الاصول الروائیةالمدونة فی عصر الأئمة
تحریر:بہادر علی
06/04/2023
فہرست مقالہ
الأوَّلون من مصنفی الأصول فی الشیعة:
ہمارے اصحاب امامیہ میں قدیمی جماعت جوامیرالمومنین ؑ کے خواص اور ان کے شاگردان میں سےہے انھو ں نے احادیث کو جمع بھی کیا اور انھیں تدوین بھی کیا اور نجاشی نے اپنی رجال میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔[1] نجاشی ،احمدبن علی ،رجال النجاشی:ص ۴،۷،۸،۹
منھم : اس جماعت میں سے ابورافع ہیں جوکہ رسولﷺ کے مولا ہیں (مولا کے معنی ہم قرینے سے لیں گے اگرقرینہ نہ ہو تو ہم نبی ﷺکے غلاموںمیں سےہےمراد لیں گےجنھیں بعد میں ممکن ہے کہ آزاد کر دیاگیا ہو)اور وہ امیرالمومنین ؑ کے بیت المال کے انچارج تھے ،ان کی کتاب السنن وکتاب الاحکام والقضایا ہے ،اور یہ امیرالمومنین ؑ سے احادیث کو نقل کرتے ہیں ۔
منھم:انھی میں سے ربیعۃ بن سمیع ہیں انھوں نے امیرالمومنینؑ سے روایت کیا ہے ،نعم کی زکات کے اوپر انکی ایک کتاب ہے ۔
ومنھم:ان میں سے سلیم بن قیس الھلالی ہیں یہ امام علیؑ کے خاص اصحاب میں سے تھے انکی ایک کتاب ہے نجاشی نے اپنی سند سے اس کتاب کو روایت کیا ہے ۔نعمانی نے اپنی کتاب غیبت نعمانی میں اس باب میں بیان کیا ہے جس باب میں روایا ت ذکر کی گئی ہیں اور یہ ذکر کیا ہے کہ آئمہ اثنا عشر کی تعداد بارہ ہے:(تمام شیعوں کے مابین جو حامل علم ہیں اور جنھوں نے آئمہؑ سے روایات کو نقل کیا ہے ان کے درمیا ن اس بات پر کسی قسم کا اختلاف موجود نہیں ہے کہ سلیم بن قیس الھلالی کی کتاب کتب اصول اربع ومأۃ میں سے ایک اصل ہے جسےاہل علم نے روایت کیا ہے اور اہل البیت ؑ کی احادیث کو لینے والوں نے ذکر کیا ہے اور یہ ہمارے پاس سب سے قدیمی کتب میں شمار ہوتی ہے یہاں تک کہ نعمانی کہتے ہیں کہ یہ کتاب ،کتاب سلیم بن قیس الھلالی ان اصول میں سے ہے کہ جس کی طرف شیعہ رجوع کرتے ہیں اور جس کے اوپر اعتماد کرتے ہیں یعنی یہ کتا ب شہرت یافتہ تھی اور جو کتاب شہرت کی حامل ہو اس کاامتیاز جدا گأنہ ہوتا ہے)۔[2]کمپانی ،محمد حسین اصفھانی غروی، نھایۃ الدرایۃ:ص ۵۲۰
ومنھم : اور انھی میں سے ایک أ صبغ بن نباتہ ہیں ،شیعیان امیرالمومنینؑ میں سے خواص میں انکا شمار ہوتا تھا ،اور اصبغ نے امیر المومنین ؑ سے ایسی روایا ت کو نقل کیا ہےجن کو نجاشی نے اپنے طریق تک پہنچأیا ہے یعنی اصبغ بن نباتہ تک اپنا طریق پہنچایا ہے ۔
ومنھم :اور ان میں سے عبیداللہ بن الحرّ الفارس ہیں ،انکا ایک نسخہ ہے جسے انھوں نے امیر المومنینؑ سے نقل کیا ہے جیسا کہ انھوں نے اس کو أبی العباس سے نقل کیا ہے (ظاہرا نجاشی نے اس کو أبی العباس سے نقل کیا ہے )۔
ابن شہر آشوب سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سلمان فارسی و أبی ذرالغفاری انکی بھی حدیث میں اسی طرح اصل موجود تھی ،اور وہ شخص جس نے حدیث کے میدان میں سب سے پہلے تصنیف کی وہ خود امیر المومنین ؑ ہیں۔ابن شہر آشوب معالم العلماء میں لکھتے ہیں (کہ سب سے پہلے اس فن میں جنھوں نے لکھا وہ شخصیت امیر المومنینؑ ہیں،جنھوں نے اللہ تعالی کی کتاب قرآن کریم کو جمع کیا ،پھر سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ،پھر أبو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ،پھر أصبغ بن نباتہ ،پھر عبیداللہ بن أبی رافع ،پھر امام زین العابدین ؑ کی صحیفہ کاملۃ لکھی گئی )۔
