loading

{حديث يوم}

دوست اور دوستی  کی اہمیت

تدوين بلال حسين

امام علیؑ فرماتےہیں:اَلْمَوَدَّةُ قَرَابَةٌ مُسْتَفَادَةٌ .[1]علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار، ، ج : 74 ، ص: 165۔

ترجمہ:دوستی انتہائی مفیدرشتہ داری  وقرابت ہے۔

تشریح:

دوستی کی اہمیت کومزیداجاگرکرنےکےلئےحضرت امیر المؤمنین ؑکےمذکورہ فرامین  سےیہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دنیامیں انسان کاقریبی ترین  ساتھی،دوست ہوتاہےاورظاہرسی بات ہےکہ جب کوئی  شخص انسان کےانتہائی  قریب ہوگاتوجہاں  اس کےدکھ درد میں شریک  ہوگاوہاں بہت سےمفیدمشوروں کےذریعہ اس کی رہنمائی بھی کرےگا۔جس  کےنتیجہ میں  انسان  بہت سی مشکلات  اور پریشانیوں سےچھٹکاراپالےگا۔اس لیےمولائےکائنات دوستی کونصف عقل قراردیتےہیں:اَلتَّوَدُّدُ نِصْفُ اَلْعَقْلِ [2]علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار، ج: 74 ، ص: 168۔جبکہ دوست  اور دوستی کےفقدان کزغربت وتنہائی شمارکرتےہیں :فَقْدُ اَلْأَحِبَّةِ غُرْبَةٌ.[3] ابو الحسن ليثي واسطي، علي بن محمد، عیون الحکم والمواعظ ج: 1 ، ص: 358.دوستوں کانہ ہوناغربت وتنہائی ہے۔اورغریب وتنہادرحقیقت وہ شخص  ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔

دوستوں کاانتخاب:

دوستی کےسلسلہ میں سب سے اہم مرحلہ  دوستوں کاانتخاب ہے۔کیونکہ دوست اور دوستی  کارشتہ صرف باہمی تعلقات  اور زبانی جمع  خرچ کانام نہیں بلکہ یہ  ایسا انتہائی نازک رشتہ  ہے،جوانسان کی دنیااورآخرت کوبگاڑنےیاسنوارنےکےلئےتنہائی کافی ہے۔لیکن اس سلسلہ میں جب ہم اپنےمعاشرےپرنظرڈالتےہیں تو دوقسم  کےطرزفکرسامنےآتےہیں ۔کچھ لوگ دوست اور دوستی سےزیادہ تنہائی اورمطلب برآورکوترجیح دیتےہیں اوربڑےفخرسےکہتےہوئےنظرآتےہیں کہ میں کسی کودوست نہیں بناتاکیونکہ دوستی ،فضول کام اوربےکارلوگوں  کاشیوہ ہے،جوفقط وقت گزارنےکےلئےاکٹھے ہوتےہیں۔ان کےبرعکس ،کچھ لوگ ایسےبھی ہوتےہیں

چنانچہ امیر المؤمنینؑ فرماتےہیں :اعجزالناس من۔۔۔۔ناتوان ترین شخص وہ ہےجوکسی کودوست نہ بناسکےاور اس سےبھی زیادہ  عاجزوناتوان ترین  وہ ہےجوبنےہوئےدوستوں  سےبھی ہاتھ دھوبیٹھے۔

