loading

{ اخلاقِ اسلامی }

حقیقت وہم اور انسانی زندگی پر اثرات

تحریر: سید محمد حسن رضوی
06/09/2024

علماء اخلاق کے مطابق انسانی نفس کو اللہ تعالیٰ نے متعدد قوتیں عنایت کی ہیں جن کے ذریعے انسان اپنے رشد اور کمال کا سفر کرتا ہے۔ حکماء کے مطابق انسانی نفس میں بنیادی قوتیں ’’قوتِ نباتی، قوتِ حیوانی اور قوتِ انسانی‘‘ سے تعبیر کی جاتی ہیں۔ قوتوں کے اس خزانے میں انسان جن قُوَی کے ذریعے ادراک اور جاننے کا عمل انجام دیتا ہے اسے قوتِ ادراکیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جوکہ قوتِ حواس ، قوتِ خیال اور قوت عقل کہلاتی ہے۔ انسانی نفس ایک حقیقت رہتے ہوئے ان قوتوں کے ذریعے جہانِ عقل وجبروت، جہانِ مثال و ملکوت اور جہانِ مادی و ناسوت سے تعلق قائم کرتا ہے۔ نفسِ انسانی  مادی جہان کے حقائق ظاہری حواسِ خمسہ اور باطنی جہان کے حقائق قلب و عقل اور کشف و شہود کے ذریعے درک کرتا ہے۔ انسانی نفس میں جہانِ عقل کا نمونہ قوتِ عقل، جہانِ مثال و ملکوت کا نمونہ قوتِ خیال اور دنیائے  مادی کا نمونہ قوتِ حواس عنایت کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی ان قوتوں قوتِ وہم کیا مستقل کوئی قوت ہے یا انہی کے ضمن میں یہ قوت آتی ہے؟ اس بارے میں محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے جس کی تفصیلات درج ذیل موضوعاتی گفتگو کے ضمن میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

انسانی نفس میں قوتِ ادراکیہ:

انسان کے پاس معلومات حاصل کرنے کا اہم ذریعے نفسانی قوتیں ہیں ۔ یہ قوتیں اشیاء وحقائق ے تعلق قائم کر کے تمام معلومات انسانی نفس تک پہنچاتی ہیں ۔ان میں سے ہر قوت کی معلومات کی نوعیت دوسری قوت کے ذریعے حاصل شدہ معلومات سے جدا ہے۔ اصطلاحی دنیا میں جس قوت سے جیسی معلومات حاصل ہوتی ہیں انہیں اس قوت کی طرف نسبت دے کرخاص نام رکھا دیا گیا ہے ۔ چنانچہ حواس سے حاصل کی جانی والی معلومات حسّی معلومات کہلاتی ہیں جبکہ قوتِ خیال سے ابھری ہوئی معلومات خیالی معلومات اور قوتِ عقل سے دریافت کی جانے والی معلومات عقلی معلومات کہلاتی ہیں۔ انہی معلومات کو مفاہیم، معانی اور تصورات کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس جگہ ہمارے پاس یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اصل ہمارے پاس تین قوتِ ادراکیہ ہیں:
۱۔ حواس
۲۔ خیال
۳۔ عقل

