loading

زوجہ سے مباشرت كے احكام

تحریر:  سید محمد حسن رضوی

علامہ مجلسی نے ’’بحار الانوار، ج ۱۰۰، باب آداب الجماع، حديث ۱‘‘  میں ابو سعید خدری > روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ سےشادی کے بعد دلہن کے استقبال اور اس کے ساتھ برتاؤ کے آداب کا تذکرہ وارد ہوا ہے ۔ یہ روایت قدرے طولانی ہے جسے نکات کی صورت میں بیان کیا جائے تو انسان کو غور و فکر کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ ذیل میں ہم اس روایت کو سندی بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے نکات کی صورت میں درج کر رہے ہیں تاکہ عمومی استفادہ حاصل ہو سکے۔ ابو سعید خدری> بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے امام على × کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا  : [1]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۰۳، ص ۲۸۰۔

اے علی ×:

  1. جب دلہن تمہارے گھر میں داخل ہو تو جب وہ بیٹھے اس کی جرابیں (موزے)  اُتار دینا اور اس کے پاؤں کو دھونا۔
  2. پھر اس پانی کو اپنے گھر کے دروازے سے گھر کے آخر تک چھڑکنا ۔ اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ تمہارے گھر سے ستّر(۷۰)  قسم کے فقر کو دُور کر دے گا  اور ستّر(۷۰)  قسم کی برکتوں سے نوازے گا  اور تم پر ستّر(۷۰)  رحمتیں نازل ہوں گی جو اس دلہن کے سر پر منڈلائیں گی تاکہ تم اپنے گھر کے ہر گوشہ سے اس کی برکتیں محسوس کرو۔ پھر وہ دُلہن جب تک اس گھر میں رہے گی دیوانگی، جذّام اور برص سے محفوظ رہے گی۔
  3. جن ایام میں شادی منعقد ہوئی ہے اس پورے ہفتہ دُلہن کو چار چیزوں ’’دہی ، سرکہ، دھنیا، اور کھٹے سیب‘‘ کے استعمال سے روکنا ۔ 

امام علی × نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ!  دلہن کو ان چار چیزوں کے استعمال سے منع کرنے کی وجہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان چار چیزوں کے استعمال سے رحم بانجھ اور ٹھنڈا ہو جاتا ہےجس كے نتىجے مىں بچہ پیدا نہیں ہوتا اور ’’ جس عورت سے بچہ پىدا نہىں ہوتا اس سے بہتر وہ چٹائى ہے جو گھر کے کسی گوشہ میں پڑی ہو ۔‘‘ 

 امام علی × نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ!  سرکہ میں کیا ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے آپﷺ اس کے استعمال سے منع فرما رہے ہیں؟

آنحضرتﷺ  نے فرمایا: اگر عورت سرکہ  استعمال کرے اور اس دوران وہ  حائض ہو جائے تو پھر وہ کبھی مکمل طور پر ’’ حیض ‘‘ سے پاک نہیں ہو سکے گی۔ (یعنی عورتوں سے مخصوص کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے گی)۔ ’’دھنیا‘‘ کے استعمال کی وجہ سے ’’ حیض ‘‘ عورت کے پیٹ میں ابھار و مروڑ ڈالنے کا سبب بنتا ہے اور بچے کی ولادت کے مراحل کو  عورت پر سخت کر دیتا ہے، جبکہ ’’کھٹا سیب‘‘ عورت کے حیض کو روک دیتا ہے جو کہ اس کے لیے بیماری کا سبب بن جاتا ہے۔

  1. اپنی عورت سے مہینہ کی پہلی، درمیانی اور آخری تاریخوں میں مباشرت نہ کرنا۔ اس سے عورت اور اس کے بچے مىں دیوانگی، جذام اور برص پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
  2. اپنی عورت سے ظہر کے بعد مجامعت نہ کرنا کیونکہ اگر اس وقت رحم مادر میں نطفہ قرار پا گىا   تو بچہ بھینگا  (کانا) پیدا ہو گا اور شیطان انسان کو بھینگا دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔
  3. مباشرت کرتے ہوئے باتیں نہ کرنا کیونکہ اگر قضاء الہٰى  بچہ کی نعمت عنایت کرنا ہو  تو وہ بچہ گونگا ہو گا۔
  4. مباشرت کے وقت تم میں سے کوئی بھی عورت کی شرمگاہ کی طرف ہر گز نہ دیکھے بلکہ وقت مباشرت اسے چاہیے کہ وہ اپنی نظریں جھکائے رکھے کیونکہ شرمگاہ کو دیکھنا بچے میں اندھا پن پیدا کر دیتا ہے۔
  5. کسی اور عورت کا تصور کر کے اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ مجھے ڈر ہے اگر اس وقت قضاء الہٰى سے بچہ عنایت کیا گیا تو وہ بچہ خنثی (کھسرا)، مؤنث اور بخیل ہو گا ۔
  6. جنابت کی حالت میں جب تم بستر میں اپنی بیوی کے ساتھ ہو تو قرآن کی تلاوت نہ کرنا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ ایسا کرنے سے تم دونوں پر آسمان سے آگ نہ برس پڑے جو تم دونوں کو جلا کر خاکستر کر دے۔
  7. مباشرت کے وقت (شرمگاہ اور بدن کے  اطراف سے منی صاف کرنے کے لیے) تمہارے پاس ایک کپڑا ہو اور تمہاری بیوی کے پاس ایک جدا کپڑا ہو ۔ تم دونوں ایک کپڑے سے (بدن  كو ) صاف نہ کرنا، کیونکہ ایسا کرنے سے شہوت سے شہوت ٹکرائے گی جو تم دونوں میں دشمنی و عداوت پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ یہاں تک کہ (ایسا کرنے سے ایسی دشمنی پڑے کہ) جدائی اور طلاق تک نوبت آ جائے گى۔
  8. اپنی بیوی سے کھڑے ہو کر مباشرت نہ کرنا کیونکہ یہ گدھوں کا کام ہے۔ اگر قضاء الہٰی سے  اس وقت بچہ عطا ہوا  تو وہ بستر پر پیشاب کرنے والا ہو گا جیساکہ گدھا ہر جگہ پیشاب کرتا پھرتا ہے۔
  9. عید فطر والی رات (جسے ہم چاند رات کہتے ہیں) اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا ، کیونکہ اگر قضاء الہٰی سے اولاد عطا ہوئى تو وہ لڑکا نشوونما پا جائے گا مگر آگے اس کی اولاد نہ ہوگی اور اگر اولاد ہوئی بھی تو بڑھاپے کی عمر میں ہو گی۔
  10. عید ضحی کی رات (جسے ہم چاند رات کہتے ہیں) اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ اگر عطاء خداندی کے تحت اولاد نصىب ہوئی تو اس کی چھ یا چار انگلیاں ہوں گی۔
  11. پھل دار درخت کے نیچے اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ اگر قضاء الٰہی کے تحت اولاد عطا ہوئی تو وہ جلاد اور بہت قتل کرنے والا مشہور ہو گا۔
  12. سورج کے سامنے اور اس کی دھوپ میں اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ قضاء الٰہی کے تحت اولاد ہوئی تو مرتے دم تک فقر و فاقہ میں رہے گی۔
  13. اذان اور اقامت کے درمیان اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ اگر حكم الہٰى سے اولاد عطا ہوئى تو وہ خون بہانے کا دلدادہ ہو گا۔
  14. اگر تمہاری بیوی حاملہ ہو تو وضو کیے بغیر کبھی اس سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ تقدیر الہٰى کے تحت اولاد عطا ہوئی تو وہ دل کا اندھا اور ہاتھ کا بخیل ہو گا۔
  15. 15 شعبان (پورے دن رات) اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ اگر مشیت الہٰى کے تحت اولاد نصىب ہوئی تو وہ بد صورت اور بالوں اور چہرے میں عیب دار ہو گا۔
  16. مہینے کے آخری دو دِنوں (یعنی 29، 30 يا 27، 28 يا 28 ، 29 تاريخ) میں اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ اگر عطاء خداوندی کے تحت اولاد ہوئی تو وہ ہلکانے والی ہو گی۔
  • اپنی بہن کا تصور کر کے اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ قضاء الہٰى کے تحت اولاد عطاء ہوئى تو وہ عُشر کھانے اور ظالم کی مدد کرنے والی ہو گی اور ممکن ہے اس کے ہاتھوں بہت سے لوگوں کی ہلاکت ہو۔
  1. عمارت (یا گھر) کی چھت پر اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ اگر قضاء الہٰی کے تحت اولاد نصىب ہوئی تو وہ منافق، جھگڑالو اور بدعتی ہو گی۔
  2. سفر پر جانا چاہتے ہو تو اس رات (یعنی جس رات کے بعد سفر پر نکلنا ہو) اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ اگر قضاء الٰہی کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوا تو وہ اپنا مال  باطل چیزوں پر خرچ کرنے والا ہو گا۔ پھر رسول اللہ ’ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔ [2]اسراء: ۲۸۔
  3. اگر تین دن رات سفر پر جانا چاہو تو اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ قضاء الہٰی کے تحت اولاد نصىب ہوئی تو وہ ہر ظالم کی مدد کرنے والی ہو گی۔

