loading

عید کا چاند ثابت ہونے میں ولی فقیہ اور مراجع کرام کا اختلاف

سوال :

اگر ولی امر مسلمین رہبر معظم کے حکم کے بعدعمومی اعلان ہو جاۓ کہ اگلے دن عید ہے اور ہمارا مرجع تقلید کہے کہ کل روزہ ہے تو مومنین کا فریضہ کیا ہے؟ وہ عید کریں یا روزہ رکھیں؟   

جواب:

عیدکا چاند دیکھنا تقلیدی مسئلہ نہیں ہے کہ ہم اپنے مرجع تقلید کی پیروی کریں۔ چاند ثابت ہونے کے جو شرعی طریقے ہیں ،چاند ان سے ثابت ہوتا ہے کسی مرجع تقلید کے کہنے یا نہ کہنے سے چاند ثابت نہیں ہوتا۔
چاند ثابت ہونے کے یہ پانچ طریقے ہیں۔اگر ان پانچ طریقوں میں سے کسی ایک سے بھی چاند ثابت ہو جاۓ کافی ہے۔

۱۔انسان خود چاند دیکھ لے

۲۔دو عادل انسان گواہی دیں کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے

۳۔کچھ لوگ جن کے کہنے پر یقین یا اطمینان ہو کہیں کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے

۴۔مہینے کی پہلی تاریخ سے تیس دن گزر جائیں

۵۔حاکم شرعی کا حکم

پہلا اور چوتھا طریقہ بالکل واضح ہے۔پہلے طریقے کے مطابق اگر کوئی شخص خود چاند دیکھ لے اس کے لیے رؤیت ثابت ہو جاۓ گی ضروری نہیں کہ حتما اس کا مرجع تقلید اعلان کرے۔یا اگر مہینے کے تیس دن گزر جائیں تب بھی کسی اور طریقے کو اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔

لیکن اگر کسی نے خود چاند نہیں دیکھا تو یہاں پر دوسرے اور تیسرے طریقے کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔دو عادل افراد کی گواہی میں سب عادل افراد ایک برابر ہیں۔ چاہے آپ کی گلی محلی کے دو عادل افراد چاند دیکھنے کی گواہی دیں یا دو مرجع تقلید گواہی دیں کہ ہم نے چاند دیکھا ہے۔ ضروری نہیں کہ حتما خود مرجع تقلید یا اس کے دفتر کے دو عادل افراد گواہی دیں بلکہ اگر آپ کے آس پاس رہنے والے دو عادل افراد گواہی دے دیں کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے ،کافی ہے۔تیسرے طریقے میں بھی خود آپ کا اطمینان قلبی حاصل کرنا اہم ہے۔ممکن ہے یہ اطمینان عام افراد کے کہنے پر حاصل ہو جاۓ ،ضروری نہیں کہ حتما مراجع کے دفتر اعلان کریں۔پس اگر کسی کو رہبر معظم کے رؤیت ہلال کے اعلان کے بعد اطمینان حاصل ہو جاۓتو اس کے لیے عید ثابت ہے اور اگر اطمینان حاصل نہیں ہوتا تو روزہ رکھنا ضروری ہے۔

یہاں پر ایک نکتہ کی طرف توجہ رہے کہ اگر رہبر معظم کے دفتر سے یہ اعلان ہوتا ہے کہ انہوں نے دوربین یا ٹیلسکوپ کی مدد سے چاند دیکھا ہے اور عام آنکھوں سے چاند ان کو نظر نہیں آیا ،یا دو عادل مومنین یہ گواہی دیں کہ انہوں نے دوربین کی مدد سے چاند دیکھا ہے تو صرف رہبر معظم کےمقلدین کے لیے رؤیت ثابت ہوگی۔[1] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔ بقیہ مراجع کے نزدیک  یہ رؤیت ناکافی ہے۔[2]  آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ سیستانی،مسئلہ۲۱۲۸۔[3] آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ مکارم شیرازی۔ کیونکہ بقیہ مراجع عظام کا فتوی یہ ہے کہ حتما چاند عام آنکھوں سے دکھائی دے۔

آیت اللہ سیستانی کے نزدیک چاند کی رؤیت ٹیلی سکوپ یا دوربین سے ثابت نہیں ہوتی۔ ان کے فتوی کےمطابق تنہا حاکم شرعی کے حکم سے بھی رؤیت ثابت نہیں ہوتی مگر یہ کہ ان کے حکم سے آپ کو اطمینان حاصل ہو جاۓ،اس صورت میں آپ عید کر سکتے ہیں۔[4] سیستانی،علی حسینی،توضیح المسائل،مسئلہ۱۷۰۰۔