فلاسفہ کے مطابق قوتِ حواس (دیکھنا، سننا، چکھنا، سونگھنا اور لمس کرنا) سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں انہیں قوتِ خیال محفوظ کر لیتی ہے۔ اسی طرح قوتِ عقل جن معلومات کو حاصل کرتی ہے یا غیبی جہانوں سے انسان کو جو معلومات ملتی ہیں ان سب معانی و معلومات کو قوتِ خیال تصویر و شکل و رنگ دے کر حسّ مشترک پر ابھارتی ہے اور انسانی نفس حسّ مشترک پر ابھری تصویر کشی کے ساتھ مشغول ہو جاتا ہے۔ پس قوتِ خیال انسانی نفس میں تصویر کشی کرنے والا قلم یا کیمرہ ہے جو ہر ملنے والے معنی کو تصویر و واقعہ میں ڈھال کر انسانی نفس کے سامنے پیش کر دیتا ہے اور انسان اس کے ساتھ مشغول رہتا ہے۔ انسان حقیقت میں قوتِ خیال کی ابھاری ہوئی تصویر کو دیکھتا ہے نہ کہ براہ راست باہر دیکھتا ہے۔ حواس مادی جہاں سے معلومات پکڑ کر خیال کے سپرد کرتے ہیں اور عقل جن معانی کا ادراک کرتی ہے ان کا تعلق اگر خیال سے قائم ہو جائے تو قوتِ خیال اسے بھی تصویر میں ڈھال دیتی ہے۔ حتی کہ مکاشفات کی دنیا میں جو معانی انسانی نفس کو عنایت ہوتے ہیں انہیں بھی قوتِ خیال تصویر کا جامہ پہنا دیتی ہے جس کی وہ سے مکاشفات کے معانی کو خالص طور پر معلوم کرنے کے لیے تعبیر کی ضرورت پیش آتی ہے اور معبِّر خیالی تصویر کشی کو عبور کر کے اصل معانی کو دریافت کر کے پیش کرتا ہے۔ پس بعض قوتیں معانی کو درک کر رہی ہیں اور معانی کو دریافت کر کے اور پکڑ کر نفس کے حوالے کرتی ہیں۔ انسانی نفس کے حوالے جب یہ معانی ہوتے ہیں اور قوتِ خیال کی دسترس میں آ جائیں تو قوتِ خیال انہیں تصاویر و خیالی واقعہ میں ڈھال کر انسان کے نفس پر آشکار کرتی ہے جسے ہم خیالات یا خواطر سے تعبیر کرتے ہیں۔

معانی جزئیہ اور معانی کلیہ :

اصطلاحات کی دنیا میں حاصل ہونے والی معلومات کو دو عنوان دیئے جا سکتے ہیں:
۱۔ صورت: اس سے وہ مُدرَکات و معلومات ہیں جو حسّ کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہیں۔ بالفاظِ دیگر حسی و خیالی معلومات کو علمی اصطلاح میں ’’صورت‘‘ کہا جاتا ہے۔
۲۔ معنی: اس سے مراد وہ مُدرَکات و معلومات ہیں جو حس سے حاصل نہیں ہو سکتے  کیونکہ وہ نا محسوس ہیں، مثلاً نفس کے اندرونی حالات، خوشی غمی، دوستی دشمنی، محبت نفرت، خوف رغبت، خیر شر وغیرہ۔ معنی کو ہم مزید دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
– معنی جزئی :قوت واہمہ کے ذریعے انسانی نفس معانی جزئیہ کو درک کرتا ہے۔ لہٰذا کسی خاص شخص یا خاص و معین شیء کو قوتِ واہمہ کے ذریعے درک کیا جاتا ہے۔
– معنی کلی: قوتِ عقل کے ذریعے انسانی نفس معانی کلیہ کو درک کرتا ہے، مثلاً محبت کا کلی مفہوم، ماں کی محبت کا کلی مفہوم وغیرہ۔

اس مرحلہ میں اس طرف خصوصی توجہ رکھنا چاہیے کہ قوتِ عقل فقط اور فقط معانی کو درک کرتی ہے جس کے ساتھ نہ شکل و صورت ہوتی ہے اور نہ کوئی مادہ۔ بالفاظِ دیگر قوتِ عقل کا تعلق خالص معانی و معلومات کے ساتھ ہے۔ اس کے مقابلے میں حواسِ خمسہ مادی اشیاء کو درک کرتی ہیں لیکن یہ معلومات جب قوتِ خیال کے مرتبہ پر پہنچتی ہیں تو یہ خیالی صورت یا تصورات کہلاتی ہیں۔

قوتِ وہم عقل کی نازلہ اور ساقط مرتبہ :

