loading

(تحفۃ الملوک فی السیر والسلوک ،سید بحر العلومؓ)
مقدمہِ کتاب سیر و سلوک

استاد: آیت اللہ حسن رمضانی حفظہ اللہ
تحریر: سید محمد حسن رضوی
02/04/2025

انسان           اس دنیا میں اس لیے آیا ہے تاکہ عروج حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ نے خلق کیا ہے تاکہ اس نہرِ دنیا کو عبور کرے۔ انسان کا مقامِ ربوبیتِ حق سے ہبوط کرنا اور دور و فراق ہونا عروج کا مقدمہ ہے۔ اگر نیچے نہ آتے تو بلندی کی طرف پرواز نہ کرتے۔ اگر ہم جنت میں ہی ہوتے تو کوئی کمال نہیں تھا بلکہ نشاتِ دنیا میں ہبوط کرنا اور اترنا تاکہ یہاں سے بلندی کی طرف جائیں تو یہ کمال ہے۔ ہم اللہ سبحانہ کے خزائن سے نازل ہوئے اور یہاں سے صعود کرنا ہے۔ سورہ حجر آیت ۲۱ میں ارشاد ہوتا ہے:وَإِنْ مِنْ شَيْ‏ءٍ إِلاَّ عِنْدَنا خَزائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ۔؛ اورکوئی شیء نہیں ہے مگر اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم کچھ اس سے کچھ نازل نہیں کرتے مگر مقدارِ معلوم کے مطابق۔  [1]حجر: ۲۱۔

معراجِ ترکیبی و تحلیلی:

          انسان مقامِ حق تعالیٰ سے مقامِ عقل پر ، وہاں سے ملکوت ، وہاں ناسوت میں آیا، پھر جمادات، نباتات و حیوانات کا سفر طے کر کے انسان بنا ۔ انسان کا ہبوط مقدمہِ عروج و معراج ہے۔ اگر ہبوط مقدمہ نہ بنے عروج کا تو پھر لغو و عبث زندگی ہو گی۔ یہ معراج ترکیبی ہے اور چونکہ ترکیبی ہے اس لیے معراجِ تحلیل ہے۔ مع تحلیل سے مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف جانا کہ تمام وابستگی اور تعلقات کو اپنے سے جدا کر دینا ہے۔ اس جدائی اور وابستگی کو ترک کرنا تبتُّل کہلاتا ہے۔ مقامِ تبتُّل تا فناء یا مقامِ فناء حتی لقاءِ الہٰی و ملاقاتِ الہٰی تک پہنچ جائے۔ اس کو معراجِ تحلیل کہتے ہیں۔ یعنی انسان مرگ تک مر جائے۔ مرگ سے یہاں مراد مرگِ اختیاری ہے نہ کہ مرگِ طبیعی نہیں۔انسان اپنے ارادہ و اختیار اور ریاضت و ہمت سے مرگِ اختیاری تک پہنچ جاتا ہے اور تمام ظلمتوں سے اپنا تعلق توڑ دیتا ہے۔ معنی مرگ یہ ہے کہ انسان کو تمام ظلمتوں سے تعلق اور وابستگی توڑ دینا ہے۔          خروج از ظلمات الی النور کو عدم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ معاد عود اور پلٹنا ہے۔ البتہ عام طریقے سے پلٹنا نہیں ہے بلکہ معادِ قرآنی اس طرح سے بیان ہوئی ہے: {إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون‏}.([2])

          جو یہاں پایا جاتا ہے معاد وہاں سے صورت اختیار کرتی ہے۔ بشر یعنی ایک پوست ، ایک جلد، ایک قشر ۔ مغز اور محتوی یا بیج کے مقابلے میں جلد ایک قشر ہے۔ بعض قشر پر ہی زندگی بسر کرتے رہے جاتے ہیں اور بعض قشر کے پیچھے لُب تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جنہیں لبیب کہا جاتا ہے۔ ایسے اولو الالباب کو انسان کہا جاتا ہے۔ یہ معاد اور عَود (پلٹنا) مدنظر ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ انسان قیامت کا انتظار کرتا رہے۔ عرفاء کی نظر میں ہر ہبوط مقدمہِ معراج ہے۔ عرفاء لحظہ بہ لحظہ اللہ سبحانہ سے ملاقات کرتے ہیں جبکہ عبکبوت ہے جو مکھی کا شکار کر کے کئی دن حفاظت کرتی ہے اور اس کو کھأتی ہے۔ بعض عرفاء کہتے ہیں کہ سال میں دو عیدیں کرنا عوام کا کام ہے جبکہ عرفاء ہر لحظہ جانِ صاف جانِ پاک کے پاس ہر وقت بھاگم بھاگ جاتے ہیں ۔ صوفی سے ایک مراد منحرف صوفی ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں صوفی سے مراد پاک و صاف سالکِ الہٰی ہیں جن کی نظر میں سونا و پانی ہر دو ایک قیمت رکھتے ہیں اور صفاءِ قلبی کے ذریعے وصالِ حق تک پہنچتے ہیں۔ ان پاک صوفیہ کی نظر میں ہر دن روزِ عید اور روزِ جمعہ ہے، ہر رات شبِ قدر ہے اور ہر ماہ ماہِ بدر چودہویں کا سال ہے اور ہر سال ان کے لیے بہار ہے اور تمام عمر ان کے لیے وصال ہے۔ یہ ہمارا مقصد و مطلب ہے۔ لہٰذا عرفاء معراجِ تحلیلی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔

