loading

التفسیر المنسوب الی الامام العسکریؑ

تحریر:بہادر علی
30/03/2023

ہم احادیث کی کتب میں مصادر اولیہ کو مطالعہ کر رہے تھے ان میں ہم تفسیر منصوب الی امام عسکری ؑ کی طرف اس تک پہنچے تھے ۔
ہم نے وجوہ تضعیف پڑھی تھی ان میں اہم چار وجوہات ہیں جس کی بنیاد پے اس کتاب کو ضعیف قرار دیا گیا ہے :

تفسیر امام عسکریؑ  کے ضعیف ہونے کی وجوہات:

۱:اس کی سند میں تین راوی ہے جو قابل اعتراز ہیں جو سندکتاب میں مذکور ہے اس میں شیخ صدوق نقل کرتے ہیں ابوالحسن محمد بن قاسم الاستر آبادی سے یہ مفسر ،خطیب کے لقب سے بھی معروف ہیں وہ ابو یوسف بن محمد اورعلی بن محمد بن سیّارسے  نقل کرتے ہیں،  ہمارے علماء رجال میں سے کسی نے بھی محمد بن قاسم کی توثیق بیان نہیں کی۔اب جب توثیق بیان نہیں ہوئی تو یہ ہمارے سامنے مجہول الحال راوی قرار پائیں گے ۔دوسرے راوی ہیں یوسف بن محمد بن زیادیہ مجہول الحال ہیں اور علی بن محمد بن سیّار یہ بھی مجہول الحال ہیں یہ پہلاسندی اشکال ہےآیت اللہ خوئی نے اسے قبول نہیں کیا اور دوسرے بزرگان نے بھی اس سند کی تضعیف کی وجہ سے  قبول نہیں کیا۔
۲:اس میں بعض مناکیر موجود ہیں اورضرورت مذہب کے خلاف بعض چیزیں اس میں موجود ہیں۔
۳:اس میں تعارض پایا جاتاہے  اس کی سندمیں جو واقعہ  ذکر ہے اس کے ایک پیراگراف سے لگتا ہے    کہ یہ تفسیر امام عسکریؑ سے یوسف بن محمدبن زیاد اور علی بن محمد بن سیّارنے نقل کی ہے دوسرے واقعہ کی سطور سے پتا چلتا ہے کہ ان کے والدین نے نقل کی ہے یعنی محمدبن زیاد نے اور محمدبن سیّار نے نقل کی ہے توکہتے ہیں کہ یہ واضح تناقض ہے ۔
۴:چوتھا اعتراض یہ بنتا ہے بیان کرتےہیں کہ بیان کرنے والے پر امام رضاؑ کی محفل میں ہونے کا اعتراض بنتا ہےکہ کون ہے جس نے کہا ہے ہم امام رضاؑ کی محفل میں تھےتو کہتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ امام رضاؑ کی محفل میں ہو ۔
مذکورہ اعتراضات کے جوابات:
اس کا جواب کیا دیا انھوں نے آخری سوال سے جواب شروع کیا کیونکہ تیسرا اور چوتھا اعتراض یہ ہےعلامہ جواد بلاغی کا جن کی تفسیر آلاءالرحمان ہے اس میں وہ آخر میں جواب دیتے ہیں کہ اگر آپ عبارت کے اوپر غور کریں ہم نےجو مقدما پڑھا مقدمے میں جو قال آیا ہے قال قل وکنّ عند الرضاؑ  یہ قال ایک تیسرے شخص کی طرف اشارہ ہے اور امام حسن عسکریؑؑ نے اپنی روایت کے آغاز میں اس شخص کی طرف اشارہ کیا جو امام رضاؑ کی محفل میں بیٹھا کرتا تھالہذا یہ نہ محمد بن قاسم استر آبادی کی طرف ضمیر لوٹے گی اور نہ ہی اس سے یہ مرادہے کہ امام عسکریؑ اس محفل میں بیٹھے ہوئے تھے قال کی ضمیر اس تیسرےشخص کی طرف لوٹے گی جو امام رضاؑ کی محفل میں بیٹھا کرتا تھا۔
