loading

{حدیث یوم}

اخلاص

تدوین:بلال حسین

حدیث مبارک:

زِينَةُ اَلْقُلُوبِ إِخْلاَصُ اَلْإِيمَانِ َ [1] غرر الحکم ج1 ص 393

ترجمہ: خالص  ایمان دلوں کی زینت ہے۔

لفظ اخلاص کی معانی:یعنی کسی چیز سےملاوٹ سےپاک ہونا۔

شرح حدیث

اخلاص سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے کام کو خدا کے لئے اور اپنی ذمہ داری و تکالیف کی انجام دہی کی خاطر انجام دے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان نفسانی خواہشات ، مال و دولت کے حصول ، شہرت و عزت ، لالچ و حرص وغیرہ کے لئے کوئی کام نہیں کرتا ۔ اخلاص ایک ایسی صفت ہے کہ اگر اس کی بنیاد پر اقدام کیا جائے تو یہ تلوار کی طرح اپنے سامنے آنے والے ہر مانع کو دور کرتی جاتی ہے ۔

امام خمینی کے اندر یہ صفت کمال کی حد تک تھی ۔ آپ اکثر فرماتے تھے کہ اگر میرا کوئی عزیز ترین فرد بھی عدل و انصاف کے خلاف کوئی قدم اٹھائے گا تو میں اس سے بھی چشم پوشی نہیں کروں گا اور ایسا کیا بھی ۔ حساس موقعوں پر وظیفہ کی انجام دہی کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھی احساس دلایا ۔ خلوت میں ، جلوت میں ، چھوٹا کام ہو یا بڑا ، آپ نے ہمیشہ اخلاص کو اپنی ذاتی زندگی میں اپنایا ۔ اور یہی وہ درس تھا جس کی بنا پر آپ کے شاگرد ، آپ کے چاہنے والے جوق در جوق سرحد پر دشمن سے جنگ کرنے دوڑے چلے جاتے تھے ۔ یہی وہ درس تھا جس کی بنیاد پر ایران میں معجز ہ نما اسلامی انقلاب نمودار ہوا ۔

ایک بزرگ اہل عرفان و سلوک اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : اگر فرض کریں (بہ فرض محال )کہ رسول اکرم اپنے تمام امور کو ایک معین ہدف کے تحت انجام دیتے تھے اور آپ کا ہدف یہی ہوتا تھا کہ اپنے ان امور کو انجام کے مراحل تک پہنچا دیں اور پہنچا بھی دیا کرتے تھے مگر کسی اور شخص کی طرف سے یعنی کسی اور کے نام سے ۔ کیا اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے اس فعل سے راضی نہیں ہوتے تھے ؟ کیا یہ فرماتے تھے کہ یہ فعل چونکہ دوسرے کی طرف سے انجام دے رہا ہوں لہذا انجام نہیں دوں گا ؟ یا نہیں ، بلکہ آپ کا ہدف اپنے امور کی انجام دہی تھی اور بس ۔ قطع نظر اس سے کہ وہ فعل کس کے نام سے یا کس کی طرف سے انجام دیا جا رہا ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ لکھنے والا صحیح ہے کیونکہ ایک مخلص شخص کی نگاہ میں کسی فعل کی انجام دہی اہم ہوتی ہے۔ اس کا ذہن ” من و تو “ سے ماوراء ہوتا ہے ۔ وہ اس بات سے بے پرواہ ہوتا ہے کہ اس فعل کا سہرا کس کے سر بندھے گا؟ ایسا شخص با اخلاص ہوتا ہے اور خدا پر کامل یقین رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا وند متعال یقینا اس کے فعل کا صلہ اس کو دے کر رہے گا کیونکہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے: ان جندنا لھم الغالبون    [2] صافات  ۱۷۳خدا کے اس لشکر میں اکثر و بیشتر میدان جنگ میں شہید ہو جاتے ہیں اور ظاہری اعتبار سے ختم ہو جاتے ہیں لیکن خدا وند عالم فرماتا ہے ان جندنا لھم الغالبون  یعنی یہ لوگ مرنے کے بعد بھی غالب ہیں۔

منابع:

منابع:
1 غرر الحکم ج1 ص 393
2 صافات  ۱۷۳
Views: 8

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم
اگلا مقالہ: حديث يوم