loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۷۱}

ولایت فقیہ اور حدیث میرے خلفاء پر رحم فرما

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

گزشتہ تحریر میں بیان ہوا کہ ولایت فقیہ سے متعلق وارد ہونے والی ہر روایت میں ہم نے تین مرحلے عبور کرنے ہیں۔ صدور حدیث، معنی حدیث، اور حجیت حدیث۔ شروع میں ہماری بحث صرف صدور حدیث پر ہوگی۔ اگلے مرحلے میں ہم حدیث کے معنی اور حجیت کو ثابت کریں گے۔ فقہی کتب میں ان تینوں پر بحث خلط ہے، اس لیے بحث کو عام فہم بنانے کے لیے ہم اس کو تین مراحل میں تقسیم کرتے ہوۓ بیان کریں گے۔

تیسری روایت

شیخ صدوق ؒنے من لا یحضرہ الفقیہ  اس روایت کو بغیر سند ذکئے نقل کیا ہے جس میں وارد ہوا ہے: وَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ×، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : اللَّهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائِي، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ خُلَفَاؤُكَ ؟ قَالَ: الَّذِينَ يَأْتُونَ مِنْ بَعْدِي يَرْوُونَ حَدِيثِي وَسُنَّتِي؛ امیرالمومنینؑ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میرے خلفاء پر رحم فرما۔ پوچھا گیا یا رسول اللہﷺ آپ کے خلفاء کون ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:وہ جو میرے بعد آئیں گے اور میری احادیث اور سنت کو روایت کریں گے۔ [1]صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۴۲۰۔

سندی تحقیق پر امام خمینیؒ کا تبصرہ

امام خمینیؒ نے اس روایت کو صحیح اور اسے ولایت فقیہ پر دلیل قرار دیا ہے۔ یہاں پر ایک قول یہ ہے کہ خلفاء سے مراد رسول اللہﷺ کی آئمہ معصومینؑ ہیں یا علماء کرام؟ بہرحال روایت کے معنی بعد میں بحث کئے جائیں گے۔ امام خمینیؒ نے اس روایت کے صحیح السند ہونے پر چند دلیلیں پیش کی ہیں۔

پہلی دلیل

درست ہے کہ یہ روایت مرسلہ ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ شیخ صدوقؒ کی مراسیل دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ ہیں جو صیغہ معلوم رَوَی کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔ اور دوسری قسم مراسیل کی وہ ہے جس میں صیغہ مجہول رُوَی ذکر ہوا ہے۔ ان دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ امام خمینیؒ فرماتے ہیں کہ صدوقؒ کو جن روایات کے صدور کا اطمینان تھا انہیں قوی الفاظ کے ساتھ ذکر کیا، مثلا قَالَ، اَخبَرَنی جو کہ معلوم کے صیغے ہیں اور یہ روایت بھی معلوم کے صیغے کے ساتھ آئی ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ روایت مرسلہ ہے لیکن اس مرسلہ کی حیثیت ابن ابی عمیر کی مراسیل سے کم نہیں ہے۔ ابن ابی عمیر کی مراسیل کو سب نے قبول کیا ہے۔ [2] رجوع کریں۔ صدوقؒ کی شخصیت کوئی چھوٹی شخصیت نہیں ہے جبکہ آج بھی عظیم شخصیات ان کی جلالت کے آگے سر خم تسلیم ہوتے ہیں۔ ہمارے قدیم علماء ایسے ہی روایات نہیں لے لیا کرتے تھے بلکہ صرف وہ روایات لیتے تھے جن کے صدور کا انہیں یقین ہوتا۔ حتی آج بھی بہت سے فقہاء کا رجالی مبنی یہ ہے کہ من لا یحضرہ الفقیہ کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ کیونکہ خود مؤلف نے کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے کہ میں نے اس کتاب کی روایات معتبر و مشہور اصول سے لی ہیں۔ مثلا ۱- كتاب حريز بن عبد اللہ سجستانى، ۲- كتاب عبيد اللہ بن على حلبى، ۳- علی بن مہزیار اہوازی کی کتابیں، ۴- حسين بن سعيد کی کتابیں، ۵- اور احمد بن محمد بن عیسی کے نوادر وغیرہ۔[3] شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۳۔

