک اثر یونانی حکماء کے اخلاقی افکار ہیں جنہیں عالم اسلام میں انتہائی پذیرائی ملی۔رسول اللہ ﷺ نے اپنی بعثت کا ہدف اخلاق کی تکمیل قرار دیا۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کا ایک بڑا حصہ اخلاقی تعلیمات پر مشتمل ہے۔حکماء کی کاوشوں اور انبیاء و رسلؑ کی تعلیمات کے نتیجہ میں جو معلومات علماء اسلام تک پہنچیں انہوں اخلاقی تعلیمات کو منظم شکل دے کر اوجِ کمال تک پہنچایا۔ چنانچہ عالم اسلام میں مختلف روشوں سے اخلاقی تعلیمات کو نظری اور عملی سانچے میں بیان کیا گیا۔ انہی روشوں میں سے ایک عقلی و فکری روش ہے۔اخلاقی تعلیمات کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی روح کی عملی نشوونما اخلاقِ حسنہ سے عبارت ہے اور یہی اخلاق انسان کی باطنی جنت و جہنم کا ضامن بنتا ہے۔

حکماء اسلام نے اخلاق کی مختلف اسلوبوں میں تعریف کی ہے ۔ کبھی اخلاق کا جائزہ کسب کی جانی والی صفات کے مجموعے اورا ختیار عمل کے صادر ہونے سے لیا جاتا ہے۔ کبھی انسانی فضیلت اور رذیلت کے معیارات کو اخلاق سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی حصول ملکات کی بناء پر  با سہولت عمل کے صدور کو اخلاق قرار دیا جاتا ہے۔ ابن مسکویہ متوفی ۴۲۱ ھ اپنی معروف کتاب تہذیب الاخلاق میں خُلُق کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:> الخلق: الخلق حالٌ للنّفسِ، داعيةٌ لها إلى أفعالِهَا مِن غيرِ فكرٍ ولا رويةٍ. وهذا الحالُ تنقسم إلى قسمين: منها ما يكون طبيعيا من أصل المزاج كالإنسان الذي يحرّكه أدنى شيء نحو غضبٍ ويهيجُ من أقلّ سببٍ، وكالإنسان الذي يجبن من أيسر شيء كالذي يفزع من أدنى صوتٍ یطرق سمعه أو يرتاع مِن خَبَرٍ يَسمَعُهُ وكالذي يضحك ضحكا مفرطا من أدنى شيء يعجبه وكالذي يغتمّ ويحزن من أيسر شيء يناله، ومنها ما يكون مستفادًا بالعادة والتدرُّب، وربّما كان مبدؤه بالروية والفكر ثم يستمرّ عليه أولا فأولا حتى يصير ملكةً وخلقًا؛خُلُق: خلق نفس کی ایک حالت ہے جو نفس سے بغیر فکر و نظر کے اس کے افعال کی طرف دعوت دیتی ہے ، یہ حالت دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے: ان میں سے ایک حالت طبیعی ہے جوکہ اصل مزاج سے تعلق رکھتی ہے ، جیسے وہ انسان جسے ایک معمولی سی چیز غضب میں لے آتی ہو اور قلیل سی چیز کی وجہ سے وہ ہیجان میں آ جاتا ہو،  اور اسی طرح اس انسان کی مانند جو چھوٹی سی چیز سے ڈر جاتا ہو ، اس شخص کی مانند جو دروازہ کھٹکنے کی معمولی سے آواز سن کر خوفزدہ ہو جاتا ہو یا کوئی خبر سن کر کانپ اٹھتا ہو، اسی طرح اس شخص کی مانند جو معمولی سی چیز سے متاثر کر ہنس ہنس کر آپے سے باہر ہو جائے ، اسی طرح اس شخص کی مانند جو معمولی سی مصیبت سے دوچار ہونے کی وجہ سے غمگین و محزون ہو جائے ، اس میں سے (دوسری قسم) وہ ہے جو عادت و ریاضت و مشق سے حاصل ہوتی ہے ، ممکن ہے آغاز میں فکر و نظر کا سہارا لینا پڑے ، البتہ اس عمل کو مرحلہ بہ مرحلہ مسلسل استمرار سے انجام دیا جائے یہاں تک کہ وہ ملکہ و خُلُُق بن جائے      <.[3]ابن مسکویہ ، احمد بن محمد، تہذیب الاخلاق وتطہیر الأعراق، ص ۴۱۔خواجہ طوسی متوفی ۶۷۲ ھ اپنی کتاب اخلاق ناصری میں لکھتے ہیں : ’’خُلق‘‘ نفس کے ملَکہ کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی نفس سے آسان اور سہولت سے عمل صادر ہو جاتا ہے اور نفس کو کسی فکر و نظر کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ [4]خواجہ طوسی، محمد بن حسن، اخلاق ناصری، ص ۸۹، موسسہ انتشارات فراہانی، طبعہ اول، ۱۳۸۹۔علماء اخلاق نے انسانی راسخ صفات و ملکات کو بنیادی طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا ہے جوکہ اس وقت اخلاقی صفت قرار پاتے ہیں جب افراط اور تفریط کے درمیان اعتدال میں رہیں۔ لہٰذا انسان کی اعتدال پر استوار راسخ اوصاف و ملکات کو اخلاق سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ ان چار بنیادی اوصاف سے اخلاقِ فاضلہ کے مجموعہ صادر ہوتے ہیں۔ حدِ اعتدال میں موجود یہ چار اساسی راسخ صفات درج ذیل ہیں:

۱)حکمت :قوتِ عقل جَربَزَۃ (گربُز و مکاری) اور غباوۃ (ابلہ پن) کے درمیان ملکہ کی صورت اختیار کر لے تو اس کو حکمت کہتے ہیں۔حکمت عملی کے ماتحت  اخلاق فاضلہ کی سات انواع آتی  ہیں: ۱۔صفاء ذہنی، ۲۔ سرعتِ فہم،۳۔ ذکا،۴۔  سہولتِ تعلیم،۵۔ حُسن تعقل ،۶۔  حفظ(تحفظ)،۷۔ ذُکر (تذکُّر)۔

۲) عفّت:  قوتِ شہوت شرہ (افراط) اور خمود (تفریط) کے درمیان اعتدال کے ساتھ ملکہ بن جائے تو اسے عفت کہتے ہیں۔  اس کے ماتحت اخلاقِ فاضلہ کی بارہ انواع آتی ہیں:  ۱۔ حیاء ، ۲۔ صبر، ۳۔ دَعَۃ (راحت و سکون)، ۴۔ حریّت، ۵۔ قناعت، ۶۔ وقار ، ۷۔ مسالمت، ۸۔ رفق، ۹۔ حُسن صمت ، ۱۰۔ ورع، ۱۱۔ انتظام (تدبیر امور)، ۱۲۔ سخاوت۔ نیز سخاوت اسراف و تبذیر (افراط) اور بخل و تقتیر (تفریط) کے درمیان اعتدال میں راسخ نفسانی قوت سے عبارت ہے ۔سخاوت کے ماتحت مزید اخلاق فاضلہ کی آٹھ انواع آتی ہیں  ۱۔ ایثار، ۲۔ کَرَم، ۳۔ مواسات (بھائی چارہ) ، ۴۔ نبل، ۵۔ مسامحت، ۷۔ سماحت، ۸۔ مروّت۔
۳) شجاعت:  قوتِ غضب  تہوُّر (افراط) اور جُبن (تفریط) کے درمیان نفس میں ملکہ بن جائے تو اس قوت کو شجاعت کہتے ہیں۔ شجاعت کے ماتحت اخلاق فاضلہ کی بارہ انواع آتی ہیں: ۱۔ کبرِ نفس (کرامتِ نفس )، ۲۔ بلند ہمتی ، ۳۔ ثبات (صبر) ، ۴۔ نجذہ، ۵۔ حلم، ۶۔ سکونِ نفس، ۷۔ عفو، ۸۔ تواضع، ۹۔ شہامت، ۱۰۔ احتمالِ کد (تحمل) ، ۱۱۔ حمیّت، ۱۲۔ رقّت۔
۴) عدالت: نفس میں ظلم (افراط) اور انظلام و اہانت کرانا(تفریط) کے درمیان حدِ اعتدال میں راسخ صفت و ملکہ عدالت کہلاتا ہے۔اس کے ماتحت اخلاقِ فاضلہ کی چودہ انواع آتی ہیں: ۱۔ صداقت، ۲۔ الفت، ۳۔ وفا، ۴۔ تودُّد، ۵۔ مکافات، ۶۔ حُسن شرکت، ۷۔ حُسن قضاء، ۸۔ صلہ رحمی، ۹۔ شفقت، ۱۰۔ ذات البین کی اصلاح(باہمی جھگڑوں کی اصلاح) ، ۱۱۔ توکل، ۱۲۔ تسلیم، ۱۳۔ رضا ، ۱۴۔ عبادت۔ [5]خواجہ طوسی، محمد بن حسن، اخلاق ناصری،۱۰۳-۱۰۷۔ [6]ابن مسکویہ، احمد بن محمد ، تہذیب الاخلاق وتطہیر الاعراق، ص ۲۰۲۔

