ولایت فقیہ اور قانون کا اجراء
کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی
گزشتہ قسط میں بیان ہوا کہ ولایت فقیہ پر ہمارے پاس تین دلیلیں ہیں۔ ان میں سے پہلی دلیل محض(خالص) عقلی دلیل ہے۔ محض عقلی دلیل سے مراد وہ دلیل ہے جس کے تمام مقدمات عقلی ہیں۔ دلیل پر حکم عقل نے لگایا ہے ، دین کے نقلی منابع سے استفادہ نہیں کیا گیا۔
فہرست مقالہ
دلیل کے مقدمات کی خصوصیات
عقلی دلیل کے مقدمات کی چار خصوصیات ہیں۔ ان خصوصیات کا آپس میں ربط سمجھنا بہت ضروری ہے:
۱۔ کلیت: عقلی دلیل کے مقدمات میں کلیت پائی جاتی ہے۔ یہ مقدمات کسی ایک زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ کسی ایک شخصیت کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ ہر زمانے کے اوپر ان کا اطلاق ہوتا ہے۔
۲۔ ذاتیت: عقلی دلیل کے مقدمات ذاتیت رکھتے ہیں۔ یعنی ان کی ذات تقاضا کرتی ہے کہ ان کو واقع ہونا چاہیے۔ ان کو ثابت کرنے کے لیے کسی اور چیز یا دلیل کی ضرورت نہیں ۔ مثلا زمین کی حرکت کو ثابت کرنے کے لیے آپ کو دلیل لانا پڑے گی، لیکن خود زمین کا وجود ذاتی ہے۔ زمین موجود ہے یا نہیں اس کے لیے آپ کو دلیل لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
۳۔ دوام: تیسری خصوصیت یہ ہے کہ دلیل کے مقدمات دائمی ہیں اور ہر زمانے میں استمرار رکھتے ہیں۔ چاہے وہ عصر نبوت ہو، آئمہ معصومینؑ کا دور ہو یا آج کا غیبت امام کا دور۔
۴۔ ضرورت: یہ امور ضروری ہیں۔ با الفاظ دیگر ایسے امور ہیں جن کو ان کی ذات سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جو چیز دوسری شے سے جدا نہ ہو سکتی ہو اسے ضروری کہتے ہیں۔ مثلا آپ کا یہ کہنا کہ میں موجود ہوں۔ آپ کا وجود آپ کی ذات سے جدا نہیں ہو سکتا، یعنی آپ کا وجود آپ کی ذات کے لیے ضروری ہے۔
جب ہم نے ان مقدمات کا کلی ہونا ثابت کر دیا تو ماننا پڑے گا کہ یہ بات صرف نبوت اور امامت پر رک نہیں جاۓ گی بلکہ کلیت کی وجہ سے عصر نبوت اور عصر امامت کے بعد عصر غیبت کو بھی شامل ہوگی۔ مثلا معاشرے کو نظم کی ضرورت صرف آئمہ معصومینؑ کے دور میں نہیں تھی ، بلکہ آج بھی معاشروں کو نظم کی ضرورت ہے۔ کسی بھی زمانے میں یہ ضرورت ختم نہیں ہو سکتی، یہ ضرورت دائمی ہے۔ یہ دلیل اور اس کے مقدمات صرف نبوت اور امامت کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ یہ دلیل عمومیت رکھتی ہے۔ اس دلیل سے در اصل آپ منصب نبوت و منصب امامت ثابت کرتے ہیں، کیونکہ پہلے نبوت اور امامت کو ثابت کرنا ضروری ہے پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ نبی یا امام کون ہے؟ اس دلیل سے عہدہ ثابت ہوگا پھر صاحب عہدہ ثابت کیا جاۓ گا۔ اس دلیل سے ہم منصب کو ثابت کریں گے صاحب منصب کو نہیں۔ جب نبوت اور امامت ثابت ہو جاۓ گی تو اب سوال ہوگا کہ وہ صاحب نبوت کون ہے؟ اسی طرح سے پہلے ولایت فقیہ کو ثابت کرنا ہوگا پھر سوال پیدا ہوگا کہ اس منصب پر فائز فقیہ کون ہے؟
محض عقلی دلیل کے مقدمات
ہمارے لیے تین امر قابل غور ہیں: نظم، قانون اور اجراء قانون۔
۱۔ نظم
اگر نظم وجود میں نہ آۓ تو کوئی بھی کام درست نہیں ہو سکتا۔ اس کی آپ اپنی زندگی سے ہی ہزاروں مثالیں لا سکتے ہیں۔ حالیہ مسائل میں سے مثال لانا چاہیں تو یہی سیلاب ہے جس کی وجہ سے وطن عزیز میں شدید بحران پیدا ہوا ہے۔ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے یہ بدنظمی وجود میں آئی۔ آپ اگر معلوم کریں تو بہت سے ممالک سے ایک بھاری مقدار میں امداد پاکستانی حکومت کو موصول ہوئی ہے۔ لیکن اس کا کتنے فیصد حصہ سیلاب زدگان کو ملا ہے؟ آدھے سے زیادہ امداد تو غائب ہوگئی۔ یہ امداد حقدار تک کیوں نہیں پہنچی سکی؟کیونکہ نظم نہیں ہے۔ قانون نہیں ہے اور اگر قانون ہے بھی تو اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ یہ بدنظمی ہے۔ اگر نظم ہوتا تو یہ گھرانے پھر سے آباد ہو سکتے تھے۔ جس معاشرے سے نظم ختم ہو جاتا ہے وہاں فساد پیدا ہوتا ہے۔ ابھی اربعین کے ایام ہیں اگر عراقی حکومت کروڑوں زائرین کا مناسب اہتمام نہ کرے تو بہت بڑا جانی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ جیسا کہ ۲۰۱۶ میں حج کے موقع پر منا میں ہوا۔ البتہ بعض شواہد بتاتے ہیں کہ جان بوجھ کر یہ حادثہ کروایا گیا تھا۔ بہرحال وہاں پر کیا ہوا؟ صرف انہوں نے رش کے نظم کو چھیڑا، آگے راستہ بند کر دیا اور پیچھے سے حاجیوں کا پریشر بڑھتا رہا، بیچ میں حاجی مر رہے تھے، لاشوں کی تہیں لگ گئیں۔ وہاں پر کوئی گولی تو نہیں چلائی گئی صرف نظم کو چھیڑا گیا۔ اور اس کے نتیجے میں ہزاروں حاجی شہید ہو گئے۔ پس نظم بہت ضروری ہے۔ نظم کے ضروری ہونے کے لیے ہمیں کسی آیت اور روایت سے دلیل لانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر عقلمند انسان اس ضرورت کو محسوس کرتا ہے۔ یہ عقلی مقدمہ ہے۔ اسلامی معاشرہ نظم کا محتاج ہے یہ بدیہیات اور واضحات میں سے ہے۔
۲۔ قانون
نظم برقرار کرنے کے لیے انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ یہ اتنی بدیہی ترین بات ہے کہ آپ اس کو ہر جگہ پر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا پودا بھی بغیر نظم کے اور قانون بناۓنہیں اگ سکتا۔ پودے کو متناسب ہوا اور پانی دینا ہوگا، اس کی نمود کے لیے یہ قانون بھی بنانا ہوگا کہ اس کو آپ کے علاوہ کوئی نہ چھیڑے۔ اگر یہ قانون نہ بنایا تو یہ پودا بھی فاسد ہو جاۓ گا۔ ایک کامیاب ادارہ وہ ہے جس میں نظم اور قانون حاکم ہو۔ اگر اس ادارے میں کام کرنے والے افراد وقت میں منظم ہو کر نہیں آتے یا ان کے اوپر دیر سے آنے پر کوئی قانون نہیں بنایا جاتا تو یہ ادارہ کبھی نہیں چل سکے گا۔ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ جو سنجیدہ افراد ہوتے ہیں اور کامیاب لوگ وہ اپنی زندگی میں اس بات کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ حتی ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز یہی ہے کہ وہ منظم ہیں اور قانون کا احترام کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بچپن سے ہی قانون کا احترام کرنا سکھایا جاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بڑا ہوتا ہے تو لاشعوری طور پر قانون مند شہری بنتا ہے۔ گھر کا ماحول بھی انہیں دو چیزوں پر موقوف ہے۔ اگرچہ گھر کو بہت زیادہ قانونی شکل نہیں دے سکتے کیونکہ گھر گھر ہے اور سکون کی جگہ ہے ،ادارہ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی وہاں پر ایک حد تک قانون کا ہونا ضروری ہے مثلا رات کے ۱۱ بجے تک سب افراد کا گھر پہنچ جانا۔ اگر یہ قانون نہ ہو تو گھر کے افراد ممکن ہے فاسد ہو جائیں۔ اسی طرح سے زندگی کے دیگر امور میں بھی نظم و قانون بنائیں۔ البتہ سب سے پہلے خود ان پر عمل کریں۔ ایسا کوئی حکم جاری نہ کریں جس آپ خود عمل پیرا نہ ہوتے ہوں۔ یہ بات بھی بدیہیات اور واضحات میں سے ہے۔ اس کے لیے آپ کو نقلی دلیل نہیں لانا پڑی۔ بلکہ عقل نے اس مقدمے کو بھی خود درک کیا ہے اور اس پر حکم بھی جاری کیا ہے۔ قانون کے ذریعے نظم کا پرپا ہونا اور اس کا اجراء کروانا کوئی ایسا امر نہیں ہے جو زمانہ امام کے ساتھ خاص ہو۔ بلکہ ہر دور میں یہ ضرورت موجود ہے۔ معاشرے کو نظم اور قانون کی ضرورت ہے قیامت تک رہے گی۔ حتی جب امام زمانؑ تشریف لائیں گے وہ بھی دین کے ذریعے ہی دنیا میں نظم قائم کریں گے۔ نبی اور امام دین حق لے کر آتا ہے ہدایت کا قانون لے کر آتا ہے۔ قانون کے مقولہ کے ذیل میں یہ بات بھی مسلم ہے کہ سب قانون نہیں بنا سکتے۔ قانون کو لانے والا صرف نبی ہے۔ اور یہ دروازہ اب بند ہو چکا ہے۔ شریعت کے عنوان سے اب کوئی بھی قانون نہیں لا سکتا۔ آئمہ معصومینؑ قانون لانے والے نہیں تھے بلکہ اس کے امین اور محافظ تھے۔ ولی فقیہ کا کام بھی قانون بنانا نہیں ہے۔ اس کا کام صرف الہی قانون کو نافذ کرنا ہے۔ ممکن ہے حکم ثانوی کے طور پر کوئی بھی حاکم کسی حکم اولی میں تغییر لاۓ۔ مثال کے طور پر حکم اولی کچھ اور تھا لیکن حاکم کسی عمومی مصلحت کے تحت اس کو کچھ عرصے کے لیے ممنوع قرار دے ۔ یہ صرف اضطراری صورتوں میں ہوتا ہے۔اس کا نمونہ ہم صدر اسلام میں بھی دیکھتے ہیں۔ امام خمینیؒ نے بھی ایک سال احتجاجی طور پر ایرانی عوام کو حج پر جانے سے منع فرمایا۔ اب حکم اولی تو یہ تھا کہ جس شخص کو استطاعت حاصل ہو جاۓ اس پر حج کرنا واجب ہے جبکہ امام نے حج کرنے سے منع کر دیا تو کیا اس سے حکمِ خدا تبدیل ہو گیا؟ کیا ولی فقیہ نے دین کو معطل کر دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سال ایرانی حاجیوں کے قتل عام کااندیشہ لاحق تھا۔ اس لیے جو استطاعت حج کے لیے درکار ہوتی ہے اس سال مہیا نہ تھی۔ اسی طرح دو شروں میں سے ایک شر کا انتخاب بھی اضطراری صورت میں حکم ثانوی کی حیثیت سے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ حکم اولی اور اصل یہ ہے کہ شر سے اجتناب کیا جاۓ۔ لیکن حکم ثانوی کے طور پر مثلا اتنی شراب پی جا سکتی ہے جس سے جان بچ جاۓ۔لیکن حکم ثانوی کا بہانہ بنا کر ہر حکم اولی کو ترک کر دینے کی اجازت نہیں ہے۔
پاکستان میں غیر الہی قانون
کسی بھی اسلامی ملک میں حکم اولی یہ ہے کہ اس ملک میں الہی قانون نافذ کیا جاۓ۔ الہی حکومت تشکیل دی جاۓ اور اس کا حاکم بھی اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہو۔ حکم اولی کے طور پر یہ صورت بنتی ہے۔ لیکن اگر تشخیص دی جاۓ کہ ہم اضطراری صورت میں ہیں تو حکم ثانوی کے طور پر غیر الہی قانون اور غیر الہی حاکم کو بھی ایک وقت تک قبول کیا جا سکتا ہے جب تک اضطراری حالت ختم نہ ہو جاۓ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں حکم ثانوی کا مورد ہے بھی یا نہیں؟ یہ کون ثابت کرے گا کہ پاکستان میں مومنین و مسلمین حکم اولی کو ترک کر سکتے ہیں اور حکم ثانوی پر عمل کریں؟ کیا واقعی پاکستانی امت اضطرار کی حالت میں ہے۔ کیونکہ ہم نے بیان کیا کہ حکم ثانوی اضطراری کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کی واقعی جان کو خطرہ ہے اور پیاس سے مرنے کا خطرہ ہے تو وہ اس مقدار میں شراب پی سکتا ہے جس سے اس کی جان بچ جاۓ۔ یہاں پر پیٹ بھر کر بھی شراب نہیں پی جا سکتی۔ اور جب مجبوری ختم ہو جاۓ تو فورا شراب پینا ترک کرنا ہوگا۔ کیا یہی صورت پاکستان میں بھی ہے؟ کیا حکم اولی پر عمل کرنا پاکستانیوں کے لیے قتل عام کے مترادف ہے؟ اور اگر غیر الہی نظام میں شریک نہیں ہوتے تو کیا ان کی جان کو خطرہ ہے؟ مثال کے طور پر ابھی پاکستان میں ایک بل پاس ہوا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے بعد مرد کی مرد سے شادی کو بھی قانونی قرار دیا جا سکے گا۔ یہ سلسلہ یہیں پر رک تو نہیں جانا۔ بعد میں یہ لوگ جانور سے شادی، اشیاء مادی سے شادی کرنے کو بھی قانونی کر دیں گے۔ کیونکہ ہمارے اکثر ادارے مغربی نظاموں کے تابع ہیں۔ آئین میں کچھ اور لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی حاکمیت ہوگی غیر اسلامی قانون کو پاس نہیں کیا جاۓ گا لیکن عملی طور پر یہ کام کرتے ہیں۔ کیا اضطرار کی صورت میں یہ بل پاس کروانا بھی جائز ہے؟ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اضطراری صورت نہیں ہے۔ ہم سب مسلمان ہیں اور خود کو شریعت محمدیﷺ کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ ہمیں عدالتوں میں برطانوی نظام کے مطابق نہیں بلکہ رسول اللہﷺ کی روش پر انصاف چاہیے۔ سیاسی، تعلیمی اور عسکری نظام دینی نظام کے مطابق چاہئیں نا کہ مغربی نظام کے مطابق۔
