loading

عدالت اور وثاقت کے امارات

تحریر:بہادر علی
25/05/2023

اگر کوئی شخص امام معصوم کا وکیل ہے تو اس کا وکیل ہونا اس بات کے اوپر علامت ہے کہ وہ شخص ثقہ ہے ،وکالت کے اس دائرہ سے بواب اور خادم خارج ہے کیونکہ بواب اور خادم کو عرف میں وکیل شمار نہیں کیا جاتا ،جو بعض  وکلاء کی مذمت وارد ہوئی ہے جیسا کہ غیبت طوسی میں متعدد ایسے وکلاء ہیں کہ جن کے بارے توقیعات صادر ہوئی ہیں جن میں ان کی مذمت بیان ہوئی ہے اور تشیع کو ان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ،یہ ان وکلاء کا دور انحراف ہے جب امامؑ نے انھیں وکیل بنایا تھا تب یہ قابل اعتماد تھے بعد کے ادوار میں وہ منحرف ہو گئے اور جب منحرف ہو گئے تب ان کے لیے اس طرح کی توقیات وارد ہوئی ہیں ۔
تصحیح سند الحدیث
اگر ایک حدیث کی سندکو صحیح قرار دیا گیا ہے تو کیا یہ اس بات کے اوپردلالت کرتی ہے کہ  حدیث کے تمام کے تمام راوی ثقہ ہیں یا اس بات کے اوپر دلالت نہیں کرتی ۔یہ بحث ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ اگر مصحح کا جو مبنی خصوص الثقہ ہےیعنی وہ حدیث کو اس وقت صحیح قرار دیتا ہے کہ جب راوی ثقہ ہوں اس صورت میں دلالت کرے گأ کہ سارے راوی ثقہ ہیں ورنہ یہ قائدہ قابل قبول نہیں ہے سوائے ایک موردکے کہ ہمیں مصحح کا مبنی پتا ہے ۔
شیخوخةالاجازۃ
اس بحث میں وارد ہونےسےپہلے ہم یہ جانیں گے کہ اجازۃ کسے کہتے ہیں ۔اجازۃ کا رواج آج سے ساٹھ ستر سال پہلے موجود تھا لیکن موجودہ دور میں اجازۃ کا رواج ایک طرح کا ختم ہو گیا ہے ۔اجازۃ سے مراد یہ تھی کہ جس شیخ  نے احادیث کی تعلیم دی ہے وہاں پر جس شاگرد نے جن روایا ت کو سنا یا لکھا ہے وہ شاگر د اپنے استا دسے ان کو نقل کرنےکی اجازت لیتا ہے ۔ہمارے پاس اجازۃ کی متعدد انواع ہیں ایک اجازۃ ہے شفوی یعنی استاد نے زبانی کلامی اجازت دی ہے کہ تم مجھ سے سنی ہوئی احادیث کو آگےنقل کرسکتے ہو ،ایک تحریری اجازۃ ہوتا ہے ہمارے علماء میں تحریری اجازۃ کافی پایا جاتا تھا ۔اجازۃ سے اصل مطلوب ومقصود یہ ہوتا ہے کہ سند حدیث باقی رہے ۔اجازۃ کی مختلف نوعیت ہوتی ہے بعض اوقات اجازۃ اجتماعی طور پر بھی شاگردوں کو دیا جاتا ہے بعض اوقات فردی طور پر بھی دیا جاتا ہے ۔
اجازۃ سے مطلوب کیا ہے ؟
۱:اتصال سند حاصل ہوتا ہے ۔
۲:اجازۃ کے ذریعے سے انسان کو تائید حاصل ہوجاتی تھی ۔
۳:اجازۃ کے ذریعے سے تحریف کے احتمال کم ہوجاتے تھے ۔
