loading
« شرح الکافی: درس ۱ »
غیبت امت کے رُشد و کمال کا دور
مدرّس: آیت اللہ رضا عابدینی
تدوین: عون نقوی

اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں جس نے ہمیں روایات آئمہ اطہارؑ کو پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ مرحوم کلینی کی کتاب الکافی سے غیبت امام زمانؑ کے موضوع پر ہم پہنچے ہیں۔ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس باب «نادر فی حال الغیبۃ» میں بیان کردہ روایات میں دقیق طور پر غور و فکر کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اس باب میں کوشش کریں گے اس موضوع  سے مربوط دیگر روایات کو بھی ملائیں تاکہ ایک جامع و کامل تحفہ مہدویت کے باب میں حاصل ہو جسے ہم عملی زندگی میں بھی اپنے لیے نمونہ قرار دے سکیں۔

پہلی روایت

الکافی میں شیخ کلینی ؒ اپنی سند سے امام جعفر صادق ؑ سے روایت نقل فرماتے ہیں جس کے الفاظ اس طرح سے ہیں: « عَلِیُّ بْنُ إِبْرَاهِیمَ عَنْ أَبِیهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ وَ مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَى عَنْ أَبِیهِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: أَقْرَبُ مَا یَکُونُ الْعِبَادُ مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ وَأَرْضَى مَا یَکُونُ عَنْهُمْ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّةَ اللَّهِ جَلَّ وَعَزَّ وَلَمْ یَظْهَرْ لَهُمْ وَلَمْ یَعْلَمُوا مَکَانَهُ وَهُمْ فِی ذَلِکَ یَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَمْ تَبْطُلْ حُجَّةُ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ وَلَا مِیثَاقُهُ فَعِنْدَهَا فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ صَبَاحاً وَمَسَاءً ، فَإِنَّ أَشَدَّ مَا یَکُونُ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى أَعْدَائِه إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّتَهُ وَلَمْ یَظْهَرْ لَهُمْ »؛ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں : بندوں کا اللہ کے سے سب سے زیادہ نزدیک ہونا اور راضی ہونا اس حالت میں ہے جب وہ حجت خدا کو غائب پائیں۔ اور حجت ان پر ظاہر نہ ہوں، ان کے جاۓ قیام کو نہ جانیں۔ اور اس کا علم رکھیں کہ حجت خدا سے زمانہ خالی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا عہد باطل ہوتا ہے جو بندوں پر ہوتا ہے۔ ان کو چاہیے کہ ہر صبح و شام ظہور حضرت حجتؑ کی توقع رکھیں۔ بے شک اللہ تعالی کے دشمنوں پر شدید ترین لمحہ وہ ہے جب حجت خدا ان سے غائب ہے اور ان کے لیے آشکار نہیں۔ [1] شیخ کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔

غیبت اور ظہور کے ایمان میں فرق

اس روایت میں بہت سے معارف موجود ہیں۔ اس روایت میں پہلا مطلب جو بہت اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت میں غیبت کے دور کو بشریت کے لیے سزا کا دور قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ اس روایت کے مطابق غیبت بشریت کی پاداش کا دور ہے۔ عموما سمجھا جاتا ہے اور جیسا کہ چند روایات میں بھی یہ ذکر ہوا ہے کہ لوگوں نے امام کی قدر نہ کی، امام کی جان کو خطرہ تھا اور دیگر وجوہات کی بنا پر امت سے ان کے امام کو غائب کر دیا گیا۔ لہذا غیبت سزا ہے۔ درست ہے کہ ہمارے پاس اس مضمون پر روایات وارد ہوئی ہیں لیکن جیسا کہ اس روایت کو ہم دیکھتے ہیں اور اس طرح کی دیگر چند روایات اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں کہ غیبت کا زمانہ بشریت کے رشد اور ارتقاء کا زمانہ ہے۔ مثلا رسول اللہﷺسے، امیرالمومنینؑ اور امام باقرؑ سے نقل ہوا ہے جس میں فرماتے ہیں:ان افراد سے دیدار کا بہت مشتاق ہوں جو اس زمانہ میں زندگی کر رہے ہیں کہ أمنوا بسواد علی بیاض کاغذ کے ایک لکھے ہوۓ ٹکڑے پر ایمان لے آتے ہیں۔ ان افراد نے حجت کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن ان کی عقول اس مرتبے تک رشد اور ارتقاء حاصل کر چکی ہیں کہ خداوند متعال بھی ان سے ان کے عقلی رشد کے مطابق پیش آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیبت کے زمانے سے پہلے بشریت کی عقول اس مرحلے تک نہیں پہنچی تھیں کہ ان میں سے حجت کو غائب کر دیا جاتا، اور ضروری تھا کہ حجت ان کے اندر اسی ظاہری جسمانی وجود کے ساتھ موجود ہو۔ لیکن غیبت کے زمانے کے لوگ اپنے زمانے کے امام پر یقین رکھتے ہوں گے اور ان سے میثاق باندھیں گے جب کہ ان کے درمیان ظاہری طور پر امام موجود نہ ہوگا۔ امام کے وجود کو ان کی فعالیت سے درک کریں گے اگرچہ ظاہری طور پر آنکھوں سے دیکھنے سے قاصر ہوں گے۔ ان کی عقول اس مرتبے تک پہنچ چکی ہوں گی کہ وہ غائب امام پر ویسے ہی ایمان لے آئیں گے جیسے ظہور کے زمانے میں افراد ظاہری حجت پر ایمان لے آتے ہیں۔

ظاہر سے باطن تک عبور

اگر غیبت کے زمانے کو بہتر تعبیر کے ساتھ بیان کرنا چاہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک زمانہ ’’اسم الظاہر‘‘ کا مصداق ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرات معصومینؑ ظاہری طور پر لوگوں کے درمیان موجود تھے۔ اور ایک زمانہ ’’اسم الباطن‘‘ کا مصداق ہے جو غیبت کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں حجت ظاہر نہیں لیکن لوگوں کی عقول اس مرتبے تک پہنچ چکی ہیں کہ حجت سے ارتباط برقرار کر سکتے ہیں۔ اور ایک وہ زمانہ ہے کہ جسے ’’اسم جامع ظاہر و باطن‘‘ کہا جا سکتا ہے یہ ظہور کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں ’’اسم ظاہر‘‘ اپنے اوج کو دیکھے گا اور ’’اسم باطن‘‘ کا بھی اوج اور عروج ہوگا۔ غیبت اس میں وہ زمانہ ہے جب بشریت نے اسم ظاہر سے اسم باطن تک کے زمانے کو عبور کرنا ہے۔ عقول کو ظاہر اور محسوس چیزوں سے رشد دے کر اس مرحلے تک پہنچانا ہے کہ باطنی اور معنوی چیزوں پر ایمان لے آئیں۔