فاسق شخص کی حاکمیت کا جواز
اصل تو یہ ہے کہ کسی فاسق فاجر شخص کی حکومت قبول نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اضطراری صورت میں اس کو قبول کر لیا جاۓ۔ سوال یہ ہے کہ اضطرار کی حد کیا ہے؟ کیا ۷۰ سالوں سے پاکستانی قوم اضطرار کی حالت میں ہے۔ مثلا ایک شخص شراب کا عادی ہو جاتا ہے اور جب اس سے پوچھا جاۓ کہ شراب کیوں پیتے ہو تو وہ کہے کہ مجبوری ہے۔ اضطراری صورت ہے اگر شراب نہ پیوں تو مر جاؤں گا۔ کیا اس کی بات مانی جاۓ گی؟ جی نہیں! ایک قوم کب تک خود کو اضطراری حالت میں رکھ سکتی ہے؟ یہ غیر اسلامی بل انہیں فاسقوں کے ہاتھوں پاس ہوا ہے۔ پورا پاکستان جانتا ہے یہ لوگ کیسے عدل و انصاف کی حکومت قائم کر سکتے ہیں؟ انہوں نے یہ قانون بنا کر خاندانی نظام پر حملہ کیا ہے۔ جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ مغرب کے انحطاط کی ایک بہت بڑی وجہ خاندانی نظام کی تباہی تھی۔ حلال نسل بہت ضروری ہے۔ ابھی جبکہ مغربی معاشروں کے مفکرین اس مسئلے پر حساسیت دکھا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آئندہ آنے والی نسلیں حلال زادہ نہ ہونگی۔ گھرانہ موجود نہ ہوگا، افراد کو سکون، گھرانے کی طرف سے تقویت، محبت، ہمدردی اور سپورٹ حاصل نہ ہوگی۔ یہ نسل کیسی ہوگی پھر؟ یہ نسل اپنا اضطراب (Stress) کیسے ختم کرے گی؟ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشروں میں بہت سے مسائل اس نعمت کی وجہ سے حل ہو جاتے ہیں جو گھرانے کی صورت میں ہمیں حاصل ہے۔ خاندان تقویت کا باعث بنتے ہیں، سکون اور راحت کا باعث بنتے ہیں۔ خاندانی نظام کو اس بل کے ذریعے برباد کیا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے بھی اسی آفت کا شکار ہونگے جس میں مغربی معاشرہ مبتلا ہوا۔ پہلے انہوں نے معاشروں سے دین کو ختم کیا جب دیکھا کہ دین کے بغیر معاشرہ نہیں چل سکتا اب دوبارہ دین کو واپس لا رہے ہیں۔ وہ خاندانی نظام کو ختم کرنے کے بعد دوبارہ خاندان کی طرف واپس آنا چاہتے ہیں اور ابھی ہم وہ غلطی ابھی کرنے جا رہے ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے مغرب کی قباحتیں تو لے لیتے ہیں لیکن ان کی اچھی بات میں پیروی نہیں کرتے۔ وہ لوگ قانون کی پیروی کرتے ہیں ہمارا شہری قانون کو ذرہ بھر اہمیت نہیں دیتا، وہ لوگ صفائی کا خیال رکھتے یہں لیکن ہمارے یہاں گند ہی گند ہے۔ انہوں ںے محنت و کوشش کو اپنا شعار قرار دیا اور ترقی حاصل کی جبکہ ہمارے معاشرے میں یہ شخص اپنی ذمہ داری پیسے لے کر بھی پوری نہیں کرتا۔
۳۔ اجراء
شریعت الہی جسے ہم قانون کہہ رہے ہیں صرف ماننے، پڑھنے پڑھانے کے لیے نہیں ہے۔ قانون ہمیشہ اجراء کے لیے ہوتا ہے۔ یہ بدیہی ترین بات ہے جس کے لیے کسی دلیل لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ معاشرے کو نظم کی ضرورت، قانون اور اس کے اجراء کی ضرورت زمانہ امامت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ آج بھی یہ ضرورت موجود ہے۔ رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ نے جو دین بیان کیا وہ قیامت تک کے لیے ہے۔ دین اور اس کے قوانین قیامت تک کے بشر کے لیے نازل ہوۓ۔ اس لیے ان قوانین الہیہ کو صرف جان لینا یا پڑھنا کافی نہیں ہے۔ اس کے اجراء کی بات کی جانی چاہیے۔ یہاں آ کر بعض افراد کہہ دیتے ہیں کہ دین اور اس کے احکام کو مان لینا کافی ہے، اس کا اجراء کرنا ہمارے اوپر ضروری نہیں ہے اور اگر ان سے منوا لیا جاۓ کہ قوانین جاری ہونے چاہئیں تو اگلے مرحلے میں یہ کہتے ہیں کہ ہم اجراء نہیں کر سکتے۔ حالانکہ یہ تمام امور بدیہیات میں سے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر معاشرے میں نظم وجود میں نہ آۓ تو کمال مادی حاصل ہو سکتا ہے اور نا کمال معنوی۔ انسان کو کمال صرف قانون کے اجراء سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے کسی ایسے قانون کی ضرورت ہے جو ناقص نہ ہو، کیونکہ اگر ناقص ہوا اور اس کا اجراء کر دیا گیا تو ۵۰ سال بعد پتہ چلے گا کہ کتنا بڑا نقصان ہوا ہے۔ اس خسارے کا جواب دہ اس وقت کون ہوگا؟ پس قانون ایسی ذات بناۓ جو خطا نہ کرے اور وہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔
مکتب تشیع کا ماننا ہے کہ جب تک انبیاء الہی اور آئمہ معصومینؑ موجود تھے الہی قانون کے اجراء کی ذمہ داری ان پر تھی۔ آج کے دور میں امام مہدیؑ زندہ ہیں اور حاضر بھی ہیں لیکن ہم پر ظاہر نہیں ہیں۔ لیکن معاشروں کو ظاہر رہبر اور قائد کی ضرورت ہے جو ان پر الہی قانون نافذ کرے۔ جو ضرورت آئمہ معصومینؑ کے ظہور کے دور میں موجود تھی وہ ضرورت تو آج بھی موجود ہے۔ نبوت اور امامت کا سلسلہ ختم ہوا ہے لیکن معاشروں پر رہبریت کی ضرورت آج بھی موجود ہے۔ لذا آج نائب امام وہی کام کرے گا جو امام کرتا ہے۔ اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ بعض پہلو صرف امام معصوم کے ساتھ خاص ہیں۔ یہ خصوصیات کسی غیر معصوم میں منتقل نہیں ہو سکتیں۔ مثلا معجزہ دکھانا، ولایت تکوینی، خصوصی طور پر معصوم ہونا وغیرہ یہ سب پہلو امام معصوم کے ساتھ خاص ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ پہلو ہیں جو غیر معصوم میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ مثلا نمازجماعت کی امامت کرنا، جمعہ قائم کروانا، عیدین کی نماز پڑھانا، نماز میت کی امامت کرنا، دینی احکام بیان کرنا، مومنین میں قضاوت کرنا اور معاشرے کی مدیریت کرنا۔ اسلامی معاشروں کی مدیریت کرنا قابل انتقال ہے۔ کیونکہ اگر یہ سلسلہ جاری نہ ہو تو دین اور قوانین الہی معطل قرار پائیں گے جو حکمت الہی کے برخلاف ہے۔
حکومت کی ضرورت اور امام کی ذمہ داری
قانون میں دو چیزیں مد نظر رکھنا ضروری ہیں۔
۱۔ قانون اللہ تعالی بناۓ۔
۲۔ اس کو جاری کرنے والا بھی اللہ تعالی کی طرف سے منصوب ہو۔
جب ہم ان دو امور کو مان لیتے ہیں تو پھر قانون کو جاری کرنے کی نوبت آتی ہے۔ جب بھی نبی یا امام آتا ہے قانون الہی کی تبلیغ کر کے اسے معاشرے میں جاری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ بات بدیہیات میں سے ہے کہ قانون کو لاگو کرنے کے لیے آپ کو قدرت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر قدرت نہ ہو تو آپ قانون بھی جاری نہیں کر سکتے۔ ہاں نصیحت اور وعظ کی حد تک بات اگلوں تک پہنچ جاۓ گی لیکن قانون باتوں سے نافذ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے آپ کے پاس اجرائی طاقت کا ہونا ضروری ہے۔ اور اسی کو حکومت کہتے ہیں۔ اس قدرت کا نام حکومت اسلامی ہے اور جو قدرت سے قانون کو جاری کرتا ہے اسے حاکم اسلامی کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ایک جہت سے کام بہت آسان ہو جاتا ہے کہ ان کے پاس قرآن و سنت موجود ہے اور وہی ان کا قانون ہے۔ ان کو جدید قانون بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب کس چیز کی ضرورت ہے؟ صرف حکومت اور حاکم کی ضرورت باقی ہے۔ ایسا حاکم جو اللہ تعالی کی طرف سے ہو۔ عہد امامت میں یہ ذمہ داری امام کی ہے کہ وہ دین الہی کی تبیین کرے اور اس کو نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ امام علیؑ نے پانچ سال حکومت کی اور الہی قانون کو جاری کیا۔ جتنی مقدار میں بھی ممکن تھا انہوں نے اجراء کی کوشش کی۔ ان کے بعد میں آنے والے آئمہ کی بھی کوشش تھی کہ دین الہی کو معاشروں میں نافذ کریں لیکن عملی طور پر ان کو دشمنان دین نے ایسا نہیں کرنے دیا۔ دشمن مانع بنے اور یہی وجہ ہے کہ بقیہ آئمہ معصومینؑ کو اسی راہ میں شہید کر دیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تک عہد امامت تھا تو امام اس ذمہ داری کو پورا کر رہے تھے تو آج کے دور میں غیبت میں معاشرے کو نظم، قانون اور اس کے اجراء کرنے والے کی ضرورت نہیں رہی؟ اس کے جواب میں سب ہی مانتے ہیں کہ ضرورت تو اب بھی باقی ہے۔ اگر ضرورت باقی ہے تو کیا کریں؟ آیا جس طرح سے نظام چل رہا ہے اسی طرح سے چلنے دیں یا دین نے ہمارا کوئی یہاں پر وظیفہ مقرر فرمایا ہے؟ اگر وظیفہ معین فرمایا ہے تو وہ کیا ہے؟