معراجِ عود:

          جب سالک مقامِ فناء تک پہنچ جائے اور وہاں سے پھر خلق میں واپس پلٹے تو اسے امام کہتے ہیں تاکہ وہ حق تعالیٰ سے ملاقات اور اس تک رسائی کے بعد اب خلقِ خدا کا ہاتھ تھامے۔ اسے معراجِ عود کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کی امامت اسی نوعیت کی تھی۔ انہوں نے تمام امتحانات کو عبور کیا اور معراجِ ترکیبی و تحلیلی کے بعد معراجِ عود کو پایا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :{ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً }.([3])کہ میں نے تجھے امام بنایا۔ اسے مقامِ بقاء بعد الفناء یا معراجِ عود کہتے ہیں۔

رسالہِ سیر و سلوک:

          رسالہِ سیر و سلوک جناب بحر العلومؓ کی طرف منسوب ہے۔ اس مسئلہ میں بعض نے اختلاف کیا ہے کہ یہ رسالہ ان کا نہیں ہے جبکہ بعض محققین یقین اور مکمل وثوق سے قائل ہیں کہ یہ رسالہ سید بحر العلومؒ ہی کا نوشتہ ہے۔ تین افراد کو علماء کُمّل میں شمار کرتے ہیں: سید ابن طاووس، ابن فہد حلی اور سید بحر العلوم۔ بعض قائل ہیں کہ چونکہ یہ صوفیہ کے مذاق پر لکھا گیا ہے اس لیے سید بحر العلوم کا نوشتہ نہیں ہو سکتا ۔ اس کے مقابلے میں بعض قطعی اور یقینی طور پر کہتے ہیں کہ یہ سید بحر العلوم کا نوشتہ ہے۔ سید حسین طہرانی بیان کرتے ہیں کہ سید علی قاضی طباطبائیؒ بیان کرتے تھے کہ ہم یہ اجازت نہیں دیتے کہ سید بحر العلوم نے جو اعمال اور معارف بیان کیے ہیں وہ ہر کسی کو بیان کیے جائیں۔

          سید بحر العلوم اصالتاً ایرانی تھے اگرچے نجف یا عراق میں متولد ہوئے اور عرب و فارسی زبان پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ اس لیے یہ کہنا کہ یہ فارسی میں نوشتہ لکھا گیا اور سید بحر العلوم فارسی نہیں جانتے تھے درست بات نہیں ہے۔ یہ رسالہ چونکہ عقل و شرع و عرف کے ساتھ کاملاً سازگار ہے اس لیے ہمارا اس پر اعتماد ہونا چاہیے اور اس کے ذریعے سیر و سلوک کے لیے قدم بڑھانا چاہیے۔ فرق نہیں پڑتا یہ نسبت درست ہے یا نہیں!! یا یہ سید ابن طاووس یا ابن فہد یا سید بحر العلوم رحمہم اللہ تعالیٰ کی تحریر ہے یا نہیں ہے، تمام صورتوں میں اس کے مطالب قرآن ، روایاتِ اہل بیتؑ ، عقل اور عرفان کے عین مطابق ہے اس لیے ہمیں اس رسالہ کے مطالب کو اختیار کرنا چاہیے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بھی اس کتاب پر اعتماد کرتے تھے اور سید بحر العلومؒ کی تحریر اس کو قرار دیتے تھے۔

انسان مثل زغال و کوئلہ:

          انسان سرد بھی گرم بھی، انسان ظلمت کا شکار بھی ہو سکتا ہے اور نورانی بھی۔ اگر انسان نور و حرارت کے قریب مسلسل رہے تو اس کا قلب آہستہ آہستہ گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور نورانی کو لینا شروع کر دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح کوئلہ اگر مسلسل آگ کے پاس پڑا رہے تو اس کا سرد پن گرمائش اور اس کی سیاہی نورانیت اور آگ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس میں استمرار اور تسلسل چاہیے۔ انسان اگر اللہ سبحانہ کے ذکر اور اس کے تقرب کو حاصل کرنے کی مسلسل کوشش کرتا رہے تو اس کے قلب میں نورانیت کا ایک نقطہ ایجاد ہو جاتا ہے جوکہ تسلسل اور استمرار کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک ایک وقت آتا ہے کہ قلب کی ٹھنڈک و سرد پن گرمائش اور تحرک و حرارت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اس کی ظلمتیں ختم ہو جاتیں اور نورانیت اپنے قوت اور شدت سے اسے گھیر لیتی ہے یہاں تک جیسے کوئلہ پھر دیگر جیزوں کو جلانے لگتا ہے اسی طرح یہ نورانیت کو منتقل کرنے اور اپنی حرارت سے متاثر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب نورانیت اس کے قلب کو مکمل گھیر لے تو اسے مقامِ فناء کہتے ہیں۔ آیت اللہ حسن زادہ آملیؒ ایک شخص جس نے ریاضتِ شرعی شروع کیں اور ان کے پاس آ کر کوئی بات کہی تو علامہ حسن زادہ آملیؒ نے فرمایا کہ تم ابھی گرم بھی نہیں ہوئے کجا آگ کو بھڑک اٹھنے کی بات کی جائے !!           اول انسان اپنی سرد مہری کو دور کرے اور اس ٹھنڈک کو اپنے اندر سے دور کرے۔ پہلے اپنے اندر کو خالی کرے کہ اگر یہ مرحلہ طے نہ ہو تو پھر لینے کی بات نہیں آتی۔ دنیا میں ہر جیز جسے انسان نے کھو دیا اس میں ضرر کیا سوائے راہِ الہٰی اور اس سیر و سلوک میں جو دیا اور اس کے مقابلے لیا تو اس میں نفع و فائدہ اٹھایا۔

کتاب کا مقدمہ:

          سید بحر العلوم کتاب کے آغاز میں بیان کرتے ہیں:بسم اللّه الرحمن الرحيم ، الحمد والثّناء لعين الوجود:یہاں اللہ سبحانہ کو عینِ وجود تحریر کیا گیا ہے جسے قرآن کریم کی آیات سے اخذ کیا ہے۔ علامہ طباطبائی نے المیزان میں اس کی بہترین تفسیر کی ہے جو سید بحر العلومؒ کی مراد کو بہترین طریقے سے بیان کرتی ہے۔ علامہ ؒ سورہ لقمان آیت ۳۰ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں:

وقوله: بِأَنَّ اللهَ هُوَ الْحَقُ، بما فيه من ضمير الفصل، وتعريف الخبر باللام يفيد القصر أعني حصر المبتدإ في الخبر. فقوله: بِأَنَّ اللهَ هُوَ الْحَقُ قصر له تعالى في الثبوت، أي هو ثابت لا يشوب ثبوته بطلان، وبعبارة أخرى هو ثابت من جميع الجهات، وبعبارة ثالثة هو موجود على كلّ تقدير، فوجوده مطلق غير مقيّد بقيدٍ ولا مشروط بشرطٍ، فوجوده ضروري، وعدمه ممتنع، وغيره من الموجودات الممكنة موجود على تقدير، وهو تقدير وجود سببه وهو الوجود المقيد الذي يوجد بغيره من غير ضرورة في ذاته؛ اللہ تعالی کے فرمان ’’ کہ اللہ وہی حق ہے‘‘ میں ھو ضمیرِ فصل ہے اور حق پر الف لام تعریف ہے۔ ضمیرِ فصل حصر کا فائدہ دے رہی ہے ، یعنی مبتدأ خبر میں محصور  ہے (اللہ سوائے حق کے کچھ نہیں ، یہاں یہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ حق سوائے اللہ کے کچھ نہیں کیونکہ اس صورت میں خبر مبتدأ میں محصور کہلائے گی جبکہ علامہ طباطبائیؒ جو بیان کر رہے ہیں وہ مبتدأ کا خبر میں محصور ہونا ہے یعنی اللہ فقط اور فقط حق ہے)، فرمانِ الہٰی ’’ کہ اللہ وہی حق ہے ‘‘ اللہ تعالیٰ کو ثبوت میں حصر فرما رہا ہے، یعنی وہ (اللہ) ثابت ہے  جس کا ثبوت کسی قسم کے بطلان کا شائبہ نہیں رکھتا، بالفاظِ دیگر وہ تمام جہات سے ثابت ہے، بالفاظِ دیگر وہ ہر صورت میں موجود ہے، اس کا وجود ’’مطلق‘‘ ہے جو نہ کسی قید سے مقید ہے اور نہ شرط کے ساتھ مشروط ہے، اس کا وجود ضروری ہے اور اس کا عدم ممتنع ہے، موجوداتِ ممکنہ میں سے اس کا غیر اس صورت میں موجود ہے کہ کہ اس کے وجود کا سبب ہو ، لہٰذا اس کا غیر وجودِ مقید ہے جو اپنے غیر کی وجہ سے موجود ہے اور اس کی ذات غیر ضروری ہے۔([4])