جہاں تک تیسرا اشکال ہے تعارض کا انھوں نےکہا اولا یہ تعارض اس تفسیر کو ضرر نہیں دیتا کیونکہ اس کوئی ایسی شئی ہمارے پاس نہیں ہے اور دوسری چیز اس میں ہے کہ والدین کے بغیر شیخ صدوق نے اسی تفسیر کے کئی حصے اسی سند کے ساتھ یوسف بن محمد اور علی بن محمد سیار سے نقل کیے ہیں لہذایہ احتمال ہے کہ انھوں نےاسے نقل کیا ہے ہم جس طریقے سے نتیجہ اخذکر رہے تھے جو ہم پیر گراف مطالعہ کیے ان سےپتا لگ رہا تھا کہ یہ ان کے بچو ہی کی تفسیر ہے کہ امام نے انھیں تعلیم دی۔
جہاں تک دوسرا اعتراض ہے وہ ابن غضائری کا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ابن غضائری غلو کے اتہام میں متشدد تھے اس لیے انھیں بعض نسوس محسوس ہوئی ہیں تو اس کی توجیہ کی جاسکتی ہے حد اقل اگر توجیہ نہیں ہو سکتی تو وہ جو قابل اعتراض کلام ہے علم اصول فق اور مباحث علمیہ  میں یہ بات واضح ہے کہ اگر ایک کتاب میں ایک روایت  ضرورت مذہب کے خلاف ہے صرف وہی روایت ترک کی جائے گی نہ کہ اس کی وجہ سےپوری کتاب کو ترک کر دیا جائے گااگر ایک ہی حدیث میں کئی فقرات بن رہے ہیں اور ان میں سے ایک فقرہ ہے جو ضرورت مذہب کے خلاف ہے فقط اسی فقرے کو آپ رد کریں گے نہ کہ اس حدیث کو اورنہ اس حدیث کے کئی فقرات یا کئی جملوں کو علمی مباحث میں یہ بات واضح ہے اس لیے یہ دوسرا اشکال کوئی حیثیت نہیں رکھتا اولا ابن غصائری کی بنیادپے مناکیر کہنا درست بات نہیں ہے اس کا جائزہ لیا جائے گا کہ کہا پے آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ضرورت مذہب کے خلاف ہے ۔ثانیا اگر ضرورت مذہب کے خلاف کوئی بات ہو اس اگر ایک روایت ہے تو اس روایت کو چھوڑیں گے نہ کہ پوری کتاب کو ثالثا اگر ایک روایت میں ایک حصہ ہے فقط تو صرف اسی ایک حصے کو ترک کیا جائے گا نہ اس پوری روایت کو نہج البلاغہ میں اس طرح کئی خطبات ہیں ایک خطبے میں امام علیؑ فرماتے ہیں نحن صناعی ربنا والناس بعد صناعنا ،کہ ہم اپنے رب کی صنعت ہیں اور اس کے بعد لوگ وہ ہماری صنعت ہیں بعض محدثین وہ کہتے ہیں کہ یہ خطبے میں ڈالا گیا ہے وہ صرف اس حصے کے قائل نہیں حالانکہ یہ دیگر کتب میں و احادیث میں بھٖی یہ جملہ مل جاتا ہے لیکن بعض اس کے قائل نہیں ہیں انھوں نے پورا خطبہ قبول کیا ہے لیکن اس ٹکڑے کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ امام کے کلام میں ڈالا گیا ہے یہ امام کا کلام نہیں ہے اس طرح نہج البلاغہ اور صحیفہ کاملہ یا دیگرجگہوں پر اخلاف ہو سکتا ہے ۔