کن اوقات میں مباشرت کرنی چاہیے؟

  1. اتوار کی رات ( یعنی ہفتہ کا دن آنے سے پہلے جو رات ہوتی ہے جسے ہم اپنی اصطلاح میں ہفتہ کی رات کہتے ہیں) مباشرت کرو کیونکہ اگر قضاء الٰہی کے تحت اولاد نصیب ہوئی تو وہ حافظ قرآن ہو گی اور اللہ اسے جو عطا کرے گا وہ اس پر راضی ہو جانے والی ہوگی۔
  2. اگر تم نے پیر کی شب (ىعنى پىر كا دن شروع ہونے سے پہلے جو رات ہے جسے ہم اپنى اصطلاح مىں اتوار كى رات كہتے ہىں) اپنی بیوی سے مباشرت کی تو قضاء الٰہی کے تحت جو بچہ پیدا ہوگا وہ ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ‘‘ کی گواہی دے گا جس کے بعد اللہ اسے شہادت نصیب کرے گا اور اللہ عزوجل اسے مشرکین کے ساتھ عذاب نہیں دے گا۔ وہ بچہ منہ کی خوشبو سے مزین، رحم دل اور ہاتھ کا سخی ہو گا۔ اس کی زبان غیبت، جھوٹ اور تہمت و بہتان سے پاک ہو گی۔
  3. اگر تم نے ہفتہ کی رات (یعنی ہفتہ کا دن آنے سے پہلے جو رات ہوتى ہے جسے ہم اپنى اصطلاح مىں جمعہ كى رات كہتے ہىں) اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تو قضاء الہٰی کے تحت جو بچہ پید ہو گا وہ حاکموں میں سے ایک حکمران اور علماء میں سے ایک عالم ہو گا۔
  4. بروز ہفتہ سورج غروب ہونے سے قبل اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تو قضاء الہٰى کے تحت جو بچہ پیدا ہو گااس كے بڑھاپے تك شىطان اس كے قرىب نہىں آئے گا ، وہ بچہ سمجھ دار ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس کو دین و دنیا دونوں میں سلامتی عطا کرے گا۔
  5. جمعہ کی رات (جمعہ کا دن آنے سے پہلے والی رات جسے ہم اپنى معاشرتى اصطلاح مىں جمعرات كى رات كہتے ہىں) اگر تم نے اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تو جو بچہ پیدا ہو گا وہ خطیب، بہت کلام کرنے والا اور سلیس زبان ہو گا۔
  6. جمعہ کے دن عصر کے بعد اگر تم نے اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تو جو بچہ قضاء الہٰى کے تحت پیدا ہو گا وہ مشہور و معروف عالم بنے گا۔
  7. شب جمعہ (جمعہ کا دن آنے سے پہلے والی رات جسے ہم اپنى معاشرتى اصطلاح مىں جمعرات كى رات كہتے ہىں) عشاء کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تو امید ہے کہ جو بچہ پیدا ہو گا ان شاء اللہ وہ ابدال میں سے ہو گا۔

اے علی ×! ابتدائی رات اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا کیونکہ اگر قضاء الہٰى کے تحت بچہ پیدا ہوا تو خطرہ ہے کہ وہ جادو گر ہو اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہو .

{ اے علی × میری اس وصیت کو تم یاد رکھو، جیساکہ میں نے جبرئیل × سے اسے سنا تو یاد رکھا }                      [3]صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع ، ج ۲ ،  ص ۵۱۴۔

چند اہم فقہی مسائل

امام على × سے منقول جو رواىت پىش كى گئى ہے اس مىں مستحب اور مكروہ امور كا بىان  اور ان اعمال كى انجام دہى كى صورت مىں جو نتائج و عواقب سامنے آتے ہىں كى وضاحت تھى ۔ لہٰذا مندرجہ بالا رواىت كو ’’ آدابِ مباشرت ‘‘ كا عنوان دىا جانا زىادہ مناسب ہے۔ جبكہ واجبات اور محرمات كو دىگر رواىاتِ مباركہ مىں پىش كىا گىا ہے جسے عموماً توضىح المسائل اور فقہى كتب مىں فتاوى كى صورت مىں تحرىر كىا جاتا ہے۔ ذیل میں چند فقہی مسائل بیان کیے جا رہے ہیں جن کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ واجب امور ہیں جنہیں کسی صورت نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ ىہى واجب امور ’’ شوہر اور بىوى ‘‘ كے حقوق كا تعىن بھى كرتے ہىں۔

زىر نظر سطور مىں واجب احكامات كو ’’ سرخ رنگ ‘‘ مىں بىان كىا جا رہا ہے جبكہ اس واجب حكم ىا فتوى كى وضاحت نىچے برىكٹ مىں درج كى گئى ہے تاكہ كسى قسم كا ابہام نہ رہے۔ لہٰذا اس طرف توجہ رہے كہ برىكٹ مىں دى گئى وضاحت فتاوى كا حصہ نہىں ہے بلكہ راقم كى طرف سے درج كى گئى وضاحت ہے:

۱۔ ضروری ہے کہ شوہر چار دن میں ایک را ت اپنی بیوی کے ساتھ سوئے۔

(یعنی ایک بستر میں بیوی کے ساتھ سوئے)

۲۔ ضروری ہے کہ چار مہینے میں ایک دفعہ بیوی سے مباشرت کرے۔

( مباشرت سے مراد میاں بیوی کی شرمگاہوں کا اس طرح ملنا ہے جو غسل كا موجب بنے ۔ بالفاظِ دىگر  شوہر کا بیوی کی شرمگاہ میں دخول کرنا واجب ہے مگر ىہ كہ بىوى اس حق كو معاف كردے اور اس كے ترك كى اجازت دے دے ىا اسى طرح شوہر اس حق سے برطرف ہوتے ہوئے بىوى كو معاف كردے اور اسے آمادہ ہونے كا حكم نہ دے ۔ جىساكہ ىہ مسئلہ اس وقت پىش آتا ہے جب شوہر كمانے كى غرض سے بىرونِ ملك ىا بىرونِ شہر ہو اور بىوى تك رسائى نہ ہو)

۳۔ بیوی پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو شوہر کے لیے تیار رکھے اور جب شوہر اس کی طرف رغبت کا اظہار کرے وہ آمادہ ہو جائے۔ اگر خاتون شوہر كى جنسى ضرورت كو پورا نہ كرے تو يہ اس كے حق ميں كوتاہى برتنا ہے ۔