اللہ تعالیٰ کے عظیم ترین اور بہترین اسماء میں ’’حق‘‘ ہے جوکہ ثابت ، حقیقت، ثبوت ہے جوکہ غنی ، بے نیاز اور کسی کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالی بجز حق نہیں اور حق بجز وجود کچھ اور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ یعنی وجود ، کیونکہ حق اور ثبوت اس کو حاصل ہے جو وجود ہے۔وجود ہے جو حق ہے ، وجود ہے جو واجب ہے، وجود ہے جو غنی و غیر محتاج ہے، وجود ہے جو ممتنع العدم ہے۔ اللہ یعنی حق اور حق یعنی وجود۔

اعتباری کے فلسفی و عرفانی معنی میں فرق

وجود اصیل ہے یعنی حق تعالیٰ اصیل اور حقیقت و وجود رکھتا ہے اور ماہیت اعتباری ہے۔ یہاں اعتباری سے مراد اعتباری فلسفی نہیں بلکہ اعتباری عرفانی مراد ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ جو وجود کے ساتھ آویزاں ہے کہ اگر وجود کو ہٹا دیں تو لحظہ میں ہر شیء عدم ہو جائے گی اور کچھ باقی نہیں رہے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے اگر بجلی چلی جائے تو ہر شیء رک جائے گی اور بے خاصیت ہو کر رہ جائے گی، مثلاً نہ ٹی وی چلے گا ، نہ بلب چلے گا، نہ کوئی مشین چلے گی، بجلی فریج کو چلا رہی ہے، بجلی ہے جو کولر اور اے سی چلا رہی ہے، بجلی ہے جو لاؤڈ اسپیکر کو چلاتی ہے …۔ اسی طرح وجود کی وجہ سے ہر شیء ہے اور اس شیء میں خاصیت پائی جاتی ہے کہ اگر وجود ہٹا دیں تو یہ سب محتاج اشیاء چیزیں نابود اور پردہِ عدم میں چلی جائیں گی۔

یہاں فلسفی وجود و ماہیت مراد نہیں ہے جیساکہ بدایۃ الحکمۃ کے آغاز میں ملا صدرا کے مبانی کے تحت علامہ طباطبائیؒ نے ذکر کیا ہے۔ کتاب میں اصیل و اعتباری کی بحث مفہومی ہے جوکہ کافی نہیں ہے بلکہ یہ عرفانی مطالب ہیں۔ علامہ طباطبائیؒ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اسفارِ اربعہ کو تمام دلائل کے ساتھ ہم نے حل کیا اور جو براہین کی تقریر ہم بیان کر سکتے تھے شاید خود ملا صدرا بھی اس طرح سے بیان کر پاتے۔ ہم اسفار کے مطالب کو حفظ کیے ہوئے تھے اور تمام براہین کی جدا جدا تقریر کو خوب حل کیا۔ یہاں تک میں نجف اشرف چلا گیا اور وہاں سید علی قاضی طباطبائیؒ نے وجود کے جن پہلوؤں کو بیان کیا تو ایسا محسوس ہوا کہ ابھی تک ہم کچھ سمجھے ہی نہیں ہیں !! اس لیے نہایۃ الحکمۃ و اسفار تک براہین کی مدد سے مطلب سمجھنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ وجود اصیل ہے یعنی حق اصیل ہے۔ یہ وہ پہلو جو حقیقت سے تعلق رکھتا ہے۔ فقط وجودِ الہٰی ہے کہ جو ہے اور اس نے سب کو تحقق بخشا ہے اور باقی رکھا ہے۔ ۔فلسفی میں اعتباری مفہومی ہے اور عرفان میں اعتبارِ فقری ہے جوکہ وجود کا محتاج ہے کہ اگر وجود نہ ہو تو کوئی شیء باقی نہیں رہے گی۔ سید بحر العلومؒ یہاں عینِ وجود سے مراد اللہ سبحانہ لے رہے ہیں جو موجود ، ثابت اور حق ہے۔ آپ اللہ کے لیے اوصاف اور خصوصیات بیان کریں گے وہ وجودِ الہٰی کے لیے بھی ہیں اور جو وجود کے لیے ذکر کریں گے وہ اللہ سبحانہ کے لیے ہیں۔  اللہ غنی ہے ، وجود غنی ہے، اللہ واجب ہے تو وجود واجب ہے، اللہ سبحانہ تمام اشیاء کے وجود کا ملاک ہے تو وجود تمام اشیاء کے وجود کا ملاک ہے۔ جو وصف اللہ تعالی کے لیے ثابت ہو گا وہ وجود کے لیے ثابت ہے۔ کتاب ’’عرفان در آئینہ قرآن‘‘ میں ہم نے دو بخش میں اوصاف بیان کیے ہیں، ایک بخش میں اللہ کے اوصاف ذکر کیے ہیں اور دوسرے بخش میں وہی اوصاف ہم نے وجود کے لیے ثابت کیے ہیں۔ لہٰذا حمد و ثناء اللہ تعالیٰ کے لیے ہے تو حمد و ثناء وجود کے لیے بھی ہے۔ جس طرح الفاظ ہماری سانسوں کے محتاج ہیں اسی طرح ہر شیء نفسِ رحمانی کی محتاج ہے۔ انسانی سانس الفاظ اور جملات کو تشکیل دیتی ہے، اسی طرح نفسِ رحمانیِ حق تمام کلماتِ وجودی کو وجود کرنے والی ہے جو اگر عدم سے ہمکنار ہو جائے تو تمام وجودات معدوم ہو جائیں گے۔ الکافی میں امام صادقؑ سے روایت میں وارد ہوا ہے: هُوَ اللَّهُ الثَّابِتُ‏ الْمَوْجُودُ تَعَالَى.([5]) یہ بات صحیح طرح عارف سمجھ سکتا ہے۔ خصوصاً وہ افراد نہیں سمجھ سکتے جو اصالتِ وجود کے قائل نہیں ہیں۔ آقای میرزا جواد تہرانی اپنی کتاب ’’عارف و صوفی چی می گوید‘‘ میں اصالتِ وجود کے اثبات کے تمام براہین لائے اور ایک ایک کر کے اپنے زعم میں انہیں ردّ کیا!! لہٰذا میزرا جواد تہرانی اس حمد کو وجود کے لیے قبول نہیں کریں گے۔