مقتضی تحقیق
وہ کہتے ہیں کہ یہ سب سے عمدہ اعتراض ہے اکثر بیشتر اسی ایک اعتراض کی وجہ سے تفسیر امام حسن عسکریؑ کو رد کر دیتے ہیں البتہ ابھی کئی علماء ہیں آیت اللہ سیفی مازندانی اور کئی بڑی شخصیات ہیں جو تفسیر امام حسن عسکری کو معتبر جانتے ہیں ۔جہاں تک سندکا تعلق ہے اس کے بارے میں ابھی گفتگو آرہی ہے محمد بن قاسم کے بارے میں کثرت کے ساتھ ترضی آئی ہے اور ہم پیچھے پڑھ چکے ہیں شیخ آصف محسنی اور اس طرح کےعلم رجال میں ایک نوع محتاط اور متشدد علماء شمار ہوتے ہیں انھوں نے بھی شیخ صدوق کا کسی اپنے شیخ کے بارے میں کثرت ترضی استعمال کرنا یا کہنا اس کو وثاقت کے اوپر امارہ یا علامت قرار دیا ہے ۔لہذا محمد بن قاسم استر آبادی اس حوالے سے ثقہ قرار پاتےہیں البتہ ابن غضائری کی تضعف وہ اس حوالے سے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ وہ متشدد تھے وہ غلو کے تھوڑے سے شائبے کے اوپر ہی اسے متھم کرکے اس کو ضعیف قرار دیتے تھےاس وجہ سے ابن غضائری کی تضعیف قابل قبول نہیں ہے ۔باقی جو بزرگان ہیں تو انھوں نےلکھا ہے کان من الامامیہ یہ مدح کے اوپر دلالت کرتا ہے اور پھر ہمارے کثیر مشائخ کا خصوصا شیخ صدوق کا اپنی کتب میں خصوصامن لایحضر الفقیہ میں کثرت کے ساتھ ان دونوں بزرگوں سے احادیث کا لینا یوسف بن محمد بن زیاد اور علی بن محمد بن سیار سے احادیث لینا یہ ایک نوع ہمارے وجود میں اطمینان کا باعث بنتا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔
ایک سندسہل بن دیباج سے بھیٍ آئی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ امام نقیؑ کی تفسیر ہے اور اس میں مناکیر تھے جبکہ یہ تفسیر امام حسن عسکریؑ ایسے تمام مناکیر سے خالی ہے ۔انھوں نے جو تحقیق پیش کی ہے انھوں نے درحقیقت دو دلیلیں پیش کی ہیں جس سے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ جو تفسیر ہمارے پاس امام عسکریؑ کےنام سےموجود ہے یہ امام عسکریؑ کی ہی تفسیر ہے :

تفسیر امام حسن عسکریؑ کے معتبر ہونے پر دلائل:

دلیل اول،ہمارےبزرگ مشائخ وکبارمحدثین کااس کے اوپر اعتماد کرناواس سے احادیث لینااور انکے اعتماد کرنے سے ایک اطمینان کا حاصل ہونا۔