سیکولر سوچ
زمانہ غیبت میں بھی دین، شریعت اور ولایت کی اسی طرح سے ضرورت موجود ہے جس طرح سے زمانہ امامت میں ضرورت موجود تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت امام لوگوں کے درمیان موجود تھے اور اب پردہ غیبت میں ہیں۔ معاشروں کو آج بھی اسلامی قانون کی اور اس کے اجراء کی ضرورت ہے۔ ہمیں دین کو نافذ کرنے کے لیے حکومت کی ضرورت ہے، حاکم شرع کی ضرورت ہے۔ ایسا حاکم جس پر اللہ تعالی راضی ہو۔ معاشروں کو بغیر حاکم کے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ جس طرح رسول اللہﷺ امت کو بغیر ہادی و امام کے نہیں چھوڑ کر گئے اسی طرح امام مہدیؑ بھی غیبت میں جانے سے پہلے امت کو ان کے حال پر چھوڑ کر نہیں گئے ہیں۔ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے کبھی بھی ایسا کوئی حکم نہیں دیا کہ زمانہ غیبت میں جو تمہارا دل کرے اختیار کر لینا، جس طرز ِحکومت کو انتخاب کرنا چاہو انتخاب کر لینا، ایسا کسی امام نے نہیں فرمایا کہ انفرادی زندگی میں تو دیندار اور اجتماعی طور پر جس نظام کا بھی حصہ بنتے ہو تمہیں اختیار ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ یہی سیکولر سوچ ہے۔ سیکولرزم کا مطلب مذہب کی دشمنی کرنا نہیں ہوتا۔ بہت سے سیکولر آپ دیکھیں گے جو انفرادی زندگی میں کٹر دیندار ہیں۔ اور اب تو یہ سوچ حوزہ جات میں بھی پھیل رہی ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر دنیوی امور کو نہیں چلانا چاہیے۔ قم اور نجف کے علماء میں یہ تفکر آج بھی موجود ہے اور وہ شدت سے اس بات کے قائل ہیں کہ امام حسینؑ کا قیام اور تمام آئمہ معصومینؑ کی زندگی سیکولر تھی۔ ان کے بقول آئمہ معصومینؑ لوگوں کی انفرادی زندگی میں تقوی و زہد لانے کی کوشش کرتے تھے، ان کے عقائد ٹھیک کرواتے اور ان کو فقہی احکام بیان کیا کرتے تھے اور بس۔آئمہ معصومینؑ کو لوگوں پر حکومت کرنے کوئی ضرورت نہ تھی اور نا انہیں حکومت چاہیے تھی۔ یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ان کو نعوذباللہ ذاتی مفادات کے لیے حکومت نہیں چاہیے تھی، لیکن حق کے قیام کے لیے بہرحال ان کو حکومت کی ضرورت تھی۔ اور یہ ان کی ضرورت نہیں بلکہ وظیفہ تھا کہ لوگوں کی امامت و رہبری کریں۔ سیکولر سوچ کے مطابق دین کو انفرادی زندگی کے دائرے میں رکھنا چاہیے جو خلوتوں میں جس دین کا پیرو ہو کر اعمال بجالانا چاہتا ہے ٹھیک ہے۔ صرف اسے اپنے دین کو اجتماعی امور میں لانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اس لیے آپ دیکھیں گے مغربی معاشرے ایسے مسلمانوں سے بہت راضی ہیں جو دین کو سیاسی اور اجتماعی دنیا سے الگ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ دن کے کچھ اوقات اگر انفرادی طور پر اپنے دین کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں تو اس کا ہم سے کیا تعلق؟ ہاں اگر ان کا کوئی دینی نظریہ ہمارے سماجی نظام کی نفی کرتا ہے تو ایسے نظریہ کو بیان کرنے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔
ولایت فقیہ اور قانون کا اجراء