مواقف شہود اور مقامِ قاب قوسین:

والصّلاة على واقف مواقف الشّهود: اس جگہ سید بحر العلوم رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجتے ہوئے ان کے مرتبہِ سدرۃ المنتہی اور ’’قاب قوسین او ادنی‘‘ کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔ جس طرح حمد کو سید بحر العلومؒ نے قرآن کریم سے اخذ کیا اسی طرح رسول اللہ ﷺ اور ان کی آل ؑ پر درود کو قرآنی آیات سے اخذ کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو شہودِ مطلق حاصل ہوا۔مواقف شہود کا تعلق بھی قرآن کریم ہے، جیساکہ سورہ نجم میں ارشاد ہوتا ہے: { ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى‏ فَكانَ قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى }‏.([6]) رسول اللہ ﷺ نزدیک ہوئے ، اس قدر نزدیک ہوئے کہ مقامِ قاب قوسین تک پہنچ گئے۔
’’دَنَا‘‘ کا مطلب قریب ہونا ہے یعنی ’’قاب قوسین‘‘ کے قریب ہونا، یعنی مقامِ قرب تک پہنچ گئے۔ ’’فَتَدَلَّى ‘‘ کا ایک مطلب نزدیک ہونا ہے اور دوسرا معنی کسی چیز کا آویزاں ہونا ہے۔
’’تَدَلِّي‘‘ یعنی آویزاں ہو جانا، مثلاً ایک مقناطیس نیچے پڑے لوہے کے ذرّات کے قریب کریں تو مقناطیس فوراً ان ذرّات کو نیچے سے اپنی طرف اٹھا لے گا اور پھر وہ ذرات اس مقناطیس سے لٹک جائیں گے۔ان ذرات کا مقناطیس سے قریب ہونا ’’دَنَا‘‘ اور ’’فتدلّى‘‘ یعنی قریب ہو آویزاں ہو جانا اور اس سے چپک جانا ہے۔
’’فَكانَ قابَ قَوْسَيْنِ‘‘ یعنی رسول اللہ ﷺ مقامِ قاب قوسین تک پہنچ گئے جہاں انہوں نے مقامِ حضرتِ واحدیت کا مشاہدہ کیا۔ قاب قوسین سے مراد مقامِ واحدیت ہے جہاں ’’اسماء‘‘ قوسِ وجوب اور ’’اعیان‘‘ قوسِ امکان قرار پاتے ہیں۔ اس مقام ِ واحدیت پر رسول اللہ ﷺ نے  اسماءِ  فواعل و اعیانِ قوابل کا مشاہدہ کیا۔
’’ أَوْ أَدْنى ‘‘یعنی پھر مزید قریب ہوئے اور مقامِ احدیت جمع تک رسائی حاصل کی۔ پس قاب قوسین سے مراد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مقامِ واحدیت کا مشاہدہ کیا اور وہاں تمام اسماء اور اعیان کا مشاہدہ کیا اور اس کے بعد مزید قریب ہوئے تو مقامِ احدیتِ جمع کا مشاہدہ کیا۔علامہ طباطبائی نے المیزان میں سورہ نجم کی ان آیات کی تفسیر کی تو اس حوالے سے صرف دو نظر بیان کی اور کسی نظر کی وضاحت پیش نہیں کی۔ علامہ طباطبائی ؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک نظر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ سبحانہ کے قریب ہوئے ۔ رسول اللہ ﷺ قوسِ وجوب اور قوسِ امکان میں اللہ سبحانہ کے قریب ہوئے مقامِ واحدیت تک رسائی حاصل ہی اور اس کے بعد مزید قریب ہو کر مقامِ احدیتِ جمع تک پہنچ گئے۔ شیعہ و سنی کتب میں یہ حدیث وارد ہوئی ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: لِي‏ مَعَ‏ اللَّهِ‏ وَقْتٌ‏ لَا يَسَعُهُ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ وَلَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ امْتَحَنَ اللَّهُ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ.([7]) یہاں اللہ کے ساتھ وقت سے مراد یہی مرتبہِ شہود و قاب قوسین ہے۔  بعض کتب میں آئمہ اطہارؑ کی طرف منسوب یہ کلمات وارد ہوئے ہیں: لَنا مَعَ اللَّه حالاتٌ هُوَ نَحنُ‏ وَنَحنُ‏ هُوَ وَهُوَ هُوَ وَنَحنُ نَحن‏، اللہ کے ساتھ ہمارے حالات ہیں وہ ہم اور ہم وہ ہوتے ہیں اور وہ وہ ہے اور ہم ہم ۔([8]) یہ کلمات کتبِ احادیث میں نہیں ہیں اور ان کی صحیح تشریح کی ضرورت ہے جو مختلف مبانی کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے۔جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جناب جبریلؑ کے قریب ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جناب جبریلؑ تو آنحضرت ﷺ پر اترتے تھے نہ کہ آپ ﷺ ان کے قریب جائیں گے!! جناب جبریلؑ کے بارے میں تو یہ کلمات وارد ہوئے ہیں: وَلَوْ دَنَوْتُ‏ أَنْمُلَةً لَاحْتَرَقَتْ‏. ([9]) جناب جبریئلؑ اپنے وظائف کے مطابق آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔

مجذوبِ سالک اور سالکِ مجذوب:

وعلى آله امناء المعبود:          یہاں آل سے مراد رسول اللہ ﷺ کے آل بیت اطہارؑ ہیں۔ انسان وہ ہوتا ہے جو امانت کا بوجھ اٹھائے ،  اگر وہ بوجھ ترک کر دے تو اسے بشر کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَها وَ أَشْفَقْنَ مِنْها وَ حَمَلَهَا الْإِنْسانُ إِنَّهُ كانَ ظَلُوماً جَهُولا.([10]          پس انسان نے امانت کو اٹھایا۔ جو امانت کو نہ اٹھائے وہ بشر کہلاتا ہے۔ امناء وہ ہیں جو مرتبہِ غیر ممنون پر فائز ہیں ۔ غیر ممنون یعنی غیر مقطوع ، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: إِلاَّ الَّذينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُون‏.([11])          تین قسم کے گروہ ہیں:
گروہ اوّل: جو صفر پر صفر لیتے ہیں ، یہ اشقیاء ہیں۔
گروہِ دوم: وہ جو السابقون السابقون ہیں جو سب پر سبقت حاصل کر لیں اور تیزی سے آگے بڑھ جانے والے ہیں۔ انہیں احدیۃ السیر کہتے ہیں۔ یہ اہل عنایت ہیں۔ انہیں مجذوبِ سالک بھی کہا جاتا ہے۔ اول یہ مجذوب ہیں پھر سالک ہیں۔ عنایتِ الہٰی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف جذب کر لیا۔انبیاء وآ ئمہؑ اس قبیل سے ہیں۔یہ دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں:
مجذوب سالک: یہ معصوم ہستیاں ہیں جو مجذوب تھے اور پھر سلوک اور اعمال کو انجام دیتے ہوئے اللہ سبحانہ کی بندگی کرتے رہے۔
جذوبِ محض: یہ جذب ہیں لیکن کسی قسم کے سلوک سے آشنا نہیں ہیں۔
تیسرا گروہ :اہل مسبوق ہیں جو کبھی تیز ہو جاتے ہیں اور کبھی سست ہو جاتے ہیں۔ انہیں آگے بڑھنے کے لیے ریاضت کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ اہل ریاضت کہلاتے ہیں۔ کبھی مکروہات و حرام سے خوب بچتے ہیں اور کبھی مکروہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حتی کبھی محرمات بھی سرزد ہو جاتے ہیں لیکن توبہ و استغفار کر کے ازالہ کرتے ہیں۔ یہ سالکِ مجذوب ہیں ۔یہ پہلے سالک ہیں پھر مجذوب ہیں۔ یہ دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں:
سالکِ مجذوب: بعض سالک ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ جذب فرماتا ہے جیساکہ اولیاءِ الہٰی ہیں۔
سالکِ محض: بعض ایسے سالک ہیں جو غیر مجذوب ہیں کیونکہ اللہ سبحانہ انہیں سلوک کے باوجود جذب نہیں فرماتا۔ یہ صرف اعمال انجام دیتے ہیں لیکن کسی مقصد تک نہیں پہنچ پاتے۔