دلیل دوم،قاعدہ تبدیلی سند کہ یہ تفسیر ہمارے پاس حسن بن خالد برقی کی سند سے آئی ہے اور حسن بن خالدبرقی کی تمام کتابیں أحمدبن محمدبن خالد برقی کے پاس موجود تھیں اور احمدبن محمد بن خالد برقی کی کتب تک شیخ صدوق کاطریق صحیح ہے اور یہاں پے شیخ صدوق کے پاس تفسیرکی یہ کتاب دو طرق سے موجود تھیں البتہ وہ ۱۲۰ جلدی کتاب تھی لیکن ہمارے پاس جو نوشتہ پہنچا ہے وہ مختصر ہے۔اس کتاب کے مقدمے میں انھوں نےبیان کیا اور ہم اس کو پڑھ چکے ہیں اس کے کئی نسخے ہیں اس کا ایک نسخہ آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبریری میں موجود ہے اور دوسرانسخہ جامعہ طھران میں موجود ہے اس طرح چند نسخے اور بھی ہیں جیسے تبریزمیں ایک نسخہ موجود ہے جہاں تک ان رسائی تھی ہمارے پاس جونسخہ موجود ہے وہ دارالزہرائیون نےچھاپا ہےانھوں نے آغاز میں لکھا ہے ہم نے جو مقائسہ کیا ہے پہلا نسخہ جو طھران میں مطبوع ہوا تھا جو آیت اللہ سیفی مازندرانی نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے یہ نسخہ ناصرالدین قاچار کے دور میں چھپا ۱۲۶۸ ہجری کا یہ نسخہ ہے اس کی نسخہ برداری یوسف بن ابراھیم  مازندرانی نے کی ہے  انھوں نےاس کو جس نسخے کے ساتھ ملا تھا وہ معروف فقیہ ہیں احمدکرکی ۔دوسرا نسخہ جوہمارے پاس ہے وہ ۱۳۱۵ہجری کا ہے اور یہ نسخہ شاہ مظفر الدین قاچار کے دور کا ہے کہتے ہیں ہم نے انھی دو سے اسکا مقائسہ کیا ہے اس کے علاوہ اور قدیمی نسخےموجود ہے ان میں قدیمی نسخہ آیت اللہ مرعشی نجفی کے کتاب خانے میں موجود ہے یہ نویں صدی ہجری کا ہے اور اس میں سند بھی پوری لکھی گئی ہے کہ شیخ صدوق تک کیسے پہنچتا ہے ۔
کتاب تفسیر امام حسن عسکریؑ کا آغاز اس طریقے سے ہوتاہے خطبے کے بعد کہتے ہیں کہ محمد بن علی بن محمدجعفر دقاق یہ ثقہ ،بزرگ اور فقیہ شخصیت ہیں وہ کہتے ہیں میرے دو فقیہ مشائخ نے ذکر کیا ہے ان میں پہلے ابوالحسن محمد بن احمدبن علی بن حسن بن شاذان وابو محمدجعفر بن احمدبن علی القمی یہ دونوں نقل کرتے ہیں کہ ہم سے یہ نقل کیا ہے شیخ ابو جعفرمحمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ القی(شیخ صدوق)وہ نقل کرتے ہیں قال اخبرنا ابو الحسن محمد بن قاسم المفسر الاستر آبادی الخطیب قال حدثنی ابو یعقوب یوسف بن محمد بن زیادوابوالحسن علی بن محمدبن سیّار وکان من الشیعۃ امامیۃ ان دونوں نے کہا کانا اباوان امامیین ہمارے والدین امامی تھے ،وکانت زیدیۃ ھم الغالبون الاستر آباد،استرآباد میں زیدی فرقہ رہا کرتا تھا وکنّ فی امارۃ حسن بن علوی المقلب بداعی الی الحق امام زیدیہ،ہمارے سروں پے امیر حسن بن زید علوی تھا جس کا لقب داعی الی الحق تھا وکان کثیر الاسغاالیھم کہ یہ لوگوں سے زیادہ ارتباط رکھتا تھا،یقتل الناس بسایاۃھم اور لوگوں کو قتل کیا کرتا تھا ،فخشین علی انفسناہمیں بھی اپنے اوپر ڈر لگ گیا یعنی جواس کے مذہب کا نہیں ہوتا تھا اسےاڑا دیتا تھافخرجنا باھلیناالی حضرت امام ابی محمدحسن بن علی بن محمدابی القائم علیھم السلام،ہم اپنے اہل وعیال کے ساتھ نکلے اور بعض جگہوں پےٹھہرے اور امام عسکری ؑ سے اجازت طلب کی جب انھوں نے ہمیں دیکھا تو فرمایا مرحبالاوین الینایہ واقعہ اسی طریقے سے چل رہا ہے   ۔۔۔۔۔۔