ہم ولایت فقیہ کو اس لیے مانتے ہیں کہ یہ امامت کا ذیلی نظام ہے۔ نظام امامت صرف یہ نہیں تھا کہ امام آۓ بس لوگوں میں دین کو تبیین کرے لیکن اس کے نفاذ کی کوشش نہ کرے۔ جس طرح امام دین تبیین بھی کرتا ہے اور اس کو نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے ولایت فقیہ بھی صرف دینے کا نام نہیں بلکہ اس کے اجراء کا نام ہے۔ دین کے قوانین کو جاری کرنے کی جو ضرورت زمانہ امامت میں تھی وہ آج بھی موجود ہے۔ ہمارے آئمہ معصومینؑ قوانین الہیہ کو صرف بیان کر دینے پر اکتفاء نہیں فرماتے تھے بلکہ انہوں نےدین کو جاری کیا۔ ولید بن عقبہ نے جب شراب پی تو امام نے اس پر حد جاری فرمائی۔ امام زمانؑ بھی بے فکر ہو کر صرف دین کو بیان نہیں کریں گے بلکہ پوری دنیا پر اس کو جاری کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ یہ نہیں کر سکتے کہ امت کو ہزار سال کے لیے بغیر قانون اور مجری کے چھوڑ کر چلے جائیں اور دشمنان اسلام آئیں معاشروں میں باطل شیطانی قوانین نافذ کر دیں۔ امام خمینیؒ کا کمال یہ تھا کہ انہوں نےآ کر اس تفکر کو توڑا اور فرمایا کہ دین کے قوانین کا اجراء ضروری ہے، علماء کی ذمہ داری ہے کہ الہی قوانین کو جاری کرنے میں جو رکاوٹیں موجود ہیں ان کو ختم کریں اور دین الہی کو جاری کریں۔ اس سے پہلے ہمارے یہاں تفکر یہ تھا کہ دین کو صرف پڑھا اور پڑھایا جاۓ، اجراء کی ضرورت نہیں ہے۔
تدبیر الہی در عصر غیبت
تدبیر الہی یہ ہے کہ دین معاشروں میں جاری ہو۔ عصر غیبت میں مسلمان معاشرے الہی قوانین کے بغیر نہیں چلنے چاہیں۔ اب جبکہ امام غائب ہیں تو ایسا نہیں کہ ہم فاسق فاجر افراد کے گرد جمع ہو جائیں اور اس کی حکومت میں زندگی گزاریں۔ بلکہ ہم آئمہ کے نائبین کی حکومت میں خود کو قرار دیں ۔ خود انبیاء و آئمہ معصومینؑ کو بھی ان خصوصیات کی وجہ سے حکومت ملی۔ اور انہیں خصوصیات کی وجہ سے حکومت ولی فقیہ کا حق ہے۔ لیکن ولی فقیہ میں یہ خصوصیات ایک خاص حد تک ہیں اور انبیاء و آئمہ میں اتم و اکمل درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں:
تین خصوصیات:
۱۔الہی قانون کی شناخت۔ اگر کوئی ایسا شخص ہے جو الہی قوانین کو جانتا ہی نہیں وہ اجراء کیسے کرے گا۔ با الفاظ دیگر ولی فقیہ کا جامع الشرائط مجتہد ہونا ضروری ہے۔
۲۔ تشکیل حکومت کی استعداد ۔ فقیہ جو حکومت کو تشکیل دے سکے ورنہ دین کا اجراء نہیں کر سکے گا۔ انفرادی سطح اور معاشرے کے اوپر اجتماعی طور پر دینی قوانین کو جاری کرے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت تشکیل دے۔ اگر اس کے پاس حکومت نہیں ہے تو اس کے اسباب جمع کرے۔ یہ کہہ دینا کہ ہم الہی قوانین کو کیسے جاری کریں ہمارے پاس تو طاقت ہی نہیں تو اصلی مسئلہ تو یہی ہے جو حل کرنا ہے۔ اگر حکومت آپ کے پاس نہیں ہے تو لینے کی کوشش کریں۔ امام خمینیؒ نے نجف اشرف کی سرزمین پر جب ولایت فقیہ پر دروس دینا شروع کئے تو بہت قلیل طلاب ان کے درس میں شرکت کرتے تھے، ایران سے ان کو ملک بدر کر کے صدام جیسے ڈکٹیٹر حاکم کی حکومت میں بھیج دیا گیا ۔ ان سخت حالات میں طلاب امام خمینیؒ کو ہاتھ ملانے سے بھی کتراتے تھے۔ اس وقت ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے بھی شاید پانچ یا سات افراد ہوتے۔ لیکن انہوں نے یہ دروس دیے اور بیداری کی تحریک چلائی۔ امام فرمایا کرتے تھے کہ آپ ان موضوعات پر بحث کرنا شروع کریں آہستہ آہستہ حکومت اسلامی تشکیل بھی ہو جاۓ گی۔ اچانک حکومت اسلامی مفت میں تو نہیں مل جانی ۔ اس کے لیے زحمت اور سالوں کی محنت درکار ہے۔ اور ظاہر ہے اس کے لیے قربانی بھی دینا ہوگی۔ کم از کم اپنے گھرانے کے افراد میں، دوستوں کی محفل میں یہ ابحاث چھیڑی جانی چاہئیں۔اور دوسرا قابل غور نکتہ یہ کہ فقیہ پر اس لیے بھی حکومت کی تشکیل ضروری ہے کہ بغیر قوت کے قانون کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ صرف تبلیغات و نصیحتوں سے تو پورا معاشرہ مومن نہیں بن سکتا۔ اگر والد سختی نہ کرے تو گھر کے افراد بھی صرف نصیحت سے نہیں سدھرتے کجایکہ پورا معاشرہ ہم صرف تبلیغات کے سہارے ہدایت کی طرف لے جائیں۔فقیہ کا ہدف خود حکومت کا حصول نہیں ہوتا بلکہ الہی قوانین کا اجراء ہدف ہے۔ اگر کوئی فقیہ حکومت تشکیل نہیں دے پاتا تو ولی فقیہ بھی نہ ہوگا۔ ولی فقیہ مدیریت کے معنی میں ہے فتوی دینے اور امور حسبیہ میں ولایت کے معنی میں نہیں ہے۔ اس لیے یہ جو کہا جاتا ہے کہ سب فقہاء ہی ولی فقیہ ہیں تو وہ فتوی دینے کے معنی میں ولی فقیہ ہیں ۔ جبکہ ہم اس معنی کو ولایت فقیہ نہیں قرار دے رہے۔
ممکن ہے کسی کے ذہن میں شبہہ ایجاد ہو کہ پھر تو اکثر آئمہ معصومینؑ بھی حکومت تشکیل نہیں دے سکے۔ کیا وہ بھی امام نہیں ہیں؟ اس کا جواب منفی ہے۔ہماری بحث نیابت میں چل رہی ہے اصل امامت میں یہ نہیں دیکھا جاۓ گا کیونکہ ابھی اضطرار کا زمانہ ہے اور معاشرے کی مدیریت کی ذمہ داری نائب کے ذمہ ہے۔ نیابت میں امور کی مدیریت کرنے والے کی تمام خصوصیات کو دیکھنا ہوگا ورنہ اس کو ولایت حاصل نہیں ہوگی۔ جس فقیہ کی استعداد اور صلاحیت آشکار ہو گئی اور وہ حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو گیا وہ ان معیاروں کی بنا پر ولی فقیہ قرار پاۓ گا۔ جبکہ اصلِ امامت میں تو شخص معین ہوتا ہے۔ نیابت میں شخص معین نہیں کیا گیا بلکہ معیاروں پر عملی طور پر اترنے والی شخصیت ولی فقیہ قرار پاتی ہے۔
۳۔ اسلام کے دستورات کو جاری کرتے ہوۓ مکمل امانت داری اور عدل سے کام لینے والا۔ الہی قانون پہلے اپنی ذات ،اہل و عیال پر اور بعد میں معاشرے میں لاگو کرے۔ایسا نہ ہوکہ کبھی شدید رغبت کی صورت میں تو دستورات کا بہت خیال رکھے لیکن جب کبھی ضعف ایمانی کا شکار ہو تو حدود الہی کا ہی خیال نہ کھے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مثلا انسان اعتکاف سے اٹھ کر آیا ہے تو ٹی وی پر اشتہار دیکھ کر فورا غصہ ہو جاتا ہے اور دوسروں کو بھی ایسی تصاویر دیکھنے پر نصیحت کرنے لگتا ہے لیکن کچھ دن پتہ چلتا ہے کہ موصوف کی نماز صبح ہی قضا ہو گئی ہے۔ خود کو دوسروں سے جدا نہ سمجھے۔ انسانی حقوق اور دینداری کی رعایت کرے۔ ایران میں پہلے دو کام تو ہو گئے، انقلاب کامیاب ہو گیا، با استعداد فقیہ کی حکومت بھی آگئی لیکن تیسرے مرحلے میں آ کر ایران ابھی پھنسا ہوا ہے۔ اجراء کا مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے بھی جب حکومت سنبھالی تو الہی قوانین کو جاری کرتے ہوۓ ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ تو الہی قانون سے ایک انچ پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہیں تو ان کو سخت لگااور امام سے دشمنی پر اتر آۓ۔ امیرالمومنینؑ نے خلیفہ ثانی کی بدعات کو ختم کرنا چاہا تو کوفہ میں فتنہ کا ڈر لاحق ہو گیا۔ اگر امیرالمومنینؑ وہاں اصرار کرتے تو کوفہ ہاتھ سے نکل جاتا۔ معلوم ہوا الہی قوانین کا اجراء کا مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے۔ خود احکام الہی بھی رسول اللہﷺ پر تدریجا نازل ہوۓ، حج کا حکم ۱۰ہجری کو آیا۔ معاشروں کے اندر قوانین کے اجراء کے لیے زمینہ سازی کرنا ضروری ہوتی ہے۔ پہلے گنجائش پیدا کی جاتی ہے اور جب قدم جم جاتے ہیں تو اقدام کیا جاتا ہے۔ ایران میں اس وقت یہی ہو رہا ہے اندرونی اور بیرونی طور پر ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے یہی حجاب کا مسئلہ جب انہوں نے اس پر عملدرآمد کروانے کی کوشش کی ہے تو پوری دنیا کا میڈیا مخالفت پر اتر آیا۔ اور اس بنا پر ملک پر اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں۔[1] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۵۱تا۱۵۴۔
منابع:
↑1 | جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۵۱تا۱۵۴۔ |
---|