اہل ایمان کی آزمائش اور کفار کی نابودی

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« وَلِیُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذینَ آمَنُوا وَیَمْحَقَ الْکافِرینَ » ؛ نیز اللہ ایمان والوں کو چھانٹنا اور کافروں کو نابود کرنا چاہتا ہے۔ [2] آل عمران: ۱۴۱۔ ’’تمحیص‘‘ قرآنی اصطلاح ہے۔ جس کے معنی چھانٹنے یا خالص کرنے کے ہیں۔ اگر کسی شے میں خالص اور ناخالص مواد موجود ہو تو اسے چھانٹ کر خالص سے ناخالص کو جدا کر دینا تمحیص کہلاتا ہے۔ مومنین کو تمحیص ہونا ہے اور برائیوں سے دور ہونا ہے۔ تمحیص یعنی خالص سازی۔ یہ اللہ تعالی کی سنت ہے۔ حضرت آدمؑ کے دور سے ہی بشریت اس تکامل کی طرف حرکت کر رہی ہے۔ اس کی مثال انسانی حیات کی سی ہے۔ انسان کا ایک بچپن ہے جس میں اس کو زیادہ سوجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ بچپن سے لڑکپن کا دور اور بالغ ہونے کے بعد ایک حد تک انسان سمجھدار ہو جاتا ہے اور اچھے برے کی تمیز سیکھتا ہے۔ اور ایک دور انسان کا وہ ہے جس میں اسے عقلی پختگی حاصل ہوتی ہے۔ یہ عقلی پختگی ۳۰ سے ۴۰ سال کی عمر میں ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس عقلی پختگی کے حصول کے زمانے کو اصطلاح میں «اشُد» کہتے ہیں۔ بشریت بھی اسی تکامل کی سیر کو طے کر رہی ہے۔ بشریت کا ایک بچپن کا دور تھا، ایک تمیز حاصل کرنے کا دور گزرا اور پھر بشریت کے بلوغ کا دور ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت آدمؑ سے حضرت خاتمﷺ تک بشریت حد بلوغ تک پہنچ گئی۔ حضرت خاتمﷺ سے ظہور تک کا دور بشریت کے اشد کا دور یعنی پختہ تر ہونے کا دور ہے۔ حضرت خاتمﷺ کے دور کو اس لیے بشریت کے بلوغ کا دور کہا جا سکتا ہے کہ اس دور تک بشریت اس انتہائی کمال تک پہنچ جکی تھی کہ انہیں اس حقیقت عظمی ختم نبوت اور پھر ان کے بعد وصایت کے سلسلے سے تمحیص کیا گیا۔ لیکن وہ دور کہ جب بشریت اپنے تمام مراتب کے ساتھ شعور اور خالص سازی کے مراحل کو طے کر کے عروج کو پہنچے گی، وہ ظہور کا زمانہ ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیبت سے ظہور تک کا زمانہ بشریت کے لیے بلوغ حاصل کر لینے کے بعد «اشُد» کا زمانہ ہے۔

حضرات معصومینؑ کے زمانے میں یہ تمام حضرات لوگوں کے اندر موجود تھے اور اپنے حضور سے ان کے رشد کا باعث بنتے۔ اور لوگ بھی اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ امام زندہ ہیں اور ہمارے پاس اپنے جسمانی وجود کے ساتھ موجود ہیں۔ افراد بھی ان کے ساتھ ارتباط برقرار کرتے۔ یہ دور بھی بشریت کے ایک تکامل کا دور تھا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اور ان کے بعد آنے والی تمام حجتوں نے امت کو غیبت کے دور کے لیے آمادہ کیا۔ بشریت کو اگلے مرتبے کے رشد کے حصول کے لیے تیار کیا۔ ہم آئمہ معصومینؑ کی زندگی میں یہ بات بہت دیکھتے ہیں کہ انہوں نے امت کو غیبت اور اس کے بعد ظہور کے لیے تکراری طور پر آگاہ کیا۔معلوم ہوتا ہے کہ غیبت صرف اس لیے نہیں تھی کہ بشریت کو سزا دی جاۓ۔ بلکہ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ حتی امام جوادؑ، امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کو ظاہری خلافت مل جاتی اور لوگ ان کو اپنا حاکم مان لیتے تب بھی غیبت لازمی ہونا تھی۔ اس طرح سے نہیں کہ چونکہ امام کو حاکمیت حاصل نہیں ہو سکی تو غیبت ہو گئی۔