امامؑ نے جب لکھوانا شروع کیا ہے تو وہ اس طرح سے ہے حدثنی ابی محمدعن ابیہ محمد بن علی عن ابیہ علی بن موسی عن ابیہ موسی بن جعفرعن ابیہ جعفر بن محمدالصادق عن ابیہ باقر محمد بن علی عن ابیہ علی بن حسین زین العابدین عن ابیہ حسین بن علی سید المستشھدین عن ابیہ امیرالمومنین عن رسول رب العالمین ۔۔۔یہ سید آپ نے دیکھی اب امام عسکریؑ فرماتے ہیں حملت القرآن مخصوصون برحمت اللہ کہتے ہیں کہ قرآن کو جو اٹھانے والے ہیں اللہ کی رحمت کے ساتھ خاص کر دیے گئےہیں الملبسون نوراللہ جو اللہ کے نور سے ملبس ہیں تعلّمون کلام اللہ  اللہ کے کلام کی تعلیم دیتے ہیں المعلون کلام اللہ اللہ کے کلام کو اعلانا بیان کرتے ہیں المتقربون عنداللہ ،یہ پوری کتاب اس طرح سے ہے ۔یہاں دیکھیں امام عسکریؑ نے پوری سند بیان کی ہے اور پھر فرمایا میں جو بیان کر رہا ہوں یہ اصل میں نبی ﷺ نے بیان کیا ہے اور سینہ با سینہ مجھ تک منتقل ہوا ہے ۔اگر شیخ صدوق کی سند ہمارے پاس تام ہو جاتی ہے کیونکہ ہم شیخ صدوق تک ہم دو یا تین واسطوں سے پہنچ رہے ہیں دقاق ہیں اور ان کے دو فقیہ مشائخ ہیں شیخ صدوق کے دو واسطوں کے ہونے کا مطلب یہ ہے ۶صدی ہجری میں یہ کتاب لوگوں کے ہاتھو ں میں موجود تھی یا ساتویں صدی ہجری تک یہ پہنچی او ر ہم تک آٹھویں نویں ہجری کا نسخہ پہنچ رہا ہےیہ زمانہ بہت قریب آ جاتا ہے اس لیے اس کا اعتماد بڑھ جاتا ہے ۔

عبارت کا ترجمہ:

مقتضی التحقیق
بیان کرتے ہیں کہ اس تفسیر کےمعتبر ہونے پے استدلال ممکن ہے اس تفسیر کے معتبر ہونے کے اوپر جو اشکالات بیان کیے گئے ہیں وہ بھی معتبر ہیں ،ہم اس تفسیر کے معتبر ہونے پے دوطرح سے استدلال قائم کرسکتے ہیں :
۱۔ہمارے قدیم اور بڑے اجلافقہا  ء اور ہمارے علماء میں جو محدثین ہیں انکے مشائخ کا اس کے اوپر اعتماد ہے ،اور اپنی کتب میں اس تفسیر انھوں نے روایات بھی نقل کی ہیں اور انکے مطابق فتوی بھی دیا ہے ۔

تفسیر امام عسکریؑ پراعتماد کرتے والے محدثین وفقہاء:

فمنھم:ان فقہا ء میں سے پہلی شخصیت شیخ صدوق ہیں ،شیخ نے اس تفسیر سے متعدد مقامات پر کتب فقہیہ اور روایۃ میں کثیر روایات ذکر کی ہیں جیسے کہ من لا یحضر الفقیہ و توحید و عیون واکمال الدین و أمالی و علل اور معانی الأخبار ،ان سب کتب میں کئی جگہوں پے اس تفسیر سے احادیث نقل کی ہیں ۔