(بىوى پرواجب ہے كہ جب اس كا شوہر اسے طلب كرے بىوى اپنے آپ كو آمادہ كر كے اس كے سامنے پىش ہو جائے اور اسے مباشرت كا موقع فراہم كرے ۔ ىہ حكم اس لىے واضح طور پر بىان كىا جاتا ہے كىونكہ بالعموم مرد اپنى بىوى كى طرف كئى مرتبہ رجوع كرتا ہے جبكہ ممكن ہے بىوى كواس كى حاجت نہ ہو۔ اىسے مىں بىوى كے لىے ضرورى ہے كہ وہ اپنے آپ كو شوہر كے حوالے كر دے۔ عموماً دىكھا گىا ہے كہ مرد مىں عورت كى نسبت مقدارِ شہوت زىادہ ہوتى ہے جبكہ قوتِ شہوت دونوں مىں برابر پائى جاتى ہے۔ قوت اور كشش كے اعتبار سے شہوت دونوں مىں برابر ہوتى ہے جبكہ مقدارِ شہوت مىں فرق ہے۔ مرد مىں اس قدر شہوت موجود ہوتى ہے كہ وہ اىك سے زىادہ زوجہ كا طلبگار ہو سكتا ہے جبكہ عورت كو اىك مرد پر اكتفا كرنے جتنى شہوت عطا كى گئى ہے ۔ اس لىے عورت كى شہوت اىك مرد سے پورى ہو جاتى ہے جبكہ مرد كو اپنى شہوت پورا كرنے كے لىے متعدد مرتبہ زوجہ كى طرف رجوع كرنا پڑتا ہے ۔ اگر بىوى ىہ موقع فراہم نہ كرے تو مرد كى توجہ دىگر خواتىن كى طرف مبذول ہو جاتى ہے۔ نىز مردوں ميں شہوت كے غريزے اور شدت كے اعتبار سے سب مرد برابر نہىں ہىں بلكہ بعض مردوں مىں شہوت بہت قوى اور مضبوطى كے ساتھ پائى جاتى ہے جسے عربى زبان مىں ’’ شَبَق ‘‘ كہتے ہىں۔ جبكہ بعض مردوں ميں معتدل طور پر جنسى شہوت موجود ہوتى ہے ۔ جن مردوں ميں شہوت كى شدت اور قوت زيادہ پائى جاتى ہے وہ ممكن ہے ہر روز اپنى زوجہ سے مقاربت كو انجام ديں اور ممكن ہے ہفتہ ميں چند مرتبہ ۔ جبكہ معتدل مزاج مرد اس عمل كو ممكن ہے ہفتہ ميں ايك مرتبہ يا دو مرتبہ انجام دىتا ہو۔ پس بىوى كو اپنے شوہر كى حالت كو مدنظر ركھتے ہوئے اپنے آپ كو اس كے حوالے كر دىنا چاہىے اور كسى قسم كا اعتراض اپنے لبوں پر نہىں لانا چاہىے سوائے اس كے كہ بىوى مرىض ہو ىا اىام مىں ہو تو شوہر كو محتاط كر سكتى ہے ۔ شہوت ايك اىسى چىز ہے جو صرف دخول سے پورى نہىں ہوتى ممكن ہے شوہر بىوى كے ساتھ استمناء كر كے بھى اس ضرورت كو پورا كر لے ۔ اس لىے شوہر اور بىوى كو باہمى رضامندى كے ساتھ اىسے سلسلے آباد كرنے چاہىے جس مىں شوہر كى شہوانى غريزے بھى پورے ہوں اور بىوى پر بے جا دباؤ بھى نہ پڑے۔)

۴۔ بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی۔

( اللہ تعالىٰ نے خاتون كا مزاج اىسا بناىا ہے كہ وہ گھر كى چار دىوارى مىں پورى زندگى بسر كر دے۔ اس مقام پر دو باتىں ذہن نشىن كرنا ضرورى ہے :

  • تفريح ، شاپنگ ، باہر گھومنا، ہوٹلوں ميں كھانے كھانا اور اس طرح كے مختلف تقاضے خاتون كے حقوق مىں سے نہىں ہىں اور نہ ہى اس كى انجام دہى سے روكنا ظلم ہے ۔
  • اگر خاتون شوہر كى اجازت سے تفرىح پر نكلے ىا شاپنگ كرے ىا مختلف جگہ كے سفر كرے توو اس مىں كوئى حرج نہىں ہے اور شوہر كى رضا مندى سے ىہ عمل جائز ہے۔

اس طرف توجہ رہنى چاہىے كہ سب سے بہتر وہ عمل ہوتا ہے جو باہمى رضامندى سے حدودِ الہٰىہ مىں رہتے ہوئے انجام دىا جائے ۔ اگر باہمى رضا مندى سے امور انجام نہ دىئے جائيں تو اس سے نفسىاتى بيمارىاں اور گھريلو ناچاقياں جنم لىتى ہىں جنہىں حل نہ كىا جائے تو وہ بڑھتى چلى جاتى ہىں ۔

نىز معاشرتى طور طرىقے اىجاد كر كے مزاجِ عورت تبدىل كىا جا سكتا ہے۔ عورت كا مزاج، حجاب كے احكامات، نسوانى خصوصىات اور اس كى رغبت و مىلانات تقاضا كرتے ہىں كہ عورت زىادہ وقت گھر كے اندر بسر كرے۔ ىہ فقہى حكم عورت كى ان حدود كو بھى واضح كرتا ہے كہ عورت كو نامحرم مردوں سے زىادہ دوچار نہىں ہونا چاہىے۔ كوشش كرنى چاہىے كہ وہ نامحرم مرد كے روبرو نہ ہو۔ لہٰذا شاپنگ كرنا، باہر كھانا پىنا، تفرىح كے لىے نكلنا، واك كے لىے جانا، سودا سلف كى ذمہ دارىاں اٹھانا … عورت كے حقوق اور واجبات مىں سے نہىں ہىں۔ ہمارے معاشرے كے مفاسد مىں سے اىك شاپنگ اور تفرىح جىسے امور كو عورت كا حق قرار دىنا ہے جبكہ طبعى اور شرعى طور پر ىہ عورت كا ىہ حق نہىں ہے۔  شرعى طور پر شوہر كى اجازت سے عورت كے لىے جائز ہے كہ وہ شاپنگ كرے، تفرىح كے لىے جائے، سودا سلف لے آئے … تو اس مىں كوئى مضاىقہ نہىں ہے۔ نىز اگر خاتون ان امور كو كثرت سے انجام دے اور وہ مردوں كے ساتھ زيادہ تعلق قائم كرے اور برخورد كرے تو ىہ گھرانے كے نظام كو درہم برہم كرنے كے مترادف ہے جس سے گھرانے كے اركان و نظام متاثر ہو جاتے ہىں اور ناچاقىاں و غلط فہمىاں جنم لىنا شروع ہو جاتى  ہىں )

۵۔ بیوی پر گھر کا کام کاج، بچوں کی پرورش یعنی دودھ پیلانا، کپڑے دھونا وغیرہ اسی طرح شوہر کے کام کاج وغیرہ واجب نہیں ہیں ۔ لہٰذا اگر بیوی ان کاموں کی اجرت(پیسے) طلب کرے تو وہ لینے کی حقدار ہے۔

( بىوى كى ذمہ دارى نہىں ہے كہ وہ گھر كا كام كاج كرے، بچوں كے كپڑے دھوئے، ان كى صفائى ستھرائى كا اہتمام كرے… ۔ اسى طرح شوہر كے كام كاج، كپڑے دھونا ، كھانا پكانا كھلانا … بھى زوجہ كى ذمہ دارى نہىں ہے۔ اس كا نتىجہ ىہ نكلتا ہے كہ زوجہ پر اولىن ذمہ دارى شوہر كى شہوانى ضرورت كو پورا كرنا اور اس كى حاكمىت مىں اس طور پر رہنا كہ اس كى اجازت كے بغىر گھر سے نہ نكلے۔ جبكہ شوہر كى ذمہ دارى كا بىان اگلے نكتہ مىں آ رہا ہے۔زوج اور زوجہ پر ىہ چىزىں اس صورت مىں واجب ہوتى ہىں جب نكاحِ شرعى متحقق ہو۔ ىہاں سے اللہ تعالىٰ كى طرف سے گھر كا نظام واضح ہو جاتا ہے كہ دىن و شرىعت پر استوار اىك گھرانہ كے بنىادى ستون ’’ شوہر و بىوى‘‘ ہىں ۔ ان ستونوں پر تب عمارت قائم ہوتى ہے جب اخلاقىات و آداب كو وجود دىا جائے۔ مثلاً طبىعتِ خاتون مىں اللہ تعالىٰ نے نرم مزاجى، نسوانى خصوصىات اور جذباتىت و احساسىت ركھ دى ہے جس كى وجہ سے ’’ بىوى ‘‘ شوہر اور بچوں كے كام كاج طبىعت كے ان تقاضوں كے تحت انجام دے دىتى ہے اور ان كے علاوہ دىگر كے لىے كام كرنا اسے مشكل لگتا ہے۔ لہٰذا عموماً زوجہ اپنى ان خصوصىات كى بناء پر شوہر كے كام كاج كرتى ہے اور بچوں كى پرورش كرتى ہے۔ اگرچے بسا اوقات اىسا ہوتا ہے كہ زوجہ ان امور كى انجام دہى سے كتراتى ہے جس كا نتىجہ عدم توازن كى صورت مىں نكلتا ہے اور گھر فسادات كا شكار ہو جاتا ہے۔ كىونكہ واجبات پر رشتہ قائم ہوتا ہے لىكن رشتہ نبھانے اور گھر آباد ركھنے كے لىے دىگر امور كى بھى ضرورت ہے ۔ پس خاتون اپنے واجب ذمہ دارىاں سے بڑھ كر جو كام كرتى ہے وہ حقىقت ميں ’’ جہاد‘‘ ہے جس پر شوہر كو چاہىے كہ وہ خاتون كا شكر گزار اور احسان مند رہے اور اس كا اظہار اس كے سامنے كرے تاكہ خاتون كے جہاں حوصلے بلند اور توانا رہے وہاں اسے محبت، عزت اور احترام كا احساس بھى ہو ۔ كىونكہ زبردستى اور نفسىاتى طرىقے اىجاد كر كے كام كرانا حقىقت مىں اىك نوعِ فرعونىت ہے جو غلام بنانے كا درس دىتى ہے جبكہ اسلام حرىت اور اىثار و فدا كارى كے تحت اعمال و كام كے انجام دىنے كا درس دىتا ہے ۔)