اصلِ غیبت اور طول ِغیبت

اگر خود غیبت کو دیکھیں تو یہ اللہ تعالی کی جانب سے ہے۔ غیبت اللہ تعالی کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور یہ راز تب کھلے گا جب ظہور ہوگا۔اصلِ غیبت بشریت کے رشد کے لیے ضروری ہے اور یہ خدا کی طرف سے ہے  لیکن غیبت کے طولانی ہونے میں بشریت کا نقص ہے۔ غیبت کے عرصے کا لمبا ہو جانا عقاب ہے، سزا ہے۔ کیا اس بات پر ہمارے پاس کوئی دلیل ہے کہ خود غیبت بشریت کے لیے سزا نہیں ہے؟ اور صرف غیبت کے دور کے لمبا ہو جانے میں بشریت قصور وار ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں شیخ صدوقؒ کی کتاب ’’کمال الدین‘‘ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس کتاب میں ہم روایات دیکھتے ہیں کہ تمام انبیاء کرام کے لیے اللہ تعالی نے غیبت قرار دی۔ اور امامؑ کی غیبت کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ ان کی غیبت کی مدت، تمام انبیاء کرامؑ کی غیبت کی مدت، اور وہ تمام اغراض و مقاصد جو ان کی غیبتوں میں موجود تھے وہ سب موارد امامؑ کی غیبت میں پیش آئیں گے۔ انبیاء کرام کی غیبتیں بھی مختلف لحاظ سے تھیں۔ مثلا کبھی خود نبیؑ کی جہت سے، کبھی امت اور کبھی مومنین اور کفار دونوں کی جہت سے جس پر بحث ہونا ضروری ہے۔ حضرت موسیؑ کے بارے میں آیا ہے کہ وہ میقات تشریف لے گئے۔ وہاں ۴۰ دن غیبت اختیار فرمائی۔ حضرت موسیؑ کے بارے میں آیا ہے کہ وہ تین سے چار مرتبہ غیبت میں گئے۔ میقات پر جا کر غیبت حاصل کرنا خود حضرت موسیؑ کے لیے بھی رشد تھا اور ان کی امت کے لیے بھی ایک آزمائش۔ اسی غیبت کے نتیجے میں ان کی قوم گوسالہ پرست ہو گئی۔ یہ سب بشریت کے تکامل کی سیر ہے کہ حضرت آدمؑ سے حضرت ادریسؑ، ان کے بعد حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ سے لے کر غیبت امام زمانؑ کا زمانہ ہے۔ بشریت کو وہ تمام کمالات حاصل کرنے ہیں اور ان سب آزمائشوں سے گزرنا ہے جن سے گزشتہ ادوار میں وہ پہلے سے گزر چکی ہے یا آزمائی گئی ہے۔ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ غیبت کا زمانہ در اصل اس دوران کی مانند ہے جو حضرت موسیؑ نے حضرت خضرؑ کے ساتھ گزارا۔ حضرت خضرؑ کے وہ تین کام جس پر حضرت موسیؑ نے ان پر اعتراض کیا جبکہ اس کی اصل حکمت اس وقت ظاہر ہوئی جب دونوں جدا ہوۓ۔ جدائی کے وقت کو ظہور کا نام دیا گیا ہے۔ جدائی کے وقت پتہ چلا کہ حضرت خضرؑ کا اس بچے کو قتل کرنا، کشتی میں سوراخ کرنا، اور دیوار کھڑی کرنے کے پیچھے کیا مقاصد تھے۔ غیبت کی حقیقت کا راز اس وقت کھلے گا جب ظہور ہوگا۔ اس وقت پتہ چلے گا کہ غیبت نے بشریت کے ساتھ کیا کیا ہے۔

غیبت۔ غیب پر ایمان لانے کا مصداق

قرآن کریم کی متعدد آیات میں غیب پر ایمان لانا مؤمنین کی خصوصیت قرار دی گئی ہے۔ مومن ہوتا وہی ہے جو غیب پر ایمان رکھتا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے: « الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ »؛ وہ لوگ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔[3] بقرہ: ۳۔ غیب کے بہت سے مصداق ہیں جن میں سے ایک اہم ترین مصداق غیبت کے دوران وجودِ امام زمانؑ پر ایمان رکھنا ہے۔  بشریت کو غیبت کامیسر آنا  دور سزا کے طور پر نہیں ہے بلکہ بشریت کے عزت و احترام اکرام کی خاطر ہے۔ غیبت کا دور اہل ایمان کے اکرام کا ا دور ہے۔