یہ بات آپ کے لیے مخفی نہ رہے کہ کتاب الدیات جو کہ امیر المومنینؑ کی تھی وہ معروف تھی ،حتی کہ اہل سنت کے درمیان بھی یہ کتاب معروف ہے ،اور بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ کتاب ان کی تلوار کے ساتھ لٹکی رہتی تھی ،جیسا کہ النھایۃ الدرایۃ میں اس کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔وہ النھایۃ میں بیان کرتے ہیں (ابن ادریس حلی نے اپنی کتاب الجامع کے ٍآخر میں یہ بات لکھی ہے )۔اور اسی طرح مصحف فاطمۃ ،جیسا کہ یہ امامیہ میں معروف بھی ہے اور بعض روایات میں مصحف فاطمۃ کی طرف اشاہ بھی ہے ۔ اس مصحف کی بعض خصوصیات کشف الظنون سےامالی کی بحث میں ذکر ہو چکی ہیں ۔
اھتمام أصحاب الأئمةؑ بتدوین الأحادیث:
ہمارے گزشتہ سالفین کے کلمات میں جو شخص غور و فکر کرے ،اورکتب رجال و فھارس میں أئمۃؑاصحاب کے حالات زندگی کی طرف مراجعہ کرے ،تو پھر اسے کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ وہ اہتمام کرتے تھے کہ جواحادیث آئمۃ×سے وارد ہوئی ہیں انھیں جمع کیا کرتے انھیں حفظ کرتے اور انھیں لکھتے اور انھیں تدوین کیا کرتے تھے ۔
مھج الدعوات میں ابن طاووس ذکر کرتے ہیں (میرے والد نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ امام نقی× کی ایک خاص جماعت تھی ،ان کے اہل بیت اور انکے شیعوں میں سے ان کی مجلسوں میں حاضر ہوتے ،انکے پاس آبنوس لطاف کی تختیاں اور أمیال ہوتی تھی،أبوالحسن ×کوئی لفظ بولتے تھے یا وہ کوئی فتوی دیتے تھے تو وہ جماعت جو انھوں نے سنا ہے فورالکھ لیا کرتے تھے)۔ [3] مھج الدعوات:الطبع الحجری،ص ۲۴۴ ۔
شیخ بہائی کی کتاب مشرق الشمسین سے علامۃ طھرانی بیان کرتے ہیں کہ شیخ بہائی کہتے ہیں کہ ہمارے مشایخ سے ہم تک یہ پہنچا ہے کہ ہمارے اصحاب اصول کی کل کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ ہمارے آئمہؑ میں سے کسی ایک سے کوئی ایک حدیث بھی سنتے تھے تو وہ تیزی سے اسے اپنے اصول میں لکھ لیتے تھے ،کہ دنوں کے گزرنے کے ساتھ حدیث کا بعض حصہ یا اسکا کچھ حصہ انکے ذہنوں سے نکل نہ جائے یعنی وہ نسیان کا شکارنہ ہو جائیں ۔
محقق دامادرواشح سماویۃ میں نقل کرتے ہیں کہ اصحاب اصول کی بھر پور یہ کوشش ہوا کرتی تھی کہ آئمہؑ میں سے کسی ایک امام سے بھی وہ حدیث کو اگر سنتے تو اسے اپنی اصول میں ضبط کرنے کے لیے انتہائی تیزی دکھاتے تھے اور اس میں تاخیر نہیں کرتے تھے ۔
الاصول الأربعمأۃ وسایر الاصول الروائیة:
ہمارے مشائخ میں معروف ہے کہ امام صادق ×کے چار ہزار شاگردان تھےجو کہ احادیث کو لکھتے تھے ،ان سب نے امام صادق ×سے احادیث کو نقل کیا ہے ،جیسا کہ شیخ مفید نے اپنی کتا ب أرشاد میں اس بات کی تصریح کی ہے [4] الارشاد:ص ۲۷۰،۲۷۱ اور أعلام الوری میں مرحوم طبرسی نے بھی اسکا تذکرہ کیا ہے [5] أعلام الوری:ص ۴۱۰ اورمحقق حلی نے المعتبر کتاب میں اسکا تذکرہ کیا ہے [6] المعتبر :ج۱،ص ۲۶ اور دیگر افراد نے بھی اس بات کا صراحت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے ،بعض سابقہ مباجث میں اسکا تفصیلی تذکر ہو چکا ہے ۔