اخلاق کا مَلَکات سے تعلق:

علم اخلاق میں انسانی نفس میں راسخ صفات جنہیں ملکات سے تعبیر کیا جاتا ہے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ نفسِ انسانی میں یہ راسخ صفات اچھی بھی ہو سکتی ہے اور قبیح و بُری بھی ۔ کوئی بھی صفت اس وقت تک راسخ نہیں ہوتی جب تک انسانی نفس استمرار کے ساتھ مسلسل اس کو انجام دینے کی زحمت ومشقت نہ اٹھائے۔ چنانچہ اخلاق میں اکتسابی صفات اور اختیاری اعمال کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔وہ انسانی صفات جو فطری ہیں  یا انسانی مزاج کی وجہ سے نفس کا حصہ بن گئی ہیں انہیں اخلاق سے تعبیر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح وہ اعمال جن کی انجام دہی میں نفس تعب و مشقت اور اضطراب و بوریت کا احساس کرتا ہے یا وہ اعمال و افعال جو غیر ارادی طور پر نفس سے صادر ہوتے ہیں اخلاق نہیں کہلاتے ۔ چنانچہ علم اخلاق میں اخلاقی صفت یا اخلاقی عمل اس وقت کہلاتا ہے جب ایک صفت نفس میں اس قدر محکم راسخ ہو کہ انسان کے ارادہ کرنے سے اس کے جسم سے وہ عمل با آسانی اور با سہولت صادر ہو جائے۔ اس سطح پر پہنچی ہوئی اکتسابی صفات اور اختیاری اعمال اخلاق کہلاتے ہیں۔

معروف فیلسوف محمد شہرزوری متوفی ۷ ھ (بعد از ۶۸۷ ھ) تحریر کرتے ہیں کہ کیفیات اگر حواسِ خمسہ سے محسوس کی جا سکیں اور آہستہ آہستہ زائل ہونے والی ہوں تو ان کیفیات کو انفعالیات کہا جاتا ہے اور اگر حسّی کیفیات تیزی سے زائل ہو جائیں تو انہیں انفعالات کہتے ہیں۔ اگر کیفیات حواسِ خمسہ سے حس نہ کی جا سکتی ہوں اور انسانی نفس کے ساتھ مختص ہوں اور نفس میں ثابت و راسخ ہوں تو انہیں مَلکہ کہتے ہیں اور اگر غیر ثابت و غیر راسخ ہوں تو انہیں حال کہتے ہیں۔ [7]شہرزوری، محمد بن محمود،رسائل الشجرة الإلہیۃ فی علوم الحقائق الربانیۃ، ج ۳، ص ۶۸۔