غیبت بدن سے روح تک کا سفر

غیبت کے دور نے انسان کو بدن کے مرتبے سے روح کے مرتبے تک پہنچانا ہے۔ غیبت کے دور میں لوگوں کی نظر امام کے جسم کی طرف نہیں، امام کو ایک نقطے میں محدود نہیں سمجھتے بلکہ ان کی نظر یہ ہے کہ امام ہر جگہ حضور فرما ہیں۔ اگر روایت کی تعبیر کو دیکھیں تو بہت حسین تعبیر ہے، بیان ہوا ہے کہ غیبت میں لوگ جانتے ہونگے کہ امام ان کے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے ایمان کو محفوظ رکھا ہوا ہے اور اپنے اوپر ایک حجت کو قرار دیتے ہیں۔ اس دور میں لوگ امام کو ہر جگہ اور ہر زمان اپنے درمیان محسوس کرتے ہیں، آئمہ معصومینؑ کے دور کی طرح نہیں کہ لوگ امام سے ملنے کے لیے مدینہ یا سامراء کی طرف جائیں اور وہاں جا کر امام سے ملاقات کریں۔ غیبت وہ دور ہے جب لوگ امام کے وجود کو جسمانی طور پر تو نہیں دیکھتے لیکن ان کے وجود کو اپنے اوپر حاکم محسوس کرتے ہیں۔ اور اس مقام کو پہنچ چکے ہیں کہ مقامِ بدن سے عبور کر کے مقام روح تک پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ امام کا جسم ان کے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے حقیقی وجود سے ارتباط برقرار کرتے ہیں۔

روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام باقرؑ نے ابوبصیر سے فرمایا کہ مسجد میں موجود تمام افراد سے پوچھو کہ ابو جعفرؑ (امام باقرؑ) کہاں ہیں؟ جب ابو بصیر نے پوچھا تو لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے نہیں دیکھا۔ بعد میں ابوبصیر نے ابو مکفوف سے پوچھا جو نابینا تھے۔ ابو مکفوف نے کہا امام آپ کے ساتھ ہی تو کھڑے ہیں ان کا نور ہر طرف منتشر ہے۔ [4] مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۶، ص۲۴۳۔ دوران غیبت لوگوں کی امامؑ کی طرف یہی نگاہ ہوگی۔ ٹھیک ہے حسی طور پر انسان آنکھوں سے ان کو نہیں دیکھ سکتا لیکن اس سے محرومیت ایجاد نہ ہوگی۔ جیسا کہ ابو مکفوف ظاہری طور پر نابینا تھے لیکن پھر بھی امام کو دیکھ سکتے تھے۔ غیبت کے دور میں امام کا بدن ہمارے درمیان نہیں لیکن ان سے رابطہ برقرار ہے۔ بلکہ اس دور میں امام زمانؑ ادراک اور ارتباط کے حوالے سے بقیہ آئمہ معصومینؑ سے زیادہ فعال تر ہیں۔ کیونکہ غیبت کبری میں امامؑ نے لوگوں تک اپنا  بیان پہنچانے کے لیے اور ان سے ارتباط برقرار کرنے کے لیے وکیل اور سفیر معین نہیں فرماۓ۔ بلکہ خود لوگوں سے ہر وقت اور ہر جگہ ارتباط میں ہیں۔ ہر امام کا یہ وظیفہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان رہے ان سے ارتباط برقرار رکھے۔ ان کی ہدایت کرے اور ان تک اپنے پیغامات پہنچاۓ، یہ ماموریت دوران غیبت میں زیادہ فعال ہے۔یہاں تک اگر ہم بحث کا نتیجہ نکالنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ غیبت کا دور محرومیت کا دور نہیں۔ بلکہ رشد کا دور ہے۔ اسم ظاہر سے اسم باطن تک عبور کرنے کا زمانہ ہے۔ بشریت کے لیے یہ عبور ضروری ہے تاکہ وہ بدنی ارتباط سے روحی ارتباط برقرار کرنے کے مرحلے تک پہنچ سکیں۔ وہ امام کو خود پر حجت قرار دیں بے شک امام ان کے درمیان جسمانی طور پر موجود نہ ہوں۔ 