۶۔ شوہر پر واجب ہے کہ بیوی کا نان و نفقہ یعنی اس کے گھر، کھانے پینے کے اخراجات اور لباس وغیرہ مہیا کر کے دے۔ اسی طرح ہر وہ سفر جو بیوی ’’شوہر‘‘ کی اجازت سے کرے اس سفر كے اخراجات بھی شوہر کے ذمے ہىں۔

اللہ تعالىٰ نے شوہر كو وہ مضبوط چھت اور سائبان بناىا ہے جس كے تحت گھرانے كے افراد زندگى بسر كرتے ہىں۔ لہٰذا شوہر كى ذمہ دارىاں اس كى حىثىت كے مطابق ہىں۔ شوہرقانونى و شرعى طور پر  گھر كا  حاكم اور بىوى اخلاقى طور پر  گھر كى خادم ہوتى ہے ۔ لہٰذا شوہر كو وہ تمام چىزىں مہىا كر كے دىنا ضرورى ہوتى ہىں جو اىك حاكم اپنى رعاىا كى ضرورىاتِ زندگى كو مدنظر ركھتے ہوئے مہىا كرتا ہے ۔ مندرجہ بالا فقہى حكم سے شوہر اور بىوى كى معاشرتى حدود بھى واضح ہو جاتى ہىں كہ اللہ تعالىٰ نے گھر كى چار دىوارى سے باہر كى ذمہ دارىاں ’’ شوہر ‘‘ كے سپرد كى ہىں جبكہ گھر كے اندر كى دنىا ’’ عورت ‘‘ كے دَم سے آباد ہوتى ہے۔ لہٰذا عورت كى ذمہ دارى گھر بار كے اخراجات پورے كرنا، اعلىٰ معىار كى زندگى كى خاطر جاب و نوكرى كرنا ىا دىگر مقاصد كے حصول كے لىے گھر كو ترك كرنا نہىں ہے جىساكہ ہمارے معاشرے مىں عورت كى جاب كو قابل ستائش نظروں سے دىكھا جاتا ہے !! بلكہ عورت كى ترجىحات گھر كے اندر كا ماحول، بچوں كى پرورش، شوہر كے مال و متاع كى حفاظت … ہونى چاہىے۔ اگرچے شوہر كى اجازت سے عورت كو جاب و نوكرى كى شرعى طور پر اجازت ہے لىكن ىہ عمل گھر كے نظام كو درہم برہم كرنے كے مترادف ہے كىونكہ اللہ تعالىٰ نے گھرانے كا جو نظام خلق كىا ہے اس مىں عدمِ توازن اسى وقت آتا ہے جب گھرانے كے اہم ترىن ستون’’ مرد اور خاتون كى ذمہ دارىاں‘‘ غىر متوازن اور فساد كا شكار ہو جائىں۔

۷۔ شوہر پر واجب ہے کہ وہ بیوی کو ویسا معیار زندگی فراہم کرے جس معیار زندگی کو بسر کرتے ہوئے عورت اس کے گھر آئی ہے۔

( معاشرے مىں رہن سہن كے طرىقے ، پسند و نا پسند اور رغبت و مىلانات مختلف ہوتے ہىں۔ ان چىزوں مىں اختلاف معاشرتى زندگى كے مختلف ہونے اور انسانى مزاجوں كے متغىرو متلون ہونے كى بناء پر ہے۔ لہٰذا جس انسان نے جىسے معاشرے و حالات مىں زندگى بسر كى ہو اس كى ترجىحات و رغبات اسى كے مطابق ہوتے ہىں۔ پھر پسند و ناپسند بھى انسانى طبىعت و مزاج كے مطابق ہوتى ہے۔ اس لىے اگر اىسے افراد كو جوڑا جائے جن كى معاشرتى زندگى اىك دوسرے سے مىل نہ كھاتى ہو تو لمحہ بہ لمحہ ناگوارىاں اور ناچاقىاں جنم لىں گى اور گھرانہ ٹوٹنے كے مراحل مىں داخل ہو جائے گا۔ لہٰذا پہلى كوشش كرنى چاہىے كہ معاشرتى حالات و اطوار كو مدنظر ركھ كر نكاح كىا جائے۔ نىز اگر رواىات مىں وارد ان نصىحتوں كو مدنظر نہ ركھا جائے تو اىسے مىں شوہر كى ذمہ دارى ہے كہ وہ اپنى زوجہ كو اىسى زندگى مہىا كر كے دے جس معىارِ زندگى مىں اس كى زوجہ پہلے زندگى بسر كرتى رہى ہے ۔ مثلاً اگر عورت متوسط طبقہ كى ہے تو اسے اس طبقہ كى مراعات فراہم كر كے دىنى چاہىے اور اگر وہ امىرانہ طبقہ سے تعلق ركھتى ہے تو شوہر پر واجب ہے كہ وہ اس طبقہ كے معىارات كے مطابق زندگى فراہم كر كے دے۔ اس فقہى حكم كا اثر اس وقت سامنے آتا ہے جب شوہر كے پاس اس قدر رقم نہىں ہوتى كہ وہ اپنى زوجہ كو متوسط ىا امىرانہ معىارات كے مطابق مراعات فراہم كر كے دے لىكن جىسے ہى شوہر كے پاس اس قدر وسائل فراہم ہوں گے اس پر شرعاً واجب ہو گا كہ وہ سب سے پہلے اپنے اس واجب كو انجام دے۔ ىہ حكمِ شرعى بھى عورت كى ذہنى آسائش، آسودگى اور پر سكون زندگى كى فراہم كو بىان كرتى ہے ۔ اس كا نتىجہ اىك مضبوط، با وقار اور با عزت گھرانے كى صورت مىں سامنے آتا ہے۔ البتہ اگر زوجہ اپنے ان حقوق كو معاف كر دے تو شوہر پر ان سب چىزوں كا پورا كرنا ضرورى نہىں ہو گا )