شیعہ اور سنی کی کُتُب حدیث میں فرق

ہم جانتے ہیں کہ اہل سنت روایات کو نقل کرتے ہیں جبکہ اہل تشیع کے ہاں ہمارے اصحاب لکھ لیا کرتے تھے۔ پس دونوں کی کتابوں کے اعتبار میں بہت فرق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بخاری نے جو کچھ بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے وہ اپنے استاد سے سنا ہے۔ اس کے استاد نے اپنے استاد سے سنا ہے اور اس نے اپنے استاد سے سنا ہے۔ اس طرح سنی سنائی باتیں روایات کی شکل میں ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان کے ہاں زیادہ تر قول کو نقل کیا جاتا رہا ہے۔ بخاری تیسری ہجری کے ہیں۔ یعنی تیسری ہجری میں انہوں نے کتابیں لکھنا شروع کیں اس سے پہلے صرف حدیث کو سننے اور اسے نقل کرنے پر اکتفاء کیا جاتا رہا۔ اہل سنت کے ہاں چھوٹی چھوٹی کتابیں ضرور تھیں لیکن یہ ان روایات کے مجموعے کے مقابلے میں کچھ نہ تھا جو نقل قول کی بنا پر کتابوں میں لکھ دیا گیا۔ جبکہ شیعہ اصحاب روایات کو لکھتے تھے۔ کتاب میں بھولنے کا امکان نہیں ہوتا، لیکن جو بات سینہ بسینہ رسول اللہﷺ سے نقل ہوتی ہوئی تیسری صدی کے ہجری کے محدث تک پہنچی ہے اس میں ہیر پھیر یا راوی کے سہو و نسیان کا ایک وسیع امکان موجود ہے۔ جبکہ ہمارے اصحابجو کچھ امام سے سنتے اس کو کاپی میں لکھ لیا کرتے۔ ان میں سے بعض اصحاب کی یہ چھوٹی چھوٹی کتابیں اسی دور میں ہی شہرت پا گئیں۔ ان کتابوں کو اصل کہا جاتا تھا۔ کتاب کا نام اصل رکھ دیا گیا، اصل کی جمع اصول ہے۔ اور ہماری کتب اربعہ میں زیادہ تر روایات انہیں اصول سے نقل کی گئی ہیں۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ بعض مشہور اصحاب کے اصول رائج ہو گئے، ان کو محفوظ کر لیا گیا اور ہمارے محدثین نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔ اس لیے شیخ صدوقؒ مقدمے میں فرما رہے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں روایات صرف ان اصول سے نقل کی ہیں جو معتبر اور مشہور تھے۔ یہ اصول امیرالمومنینؑ کے دور سے ہی لکھے جانے لگے، امام باقرؑ اور صادقؑ کے دور میں بہت سے اصحاب نے اصول لکھے۔ ان میں سے بعض اصول اتنے مشہور ہو گئے کہ ان کچھ لوگوں کو حفظ تھے۔ جو اصول رائج ہو جاتے ان کو کتب مشہورہ کہا جاتا تھا۔ اور ان اصول کو کسی سند کی احتیاج نہیں ہوتی تھی۔ مثلا آج کے دور میں کوئی کتاب علماء کے مابین مشہور ہو جاۓ کہ یہ کتاب رہبر معظم نے لکھی ہے تو اس کی سند نہیں پوچھی جاۓ گی۔ علماء کے درمیان ایک کتاب کا شہرت پا جانا اس کے معتبر اور حجت ہونے کے لیے کافی ہے۔ ہمارے ہاں بہت سی کتابیں شہرت کی بنا پر قبول ہیں۔ مثلا نہج البلاغہ کی ویسے تو سند پر بھی کام کیا گیا ہے لیکن در اصل یہ کتاب اسی زمانے سے ہی شہرت پا گئی اور علماء کے درمیان رائج تھی۔ اصول کی دوسری قسم وہ ہے جو مشہور نہیں تھے۔ بعض اصحاب نے کتابیں لکھیں لیکن ان کو وہ شہرت نا مل سکی جو دوسری کتابوں کو حاصل تھی۔ ان کتابوں سے ہمارے علماء روایات نقل نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ امکان موجود تھا کہ اس اصل میں ایسی روایات موجود ہیں جو شیعہ نہیں مانتے۔ یہ وہ دور تھا جب علماء میں ایسے لوگ موجود تھے جو ضعیف شخص سے روایت کرنے والے کو ہی قم سے نکال دیا کرتے تھے۔ شخص خود بہت جلیل القدر ہوتا لیکن ضعیف شخص سے روایتیں لیتا، ایسے شخص کو قم سے نکال دیا جاتا تھا۔ اس دور میں ایک کتاب کا علماء کے درمیان مشہور ہو جانا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اصل سینہ بسینہ نہیں لکھے جاتے تھے بلکہ امام کے آگے بیٹھ کر جو سنا وہ لکھ لیا جاتا تھا۔ اور ایسا نہیں ہے کہ جو لکھا بس اس کو پھیلا دیا، بعد میں امام کو یہ اصل چیک کروائی جاتی تھی۔ امام اس اصل کی تصدیق کرتے تب اس کو نقل کیا جاتا تھا۔