ہمارا موضوع یہاں پے یہ ہے کہ اگر ایک استاد یا شیخ اپنے شاگرد کو اجازۃ دیتا ہے اور وہ شاگرد اس سے نقل حدیث کا اجازۃ لے لیتا ہےیہاں پر شیخ کا اجازۃ دینا اور شاگر د کا قبول کرنا یہ اس شیخ کی عدالت ووثاقت کے اوپر دلالت کرتا ہے یا نہیں ؟کیونکہ ہمارے بزرگ علماء نےاحادیث نقل کی ہیں وہ اپنے شیوخ سے کی ہیں جیسے شیخ صدوق نے اپنے شیوخ سے نقل کی ہیں ،شیخ کلینی کے اپنے شیوخ ہیں ،نجاشی نے جو اپنی رجال میں حکم نقل کیے ہیں اپنے شیوخ سے نقل کیے ہیں ۔ان علماء کے متعدد شیوخ ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں کچھ بھی وارد نہیں ہوا ان کے بارے میں وہ وثاقت ہے نہ ضعف ہے کیا یہ ثقہ شمار ہوں گے یا نہیں ؟اگر ہم اس ضابطے کو صحیح مان لیں تو شیخ صدوق کی کئی سو حدیثیں صحیح السند قرار پائیں گی،ان کے اوپر اصل اعتراض کیا ہے کہ انکا شیخ مجھول الحال راوی ہے ،اسی طریقے سے نجاشی کے مشائخ کے بارے میں بحث ہے اسی طرح رجال کشی ہے اس میں جو ان کے مشائخ ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟مختصرا شیخوخة اجازۃ میں بعض صورتوں کو سب نے قبول کیا ہے یعنی موجبہ جزئیہ کے طور پے کیا ہے لیکن شرائط کے ساتھ مثلاشیخ آصف محسنی نے شیخ صدوق کے بارے میں لکھا ہے کہ جہاں پے کثرت کے ساتھ ترضی وارد ہوئی ہے ان شیوخ کی وثاقت کےاوپر دلالت کرتی ہے پھر بیا ن کرتے ہیں کہ اگراکثرجگہوں میں یعنی۹۰فیصد کسی کے ساتھ ترحم وارد ہواہے  تویہ اس کی وثاقت پر دلیل ہو سکتی ہے اگر چند دفعہ آیا ہے تو اس کی وثاقت پر دلالت نہیں کرتا یہ خارجی قرائن ہیں آپ اسے مطلق قاعدہ نہیں کہ سکتے ۔اگر ایسا قرینہ آجاکہ جس کی اساس وبنیاد کے اوپر اس کی جلالت اور بلند منزلت ثابت ہو جاتی ہے تو وثاقت کی دلیل قرار پائے گامثلا کثرت سے ترضی کا ہونا،کثرت سے ترحم کا ہوناتیسرا ہمارے پاس آتا ہے کہ وہ شخصیت شہرت یافتہ ہے جسے ہاشم ابراھیم قمی کے والد یہ انتہائی شہرت رکھتے ہیں ان کی شہرت کی بنیاد پر ہم یہ کہیں گے کہ یہ افراد اس سے مستثنی ہیں کہ ہم انکے اوپر شک بھی کریں کہ یہ قابل اعتماد ہیں یا نہیں یہ اجلاء میں شمار ہوتے ہیں اس طرح کے اور قرائن ہیں انھیں ہم اپنی جگہ پر بیان کریں گے۔
عبارت

بعض اوقات اس کے اوپر یہ اشکال کیا جاتا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے :وکلاء میں ایسی جماعت بھی ہے جو قابل مذمت ہے جیسا کہ غیبت طوسی میں شیخ طوسی نے مذموم وکلاءکےایک گروکا ذکر کیا ہے اور ان افراد کا بھی تذکرہ کیا ہے جنھوں نےباب ہونے کا دعوی کیا تھایعنی یہ امامؑ کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور امامؑ کے باب میں شمار ہوتا ہے ۔نھایۃ الدرایۃ میں سید حسن صدر نے ان لوگوں کے نام لکھے ہیں ۔[1] الصدر ،سید حسن ،نھایۃ الدرایۃ،جلد:۱،صفحہ:۴۲۰ اگر کسی ایک مورد میں امام ؑکے وکیل کا عادل نہ ہونا ثابت ہو جائے کہاں یہ کہ کئی موارد ایسے آجائیں تو امامؑ کے وکیل کا عادل نہ ہونا اس بات کو کشف کر ۴۶مکتا ہےکہ وکالت اور عدالت میں تلازم نہیں یہ ایک دوسرے سے ربط نہیں رکھتے ،کیونکہ لازم اپنے ملزوم سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتا ،اس بات یہ چیز ثابت ہوگئی کہ وکالت عدالت کے اماراۃ میں سے نہیں ہے بلکہ نہ مدح کے لیے امارۃ ہے اور نہ وثاقت کے لیے امارۃ ہے ۔
اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گےکہ جتنے بھی مذموم وکیل ہیں وکالت کی ایک مدت گزرنے کے بعد وہ سب منحرف ہوئےانھوں نے جق سےرخ پھیر لیا اور انھوں نے خیانت کی ،جب انھیں وکیل بنایا گیا تویہ عادل اور ثقہ تھے ۔بلا شک وشبہ کسی وکیل کی مزمت کا وارد ہونا یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ امامؑ کا وکیل بنانا کاشف ہے اس وکیل کی وثاقت اور اس کی استقامت کے جب تک اس کا انحراف ثابت نہ ہو ۔کیونکہ انسان دائمی طور پر اپنے نفس کے ساتھ جنگ میں مبتلاء ہے گناہوں کے ساتھ تعلق پیدا ہوجاتا ہے گر جاتا ہے حق سے منحرف ہو جاتا ہے چاہے وہ عالم ہو یا جاہل ،چاہے وہ رئیس ہے یا کسی کے ماتحت ہے ،متقی وعادل ہو یا غیر عادل ہو،مجتہدفقیہ ہو یا عامی مقلد ہو۔جیسے اگر عادل منحرف ہو جائے تو عادل کا منجرف ہونا  عدالت کوامارۃ ہونے سے ساقط نہیں کرتا بالکل اسی طرح ایک عادل کا منحرف ہونا وہ سبب نہیں بنتا کہ امام معصوم ؑ کی وکالت کو امارۃ عدالت ہونے سے ساقط قرار دے دیں یعنی یہ امارۃ نہیں ہے وکیل کی عدالت کے لیے ۔
نتیجہ :آئمہؑ کے متعدد وکلاءکا منحرف ہونا اورحق سے اپنے ایام وکالت میں انکا حق کو ترک کردینا یہ سبب نہیں بنتا کہ وکالت کا امارۃ ہونا ساقط ہو جائے اور بذات خودعدالت اوروثاقت کی علامت نہ ہونے پے دلالت کرنے لگےایسا ہرگز نہیں ہے،بعض انواع وکالت وکیل کی جلالت قدراور عظمت کوکشف کرتیں ہیں جب تک اسکا انحراف اور تغیر ثابت نہیں ہوتا،جیسے وقف شدہ اموال کا اس کے سپر د کردینا اور ترکہ میراث اس کے سپرد کرنا وخمس لینا اسی طرح زکواۃ لینا اور چھوٹےبچوں کااوپر اس کو قیم بنانایہ تمام امور اس وکیل کی عظمت اور جلالت کے اوپر دلالت کرتے ہیں،اور اسی طرح امور مالی میں اگرکسی کو وکیل بنایا جاتا ہے تو یہ اسکی عظمت اور بلندمنزلت کے اوپر دلالت کرتی ہے ،ابن بزیع کی صحیح میں امام باقرؑ سے روایت ہے امامؑ فرماتے ہیں (اگر قیم تمہارے جیسا یا عبدالحمید جیسا ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے  )۔[2] شیخ کلینی،محمد بن یعقوب،فروع الکافی،ج۵،ص۲۰۹،ح۲ ۔
سماعۃ کی موثقۃ میں امام صادقؑ سے روایت نقل کرتے ہیں :(اگر ایک ثقۃ شخص ہے وہ سارے کے سارے مال کو ان میں تقسیم کر سکتا ہے اس میں کوئی نہیں ہے )۔[3]  شیخ کلینی،محمد بن یعقوب،فروع الکافی،ج۷،ص۶۷ ۔