شیخ مجتبیٰ مصباح یزدی تحریر کرتے ہیں کہ لغت میں لفظِ اخلاق کا اطلاق ان پائیدار انسانی صفات پر ہوتا ہے جو یا تو قابل تحسین شمار ہوتی ہیں یا قابل مذمت ۔ اصطلاح میں لفظِ اخلاق کے متعدد معانی ہیں جن کی طرف ان تین نکات میں اشارہ کیا جا سکتا ہے:
۱۔ صفاتِ نفسانی جو قابل تحسین و قابل مذمت کو اخلاق کہتے ہیں ، فرق نہیں پڑتا وہ نفسانی صفات انسانی نفس میں پائیدار ہیں یا پائیدار نہیں ہیں۔ یہ لغوی معنی سے عمومی تر معنی ہے ۔ اس بناء پر صبر کو ہم اخلاقی خصوصیت کہہ سکتے ہیں اگرچے وہ ملکہ یا نفس میں راسخ صفت کے طور پر موجود نہ ہو۔
۲۔ نفسانی صفات اور صادر ہونے والے افعال و اعمال جنہیں قابل تحسین و قابل مذمت کہا جا سکتا ہو کو اصطلاحی طور پر اخلاق کہا جاتا ہے۔ یہ پہلے معنی سے جامع اور عمومی تر معنی ہے کیونکہ یہ نفسانی صفات کے علاوہ مختلف افعال کو بھی شامل ہے۔ اس تعریف کے مطابق انسانی افعال اخلاق کا جزء شمار ہوتے ہیں۔
۳۔ شائستہ اور قابل تحسین نفسانی صفات اور انسانی افعال کو اصطلاح میں اخلاق کہتے ہیں۔ اس تعریف کے مطابق اخلاق کا دائرہ تنگ ہو جاتا ہے جو انسان کی فقط اچھی اور قابل تحسین صفات و اعمال کو شامل ہے۔ چنانچہ ظلم، خیانت، تکبر و حرص وغیرہ اخلاق شمار نہیں ہو گا۔[8]یزدی، مجتبی مصباح، فلسفہ اخلاق، ص ۲۲، ناشر: انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینیؒ، طبعہ پنجم، ۱۳۹۹۔

فلسفہ اخلاق کی تعریف :

علم اخلاق میں نفس انسانی کی اکتسابی اور راسخ صفات اور ارادہ و اختیار سے انجام پانے والے اعمال کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ لہٰذا علم اخلاق کے ذریعے شائستہ یا نا شائستہ یا خوب و بد صفات و افعال کا علم ہوتا ہے۔ یہاں ایک سوال کے ذریعے سے علم اخلاق اور فلسفہِ اخلاق میں فرق واضح ہو جاتا ہے کہ علم اخلاق کس معیار یا ملاک کی بنیاد پر ایک صفت یا عمل کو خوب یا بد کہتا ہے ؟ کس معیار و ملاک کے تحت ایک صفت کو شائستہ اور اچھا یا ناشائستہ یا برا کہا جا سکتا ہے؟ یقیناً خود علم اخلاق اس معیار و ملاک کو بیان نہیں کرتا کیونکہ علم اخلاق انسان کی اکتسابی و راسخ صفات اور اس کے نتیجہ میں صادر ہونے والے اعمال کا مطالعہ کرتا ہے ۔ اب یہ صفاتِ اکتسابی اچھی قرار پا سکتی ہیں اور بُری بھی۔ جو علم ان صفاتِ اکتسابی و اعمالِ انسانی کے ضروری و غیر ضروری یا خوب و بد یا اچھے اور برے ہونے کا ملاک و معیار بیان کرے اسے فلسفہ اخلاق کہا جاتا ہے ۔

فلسفہ اخلاق دو الفاظ کا مجموعہ ہے: ’’فلسفہ‘‘ اور ’’أخلاق‘‘ ۔ کلمہِ فلسفہ سے مرادخاص معلومات ہیں جسے انواع و اقسام کے علوم میں سے کسی نہ کسی لفظ کی طرف مضاف کر دیا جاتا ہے۔ جب لفظِ فلسفہ کو کسی علم کی طرف اضافہ کیا جائے تو اس سے مراد اس خاص علم کی عقلی روش تحت کے کلی معلومات ہیں۔ لہٰذا کسی بھی علم کا جب عقلی موازین اور کلی مفاہیم کے دائرہ میں جائزہ لیا جاتا ہے تو اس کو فلسفہ سے تعبیر کر سکتے ہیں، مثلاً فلسفہِ فقہ ، فلسفہِ تاریخ ، فلسفہِ تفسیر  ، فلسفہِ اخلاق وغیرہ۔ لفظِ فلسفہ کو مختلف علوم کی طرف مضاف کیا گیا ہے اور وہ شعبہ یا علم مضاف الیہ واقع ہو رہا ہے۔ اس سے مراد مضاف الیہ قرار پانے والے علم کی عقلی کلی معلومات یا اس علم کے مبادئ تصوریہ و مبادئ تصدیقیہ کا بیان ہے۔