حقیقی تصوف اور صوفی کا تعارف:

اس رسالہ میں خطاب ان افراد سے ہے جو سیر و سلوک کا ارادہ رکھتے ہیں اور سیرِ انسانی کا ارادہ رکھتے ہیں اور پاک و پاکیزہ ہونا چاہتے ہیں۔ تصوف صفاء سے ہے  کہ اپنے نفس کو پاک و طاہر کر کے حقیقت کا مشاہدہ کرنا ہے ۔ تصوف کی یہ تعریف متعدد اہل حق صوفیہ نے کی ہے۔ پس تصوف صفاءِ قلبی اور مشاہدہِ محبوب و معشوق یعنی حق تعالی کی سعادت حاصل کرنے کا نام ہے۔ بالفاظِ دیگر تصوف سے مراد صفاءِ قلبی کے ذریعے فناء فی اللہ یا بقاء بعد الفناء کا نام ہے۔ صوفی سے مراد وہ ہے جو اونی لباس صفاءِ قلبی کے لیے پہنے نہ کہ ریا کے لیے، شریعت کا پیرو ہو اور طریقِ نبوی پر چلے اور دنیا مدار و دنیا خواہ نہ ہو، اس کی نظر میں سونے اور پتھر میں کوئی فرق نہ ہو۔ اگر اس طرح ہو تو شخص واقعی معنی میں صوفی ہے ورنہ کلبِ کوفی ہزار صوفیوں سے بہتر ہے۔ وہ انسان جو ظاہری طور پر صوفی کی صورت اختیار کر کے دنیا سمیٹتا ہے اور اندر سے ظلمتوں کا شکار ہے اور صوفیہ کا نام بدنام کرتا ہے جیسے بلعم باعور ایسے ہزار صوفیوں سے بہتر کلبِ کوفی ہے۔     پس حقیقی صوفی وہ ہے جو صفاءِ قلبی کرے، دنیا خواہ و دنیا مدار نہ ہو، ریا کاری اور دیگر کثافتوں سے پاک ہو اور مشاہدہِ محبوب کے لیے سیر و سلوک کو اختیار کرتا ہے۔ ایسا شخص تین چیزوں کا محتاج ہے:
۱۔ استاد: بغیر استاد کے انسان کسی جگہ نہیں پہنچتا۔سید علی طباطبائی صاحب الریاضؒ اپنی کتاب ریاض المسائل میں قبلہ کی بحث میں لکھتے ہیں کہ علم ہیئت کو استاد سے ضرور سیکھیں تاکہ متقن اور قوی بات کریں۔ ان کا ایک شاگرد علم ہیئت سے واقف تھا۔ شاگرد سے انہوں نے گزارش کی کہ وہ کسی خاص دن ان کے پاس آئے اور علم ہیئت کے دقیق مسائل کی روشنی میں معلومات فراہم کرے تاکہ ریاض المسائل کو قوی اور مضبوط معانی کے ساتھ لکھیں۔ شاگرد نے کوئی مذاق کیا یا عاجزی دکھائی اور اس سے انکار کر دیا۔ اس پر صاحب الریاض رنجیدہ ہوئے اور کربلا میں امام حسینؑ سے توسل کیا کہ انہیں اس کی تعلیم مل جائے۔ صاحب الریاضؒ نے بہت فنی اور علمی کتاب تحریر کی ہے جس میں ایک سطر کے اندر اقوالِ فقہاء ، ان کے دلائل اور ردّ دلیل تمام چیزوں کو فنی اور نپے تلے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ آیا یہ سب بدونِ استاد ممکن ہے؟! یقیناً ایسا نہیں ہے۔ ہر فن استاد کا محتاج ہے۔ اس بارے میں آیات و روایات موجود ہے۔ اگر استاد نہ ہو تو خام نا پختہ صورت سامنے آتی ہے جبکہ استاد ہو تو پختہ اور محکم علم و فن انسان میں سامنے آتا ہے۔ اسی طرح سیر و سلوک بغیر استاد حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایسا استاد جو خود فتّاح ہو، واقعاً انسان ہو تو وہ سیر و سلوک کی صحیح رہنمائی کر سکتا ہے۔ اگر بدونِ استاد چلے گا تو خام اور نا پختہ سامنے آئے گا۔
۲۔ رفیقِ راہ: اس راہ میں کوئی رفیق ہونا چاہیے جو ہم راز، ہمدل ، ہمدرد ہو۔ بغیر رفیق کے اس راہ میں تنہائی ، وحشت  کا شکار ہو جائے گا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اول رفیق ثم الطریق۔
۳۔ راہ: یعنی برنامہ اور طَرح ہو جو استاد نے معین کیا ہو۔