امامؑ فرماتے ہیں :(اگروارث اس کی فروخت کے اوپر راضی ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے اور ان میں اس مسئلے کے اوپر عادل موجود ہو)۔[4] شیخ کلینی،محمد بن یعقوب،فروع الکافی،ج۷،ص۶۷ ۔
اگر میت کے اموال کے لیے متولی میں عدالت اور وثاقت معتبر ہے یا قیم کے اندر عدالت اور وثاقت معتبر ہے ،اگر وہ امامؑ کی جانب سے وکیل ہو تو آپ کا کیا خیال ہے ؟میر ی جان کی قسم یہ امر تو بہت واضح ہے اور اس میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور اس میں اتنی لمبی گفتگو کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ہم نے اتناطولانی کلام کیا ہے یہ اس اشکال کو دور کرنے کے لیے کیا ہے کیونکہ بعض بڑے علماء کے کلام میں یہ بات وارد ہوئی ہے ؟
یہ بات آپ سے مخفی نہیں رہنی چاہیے کہ تنہا وکیل کا لفظ کسی ایک پر بھی اطلاق کیا جائے تو خالی کلمہ وکیل کا اطلاق اس بات کو ظاہ کرتا ہے کہ یہ امامؑ کی جانب سے عمومی امور کی وکالت رکھتا ہے یا امور دینیہ میں یا حقوق مالیہ میں وکالت رکھتا ہے ،کیونکہ اس لفظ کے اطلاق کرنے سے اسی بات کا ارادہ علماءرجال نے لیا ہےجیسا کہ محقق مامقانی نےاس بات کی تصریح کی ہے [5] محقق مامقانی،شیخ عبداللہ،ج۲،ص۲۵۸-۲۵۹ ،اور وحید بھبھانی اور شیخ بہائی سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے ۔

منھا:تصحیح سندالحدیث

یہ بحث پہلے گزر چکی ہے فقہاء اور محدثین میں سے کوئی ایک بھی بڑی شخصیت کسی حدیث کی سند کے صحیح ہونے کا  حکم اس حدیث کی سند کے طریق میں واقع ہونے والے راویوں کی تعدیل کا سبب نہیں بنتا ،کیونکہ یہ احتمال ہے کہ اس حدیث کی سند کےصحیح ہونے کا حکم ایسے قرائن کی وجہ سے ہے کہ جو وثوق کا فائدہ دیتے ہیں یعنی یہ قرائن امام معصومؑ سے اس روایت کے صادر ہونے پر اعتماد کا فائدہ دیتے ہیں  ،حدیث کو صحیح قرار دینے کی قدماء کی اکثر وبیشتر کاوشیں اسی اساس پے تھیں کہ ان کے پاس سند کے علاوہ قرائن موجود تھے   ،یا جوحدیث کو صحیح قرار دے رہا ہے اس کا مبنی یہ ہے کہ ہر مسلمان یا ہر شیعہ امامی اصل یہ ہے کہ وہ عادل ہے اوراس سے فسق ظاہر نہیں ہوا جیسا کہ پہلا نظریہ ہے دأب القدماء والاوہ شیخ طوسی کی طر ف منسوب کیا گیا ہے اور دوسرا علامہ حلیؒ کی طرف منسوب ہے ۔[6]  محقق مامقانی،شیخ عبداللہ،تنقیح المقال فی علم الرجال،ج۵،صفحہ۲۴
علماء رجال اور درایۃ میں سے متعدد نے یہ بات ذکر کی ہے کہ سند حدیث کا صحیح قرار دینا وثاقت اور عدالت کے امارات میں سے ہے جیسا کہ ان میں سے بعض کا کلام آپ کی خدمت میں پہلے گزر چکا ہے  ،کہ شہید نے بدایۃ میں اور ان کے بیٹے حسن بن زین الدین عاملی نے معالم میں اور رواشح میں میر داماد نے نقل کیا ہے یہأں پے دوسرے علماء کے اقوال بھی اضافہ کیے جاسکتے ہیں  کہ انھوں نے اس مورد میں حدیث کی تصحیح کرتے ہوئےیہ بات بیان کی ہے کہ محمد بن اسماعیل البندقی النیسابوری اس طریق میں وارد ہیں ان کو انھوں نے کیوں صحیح قرار دیا ہے کیونکہ حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اس لیے ان کوبھی صحیح قرار دیا جائے گأ۔