علماء نےذکر کیا ہے کہ عصر امام صادق ×میں چار سو اصل تدوین پاچکے تھے تو ان کے مصنف بھی چار سو ہیں اور یہ اصول اربع مأۃ سے شہرت پا گئی ۔یہ امام صادق ×کے زمانے میں تھا اور اسی طرح باقی آئمہ کے زمانے میں بھی تھے ۔
محقق حلی المتبر کتاب میں لکھتے ہیں امام صادق × سے جو سوالات پوچھے گئے اور انکے جو جوابات تھے وہ لکھ لیے جاتے وہ چارسو تصنیفات تھیں جنھیں اصول کے نام سے تعبیر کیا جاتاہے ۔[7] المعتبر :الطبعۃ الحدیثۃ،ج ۱،ص ۲۶
أعلام الوری میں طبرسی بیان کرتے ہیں :امام صادقؑ ×سے روایت کیا ہے چار ہزار افراد نے جو اہل علم میں شہرت رکھتے تھے ،جو مسائل امام صادق× سے پوچھے گئے اور امام نے ان کے جو جواب دیے ہیں ان سے تصیف کی گئی چار سو کتابیں جنھیں اصول کہا جاتا ہے ان کو امام صادق× اور امام کاظم ×نے نقل کیا ہے ۔
محقق داماد ذکر کرتے ہیں کہ مشہور یہ نے کہ چار سوتصنیفات لکھی گئی اور یہ تصنیفات امام صادق× کے اصحاب میں سے چار سو افراد نے لکھی ،بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ باقاعدہ مجالس ومحافل حدیث برپا ہوتی تھی جس میں امام صادق ؑ سے حدیث نقل کی جاتی تھی اور یہ افراد سماعا امام صادقؑ سے لیا کرتے تھےامام صادقؑ بیان فرماتے اور یہ براہ راست ان سے سنا کرتے تھے یہ افراد شیعہ اور سنی دونوں پر مشتمل ہیں،شیخ مفید نےاپنی کتاب أرشاد میں ذکر کیا ہے چار ہزار افراد کی کتابیں اور تصنیفات شہرت رکھتی تھی کثرت کےساتھ جن کے اوپر اعتماد قائم کیا گیا ان کو اصول کا نام دیا گیا اور یہ چار سو تھیں ۔شیخ فہرست میں بیان فرماتے ہیں کہ محمد بن أحمد بن عیسی نے روایت نقل کی ہے محمد بن أ بی عمیر سے کہ انھوں نے لکھا کہ سو بندوں نے کتابیں لکھی ہیں ان سو کا تعلق اصحاب امام صادقؑ میں سے ہے ۔
شہید اول کتاب الذکری میں بیان کرتے ہیں :امام صادقؑ سے جو مسائل پوچھے گئے ان کے جوابات سے جو کتابیں تصنیف پائی وہ چار سو تصانیف ہیں جو چارسٍو مصنفین نے لکھی، امام صادقؑ کے معروف اصحاب کی طرف سے چار ہزار کتابیں تدوین ہوئی ہیں ان میں کچھ عراق سے و کچھ حجاز سے و کچھ خراسان سے و کچھ شام سے آئے ہوئے تھے ۔اسی طرح امام باقرؑ کے اصحاب میں تھے بقیہ کے رجال معروف ہیں اور ان شہرت یافتہ مصنفات کے لکھنے والے ۔
صاحب الوسائل نے کتاب الخاتمۃ میں ذکر کیا ہے جو اصول ہم تک پہنچی ہیں انھوں نے اسکو جدا گانہ طور پے لکھا ہے اور انھیں أحادیث وسائل الشیعۃ کے مصادر میں شمار کیا ہے ۔نجاشی اور شیخ طوسی اور انکے علاوہ نے اپنی فہارس میں کثیر اصولوں کو ذکر کیا ہے ان کو لکھنے والےمصنفین اصول کی بڑی تعداد ہے اور ان فہارس میں انھوں نے ان مصنفین کے حالات زندگی کو بیان کیا ہے اور جو تحقیق کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ اس فن کی طویل کتب کی طرف مراجعہ کرے ۔