ومنھم:ان مشائخ میں سے ابن شھر آشوب ہیں انھوں نے مناقب اور أمل الآمل میں تفسیر امام عسکری ؑ سے نقل کیا ہے ،طبرسی نے احتجاج میں جیسا کہ انھوں نے احتجاج کے مقدمے میں ذکر بھی کیا ہے [1] طبرسی ،أبی منصور احمد بن ابی طالب ،الاحتجاج:ج ۱،ص۴ طبرسی نے اس تفسیر سے اکثر چیزیں جو نقل کی وہ بعینہ اسی سند کے ساتھ احتجاج طبرسی میں بھی موجود ہیں ۔
ومنھم :قطب الراوندی ،انھوں نے اس تفسیر کی احادیث کی ایک بڑی تعدادنقل کی ہے جیسا کہ محدث نوری نے بیان کیا ہے۔[2] محدث نوری ،الحاج مرزاحسین ،المستدرک الوسائل:ج۳،ص۶۶۱
ومنھم :محقق کرکی ،والشھید الثانی ،والمجلسی الاول اپنی کتاب روضۃ المتقین میں بیا ن کرتے ہیں کہ شیخ صدوق نے مفسر الأستر آبادی کے اوپر اعتماد کیا ہے استر آبادی صدوق کے شیخ تھے ۔ابن غضائری نے جو تضعیف کی ہے وہ باطل ہے اور یہ ابن غضائری نےباطل گمان کیا ہے کہ اس تفسیر کی نسبت معصوم کی طرف نہیں دی جا سکتی ،جو شخص بھی آئمہ ؑ کے کلام سے ارتباط رکھتا ہے وہ یہ بات جانتا ہے کہ اس تفسیر میں جو کچھ ہے یہ کلام آئمہؑ کا ہے اور صدوق جیسے شاگرد کا استر آبادی کے اوپر اعتماد کرنا کافی ہے ،اللہ ہمیں اور انھیں معاف فرمائے ۔[3]  مجلسی ،المولی محمدتقی ،روضۃالمتقین :ج ۱۴،ص ۲۵۰ اور اسی کی مثل انھوں نےبیان کیا ہے جو انھوں نے فارسی میں شرح فقیہ میں بیان کی ہے ۔[4] مجلسی ،المولی محمدتقی ،روضۃالمتقین :ج۵:ص۱۴۲
ومنھم :المجلسی الثانی ،وہ بحار میں بیان کرتے ہیں کہ کتاب تفسیر امام معروف کتابوں میں سے ہے صدوق نے اس پے اعتماد کیا ہے اور اس سے احادیث نقل کی ہیں ،اگرچہ بعض محدثین نے اس پے طعن کیا ہے لیکن صدوق اس شخص سے زیادہ جانتے ہیں اوراس شخص سے زمانے کے اعتبار سے زیادہ قریب ہیں جنھوں نے اس پر طعن کی ہے اور اکثر علماء نےاس روایت نقل کی ہیں کسی نقص کو بیان کیے بغیر۔[5] علامہ مجلسی ،محمدباقر،بحارالأنوار:ج۱،ص۲۸
ومنھم :الشیخ الحر العاملی ،شیخ حر عاملی کی دو کتابیں ہیں وسائل الشیعہ اور اثبات الھداۃ اس میں انھوں نے اس تفسیر سے کثیر روایات کو ذکر کیا ہے ۔خاتمۃ وسائل میں شیخ حر عاملی لکھتے ہیں :ہم سندوں کے ذریعے سے امام الحسن بن علی العسکری ؑ کی اس تفسیر کو روایت کر رہے ہیں ،وہ سند یہ ہے عن الشیخ أبی  جعفر الطوسی ،عن المفید،عن الصدوق ،عن محمد بن القاسم المفسر الأستر آبادی ،عن یوسف بن محمد بن زیاد ،و علی بن محمد بن سیار،صدوق اور طبرسی دونوں لکھتے ہیں کہ یوسف بن محمد زیاد اور علی بن سیار یہ دونو ں شیعہ ہیں ۔