رواشح میں محقق میر داماد بیان کرتے ہیں :یہ بات جان لی جائے کہ حدیث کے طریق میں محمد بن اسماعیل النیسابوری موجود ہیں اس لیے یہ حدیث صحیح ہے نہ کہ حسن ،جیساکہ بعض ظن وارد ہوئے ہیں ،علامہ اور ان کے علاوہ دیگر بزرگ علماء ہیں جنھوں نے کثیر احادیث کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ ان احادیث کے طریق میں اس طرح کی شخصیات موجود تھیں کہ جن کے بارے میں کچھ وارد نہیں ہوا انھیں اس اساس پے ثقہ قرار دیا ہے چونکہ حدیث صحیح قرار دی گئی ہے ۔[7] محقق میر داماد،میر داماد أسترآبادی،الرواشح الماویة،ج۱،صفحہ۷۴
شیخ بہائی کتاب مشرق الشمسین میں نقل کرتے ہیں :ہمارے متأخرین علماء ؒنے کلینی نے جو روایت کیا ہے اس کی تصحیح کےمطابق حکم لگایا ہے محمد بن اسماعیل کے بارے میں مختلف اقوال وارد ہوئے ہیں ان کے بارے میں نزاع ہے انکا اس حدیث کو صحیح قرار دینا قوی قرینہ ہے کہ ہمارے علماء رجال میں سےکوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جنھوں نےان کی توثیق نہیں کی ہو  ۔[8] شیخ بہائی،بہائی الدین محمدعاملی،مشرق الشمسین،ج۱،صفحہ۲۷۶ ۔
محدث بحرانی بیان کرتےہیں کہ: ہمارے اصحاب میں یہ بات معروف ہے کہ وہ حدیث صحیح میں شمارکی جائے گی کہ اس کےبارے میں شمارکیاگیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اگر کوئی راوی اس حدیث میں آیا ہےتو یہ اس راوی کے وثاقت کے لیے کا فی ہے ۔ [9] محدث بحرانی،شیخ سلیمان،بلغةالمحدثین،ص۷۶
مقتضی تحقیق کے مطابق ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ حدیث کی سند کا صحیح ہونے کا حکم وثاقت اور عدالت کے لیے امارۃ نہیں بن سکتا ،کسی بھی صورت میں اس راوی کے لیے وثاقت اور عدالت سے کاشف نہیں بنتا ،ہمارے پاس کثیر معیارات ہیں حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا جاسکے ،صحت کا حکم لگأنا منحصر نہیں ہے کہ حدیث کے طریق میں جو راوی وارد ہوئے ہیں ان کی وثاقت کے لیے ہم فقط اس امر میں منحصر نہیں ہیں کہ ہم حدیث  کوصحیح قرار دینے کی بنیاد پر راویوں کو ثقہ قرار دینے لگ جائیں ۔کتاب (مقیاس الروایۃ )میں تفصیلی طور پر ذکر کیا ہے کہ قدماء کے نزدیک حدیث کی صحت کے کیا معیارات ہیں ،جب ہم نے حدیث صحیح کے اوپر بحث کی تھی ۔