پس یہاں سے فلسفہِ اخلاق کا معنی ہمارے لیے روشن ہو گیا کہ فلسفہِ اخلاق سے مراد عقلی روش کے تحت علمِ اخلاق کے مبادئ تصوریہ و تصدیقیہ سے بحث کرنا ہے۔  بالفاظِ دیگر فلسفہ اخلاق کا منبع قرآن و حدیث نہیں بلکہ عقل ہے جس کے سہارے وہ علم اخلاق کو اس کے مبادئ تصوریہ و تصدیقیہ فراہم کرتا ہے۔ فلسفہِ اخلاق علم اخلاق کو درج ذیل چیزیں فراہم کرتا ہے کہ اگر یہ امور اسے فراہم نہ ہوں تو علم اخلاق کی باتوں کی اہمیت قائم نہیں رہتی :
۱۔ علم اخلاق کے مبادئ تصوریہ و تصدیقیہ کی فراہمی۔
۲۔ فلسفہِ اخلاق اخلاقی مفاہیم کو وہ معیار اور ملاک فراہم کرتا ہے جس کے مطابق علم اخلاق کسی اکتسابی صفت اور اختیاری عمل کو خوب یا بد قرار دیتا ہے۔ اگر علم اخلاق کے پاس یہ ملاک و معیار موجود نہ ہو تو علم اخلاق کسی صفت یا عمل کے بارے میں قضاوت نہیں کر سکتا کہ یہ اچھا ہے یا بر اہے۔
۳۔ فلسفہِ اخلاق اخلاقی صفات اور اخلاقی اقدار کی ارزش ہونے کے معیار کو بیان کرتا ہے جس کی وجہ سے اخلاقی اقدار کا ارزش مند ہونا اور اہمیت و قیمت کا حامل ہونا ثابت ہوتا ہے۔
۴۔ فلسفہِ اخلاق مفاہیمِ اخلاقی کے واقعی و حقیقی ہونے یا غیر واقعی ہونے سے بحث کرتا ہے ۔
۵۔ فلسفہِ اخلاق بتاتا ہے کہ اخلاقی مفاہیم مطلق اور عمومی طور پر انسان کے تمام زندگی کے لمحات کو شامل ہیں یا اخلاقی احکام نسبی اور موقع محل کے مطابق خوب و بد ہوتے ہیں۔
پس فلسفہِ اخلاق خود علم اخلاق پر مقدم ہے اور علم اخلاق کے تمام احکام اسی پر موقوف ہیں۔ اسی طرح فلسفہِ اخلاق فلسفہِ حقوق اور فلسفہِ سیاست میں مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ علم اخلاق کے فیصلے، قضاوت اور احکام فلسفہِ اخلاق پر قائم ہیں اور فلسفہِ اخلاق عقلی طور پر معرفت شناسی ، خدا شناسی ، انسان شناسی سے متاثر ہوتا ہے۔ جیسی معرفت شناسی، خدا شناسی اور انسان وجہان شناسی ویسے فلسفہِ اخلاق میں نظریات اور آراء سامنے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مختلف مکاتبِ اخلاقی کا مطالعہ فلسفہِ اخلاق میں کیا جاتا ہے۔

اخلاقی مسائل و موضوعات کی تحقیق کے طریقے:

اخلاقی مسائل اور موضوعات کی تحقیق کی مختلف روشیں ہیں ۔ اخلاقی مسائل کی تحقیق سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی اخلاقی جملہ بنایا جاتا ہے یا اخلاقی حکم لگایا جاتاہے  تو اس کی تحقیق و تحلیل کے طریقے مختلف نوعیت کے ہیں، مثلاً عدل اچھی چیز ہے اور ظلم قبیح و بد ہے، اب اس جملہ یا اخلاقی حکم کا ہم نے جائزہ لینا ہے تو تین قسم کی روشوں سے اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے جوکہ درج ذیل ہے:

۱۔ اخلاق توصیفی: اس سے مقصود افراد یا مختلف معاشروں کے اخلاق کی وضاحت و بیان کے اعتبار سے مطالعات و تحقیقات ہیں۔ اس انداز کے مطالعات میں افراد یا معاشروں کے توسط سے اخلاقی اصولوں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ان کی تشریح و وضاحت پیش کی جاتی ہے۔ ان نوع کے اخلاقی مطالعات میں تحقیق کی روش تجربی و نقلی ہے نہ کہ استدلالی و عقلی۔ کیونکہ اس نوع کے اخلاقی مطالعات میں کسی خاص فرد یا خاص معاشرے کے اخلاق و رفتار سے آشنائی حاصل کی جاتی ہے جس میں نہ تو کسی کو کسی کی طرف ترغیب دلائی جاتی ہے اور نہ کسی کو کسی صفت یا عمل سے اجتناب کی نصیحت کی جاتی ہے۔ اس انداز تحقیق میں کسی اخلاقی خصوصیت کے صحیح یا غیر صحیح ہونے سے بحث پیش نہیں آتی۔ اس روش کو اختیار کرتے ہوئے اخلاقی خصوصیات کا مطالعہ عموماً نفسیات دان ، ماہرِ عمرانیات ، ماہرِ انسانیات اور تاریخ دان کرتے ہیں  ۔ان کے مطالعہ کا انداز اس طرح سے ہوتا ہے کہ بدوی و دیہاتی قومیں یا افریقہ کے وحشی جنگلی قبائل میں کس طرح کا اخلاق و کردار پایا جاتا تھا۔ اس کو اخلاقِ توصیفی سے تعبیر کیا جاتا ہے، مثلاً ہندوستان کے بعض قبائل کے میں مردہ والدین کا گوشت کھانا خوب اور اچھا شمار ہوتا ہے ، بعض قوموں میں بوڑھوں کو قتل کر دینا اچھا اور پسندیدہ عمل ہے ، دور جاہلیت میں بعض عربوں کے نزدیک بیٹیوں کو زندہ دَرگور کرنا اچھا کام شمار ہوتا تھا۔ اسی طرح کے اخلاقی مطالعات کو اخلاق توصیفی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [9]مصباح یزدی، محمد تقی ، فلسفہ اخلاق، ص ۲۵۔

۲۔اخلاق دستوری (ہنجاری) : اس روش کے مطابق ان اصول و معیارات کو مشخص کیا جاتا ہے جس کی مدد سے حُسن و قبح، درست نادرست اور ضروری غیر ضروری کا تعین کیا جا سکے۔ اس روش کے مطابق اخلاقی خصوصیات کی تحقیق کو اخلاق دستوری بھی کہا جاتا ہے۔ اس نوعِ تحقیق میں کسی قوم یا کسی دین یا کسی فرد یا معاشرے کے اخلاقیات کا مطالعہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس روش میں انسان کے اختیاری عمل کا مطالعہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس کو پہلے درجہ کا اخلاق بھی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس انداز کے اخلاقی مطالعات کی روش استدلالی و عقلی ہے نہ کہ تجربی و نقلی۔ بالفاظِ دیگر اخلاق دستوری میں اخلاقی خصوصیات سے دو نوع کی بحث کی جاتی ہے:
الف) فلسفی اور عقلی انداز میں عمومی ارزش و قیمت کے حامل اخلاقی حکم کا دفاع یا عمومی الزامی امور کے حکم کا دفاع  ، مثلاً عدالت اچھی چیز ہے ، عدالت کو ضرور ہونا چاہیے، ظلم بُری چیز ہے اور ظلم نہیں ہونا چاہیے۔ ارزش اور الزام دو الگ الگ اصطلاحات ہیں جن کی تشریح زیر نظر سطور میں ان شاء اللہ بیان کی جائے گی۔
ب) ایک عمل میں خوبی یا ضروری ہونے کو نظریہ کی سطح پر پیش کرنے کی کوشش ، مثلاً اگر ایک نظامِ اخلاقی میں یہ کہا جاتا ہے کہ عدالت خوب ہے یا ظلم بد ہے تو اخلاقِ دستوری (ہنجاری) اس عمومی حکم کا ملاک و معیار اور اس کے دلائل پیش کرے گا۔ نیز اس نوعیت کے سوالات کے جوابات اخلاقِ دستوری دیتا ہے کہ ایک صحیح اور درست کام کا سبب کیا ہے ؟ کیسے ہم صحیح اور درست عمل انجام دے سکتے ہیں ؟ ہم کیوں اخلاقِ فاضلہ سے آراستہ ہوں ؟ وغیرہ ان سب سوالات کے جوابات اخلاقِ دستوری کے ذریعے دیئے جائیں گے۔

