مامقانی، محقق خوئی، محسنی اور دیگر علماء رجال نے تحقیقی طور پر آپ کو ثقہ قرار دیا ہے۔حسن بن راشد کی توثیقِ خاص کتب رجالیہ میں مذکور نہیں ہے۔ لیکن شیخ صدوق نے من لا يحضره الفقيه میں حسن بن راشد کے طریق سے زیارت نقل کی ہے جس کے اختتام پر شيخ صدوق نے تحریر کیا ہے کہ میرے نزدیک یہ صحیح ترین روایت ثابت ہے اور اس کلی حکم سے سند کے صحیح ہونے پر بھی حکم لگایا گیا ہے۔ شیخ صدوق نے یہ زیارت قاسم کے طریق سے حسن بن راشد سے نقل کی ہے۔ نیز شیخ صدوق نے مشيخة میں قاسم سے حسن بن راشد کا جو طریق ذکر کیا ہے وہ صحیح اور معتبر ہے۔ [1] خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۸، رقم:۹۵۸۹۔[2]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۱۷۰۔