۸۔ روزے کی حالت اور عورت کی حیض و نفاس کی حالت میں بیوی سے مباشرت کرنا حرام ہے۔

(ايام حىض جن كى زيادہ سے زيادہ مدت ۱۰ دن ہوتى ہے اور ايام نفاس مىں خاتون سے مباشرت ىعنى اس كى آگے كى شرمگاہ ميں دخول حرام ہے۔ اگر اىام حىض مىں دس دن سے پہلے خون كاملاً رك گىا ہے اور اىك قطرہ بھى دكھائى نہىں دىتا تو اسى صورت مىں جواز كى صورت موجود ہے۔ اىام حىض و نفاس مىں آگے دخول كے علاوہ باقى جنسى استفادہ حاصل كىا جا سكتا ہے، جىسے بوس كنار، ملاعبہ، عورت كے جسم كو دىكھنا ىا  شہوت كو دىگر انداز سے پورا كرنا…۔ ’’ مباشرت ‘‘ سے مراد ’’ مرد اور عورت ‘‘كى شرمگاہوں كا آپس مىں اس طرح ملنا ہے كہ غسل كے واجب ہونے كا سبب بنے اور ىہ تب ہوتا ہے جب مرد ’’ آلہ تناسل ‘‘ عورت كى شرمگاہ كے آگے ىا پىچھے اس مقدار مىں داخل كرے كہ اس كا ابتدائى حصہ داخل ہونے كى وجہ سے چھپ جائے۔ ىہ عمل غسل كا موجب بنتا ہے چاہے اخراجِ منى ہو ىا نہ ہو۔ بالفاظ دىگر مرد اور خاتون كے لىے غسل كے دو اسباب ہىں:

  1. منى كا اچھل كر خارج ہونا،
  2. شرمگاہ مىں آلہ تناسل كا ابتدائى حصہ كا داخل ہو جانا۔

مرد مىں منى كا اخراج تك كہلائے گا جب تىن شرائط پائى جائيں :

 اگر دخول كا ىہ عمل شرعى طرىقے سے زوجہ كے ساتھ انجام دىا جائے تو اسے ’’ مباشرت ‘‘ ىا ’’ ہمبسترى ‘‘ كہتے ہىں۔ اس طرف بھى توجہ رہے كہ عورت كے ’’ دُبر ىعنى پىچھے مقامِ پاخانہ ‘‘ مىں دخول شدىد مكروہ ہے اور بعض فقہاء كرام كے نزدىك حرام ہے۔ موجودہ مراجع عظام كے نزدىك ىہ عمل شدىد مكروہ اور عورت كے لىے انتہائى تكلىف كا سبب ہے ۔ نىز اس كے طبى نقصانات و مضرات بھى ہىں لہٰذا اس عملِ مكروہ سے اجتناب كرنا چاہىے)

۹۔ بیوی اپنے شوہر اور شوہر اپنی بیوی کا پورا بدن برہنہ دیکھ سکتے ہیں۔

( زوج اور زوجہ اىك دوسرے كا پورا بدن دىكھ سكتے ہىں ۔ البتہ رواىات مىں شرمگاہ نہ دىكھنے كا حكم وارد ہوا ہے لىكن ىہ حكم واجب نہىں ہے۔ بعض رواىات كے مطابق اىك دوسرے كو برہنہ دىكھنے سے شہوت و لذت كم ہو جاتى ہے۔ لہٰذا اگر اىك دوسرے كو برہنہ نہ دىكھا جائے تو لذت و اشتہاء باقى رہے گى اور مباشرت كى طرف مىلان باقى رہے گا ۔ نىز وقتِ مباشرت مقامِ شرمگاہ كو دىكھنے كى مذمت وارد ہوئى ہے جىساكہ گزشتہ رواىت مىں بىان ہو چكا ہے۔ مرد اور عورت كى شرمگاہ سے مراد اس كے ’’ مقامِ پىشاب و پاخانہ ‘‘ ہے ۔ عورت كے سىنے كا حصہ شرمگاہ مىں شامل نہىں ہے۔ لہٰذا محرم و نا محرم كے احكامات مىں بىان كىا جاتا ہے كہ عورت پر اپنے ’’محرم‘‘ سے اپنى شرمگاہ كا چھپانا واجب ہے جبكہ ’’محرم‘‘ سے باقى اُن اعضاء كا چھپانا واجب ہے جن كو دىكھ كر ’’محرم‘‘ كى شہوت بىدار ہوتى ہو۔ البتہ ’’نامحرم‘‘ سے بال اور پورا بدن چھپانا واجب ہے۔ مىك اپ كو بھى نامحرم سے چھپانا واجب ہے)

10۔ شوہر اور بیوی پر اىك دوسرے كى خاطر ’’ گانا ‘‘ گانا ہر صورت میں حرام ہیں ۔

11۔ شوہر اور بىوى پر رقص كرنا حرام ہے۔ البتہ بیوی کے لیے رقص صرف ایک صورت میں جائز ہے اور وہ ىہ كہ شوہر اپنى بىوى سے رقص كى فرمائش كرے۔ اىسى صورت مىں زوجہ فقط اپنے شوہر كے سامنے اس كى خاطر رقص كر سكتى ہے۔ عورت کا شوہر کے علاوہ کسی اور کے لیے رقص کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ لہٰذا عورتوں كے درمىان، كسى محفل ىا اپنے محارم كے درمىان بھى رقص كرنا حرام ہے ۔ نىز شوہر اپنی بیوی کے لیے بھى رقص بھی نہیں کر سکتا۔ اگر بىوى اپنے شوہر سے رقص كا تقاضا كرے تو شوہر كے لىے جائز نہىں ہے كہ وہ اپنى بىوى كى خواہش كو پورا كرے۔

۱2۔ جنسی فلموں اور تصاویر کے ساتھ جنسی حس کو برانگیختہ کرنا حرام ہے۔ اسی طرح جنسی فلموں اور تصاویر کو بیوی کے ساتھ دیکھنا بھی حرام ہے۔

( موجودہ معاشرے كى آفات مىں سے اىك آفت انٹر نىٹ ىا فلم مووى كے ذرىعے غىر اخلاقى فلموں كو دىكھنا ہے۔ عموماً ان غىر اخلاقى فلموں كو زوجہ كے ہمراہ دىكھنے مىں قباحت كا احساس نہىں كىا جاتا ۔ جبكہ ىہ عمل انجام دىنا شرعاً حرام ہے اور كئى مفاسد كا سبب ہے۔ ان مفاسد مىں سے اىك خطرناك ترىن شر و مفسدہ ’’ عورت ‘‘ كا گناہ كى طرف راغب ہونا اور غىر مردوں سے تعلقات قائم كر لىنا ہے۔ كىونكہ غىر اخلاقى جنسى فلمىں حىا و پاكدامنى كا پردہ چاك كر دىتى ہىں اور مشتركہ ملاپ كو خوبصورت كر كے پىش كرتى ہىں جس كى وجہ سے مرد اور عورت دونوں اسى ماحول كے خواہش مند ہوتے ہىں جس كو وہ اپنى گناہ گار آنكھوں سے ملاحظہ كر رہے ہىں۔ لہٰذا شوہر پر ذمہ دارى بنتى ہے كہ مباشرت كے وقت جنسى فلموں ىا تصاوىر كا استعمال كسى صورت نہ كرے ورنہ گھرانے كے ٹوٹنے اور معاشرے مىں جنسى بے راہ روى كا قصور اس كى گردن پر عائد ہو گا۔ كىونكہ گھر كا حاكم ’’شوہر ‘‘ ہوتا ہے جس كے اىجاد كردہ اور رواج دئىے گئے طور طرىقوں كى پىروى زوجہ و بچے كرتے ہىں۔ اس لىے اچھے طور طرىقے متعارف كروانے چاہىے۔ نىز گزشتہ رواىات مىں خىالى طور پر بھى كسى نامحرم كو دىكھنے كى نفى كى گئى ہے اور اس كے مضر اثرات بىان كىے گئے ہىں پھر كىسے ممكن ہے كہ انسان ظاہرى آنكھوں سے مناظر دىكھے اور منفى اثرات سے محفوظ رہ پائے !! )

13۔ حالت روزہ، حالت حیض و نفاس وغیرہ میں مباشرت یعنی دخول حرام ہے۔ البتہ اس سے لذت کی غرض سے چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے اور حالت روزہ میں اخراج منی کے علاوہ باقی لذتوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

14۔ ایام شہادت، سورج و چاند گرہن ، زلزلہ اور سخت آندھی طوفان و کڑک میں مباشرت کرنا انتہائی مکروہ ہے۔

15۔ کسی دوسری عورت کا تصور کر کے بیوی سے مباشرت کرنا مکروہ ہے حرام نہیں۔

16۔ بیوی کی اجازت کے بغیر اس کی شرمگاہ سے باہر اخراج منی جائز نہیں۔ اسی طرح بیوی کے بغیر استمناء یعنی منی کا خارج کرنا جائز نہیں۔

