loading

تواضع اور اس کے آثار

تحریر: سید محمد حسن رضوی
07/16/2023

علم اخلاق انسانی کے باطن کا ترجمان اور اس کی باطنی خلقت کا آئینہ دار ہے۔ محققین کے مطابق آداب کا تعلق انسان کے ظاہری عمل اور اخلاق کا تعلق انسان کی باطن کی صورت و ہیئت سے ہے۔ آیات و احادیث مبارکہ میں تواضع کو تفصیلی طور پر بیان کیا ہے جن سے استفادہ کرتے ہوئے علماء اخلاق و راہِ الہٰی کے سالکین نے ظریف و دقیق مطالب اخذ کیے ہیں۔ اخلاقِ حسنہ کے خصائل و فضائل میں سے ایک تواضع ہے جسے علماء اخلاق نے تکبر کے علاج کی بحث کے ضمن تفصیلی طور پر بیان کیا ہے۔ عرفاء نے تواضع کو راہِ سلوک کی اساسی شرط قرار دیا ہے ۔ منازل السائرین میں خواجہ انصاری نے تواضع کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اس کے تین مراتب ذکر کیے ہیں جن سے بحث آئندہ آنے والی سطور میں پیش کی جائے گی۔

تواضع کے لغوی معنی:

کلمہِ تواضع عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اصلی حروف ’’و-ض-ع‘‘ ہیں۔ ابن فارس متوفی ۳۹۵ ھ وضع کا معنی بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:{ أَصْلٌ وَاحِدٌ يَدُلُّ عَلَى الْخَفْضِ [لِلشَّيْءِ] وَحَطِّهِ؛ اس لفظ کا ایک اصلی معنی ہے جوکہ کسی شیء کی پستی اور اس کے اپنے مقام سے گرنے پر دلالت کرتا ہے}[1]ابن فارس، احمد ، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۶، ص ۱۱۷۔اسماعیل جوہری متوفی ۳۹۳ ھ نے الصحاح میں تواضع کا معنی تذلل ذکر کیا ہے۔ [2]جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ، ج ۳، ص ۱۳۰۰۔ تذلل سے مراد اپنے مقام سے اپنے آپ کو نیچے لانا اور نفس کو ذل میں ڈالنا  ہے۔عربی زبان میں ذلیل یا ذلت کا مطلب مقامِ اہانت پر اترنا یا حقیر و پست ہونا ہے۔ اس اعتبار سے تواضع اور تذلل یا ذلت اختیار کرنے میں فرق ہے۔

تواضع اور تذلل میں فرق:

لغت کے اعتبار سے تواضع اور تذلل میں فرق ہے۔ عربی زبان میں ذُلّ کا مطلب کسی کے سامنے خاضع ہونے، نرم پڑ جانے اور پست و حقیر ہونے کے ہیں۔ کلمہِ ذُلّ مثبت بھی استعمال ہوتا ہے اور منفی بھی ۔ [3]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۳۴۵۔ابو ہلال عسکری متوفی ۳۹۵ھ تواضع اور تذلُّل میں فرق بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:{ التذلُّل إظهارُ العجز عن مقاومةِ مَن يَتَذَلَّلُ لَه. وَالتَّوَاضُعُ إِظهَارُ قدرةِ مَن يَتَوَاضَعُ لَه سواء كان ذا قدرة على المتواضع أو لا؛کسی شخص کو ذلیل و پست کرنےوالے شخص کے مقابلے میں مقاومت کرنے سے عاجزی و کمزوری کا اظہار کرنا تذلل کہلاتا ہے۔جبکہ  کسی کے سامنے تواضع سے پیش کرنے والے شخص کا قدرت و طاقت کا اظہار تواضع کہلاتا ہے ، فرق نہیں پڑتا کہ تواضع کرنے والا متواضَع پر قدرت رکھتا ہے یا نہیں } . [4]ابو ہلال عسکری، حسن بن عبد اللہ، الفروق اللغویۃ، ص ۲۴۴۔

تواضع کی اصطلاحی تعریف:

علماء اخلاق و عرفان نے تواضع سے سَیر حاصل گفتگو کی ہے۔ علماء اخلاق میں سے ملا مہدی نراقی ایک جگہ پر تواضع کی تعریف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: (الكبر) و هو التعظيم الموجب لرؤية النفس فوق الغير، و ضده (التواضع) و هو أن لا يرى لنفسه مزية على الغير ؛ ایسی تعظیم جوسبب بنتی ہے کہ  نفس کو اپنے آپ کو اپنے غیر سے بالاتر اور مافوق سمجھے تکبر کہلاتا ہے۔ اس کی ضد تواضع ہے جس سے مراد ایک شخص کا غیر کے مقابلے میں  اپنے نفس کو کسی خصوصیت کا حامل نہ سمجھنا ہے}. [5]نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ۱، ص ۱۰۵۔ ایک اور مقام پر ملا نراقیؒ تواضع کی تعریف کرتےہوئے تحریر کرتے ہیں کہ حقیقت تواضع یہ ہے کہ نفس غیر کے مقابلے میں اپنی ذات کے لیے کسی واقعی خصوصیت اور حقیقی نیکی و خیر کو قرار نہ دے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نفس اپنے آپ کو اس ظاہری صفت یا خصوصیت سے عاری سمجھے جس سے وہ یقینی طور پر متصف ہے یا یقینی طور پر متصف نہیں ہے، مثلاً علم، عبادت، سخاوت، عدالت، حرام اموال سے اجتناب کرنا وغیرہ۔ کیونکہ بعض علوم سے واقف انسان کیسے اپنے آپ کو اس حقیقت سے عاری قرار دے کہ وہ ان علوم کا عالم ہے اور فلاں شخص ان علوم سے جاہل ہے!! لیکن نفس کا ان اعلیٰ خصوصیات سے متصف ہونا اور نیکی و خیر کے اوصاف سے آراستہ ہونے کے مقصد   اللہ کا تقرُّب اور دائمی سعادت تک پہنچنا قرار دے۔ایسا ہو سکتا ہے کہ انسان ایک کمال یا خصوصیت سے آراستہ ہو لیکن وہی اس کی شقاوت کا باعث بن جائے اس لیے انسان اصل کمال حُسن خاتمہ اور عاقبت باخیر کو قرار دے۔ کتنےمؤمنین کا خاتمہ کفر پر اور کتنے کفار کا خاتمہ ایمان پر ہوا۔ [6]نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ۱، ص ۲۸۸۔

تواضع میں کم غذا پر اکتفا کرنا

رسول اللہ ﷺ کے بارے میں صحیح السند روایت میں وارد ہوا ہے:۔

 

Views: 169

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: تفکر قرآن و حدیث کی روشنی
اگلا مقالہ: قناعت اخلاق و عرفان کی روشنی میں