اگر صحیح قرار دینے والے کا مبنی کا علم ہو جائے کہ حدیث کو صحیح قرار دینے کے معیار میں اس کا مبنی کیا ہے ،اس کی نظر میں صحت حدیث کا ملاک کس میں منحصر ہے کہ وہ راوی جو اس حدیث کی سند میں وارد ہوئے ہیں پہلے ان کی وثاقت ثابت ہوتب وہ حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں ،کسی حدیث کی سند کے صحیح ہونے کا حکم لگاناوہ حدیث یہ قوت رکھتی ہے کہ اس کی سند میں جتنے بھی راوی وارد ہوئے ہیں وہ ثقہ ہیں لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں اس صورت میں حدیث کی سندکا حکم لگانا بلاشک وشبہ وثاقت کے اوپر امارۃ ہے کہ سارے کے سارے راوی ثقہ ہیں ہم مطلقا یہ ضابطہ نہیں لے سکتے جیسا کہ کہا گیا ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے ۔

ایک مطلب رہ گیا ہے اس سے غافل نہ ہوں اگر کوئی یہ کہتا ہے:کہ فلان صحیح الحدیث یہ حدیث کی سند کے صحیح ہونے کے حکم کے علاوہ ہے ۔کیونکہ علماء کی اصطلاح میں یہ بات ثابت ہے کہ جب وہ فلان صحیح الحدیث کہتے ہیں تو اس سے مراد ثقہ قرار دینا ہوتی ہے ۔جیسا کہ شہید ثانی نے یہ الفاظ توثیق میں ذکر کیا ہے :(اسی طرح ان علماء کا یہ کہنا ھوصحیح الحدیث کہ وہ راوی صحیح الحدیث ہے ،یہ قول کس بات کے اوپر دلالت کرتا ہے کہ یہ راوی ثقہ ہے ضابط ہے یعنی صحیح الحدیث کہنے سے اس کی وثاقت اور اعتماد کے زیادہ ہونے کو بیان کرتا ہے) [10] شہید ثانی،زین الدین،الرعايه فی علم الدرايه،ج۱،صفحہ۲۰۴ اگر کوئی استدلال کرتے ہوئےکہتا ہے چونکہ یہ حدیث صحیح ہے اس وجہ سے میں حدیث کی بنیاد پے یہ نظریہ اختیار کررہا ہوں استدلال میں اگر کوئی آکے کسی حدیث کو صحیح قرار دیتا ہے تو کیا یہ اس بات کے اوپر دلالت ہے کہ اس حدیث کی سند کے سارے واری ثقہ ہیں کہتےہیں اس بات پر دلالت نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے اس نے متن حدیث کو قرائن کی بنیاد پے اخذ کیا ہے اس لیے ذکر کرتے ہیں  مقام استدلال میں حدیث کی سند کے اوپر فقہا حکم لگأتے ہیں و  ہ اس بات پے ناظر ہیں کہ حدیث معتبر ہے اور یہ حدیث اپنے متن کے اعتبار سے دلیل بننے کی صلاحیت رکھتی ہے یہ قطعا اس بات کی دلیل نہیں ہے اس حدیث کی سند میں وارد ہونے والے سارے راوی عادل ہیں اور ان کی وثاقت کا بیان ہے بلکہ صرف مضمون خبر کے بارے میں یا مقام استدلال میں اسکا کسی حدیث کو صحیح قرار دینا کیا بتاتا ہے کہ مقام استدلال میں اس حدیث کے مضمون کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ یہ دلیل بن سکے نہ اسکا سند سے تعلق ہے سند حدیث کوصحیح کہنے سے ہمیں کیا بات سمجھ میں آئے گی کہ سند کے راوی سارے کے سارے ثقہ ہین یا ایسا نہیں مضمون خبر دلیل بننے کی صلاحیت رکھتی ہے؟تو بیا ن کرتے ہیں کہ مضمون خبر دلیل بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

Views: 11