( ’’ استمناء ‘‘ كا مطلب منى كا خارج كرنا ہے۔ اگر شرمگاہ سے باہر منى خارج ہو تو اسے ’’ استمناء ‘‘ كہتے ہىں۔ دىنِ الہٰى مىں نكاح كى شہوانى لذتوں كے ساتھ ساتھ اس كے اصلى مقصدو ہدف كى طرف بھى اشارہ كىا گىا ہے جوكہ تولىد نسل ہے۔ مرد كے وجود مىں ’’ منى ‘‘ اىك امانت ہے جو كہ عورت كى شرمگاہ كے حوالے كرنا ضرورى و واجب ہے۔ ىہ جس كى امانت ہے اسى كو حق پہنچتا ہے كہ وہ اس امانت كو لىنے سے انكار كر دے اور معاف كر دے۔ لہٰذا تولىد نسل اور كثىر آبادى كے فلسفے كے تحت شرىعت مىں واجب ہے كہ منى كو عورت كى شرمگاہ مىں خارج كىا جائے۔ البتہ اگر عورت اس حق كو معاف كر دىتى ہے اور اجازت دىتى ہے كہ مجھے اولاد نہىں چاہىے تو مرد اس كى شرمگاہ سے باہر اخراج كر سكتا ہے جوكہ استمناء كہلاتا ہے۔ استمناء سے صرف شہوت پورى ہوتى ہے جبكہ نكاح كا اصل مقصد ’’تولىد نسل‘‘ حاصل نہىں ہوتا۔ زوجہ كے علاوہ ہر چىز چاہے وہ جاندار ہو ىا بے جان استمناء كرنا حرام ہے اور اس كے نقصانات بے تحاشا ہىں )

چند اہم اخلاقی نکات

۱۔ عورت سے اچانک مباشرت کرنا صحیح نہیں کیونکہ عورت اگر تیار نہ ہو تو مباشرت میں اسے انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ روایات اہل بیت  ^ میں وارد ہوا ہے کہ مرغے کی طرح اپنی بیوی پر مت کود پڑو۔ اسی طرح وارد ہوا ہے کہ حیوانوں کی طرح اپنی بیوی کے پاس مت جاؤ۔ جدید سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں بھى یہ بات سامنے آئی ہے کہ پہلے عورت کو تیار کرنا چاہیے اور پھر اس سے مباشرت کرنی چاہیے۔ روایات میں مذکور ہے کہ عورت کا تیار کرنے کا بہترین طریقہ گفتگو کرتے ہوئے اس کے قریب آنا اور اس کے جسم کے مختلف اعضاء کو دبانا ہے جس سے وہ تیار ہو جاتی ہے۔

ىہاں سے مرد اور عورت كے درمىان فرق بھى اجاگر ہو جاتا ہے۔ مرد اور عورت مىں عقل، ذہن، روح اور معنوىات كے اعتبار سے كوئى فرق نہىں ہے۔ ان دونوں مىں صرف جسمانى تقاضوں مىں فرق ہے اور اسى كے مطابق ذمہ دارىاں عائد كى گئى ہىں۔ مرد كے اندر اللہ تعالىٰ نے شہوت كے عناصر كو فوراً بىدار ہو جانے كى صلاحىت عطا كى ہے۔ جبكہ عورت مىں شہوت كے عناصر فوراً بىدار نہىں ہوتے۔ مرد كو شہوت مىں لانے كے لىے صرف اىك خىال ہى كافى ہے جبكہ عورت كو شہوت كے دائرے مىں لانے كے لىے ماحول سازگار بنانا پڑتا ہے۔ البتہ جب شہوت كى دىوانگى مرد ىا عورت پر چھا جائے تو اسى وقت اس دىوانگى سے انسان باہر آتا ہے جب شہوت پورى ہو جاتى ہے۔ لہٰذا زوج اور زوجہ كو متوجہ رہنا چاہىے كہ اىك دوسرے كو ىہ حق دىں۔ اگر شوہر كى شہوت پہلے پورى ہو گئى ہے تو وہ زوجہ كى شہوت كو بھى پورا كرنے كا باعث بنے اور اپنے آپ كو زوجہ كے لىے پىش ركھے۔

ىہى جسمانى تقاضوں كے مختلف ہونے كى وجہ سے معاشرے مىں مرد ہمىشہ شہوت كى بناء پر عورت كے دامِ فرىب مىں آتا ہے اور عورت ہمىشہ’’ مرد‘‘ كو اىك آسرا اور مضبوط ٹھكانہ سمجھتے ہوئے اس كے چنگل مىں گرفتار ہو جاتى ہے۔ لہٰذا جب شہوت كا جنون ختم ہوتا ہے تو مرد كو عورت كى طلب نہىں رہتى لىكن عورت كى طلب مزىد بڑھ جاتى ہے اور پہلے سے زىادہ شوہر كى الفت، توجہ اور آسرے كى محتاج ہوتى ہے ۔ زىادہ مسئلہ اس وقت پىش آتا ہے جب ان امور كو غىر شرعى طرىقوں سےپورا كىا جاتا ہے اور مرد ظالم سفاك بن كر عورت كو بے آسرا چھوڑ جاتا ہے۔ كىونكہ مرد كى توجہ اس طرف نہىں ہوتى كہ عورت كے لىے شہوت سے زىادہ كشش ’’مضبوط آسرے، توجہ اور الفت و محبت كے جذبات ‘‘ مىں ہے۔ مرد ’’ عورت‘‘ كو بھى اپنى ہى طرح سمجھتا ہے اور شہوت پورا كرنے كے بعد ىہ خىال كرتا ہے كہ جىسے مجھے اب عورت كى ضرورت نہىں اسى طرح عورت بھى مجھے سے بے نىاز ہو گئى ہے۔ حقىقت اس كے برخلاف ہوتى ہے۔ مغربى معاشروں مىں خود كشى كى مقدار مىں اضافے كا سبب ىہى نفسىاتى پہلو ہے۔ عورت كو شہوت كے پورا كرنے كے بعد نسوانى خصوصىات كى تكمىل كى ضرورت ہے جو مغربى معاشرے ىا مغربى طرزِ زندگى مىں مہىا نہىں  جس كے نتىجے مىں خواتىن خود كشى كر لىتى ہىں۔ اىك سے زائد شادىوں مىں بھى سب سے بڑى مشكل ىہى پىش آتى ہے كہ مرد كىسے اىك سے زائد زوجات كو توجہ و الفت كے جذبات مہىا كرے اور خواتىن كے باہمى حسد كا ازالہ كرے! لہٰذا اس نفسىاتى پہلو كى طرف توجہ امر ناگزىر ہے۔