دوسری دلیل

امام خمینیؒ اس روایت کے صحیح ہونے پر دوسری دلیل لاتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ یہ روایت کثیر اسانید سے وارد ہوئی ہے۔ مختلف اسانید سے اس مضمون کا صارد ہونا اس مطلب کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ روایت امام سے صادر ہوئی ہے۔ معانی الاخبار میں بھی شیخ صدوق نے نقل کی ہے۔ معانی الاخبار میں اس روایت کی سند اس طرح سے منقول ہے: حَدَّثَنَا أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ ، قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ النَّوْفَلِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ دَاوُدَ الْيَعْقُوبِيِّ ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ × قَال ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ’: اللَّهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائِي ، اللَّهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائِي ، اللَّهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائِي . [4]صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ص ۳۷۵۔ معانی الاخبار میں موجود حدیث میں خلفاء پر رحمت کی دعا کا تین مرتبہ تکرار کیا گیا ہے۔
معانی الاخبار میں اس روایت کے رواۃ بالترتیب درج ذیل ہیں:
۱۔ علی بن حسین بابویہ:
۲۔ علی بن ابراہیم:
۳۔ ابراہیم بن ہاشم:
۴۔ حسین بن یزید نوفلی:
۵۔علی بن داود یعقوبی:
۶۔ عیسی بن عبد اللہ:
۷۔ عبد اللہ بن محمد بن عمر:
۸۔ عمر بن علی بن ابی طالب :
شیخ آصف محسنیؒ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔[5] محسنی، شیخ محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرہ، ج۱، ص۵۴۔ شیخ آصف محسنیؒ کا اس روایت کو صحیح قرار دینا معمولی بات نہیں ہے کیونکہ ان کے رجالی مبانی بہت سخت ہیں۔
اس کے علاوہ یہ روایت  شیخ صدوقؒ نے اپنی  کتاب امالی اور عیون اخبار الرضا ؑ میں بھی نقل کی ہے۔ [6] صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۲۴۷۔ [7] صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۴۰۔ اس روایت کا مضمون صحیفہ رضاؑ ، اور عوالئ اللئالی میں بھی نقل ہواہے۔[8] صحیفہ امام رضا، منسوب بہ  امام رضاؑ، ج۱، ص۵۶۔ [9] ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی، ج۴، ص۶۴۔ اس روايت كو محدث نوری نے مستدرک الوسائل، علامہ مجلسی نے بحار، اور شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں نقل کیا ہے۔[10] محدث نوری، میرزا حسین نوری، مستدرک الوسائل، ج۱۷، ص۲۸۷۔ [11] علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۲، ص۱۴۵۔ [12] شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۶۵۔  امام خمینیؒ کے علاوہ اور بھی بہت سے علماء نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ جن میں خلخالی، طہرانی، اراکی، اور سیفی مازندرانی شامل ہیں۔[13] موسوی خلخالی، سید محمد مہدی، فقہ الشیعہ، ج۷، ص۲۶۰۔ [14] حسينی طہرانی، سید محمد حسین، ولایت فقیہ در حکومت اسلام، ج۲، ص۳۷۔ [15] اراکی، محسن، فقہ نظام سیاسی  اسلام، ج۱، ص۱۵۔ [16] سیفی مازندرانی، علی اکبر، ولایت الفقیہ و ما یتعلق بہا، ج۱، ص۹۴۔    تاہم بعض فقہاء نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ جن میں رضا مدنی کاشانی [17] حوالہ درکار ہے۔ اور میرزا جواد تبریزی شامل ہیں۔[18] تبریزی، میرزا جواد، ارشاد الطالب الی تعلیق المکاسب، ج۳، ص۲۷۔