غیبت ثابت قدمی کا امتحان

رسول اللہ ﷺ سے منقول ایک روایت میں وارد ہوا ہے: « یَا عَلِیُّ اَعْجَبُ النَّاسِ اِیمَاناً وَ أَعْظَمُهُمْ يَقِيناً قَوْمٌ یَکُونُونَ فِی آخِرِ الزَّمَانِ لَمْ یَلْحَقُوا النَّبِیَّ وَ حُجِبَ عَنْهُمُ الْحُجَّةُ فَآمَنُوا بِسَوَادٍ عَلَی بَیَاض »؛ یا علیؑ!لوگوں میں سے ایمان کی جہت سےعجیب ترین اور(اللہ تعالی )پر یقین کے اعتبار سے عظیم ترین لوگ آخرالزمان کے لوگ ہیں۔ یہ لوگ اپنے نبی سے بھی ملحق نہیں ہوۓ اور ان سے حجت کو بھی غائب کر دیا گیا یہ لوگ نوشتوں (آئمہ معصومینؑ کی روایات)پر ایمان لے آۓ۔ [5] شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۴، ص۳۶۶۔ زمانہ غیبت میں ایسا کیا ہوگا کہ ان کے ایمان کو عجیب ترین اور عظیم ترین قرار دیا گیا؟یا روایات میں وارد ہونا کہ غیبت کے دور میں ولایت پر ثابت قدم رہنے والے شخص کا اجر بدر اور احد کے ہزار شہداء کی پاداش کے برابر ہے۔ بدر اور احد کا دور ایک مَثل ہے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں نے سختیوں اور غربت کو برداشت کیا اور مظلومیت کے ساتھ شہادتیں پیش کیں۔ یہ افراد خلوص میں مثال ہیں۔ انہوں نے اس وقت اسلام قبول کیا جب اسلام قبول کرنے پر انعام نہیں ملتا تھا بلکہ معاشرہ آپ کو ترک کر دیتا تھا، صرف ترک نہیں کرتا تھا بلکہ جانی دشمن بن جاتا۔ مسلمان قلیل تھے اور کفار کثرت میں لیکن انہوں نے پھر بھی اسلام کے لیے قربانیاں دیں۔ اب خود فیصلہ کریں کہ اس خلوص کے مرحلے تک پہنچنے والے شہید کا کیا مقام ہوگا؟ اور اب فرض کریں اس جیسے ہزار شہید ہوں۔ یہ پاداش اور اجر کس لیے قرار دیا گیا ہے ظاہر ہے یہ اجر ایسے ہی نہیں قرار دے دیا گیا بلکہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ غیبت کا دور اس دور سے ہزار گنا سخت تر ہوگا جب ان بدر و احد کے مسلمانوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ اس دور کی مشکلات، آزمائشیں اور جس طرح سے مومنین خالص سازی کے مرحلے سے گزریں گے بہت سخت ہوگا۔ ان سختیوں سے وہی گزر سکیں گے جن کے ایمان پختہ اور ثابت قدم ہونگے۔

Views: 116

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: زمانہِ غیبت اور افضل ترین لوگ
اگلا مقالہ: زمانہ غیبت میں امت کا معنوی رُشد درس۲