۲۔ معاشرے میں رائج دقیانوسی اور جاہلانہ باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً معاشرے میں رائج ہے کہ پہلی رات جو بیوی سے مباشرت نہ کرے تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح عام ہے کہ خونِ بکارت کا دیکھنا ضروری ہے ورنہ عورت استعمال شدہ ہے وغیرہ۔ ’’ بكارت ‘‘ سے مراد وہ بارىك پردہ ہے جو عورت كے رحم پر لگا ہوتا ہے۔ اس كى مثال بند بوتل كے ڈھكن كے نىچے وہ كاغذ ہوتا ہے جس سے بوتل بند ہوتى ہے۔ انسان بوتل كا ڈھكن كھولنے كے بعد اس بارىك سے كاغذ كو اپنى انگلى ىا كسى چىز سے چىرتا ہے اور بوتل سے استفادہ كرتا ہے۔ بند بوتل پر ىہ كاغذ كى لہر اس بات كى علامت ہوتى ہے كہ بوتل نئى ہے اور اس سے پہلے استعمال نہىں ہوئى۔ اسى طرىقے سے عورت كى شرمگاہ مىں رحم پر اىك بارىك سا پردہ ہوتا ہے جسے ’’بكارت‘‘ كہتے ہىں جو عموماً دخول كے وقت پھٹ جاتا ہے اور اس كے نتىجے مىں عورت كى شرمگاہ سے خون برآمد ہوتا ہے۔ بعض ممالك اور ملك كے مختلف علاقوں مىں خونِ بكارت كو عورت كى پاكىزگى اور با كردار ہونے كى علامت سمجھا جاتا ہے جوكہ انتہائى ظلم اور ناانصافى ہے۔ كىونكہ ىہ نازك پردہ مختلف واقعات و حالات  كى بناء پر پھٹ سكتا ہے ، مثلاً اونچى چھلانگ لگانا، انتہائى زور دار آواز سننا  ىا كوئى اور سبب۔ بلكہ بعض سائنسى تحقىقات كے مطابق 70 فىصد خواتىن كا پردہ بكارت جوانى كے آغاز مىں كسى حادثہ ىا واقعہ كے سبب زائل ہو جاتا ہے۔ اس لىے پردہ ِ بكارت كو كسى صورت معىار قرار نہىں دىا جا سكتا ، جىساكہ توضىح المسائل اور دىگر فقہى كتب مىں درج ہے۔ البتہ جب ’’ باكرہ ىا كنوارى ‘‘ كہا جاتا ہے تو معاشرے مىں وہ عورت مراد لى جاتى ہے جس كا پردہِ بكارت شگافتہ نہىں ہوا۔ اسلامى فقہ مىں ’’ باكرہ ىا كنوارى‘‘ سے ىہ مراد نہىں ہے بلكہ كنوارى ىا باكرہ اس عورت كو كہتے ہىں جس كا پہلى مرتبہ شرعى نكاح شرائط كے ساتھ پڑھا گىا ہو۔ لہٰذا اگر كوئى عورت غىر شرعى طرىقے سے اپنے آپ كو پىش كرتى رہى ہو ىا نعوذ باللہ زانى ہو تو اس صورت مىں اس كا پردہ بكارت تو زائل ہو جائے گا لىكن وہ باكرہ ہى كہلائے گئى اور نكاح كے وقت ’’ولى‘‘ كى اجازت كى محتاج ہو گى۔ كنوارہ پن اس وقت ختم ہوتا ہے جب شرعى شرائط كو مدنظر ركھتے ہوئے نكاح كىا جائے اور شوہر اپنى زوجہ كے ساتھ ہمبسترى كرے۔

پس ہمىں معاشرے كى خود ساختہ كہانىوں اور من گھڑت معىارات كو خاطر مىں نہىں لانا چاہىے كىونكہ ىہ تمام باتیں غلط ہیں۔ بلکہ عورت كو اعتماد، محبت اور تعریف و مدح کے ذریعے گھر کی زینت بنایا جاتا ہے۔ اسی لیے روایات میں عورت کو پھول سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ حساس ذات ہے جس كے بدولت گھر كى رونق و رنگىنى آباد ہوتى ہے۔ اگر گھر مىں سب كچھ ہو اور ہر طرح كى سہولت ہو لىكن عورت نہ ہو تو وہ گھر نہىں مكان كا منظر پىش كرتا ہے جسے صرف اىك ہوٹل كى طرح استعمال كىا جاتا ہے۔ گھر كا آباد ہونا عورت پر منحصر ہے اور عورت تب آباد ہوتى ہے جب اس پر اعتماد و بھروسہ كىا جائے ۔

۳۔ اسلامى تعلىمات اور طبى تحقىقات كے مطابق  لذت تب مکمل طور پر حاصل ہوتی ہے جب مرد عورت ہر لحاظ سے تیار و آمادہ ہوں۔ اس لىے بغىر آمادگى دخول سے پرہىز كرنا چاہىے جبكہ باقى طرىقوں سے شہوت كے حصول سے بالعموم كوئى فرق نہىں پڑتا۔

۴۔ روایات میں مباشرت کے وقت گفتگو کی سخت ممانعت وارد ہوئى ہے۔ میڈیکل کے مطابق بھی مباشرت کے وقت گفتگو کرنے سے لذت کا احساس کم یا ختم ہو جاتا ہے۔ مباشرت كے وقت خصوصاً وقت ِ دخول انسان لا شعوری طور پر خاموش ہو جاتا ہے ۔ یہ وہ طبیعی تقاضا ہے جس كى رعاىت حیوانات بھی كرتے ہىں۔ اس لیے اس طبیعی طریقے کی مخالفت کے گھمبیر نقصانات اور متعدد مفاسد ہىں۔ نىز ابتدائى اوراق مىں نقل كردہ رواىت مىں اس كے نقصانات بىان كىے گئے ہىں۔

۵۔ روایت اور فقہی مسائل میں مباشرت کے وقت جو ہدایات بیان کی ہیں وہاں مباشرت سے مراد وقت دخول ہے۔ لہٰذا دخول سے ہٹ كر باہمى گفتگو كرنے مىں كوئى حرج نہىں ہے۔

۶۔ جنسی فلموں میں دیکھ کر عورت سے مباشرت کا طریقہ سیکھنا کسی صورت ٹھیک نہیں۔ بلکہ اس کے نقصانات اس طور پر سامنے آتے ہیں کہ انسان مباشرت کے غلط طریقوں کا عادی ہو جاتا ہے۔ اگرچے روایات میں مباشرت کا  كوئى معىن طرىقہ بىان نہىں ہوا لیکن قرآن و روایت اور خلائق عالم کے عمومی مشاہدے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مباشرت کا وہ طریقہ اپنایا جائے جس میں پردہ پوشی زیادہ سے زیادہ ہو۔ وہ مناسب ترین طریقہ جس میں زیادہ سے زیادہ پردہ پوشی ہوتی ہے یہ ہے کہ عورت نیچے اور مرد اوپر ہو۔ یہی طریقہ انسانوں کے علاوہ دیگر حیوانات میں رائج ہے۔ لہٰذا یہ طریقہ طبیعی اور فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور اسی کی رعایت کرنی چاہیے۔ خصوصاً کھڑے ہو کر، یا دیگر غیر اخلاقی طریقوں سے مباشرت سے پرہیز و ممانعت کرنا  تاکیدی طور پر وارد ہوا ہے۔ ىہ واحد طرىقہ ہے جس مىں حىا اور عفت كے معىارات كى رعاىت كى جا سكتى ہے۔

۷۔ مباشرت کے وقت مکمل تنہائی اور پردہ کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ لہٰذا ایسی جگہوں پر مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے جہاں انہیں کوئی دیکھ سکتا ہو۔ خصوصاً اولاد کے سامنے خاص کر جب اولاد نومود بچہ کے مرحلے ہو تو بھی اس کے سامنے مباشرت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کے نقصانات بچے پر وارد ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اولاد غیر اخلاقی جنسی جرائم کى مرتکب ہوتى ہے۔ نىز انسان اس بات كو محسوس كرتا ہے كہ اگر بچہ سوىا ہوا ہے اور اس كے  پاس مباشرت انجام دى جائے تو سوتے رہنے كے باوجود اس  پر ذہنى اثرات مترتب ہوتے ہىں اور بچہ ان اعمال سے واقف ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔

علاوہ ازىں انسان اسى وقت مكمل جنسى شہوت پورى كر سكتا ہے جب مكمل خلوت اور تنہائى مىسر آئے اور كسى قسم كا ڈر و خوف نہ ہو۔ اگر انسان كو خلوت مىسر نہ آئے تو اسے جنسى عمل مىں بھر پور لذت حاصل نہىں آتى۔ ىہى وجہ ہے كہ اسلام مىں اس شخص كے لىے سزا ور بھارى كفارہ عائد كىا گىا ہے  جو مباشرت كے وقت آ كر انسان كو ڈسٹرب كر دے، مثلاً زور سے دروازہ كھٹكھٹائے جس كے نتىجے مىں زوجىن متاثر ہو جائىں…۔

۸۔ بیوی اگر ایام حیض میں ہو تو اس سے مباشرت حرام ہے کیونکہ اس کے ابتدائی ایام سخت تکلیف کے ہوتے ہیں۔ البتہ عورت سے چھیڑ چھاڑ اور دخول کے علاوہ لذت لینا جائز ہے۔ نیز جب عورت بیمارى کی حالت میں ہو تو اس سے مباشرت میں احتیاط کرنی چاہیے ۔ اگر بیماری میں مباشرت ضرر رساں ہو ىا عورت كے لىے تكلىف كا باعث ہو تو یہ عمل صحیح نہیں۔