یہ دونوں اپنے والدین سے نقل کرتے ہیں دونوں کے والدین محمد ہیں اور وہ امامؑ سے نقل کرتے ہیں ۔بعض علماء رجال نےجس کے اوپر طعن کی ہے اورجس کے اوپر قدح کی ہے یہ وہ تفسیر نہیں ہے اس دور میں قدما نے جس تفسیر نقد کی ہے وہ امام نقیؑ سے نقل ہوئی ہے اور یہ امام حسن عسکریؑ سے ہے ،وہ جو امام نقی  عسکریؑ سے آئی ہے وہ دیباجی نے اپنے والد سے نقل کی ہے ،اور امام حسن عسکری ؑ نے کی تفسیر کی سند میں نہ سہل دیباجی ہے اور ان کے والد ہیں ان دونوں کا تذکرہ نہیں ہے اور ابن غضائری کو جو منکر احادیث لگی وہ امام نقیؑ کی طرف منسوب کی گئی تفسیر میں تھیں نہ کہ امام حسن عسکریؑ  کی ،امام حسن عسکریؑ کی پوری کتاب پڑھ کے دیکھ لیں یہ ان مناکیر سے خالی ہے ،رئیس المحدیثین ابن بابویہ نے امام عسکری ؑ کی تفسیرکے اوپر اعتماد کیا ہے شیخ صدوق من لا یحضرہ الفقیہ اور اپنی دوسری کتب میں کثیر احادیث اس تفسیر سے لے کے آئے ہیں ،اسی طرح طبرسی نے بھی بہت ساری احادیث نقل کی ہیں ان کے علاوہ اور بہت سارے علماء نے بھی نقل کی ہیں ۔[6]شیخ حر عاملی ،محمد بن الحسن ،الوسائل:ج۲۰،ص۵۹
ومنھم :الفیض الکاشانی فی تفسیر الصافی ،والسید ھاشم البحرانی فی تفسیر البرھان ،صاحب نورالثقلین ،و صاحب منتھی المقال ،والوحید البھبھانی والسید عبداللہ الشُبَّر فی تسلیۃ الفؤاد ،والشیخ الأعظم الأنصاری فی الفرئدالاصول ،[7]الشیخ مرتضی الأنصاری، فرائدالأصول :ص۸۶ ا ن بزرگان نے اپنی کتابوں میں کثیر احادیث کو نقل کیا ہے شیخ الصاری نے ایک طویل روایت امام عسکری ؑ کی تفسیر سے انھی رسائل یعنی فرائد الاصول میں نقل کی ہے ۔اور اسی روایت کے ایک فقرے کوہمارے فقہاء اپنی کتب فتوائیۃ کے آغاز میں دلیل قائم کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں ،جیسا کہ العروۃ الوثقی اور تحریر الوسیلۃ میں اور انکے علاوہ دوسری کتب میں امام ؑ کا وہ قول نقل ہے کہ:(فأما من کان من الفقہاء صائنا لنفسہ،حافط لدینہ ،مخالفا لھواہ ،مطیعا  لأمرمولاہ ،فللعوام أن یقلّدوہ ۔۔۔۔۔)کہ فقہاء میں سے جو اپنےنفس کو بچانے والے ہیں یعنی اپنی خواہشات نفس پے عمل پیرا نہیں ہوتے اپنے دین کی حفاظت کرنے والے ہیں  ،اپنی ہوائے نفس کی مخالفت کرتے ہیں ،اپنے امام کےامر کی اطاعت کرتے ہیں ،عوام کو چاہیے کہ ان فقہا ء کی تقلید کریں ۔اسی فقرے کو احتجاج طبرسی میں مرحوم طبرسی نے نقل کیا ہے ۔[8] التفسیرالمنسوب الی الامام العسکری :ص۳۰۰ وطبرسی ،أبی منصور احمد بن ابی طالب ،الاحتجاج :ج۲،ص۲۶۳