وہم کے نام جداگانہ ہمارے پاس کوئی قوت نہیں ہے جیساکہ علماء اخلاق اور حکمتِ متعالیہ نے دلائل سے اس امر کو ثابت کیا ہے۔ اگرچے فلسفہِ مشاء قوتِ وہم کو جداگانہ مستقل ایک قوت قرار دیتی ہے لیکن فلسفہِ حکمت متعالیہ کی نگاہ میں قوتِ وہم عقل کی نیچلی سطح کے مرتبہ کو کہتے ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ اپنی کتاب ہزار و یک نکتہ میں نکتہ نمبر ۵۱۵ میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’وہم‘‘ عقل کا نیچلا مرتبہ ہے ۔ بالفاظِ دیگر ’’وہم‘‘ عقلِ ساقط ہے۔ پائین اور نچلے مقام پر قائز عقل کو وہم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [1]آملی، حسن زادہ، ہزار و یک نکتہ، نکتہ ۵۱۵، ص ۲۷۲۔ملا صدرا اسفارِ اربعہ میں تحریر کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک قوتِ وہم اگرچے دیگر قوتوں سے جدا ہے لیکن ذاتِ وہم خود عقل سے مستقل یا جدا کوئی قوت یا ذات نہیں ہےبلکہ جب ذاتِ عقل کو شخصِ جزئی سے نسبت دیں گے اور ذاتِ عقل جب بھی شخص جزئی سے تعلق قائم کرے گی اور شخص جزئی کی تدبیر کرے گی تو اسی ذاتِ عقل کو وہم کہہ دیا جاتا ہے۔ پس قوتِ عقل خیال سے تعلق قائم کر لے تو اس کو وہم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قوتِ وہم کا قوتِ عقل سے مثبت منفی تعلق:

گذشتہ سطور سے معلوم ہوا کہ قوتِ وہم انسانی نفس میں کوئی جدا مستقل قوت نہیں ہے بلکہ قوتِ عقل ہی اس وقت قوتِ وہم کہلاتی ہے جس وہ خیال سے تعلق قائم کر لے اور کلیات کی بجائے جزئیات کے معانی کا ادراک کرے۔ قوتِ وہم کو عقل کے پہلو سے مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ عقل کی نسبت سے اس کے دو پہلو ہیں:
۱۔ عقل کے سامنے مطیع
۲۔ عقل کے سامنے سرکش و باغی

اگر قوتِ وہم مطیع ہو اور عقل کے ماتحت ہو تو عقل کی خدمت گزار ہوتی ہے اور عقلِ عملی میں ممد و معاون بنتی ہے۔ لیکن اگر قوتِ وہم سرکش و باغی ہو جائے تو عقل کے کلی ادراکات میں خطاء کا باعث بنتی ہے اور ذہنی خطائیں اکثر بیشتر قوتِ وہم کی سرکشی و بغاوت کی وجہ سے سرزد ہوتی ہیں۔ملا صدرا عقل اور وہم میں نسبت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عقل کا تعلق معقولات اور وہم کا تعلق محسوسات سے ہے۔ ملک اور ملکوت دو جہان ہیں جنہیں دو دریاؤں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ملک سے مراد مادی جہان ہے اور ملکوت سے مراد غیر مادی جہان ہے۔ ہر دو دریا میں کشتی ہے جس میں اس کا سوار موجود ہے۔ عالم ملک کو محسوسات کے دریا سے اور عالم ملکوت کو معقولات کے دریا سے تشبیہ دی گئی ہے۔ دریائے معقولات کی کشتی کا نام قوتِ نظری اور اس میں سوار کو عقل اور دریائے محسوسات کی کشتی کا نام قوتِ متخیلہ اور اس میں سوار کو وہم کہا جاتا ہے۔ پس قوتِ وہم کبھی عقل کی مدد کرتی ہے اور کبھی عقل کو خطاء سے دوچار کرتی ہے۔

وہم عقل کی خادم:

۔

قوتِ وہم اندرونی شیطان:

جب انسانی نفس پر قوتِ وہم کی حکومت ہونے لگے تو اسی جگہ راہِ الہٰی کے سالک بہک جاتے ہیں اور شیطانی خیالات و خواطر نفس کو جکڑ لیتے ہیں۔ علماءِ اخلاق و عرفان نے قوتِ وہم کی شیطنت کے پہلو کو دقّت اور تفصیل سے بیان کیا ہے تاکہ انسان  راہِ الہٰی کاسالک بن سکے۔ قرآن کریم اور روایات میں اس قوتِ واہمہ کو نفس امارہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔وہم کو تمام حیوانی قوتوں کا رئیس کہا جاتا ہےکیونکہ اس کے ذریعے معانی جزئیہ کا ادراک ہوتا ہے۔ حکماءِ  مشاء اور حکماءِ  متعالیہ قوتِ وہم کو تمام حیوانی قوتوں کی رئیس کے عنوان دینے پر متفق نظر آتے ہیں کیونکہ عقلِ انسانی نفس کی تمام قوتوں پر حاکم اور غالب قرار دی گئی ہے ۔ فرق نہیں پڑتا وہ قوتیں ظاہری ہیں یا باطنی ہر دو پر قوتِ عقل کو فوقیت و برتری حاصل ہے۔ قوتِ قوت مادہ اور صورت ہر دو سے مجرد ہوتی ہے اس لیے یہ مافوق شمار ہوتی ہے۔