     ان تین کی مدد سے سالکِ مجذوب بنتا ہے۔ ان تین میں سے ایک نہ ہو تو سیر و سلوک وجود میں نہیں آ سکتا۔ بلکہ اس کے برعکس انسان کوشش کرے گا تو ظلمتوں کے شکار ہونے کا خدشہ ہے۔ وہ شخص جو فقط مجذوب ہے وہ کوئی برنامہ نہیں رکھتا، اس لیے وہ سلوک ہی نہیں رکھتا کہ سالک ہو، اسی طرح سالکِ محض بھی مطلوب نہیں ہے کیونکہ وہ جو سلوک کر رہا ہے جذبہ نہیں رکھتا۔ ضروری ہے کہ سالکِ مجذوب  ہونا چاہیے۔ سید بحر العلومؒ سالکِ مجذوب تھے جبکہ انبیاء و آئمہؑ مجذوبِ سالک تھے کیونکہ یہ پہلے جذب ہوئے پھر سالک بنے۔ سید بحر العلومؒ نے ان تین شرائط کو حاصل کیا اور سلوک کی منازل طے کیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے جذب کر لیے گئے۔ اس لیے مقدمہِ کتاب میں سید بحر العلومؒ لکھتے ہیں کہ میں آگ دیکھ رہا ہو، ٹھہرو میں تمہارے لیے قبس لے آؤں یا جذوۃ لے آؤں تاکہ تم بھی گرم ہو جاؤ۔ قبس سے مراد ایک شعلہ  جسے منتقل کیا جائے ۔ جذوۃ یعنی ایک انگارہ۔ سید بحر العلومؒ نے چند آیات (سورہ طہ آیت ۱۰، سورہ نمل آیت ۷ اور سورہ قصص آیت ۲۹) سے اقتباس کر کے ایک سطر بنائی ہے جوکہ چند آیات کا مجموعہ ہے۔ سید بحر العلومؒ اپنے گرم ہونے اور نفس میں آگ بھڑکنے کی کیفیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ جب آگ سالک کے قریب ہوتی ہے تو وہ اس آگ سے آغاز میں گرمائش کو حاصل کرتا ہے، پھر اس گرمائش سے آگ پکڑ لیتی ہے ،یہاں تک وہ آگ اسے مکمل گھیر لے، بالکل ایسے جیسے کوئلہ آگ کے مجاور میں رہ کر آگ پکڑ لیتا ہے۔ اسی طرح ایک استاد جو سر تا پا بوئے توحید دے اور خود گرم ہو اس سے سالک گرمائش لے پھر آگ  اسے پکڑ لے اور اس کی بوئے طینی اور خاکی حیثیت کو یہ آگ آہستہ آہستہ ختم کرے اور انسان کی سردی اور ظلمت کو دور کر کے گرم اور منور کر دے۔  حقیقت میں اللہ سبحانہ ہے جو انسان کو تھام لیتا ہے۔ ولایت حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے۔ باطن میں اللہ تعالی اور ظاہر میں اولیاءِ الہٰی انسان کے لیے رہنما اور سیر و سلوک کی طرف چلانے والے ہیں۔ بشر خاکی جلد کا عنوان ہے جبکہ انسان حقیقتِ انسانیت سے عبارت ہے۔

([1]) الحجر: 21.

([2]) البقرة: 156.

([3]) البقرة: 124.

([4]) الميزان في تفسير القرآن، ج 16، ص 236.

([5]) الکافی، ج ۱، ص ۱۰۰، حديث 1.

([6]) النجم: 8-9.

([7]) بحار الأنوار، ج 18، ص 360.

([8]) مشواق، ملا فيض كاشاني، ص 242، فصل 2.

([9]) مناقب آل ابی طالب ع، ج ۱، ص ۱۷۹.

([10]) الأحزاب: 72.

([11]) التين: 6.

منابع:

منابع:
1 حجر: ۲۱۔
Views: 17

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حقیقت وہم اور انسانی زندگی پر اثرات