۳۔ فرا اخلاق: اخلاقی خصوصیات کے فلسفی اور تحلیلی نوعیت کے مطالعات کو فرا اخلاق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس نوعیت کے مطالعاتِ اخلاقی کو اخلاق نظری ، اخلاق فلسفی ،اخلاقِ منطقی، اخلاقی تحلیلی، معرفت شناسی اخلاق سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ فرا اخلاق کا موضوع نہ کوئی قوم و دین و فرد ہے اور نہ انسان کے اختیاری اعمال ہیں بلکہ اس میں اخلاقی احکام اور اخلاقی قضایا و مسائل کا تحلیلی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کو اخلاقِ درجہ دوم کا نام دیا گیا ہے، مثلاً سقطِ جنین بد ہے یا سقط جنین خوب ہے۔ فرا اخلاق اس قضیہ میں خوب اور بد سے بحث کرے گا اور اس کی تحلیل پیش کرے گا۔ فرا اخلاق اس مقام پر تین زاویوں سے بحث کرے گا:
الف) معنی شناسی: اس مرحلہ میں الفاظ کے معانی کی تحقیق کی جائے گی، مثلاً خوب سے کیا مراد ہے ؟ بد کا معیار کیا ہے؟ اسی طرح اخلاقی موضوعات میں سے جن کے معانی مبہم یا مجمل ہیں ان کو اس مرحلہ میں واضح کیا جائے گا ، مثلاً عدل و ظلم سے کیا مراد ہے؟ آزادی، انگیزہ، لذت، جمال وغیرہ سے کیا مراد ہے؟ اگر اخلاقی موضوعات کا معنی واضح اور روشن ہے تو پھر اس مرحلہ میں ان سے بحث نہیں کی جائے گی۔
ب) معرفت شناسی: اس مرحلہ میں جائزہ لیا جاتا ہے کہ اخلاقی حکم آیا خبر ہے یا انشاء ؟ نسبی ہے یا مطلق ؟ عقل و استدلال و برہان کے ساتھ اخلاقیات کے باب میں ان مباحث کا جائزہ لیا جائے گا۔
ج) مسائل منطقی: اس مرحلہ میں جائزہ لیا جاتا ہے کہ اخلاقی اقدار و ارزش کا حقائق کے ساتھ کیا ربط اور تعلق ہے ؟ اسی طرح اس مرحلہ میں تحقیق کی جاتی ہے کہ اخلاقی اقدار کا ایک دوسرے سے باہمی کس قسم کا ربط و تعلق ہے؟

ارزش اور اس کی اقسام:

ارزش فارسی زبان کا لفظ ہے جسے اردو میں قیمت کہا جاتا ہے اور عربی میں ’’قَدَر‘‘ کہتے ہیں جس کی جمع اقدار آتی ہے۔ علم اخلاق میں کسب کی گئی صفات اور اختیاری افعال کا لزومی اور با ارزش ہونے سے بحث کی جاتی ہےتاکہ انسان اپنی زندگی میں ان صفات سے ہمکنار ہو سکے۔ لفظِ ارزش مختلف شعبہ جاتِ زندگی میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً ارزشِ اقتصادی، ارزشِ اجتماعی، ارزشِ تاریخی وغیرہ۔ اسی طرح ارزشی حقوقی و ارزش اخلاقی ہے۔ ارزش کے معنی کو سمجھنے کے لیے اقتصادی دنیا سے ایک مثال عرض کی جاتی ہے کہ اقتصاد میں اصل مطلوب مال، نفع اور ملکیت ہوتی ہے ۔ لہٰذا جس کاروبار یا اقتصادی معاملہ سے مال یا ملکیت و نفع حاصل ہو تو وہ اقتصادی دنیا میں با ارزش و باقیمت شمار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایسا اقتصادی معاملہ جس سے نہ کوئی نہ نفع حاصل ہو اور نہ کوئی مال و ملکیت تو یہ اقتصادی معاملہ بے ارزش و بے قیمت کہلائے گا۔ اسی طرح دنیائے علم میں ان مفاہیم و مطالب کی ارزش ہوتی ہے جو انسان کو یقینی معلومات اور حقائق سے آشنائی کا سبب بنتے ہیں کیونکہ علم کی دنیا میں یقین کی سطح کی معرفت مطلوب ہوتی ہے ۔ اس لیے علم کی دنیا میں یقینی معلومات کی قیمت و ازرش ہوتی ہے۔ اسی طرح اخلاق میں لفظِ ارزش یا قدر یا قیمت کا اطلاق ہوتا ہے کہ وہ انسان کو مطلوب اوصافِ اخلاقی علم اخلاق میں ارزش رکھتے ہیں۔ ایسے اوصاف جو اکتسابی ہوں اور اختیاری عمل سے ظاہر ہوں ان کسب شدہ صفات کو علم اخلاق میں قیمت و اہمیت و ارزش حاصل ہے۔

اس بیان سے ہمارے پاس روشن ہو جاتا ہے کہ ہر شعبہ اور ہر فیلڈ میں مطلوب امور کو ارزش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ارزش کا متبادل مطلوب بنتا ہےجس کی ضد بے ارزش اور غیر مطلوب آتی ہے۔ ازرش کی تعبیر بعض اوقات اپنے عمومی معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے اور ایک شیء کو مطلوب سے نسبت کے اعتبار سے ارزش قرار دی جاتی ہے ۔ اگر مکمل مطلوب تک رسائی کا باعث بنے تو اس کی ارزش زیادہ ہو گی اور اگر اصلاً مطلوب تک رسائی نہ ہو تو وہ شیء بے ارزش ہو گی ۔ بعض ایسے امور ہوتے ہیں جو مطلوب بھی نہیں ہیں اور غیر مطلوب بھی نہیں ہیں۔ یہ امور صفر درجہ کی ارزش کے دائرہ میں آ جائیں گے۔ اس اعتبار سے ارزش کی تین قسمیں بنتی ہیں:
۱۔ امور مطلوب جن کے مقابلے میں غیر مطلوب امور کہلائیں ۔ ان مطلوب امور کو ارزش مثبت کہیں گے۔
۲۔ غیر مطلوب امور کو منفی ارزش کہیں گے ۔
۳۔ جو امور نہ مطلوب ہوں اور نہ غیر مطلوب انہیں صفر ارزش کا حامل کہیں گے۔

۔

منابع:

منابع:
1 ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۲۱۴۔
2 ابن اثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج ۲، ص ۷۰۔
3 ابن مسکویہ ، احمد بن محمد، تہذیب الاخلاق وتطہیر الأعراق، ص ۴۱۔
4 خواجہ طوسی، محمد بن حسن، اخلاق ناصری، ص ۸۹، موسسہ انتشارات فراہانی، طبعہ اول، ۱۳۸۹۔
5 خواجہ طوسی، محمد بن حسن، اخلاق ناصری،۱۰۳-۱۰۷۔
6 ابن مسکویہ، احمد بن محمد ، تہذیب الاخلاق وتطہیر الاعراق، ص ۲۰۲۔
7 شہرزوری، محمد بن محمود،رسائل الشجرة الإلہیۃ فی علوم الحقائق الربانیۃ، ج ۳، ص ۶۸۔
8 یزدی، مجتبی مصباح، فلسفہ اخلاق، ص ۲۲، ناشر: انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینیؒ، طبعہ پنجم، ۱۳۹۹۔
9 مصباح یزدی، محمد تقی ، فلسفہ اخلاق، ص ۲۵۔
Views: 74