چوتھی حدیث

کلینی نے الکافی میں امام کاظمؑ سے روایت نقل کی ہے جس میں میں امام فرماتے ہیں: مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ، يَقُولُ: إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ بَكَتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ وَبِقَاعُ الْأَرْضِ الَّتِي كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَيْهَا وَأَبْوَابُ السَّمَاءِ الَّتِي كَانَ يُصْعَدُ فِيهَا بِأَعْمَالِهِ وَثُلِمَ فِي الْإِسْلَامِ ثُلْمَةٌ لَا يَسُدُّهَا شَيْءٌ، لِأَنَّ الْمُؤْمِنِينَ الْفُقَهَاءَ حُصُونُ الْإِسْلَامِ كَحِصْنِ سُورِ الْمَدِينَةِ لَهَا؛ جب کوئی مومن مر جاتا ہے تو ملائکہ اس کے لیے روتے ہیں، اور زمین کے وہ حصے روتے ہیں جن پر اس نے خدا کی عبادت کی ہو۔ اور آسمان کے وہ دروازے جن سے اس کے اعمال اوپر گئے ہیں۔ اور اس کے مرنے سے اسلام میں ایسا رخنہ پڑتا ہے جسے کوئی شے بند نہیں کر سکتی۔ کیونکہ علماء دین اسلام کے اسی طرح سے قلعے ہیں جس طرح شہر پناہ والی دیواریں شہر کے گرد ہوتی ہیں۔[19] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۸۔ یہی حدیث تھوڑے سے فرق کے ساتھ الکافی میں ایک اور مقام پر ذکر کی گئی ہے جس میں وارد ہوا ہے:مُحَمَّدُ سَهْلُ بْنُ زِيَادٍ وَ عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ الْأَوَّلَ ع يَقُول إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ بَكَتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ وَ بِقَاعُ الْأَرْضِ الَّتِي كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَيْهَا وَ أَبْوَابُ السَّمَاءِ الَّتِي كَانَ يُصْعَدُ أَعْمَالُهُ فِيهَا وَ ثُلِمَ ثُلْمَةٌ فِي الْإِسْلَامِ‌ لَا يَسُدُّهَا شَيْ‌ءٌ لِأَنَّ الْمُؤْمِنِينَ حُصُونُ الْإِسْلَامِ كَحُصُونِ سُورِ الْمَدِينَةِ لَهَا؛اس میں صرف ایک مسئلہ ہے۔ پہلی حدیث جس میں الْفُقَهَاءَ حُصُونُ الْإِسْلَامِ آیا ہے، اس میں خصوصیت کے ساتھ فقہاء کے قلعہ اسلام ہونے کا ذکر ہوا ہے لیکن اس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے۔ لیکن دوسری روایت جو صحیح السند ہے اس میں صرف  الْمُؤْمِنِينَ حُصُونُ الْإِسْلَامِ  وارد ہوا ہے۔ فقہاء کا ذکر نہیں ہے۔[20] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۷۸، ۱۷۹۔

منابع:

منابع:
1 صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۴۲۰۔
2 رجوع کریں۔
3 شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۳۔
4 صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ص ۳۷۵۔
5 محسنی، شیخ محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرہ، ج۱، ص۵۴۔
6 صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۲۴۷۔
7 صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۴۰۔
8 صحیفہ امام رضا، منسوب بہ  امام رضاؑ، ج۱، ص۵۶۔
9 ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی، ج۴، ص۶۴۔
10 محدث نوری، میرزا حسین نوری، مستدرک الوسائل، ج۱۷، ص۲۸۷۔
11 علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۲، ص۱۴۵۔
12 شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۶۵۔
13 موسوی خلخالی، سید محمد مہدی، فقہ الشیعہ، ج۷، ص۲۶۰۔
14 حسينی طہرانی، سید محمد حسین، ولایت فقیہ در حکومت اسلام، ج۲، ص۳۷۔
15 اراکی، محسن، فقہ نظام سیاسی  اسلام، ج۱، ص۱۵۔
16 سیفی مازندرانی، علی اکبر، ولایت الفقیہ و ما یتعلق بہا، ج۱، ص۹۴۔
17 حوالہ درکار ہے۔
18 تبریزی، میرزا جواد، ارشاد الطالب الی تعلیق المکاسب، ج۳، ص۲۷۔
19 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۸۔
20 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۷۸، ۱۷۹۔
Views: 14