حکمت متعالیہ کے مطابق انسان کا باطن اور اخلاقی کردار چار صفات کا معجون و مرکب ہے :
۱۔ صفات بہیمہ: یعنی شہوات، حرص اور فجور وغیرہ۔
۲۔ صفاتِ سبُعیہ: یعنی حسد، دشمنی ، نفرت وغیرہ۔
۳۔ صفاتِ شیطانی: یعنی مکرو فریب، دھوکا ، غرور و تکبر، حبّ مقام و منصب، ریا کاری ، نفاق، فخر و مباہات، برتری و خود پسندی وغیرہ۔ان صفات کا مصدر قوتِ وہم ہے۔
۴۔ صفاتِ علم و عقل: ان کا رذائل سے منزّہ ہونا اور صفاتِ ملکی کو پاک و طاہر کرنا۔

اخلاقی اعمال و افعال میں وہم کا گمراہ کرنے اور خطاء و اشتباہ سے دوچار کرنے کا پہلو بقیہ دیگر کے منفی پہلو سے زیادہ ہے۔ وہم کی تاثیر انسان کے ارادی افعال میں انتہائی نمایاں ہے۔  کوئی ایسا اختیاری فعل نہیں ہے جو انسان کے ارادہ اور اختیار سے صادر نہ ہو۔ نفسِ انسانی کے ارادے سے افعال کے صادر ہونے کی کیفیت کے چار مبدأ ملا صدرا نے بیان کیے ہیں:
۱۔ مبدأ بعید: اس سے مراد وہم یا خیال کے ذریعے سے تصور کرنا ۔
۲۔ مبدأ متوسط: فعل کے فائدہ یا نقصان کی تصدیق کرنا ۔
۳۔ مبدأ متوسط: فعل کے انجام دینے کا شوق شدید یا فعل کو ترک و دفع کرنا۔
۴۔ مبدأ قریب: فعل کو انجام دینے کا ارادہ کر لینا۔
نفسِ انسانی سے کوئی فعل ان چار مبدأ کے بغیر ذاتِ انسانی میں ظاہر نہیں ہوتا۔ انسان جب کسی عمل کو انجام دینے کا قصدو ارادہ کرتا ہے تو سب سے پہلے اپنی ذات میں اس فعل کی انجام دہی کا علمی تصوّر کرتا ہے، اس کے بعد اس فعل کے نفع یا ضرر کی تصدیق کرتا ہے، اس کے بعد نفع و فائدہ کے پیش نظر شوقِ شدید کا جذبہ اپنے اندر ملاحظہ کرتا ہے یا نقصان و ضرر کی صورت میں اسے فعل کو ترک اور دفع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر جب ارادہ اور عزم مکمل ہو جائے تو فعل اس سے صادر ہو جاتا ہے اور وہ عمل کو انجام دے دیتا ہے۔ ان مبادئ میں مبدأِ قریب قوتِ محرِّکہ ہے جسے انسانی اعضاء میں قرار دیا گیا ہے ۔ ان میں مبدأ بعید تخیل و توہم ہے۔

حقیقتِ اخلاق ارادہ اور قصد ہے۔ لہٰذا انسان ہر عمل کو انجام دینے سے پہلے اس کا ذہنی تصور کرتا ہے۔ اگر خیالی تصور یا خیالی امر وہمی رجحانات سے مناسبت اور سازگاری رکھتا ہے تو اس  انسان سے جو فعل سرزد ہو گا وہ وہمی فعل و عمل کہلائے گا۔ لیکن اگر جنم لینا والا عمل عقلی تمایلات و رجحانات کے مطابق ہو یعنی قوتِ خیال و قوتِ وہم عقل کے ماتحت ہو تو انجام پانے والا عمل عقلی عملی کہلائے گا۔

۔

عذابِ اخروی کا  ادراک قوت وہم کے ذریعے

۔

منابع:

منابع:
1 آملی، حسن زادہ، ہزار و یک نکتہ، نکتہ ۵۱۵، ص ۲۷۲۔
Views: 126

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: معرفت نفس میں علم و عمل کا کردار