دوست کےانتخاب سلسلہ  میں انسان کوخوددارہوناچاہے۔کیونکہ  دوستی ایک ایسا ناطہ ہےجسےبرابری کی بنیادپرجوڑاجاتاہے۔لہذاایسےافرادکی دوستی  سےپرہیزکرناچاہئےجوخودکوبرترسمجھیں  یادوستی  استوار کرنےسےپہلو تہی کریں۔اس لئےتوامیرالمؤمنینؑ فرماتےہیں:لاترغبن فیمن زھد عنک یعنی ایسے افراد کی دوستی کےطلبگارنہ بنوجزتم سےپیچھاچھڑاناچاہتےہوں۔اوراگرکوئی شخص تمہاری دوستی   کاطلبگارہوتواسےمایوس نہ کروکیونکہ اس طرح تم ایک اچھےساتھی سےمحروم  ہوجاؤگے۔چنانچہ امیرالمؤمنینؑ فرماتےہیں:زھدک فی راغب فیک نقصان حظ ورغبتک فی زاھد فیک ذل نفس یعنی جوتمہاری دوستی کاطلبگارہواس سےکنارہ کشی خسارہ ہےاورجوتم سےکنارہ کش ہواس کی دوستی کےحصول کی کوشش خودکورسواکرنےکےمترادف ہے۔

دوستی کےسلسلے میں باہمی تعلقات  کےمقام سےروشناس کروانے کےبعد تمیرالمؤمنینؑ ایسی صفات  کےحامل افراد کی ہم نشینی اختیارکرنےکی تاکید فرماتے ہیں جوانسان کی دنیاوی واخروی  سعادت  کاباعث ہوں چنانچہ آپ ؑ فرماتےہیں :قارن اھل الخیر تکن منھم یعنی  اہل خیر کی ہمنشینی  اختیارکروممکن ہےکہ تم بھی ان جیسے ہوجاؤ۔مولائےکائنات ؑ اس جملہ  کےذریعےایک بہت اہم  معاشرتی وتربیتی اصول کی جانب اشارہ  کررہےہیں اوروہ یہ  کہ ہم  نشینی کےنتیجہ میں انتہائی گہرےاثرات مرتب ہوتےہیں ۔اورانسان اس ذریعے سےنہ صرف دوسروں  کےتجربات سےاستفادہ کرتاہےبلکہ  ان کےمشوروں اور راہنمائیوں کےنتیجہ میں آہستہ آہستہ خودبھی ان کےرنگ میں رنگاجاتاہےاورانہی کاایک فردشمارہونےلگتاہے۔

نہج البلاغہ  میں دوستی کےبارےمیں امیرالمؤمنینؑ کےکلام کاجائزہ لیاجائےتوایک دلچسپ بات یہ سامنےآتی ہےکہ دوست کےانتخاب  کےسلسلہ میں مولائےکائناتؑ زیادہ تردوستی  کےلئےلائق وسزوارافرادکاتعارف کروانےکی بجائےان افرادکاتعارف کرواتےہوئےنظرآتےہیں جن سےدوستی نہیں کرناچاہیے۔امیرالمؤمنینؑ کےاس اقدام کی بنیادی وجہ  شایدیہ ہوکہ اگرصرف ایسی صفات پیش کی جائیں جودوست میں ہوناچاہئیں تواس کا لازمی نتیجہ یہی  نکلےگاکہ کبوترباکبوتربازبابازکند ہم جنس باہم جنس پرواز

کےتحت دوستی کادائرہ نہایت  محدودہوجائےگااورہرشخص اپنےسےزیادہ بہتروبرترصفات وعادات کےحامل افرادکی دوستی کی حصول کےچکرمیں پڑارہےگا۔جبکہ اگریہ کہاجائےکہ فلاں فلاں صفات کےحامل افراد سےدوستی  نقصان دہ ہےتواس کےنتیجہ  میں جہاں دوستی کادائرہ  وسیع ہوگا وہاں منفی  صفات کےحامل  افراد کی اصلاح  کاپہلو بھی نکل آئےگا۔کیونکہ منفی صفات  کےحامل افراد نےاگراچھےدوستوں کےحصول کےلئےاپنی  بری عادات وصفات  سےہاتھ نہ اٹھایااور اصلاح کی جانب متوجہ نہ ہوئےتومعاشرہ میں تنہا رہ جائیں گے۔

Views: 41

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم
اگلا مقالہ: حديث يوم