9۔ جس طرح مرد میں شہوت پائی جاتی ہے اسی طرح عورت میں بھی شہوت کی آگ بھڑکتی ہے۔ چنانچہ اثناء مباشرت اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ عورت کی شہوت بھی پوری ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عورت کی شہوت پوری نہ ہو اور وہ درمیان میں ہی رہ جائے۔ اگر ایسا کثرت سے ہو کہ عورت کی شہوت پوری ہونے سے پہلے شوہر اس سے دور ہو جائے تو یہ عورت کی گمراہی کا سبب بن سکتی ہے۔ شہوت کے ادھورا رہ جانے کی تکلیف اور مشقت کا اندازہ انسان اپنے آپ کا دیکھ کر سکتا ہے اس لیے جو خلل انسان اپنے وجود میں محسوس کرتا ہے وہی دوسرے کے وجود میں باقى رہ جاتا ہے۔

10۔ جس طرح شوہر بیوی کو طلب کرتا ہے ممکن ہے کہ بیوی بسا اوقات شوہر کو طلب کرے۔ لہٰذا شوہر کی بیوی سے ہم آہنگی ضروری ہے تاکہ ایک دوسرے کی ضرورت کو پورا کر سکیں۔

11۔ عورت پر شک کر کے سختی کی روش اپنانا غیر مناسب ہے۔ چاہیے یہ کہ ایسے طور طریقے رائج کیے جائیں جن کی وجہ سے عورت سے غلط استفادہ نہ اٹھایا جا سکے، مثلاً روایات میں وارد ہے کہ اجنبی اور ایسا شخص جس کی شرافت کا اعتماد نہ ہو گھر میں تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے، حدود میں رہتے ہوئے بیوی كو میل ملاپ کی اجازت دینا، عورت کی جنسی حس پوری کرنا وغىرہ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ شوہر سالہاسال پرائے دیس میں ہو کیونکہ ایسی صورت میں شوہر تو نکاح کر کے اپنی لذت پوری کر سکتا لیکن بیوی مجبوراً ایسا نہیں کر سکتی اور ایسے مسائل میں بہت سی عورتیں برائی کا شکار ہوجاتى  ہیں …۔ روایات میں مذکور ہے کہ اگر عورت پر خوامخواہ شک کیا جائے تو نیک سیرت عورت بھی برائی کی راہ لے لیتی ہے۔ پردے کا عادی بنایا جائے تو یہ احتیاط کے سب سے قریب، رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا سبب اور شوہر کے اطمینان کا باعث ہوگا۔

12۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامى ذخىرہ تعلىمات كے مطابق اللہ تعالیٰ نے مادی لذتوں میں سب سے بہترین لذت مباشرت میں رکھی ہے۔ لہٰذا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس لذت سے بہرہ مند ہو جس کا پر سکون طریقہ نکاح ہے۔ لذت کے حصول اور استفادہ میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ البتہ لذت پوری ہونے کے اعتبار سے یہ فرق ہے کہ عورت کی لذت ایک مرد سے پوری ہو جاتی ہے چنانچہ اسے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت نہیں۔ جبکہ مرد میں لذت کی اس قدر کثرت پائی جاتی ہے کہ وہ متعدد ازدواج کی رغبت رکھتا ہے اس لیے اسے متعدد نکاح کی اجازت دی گئی ہے۔ البتہ یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ عورت اپنے بناؤ سنگھار اور اپنے آپ كو پىش كر كے مرد  کی جنسی حس ہمیشہ پوری کر سکتی ہے اور اپنى حسنِ خدمت سے شوہر كى محبت و الفت كا مركز قرار پا سكتى ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے عورت میں زىنت و بناؤ سنگھار کا مادہ ’’مردوں‘‘ سے زیادہ رکھا ہے تاكہ وہ اپنے آپ كو ہر وقت شوہر كے لىے تىار و آمادہ ركھے۔ افسوس بہت سی عورتیں اس نعمت کا غلط استفادہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو سجا کر دیگر نامحرموں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور شیطان کی راہ پر چلتی ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت اس لیے عطا کی کہ وہ اپنے شوہر کو کسی دوسری عورت کا اسیر نہ ہونے دے۔

۱۳۔ اس وقت انٹر نيٹ ميں موجود فحش تصاوير اور ويڈيوز نے معاشرے كو بڑے پيمانے پر بے راہ روى پر لگا ديا ہے۔ غربى فاسد فحش تعليم كے سبب ’’ مباشرت اور بيوى سے قربت اختيار كرنے ‘‘ كے بہت سے طريقے رائج ہو گئے ہيں جن كے بارے ميں شرعى احكام جاننا ضرورى ہے۔ ان ميں بعض كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے :

  • اسلام نے بيوى سے ’’ جماع اور مباشرت‘‘ كا كسى مخصوص طرىقہ مىں انسان كو مقىد نہىں كيا بلكہ نكاح كے بعد حدود الہىہ ميں رہتے ہوئے ہر اس طريقہ كو مباح قرار ديا ہے جو مباشرت كا طريقہ كہلاتا ہے اور انسان كے ليے تذليل يا جان كے خطرے كا باعث نہ ہو ۔ پس ان تين قيود كو ملاحظہ كرنا ضرورى ہے :

 ۱) غير اخلاقى ايسے مفاسد پر مشتمل عمل نہ ہو جو اللہ تعالى كى بيان كردہ حدود سے تجاوز كر جائے ،مثلا ’’ منى ‘‘ كا حلق سے نىچے اتارنا حرام ہے، اسى طرح انسانى فضلہ كا منہ ميں جانا حرام ہے ،

 ۲) خاتون كى تذليل نہ كى جائے ، ىعنى باہمى رضامندى سے عمل انجام دىا جائے ،مثلا خاتون سے حىوانوں كا سلوك نہ كيا جائے ، ىا اس كے تمسخر كا باعث نہ بنے

 ۳) جان اور صحت كے لىے مضر نہ ہو ۔

  • باہمى رضا مندى سے خاتون كا مرد اور مرد كا خاتون كى شرمگاہ كو چومنا يا چوسنا اس شرط كے ساتھ جائز ہے كہ منى يا فضلہ حلق سے نىچے نہ اترے، ىا جان ىا صحت كے لىے مضر نہ ہو، اور نہ ہى خاتون كى اہانت كا باعث بنے ۔ خاتون ’’ مرد‘‘ اور مرد ’’ خاتون‘‘ كى شرمگاہ كو كاملاً ديكھ سكتا ہے اور اس سے ہر طرح كى لذت لے سكتا ہے۔
  • مرد ’’خاتون‘‘ كے ساتھ لىٹ كر ، بىٹھ كر ، كھڑے ہو كر ىا كسى بھى پوزىشن مىں مباشرت كا عمل انجام دے سكتا ہے ۔ البتہ اخلاقىات كے پىش نظر ايسے طرىقے كو اختىار كرنا چاہىے جو عفت و حىاء سے قرىب تر ہو اور وہ ىہ ہے كہ خاتون نىچے اور مرد اوپر ہو ۔
  • فطرى اور طبىعى مباشرت كا طرىقہ كار ىہ ہے كہ خاتون كى آگے كى شرمگاہ مىں دخول كىا جائے ۔ جبكہ خاتون كے پىچھے كى حصے مىں دخول كرنا غىر طبىعى عمل اور خاتون كے لىے انتہائى مشقت و ضرر كا باعث ہے اور كئى بىمارىوں كا موجب بن جاتا ہے ۔ بعض فقہاء كرام كے نزدىك ’’ دُبُر ىعنى خاتون كے پىچھے كى شرمگاہ مىں دخول كرنا ‘‘ حرام اور اكثر مراجع عظام و فقہاء امامىہ كے نزدىك شدىد كراہت ركھتا ہے ۔ بہتر ىہ ہے كہ دُبُر مىں دخول سے اجتناب كىا جائے ۔

خداوند متعال ہمىں توفىق عطا فرمائے كہ ہم گناہوں كى وادىوں سے بچ كر حلال  لذتوں سے بہرہ ىاب ہوں اور مقاصد نكاح ىعنى تولىد نسل اور تربىت اولاد كو حاصل كرىں اور اپنى اولاد كو دىن ِ الہٰى كى راہ كا مجاہد بنا كر اپنے آپ كو اللہ ربّ العزت كى بارگاہ مىں سرخرو ہونے كا موقع فراہم كرىں۔

Views: 1232