اصول اربع مأۃ کی احادیث کے اعتبار کے لیے استدلال کیا جاتاہے اس خبر سے جو خبر محمد بن الحسن بن أبی خالدالشنبولۃ نے دی ہے ،یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام تقیؑ سے پوچھا کہ میں آپ کی قربانی قرار پاؤہمارے مشائخ امام باقر اور امام صادقؑ سے روایات نقل کرتے ہیں اور اس دورمیں توشدید تقیہ تھا انھوں نےاپنی کتب کو چھپایاتو وہ ان سے روایت نہیں کر سکتے ،جب وہ مر گئے تو پھر وہ کتب ہم تک پہنچی کیا ایسا ہی ہے ،تو امامؑ نے فرمایا کہ ایسا ہی ہے تم ان سے حدیثیں لو یہ کتابیں حق ہیں ۔[8] الوسائل :ب ۸من صفات القاضی ،ح۲۷
عمومی دعوی کس طرح سے ہے سائل کا سوال ہے کہ ہمارے مشائخ نے ان سے روایا ت نقل کی ہیں اور امام تقیؑ کا مطلقا یہ کہنا کہ ان کتب سے تم حدیثیں لوخصوصا امام ؑ کا مطلق طور پے یہ فرمانا (فانّھا حق)یعنی اس کی روایا ت حق ہیں گویا کہ یہ تعلیل بیا ن کررہیں ہیں کیوں وہ حدیثیں بیان کرو کیونکہ وہ حدیثیں حق ہیں ۔
لیکن کہتے ہیں کہ یہ بات دو وجوہات کی بنیاد پر قبول نہیں ہے :
اول :ظاہر سوال وجواب پوچھنے والے کا مقصد کیا تھا کہ ان جماعت میں ایک تعداد اصحاب باقرؑ وصادقؑ میں ہے اور پوچھنے والے کا مقصد ان خاص اصحاب کی تعداد معلوم کرنا تھا تو امامؑ نے صرف اتنا بیان کیا ہے کہ جوکتب ہماری نگاہوں سے مخفی رہ گئی ان کتب کے مؤلفین نے جو کچھ بھی لکھا وہ حق تھا نہ کہ امام تقی ؑ یہ بیان کر رہے ہیں کہ جو بھی کتاب تمہیں مل جائے جس میں امام باقر ؑ اور صادقؑ سے لکھی گئی احادیث کی کتاب ملے اس کے اوپر تم اندٖھا دھن اعتماد کر لویا امام ؑیہ کہہ رہے ہیں کہ سائل نے یہ پوچھا کہ ہمارے مشائخ صادقین ؑ سے نقل کرتےہیں جب وہ صادقینؑ سے نقل کرتے ہیں تو وہ دور توتقیے کا دور تھا اور وہ کتب چھپا کے رکھا کرتے تھے تو ان کی وفات کے بعد انھوں نے ان کتب سے سے نقل کرنا شروع کیااسکے بعد وہ عام ہوئی تو امام ؑ نے فرمایا اگر وہ کتابیں ہیں جو ہمارے خواص اصحاب نے لکھی جو تقیے میں تھے تو وہ حق ہے نہ کہ جو بھی کتاب لکھی گئی ہو یہ بات بیان نہیں کی ۔
ثانی:یہ جو دعوا کیا گیا ہے کہ ہمیں جو بھی روایت کی کتاب مل جائے جس میں امام صادقؑ کی روایا ت جمع ہیں اس سے تم تمسک کرو اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے اس سےتو یہ لازم آجائے گا کہ جو بھی کتاب آپ کو مل جائے جس میں باقرؑ و صادقؑ سے روایات لی گئی ہیں اس کے اوپر عمل کرنا آپ کے لیے جائز بنتا ہے جبکہ اس بات کا کوئی قائل نہیں اگر چہ اس کی روایا ت کی سند کی صحت ہمارے لیے ثابت نہ ہوبلکہ جس کے اوپر اعتماد نہیں کیااس کے اوپر بھی عمل کرنا جائز قرار پاجائے گأ اسکا تو کوئی بھی بندہ قائل نہیں ہے ۔
اس بنیاد پے بعض نے اس روایت یعنی ابن أبی خالد شنبولۃکی روایت سے استدلال کیا ہے جتنی بھی اصول روایۃ ہم تک پہنچی ہیں ان سب کو معتبر قرار دیا ہے یا تمام کی تمام چار سو اصول کو معتبر قرار دیا یہ بات درست نہیں ہے ان میں سے بعض جو مشہور ہیں ان کے اوپر اعتماد ہوگا یا مؤلف کی وثاقت کے بعد جس کی سند امام تک پہنچ جاتی ہے وہ ہمارے لیے معتبر ہو گی۔