ومنھم :الرجالی الکبیر المحقق المامقانی جو کہ رجالین و فقہا  ء اور محدثین میں ہیں انھوں نے  تنقیح المقال میں[9] محقق مامقانی ،الشیخ عبداللہ ،تنقیح المقال فی علم الرجال :ج۳،ص۱۷۵ اور ان کے علاوہ دیگر رجالین وفقہاء اور محدثین نے تفسیر امام عسکریؑ کی روایات کو اپنی کتب  میں ذکر کیا ہے ،سب فقہا ء اور ان کی کتابوں کے نام لانا اس مختصر سی کتاب میں ممکن نہیں ہے ۔جو باخبر ہونا چاہتا ہے وہ ان مطولات کی طرف رجوع کرے جن میں ان سب فقہا ء کے نام لے کرانکی عبارتوں کو ذکر کیا گیا ہے ۔[10] الرسائل الأربعۃعشرۃ،ص۱۹۴-۲۰۷
جب آپ یہ بات جان گئے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے ہم نے گزشتہ بحث میں یہ بات ثابت کی ہے کہ راوی کی وثاقت کی علامات میں سے ایک یہ کہ بزگ و أجلاء ومشائخ کبار محدثین  وفقہاء اور رجالین کا کسی راوی کی روایات  کے اوپر اعتماد کرنا  اس راوی کی وثاقت کے اوپر علامت ہے ۔اس تفسیر کے اوپر صدوق و الشیخ المفید والشیخ الطوسی والطبرسی والمحقق الکرکی جیسی شخصیات نے اعتماد کیا ہے ،بلکہ ان اجازوں سے ہمیں یہ پتا لگتا  ہے کہ یہ تفسیر حسین بن عبیداللہ الغضائری جو والد ہیں  أحمد بن عبیداللہ الغضائری کے اور شیخ طوسی کےبھی مورد اعتماد تھی۔[11] الرسائل الأربعۃ عشرۃ:ص۱۹۶ یہ قدمااور اجلاء عظام فقہاء و محدثین اور مشائخ کبار  ان جیسی شخصیات کا ایک کتاب کے اوپر اعتماد کرنا ثابت ہو جائے  تووہ کتاب یقینا اہمیت کی حامل ہے اور اسی طرح بڑے بڑے نام متأخرین میں بھی ہیں جنھوں نے اس تفسیر کے اوپر اعتماد کیا ان کا اعتمادکرنا  اس کتاب کے جتنے بھی راوی ہیں ان کے حسن حال کو  آشکار کرتا ہے بلکہ انکی وثاقت کے اوپر دلالت کرتا ہے ۔اس سے یوسف بن محمد بن زیاد اور علی بن محمد بن سیّار یہ مجھول الحال ہونے سے خارج ہو جائیں گے کہ جس طرح ابن غضائری کے کلام میں آیا ہے کہ انھوں نے مجھول قرار دیا اور استر آبادی کو ضعیف قرار دیا اور جو بھی ابن غضائری کے نقشے قدم پے چلا ہے اس نےیہی حکم لگایا ہے یہ درست نہیں ہے بلکہ یہ مجہول ہونے سے باہر آجاتے ہیں ۔
الوجہ الثانی:اس تفسیر کی سند کی تصیح ممکن ہے قاعدۃ تبدیلی سند کے ذریعے سے ،ابن شہر آشوب نے مناقب میں اور أمل الآمل میں ذکر کیا ہے اگرہم اس کے اوپر بنا رکھیں اور اسکو درست مان لیں  کہ یہ اس تفسیر کی روایات میں سے ہے جیسا کہ یہ بات اس میں موجود ہے جیسا کہ ابن شہر آشوب نے تفسیر امام عسکریؑ کی نسبت حسن بن خالد البرقی کی طرف دی ہے جو کہ محمد بن خالد کے بھائی ہیں اور حسن بن خالد بر قی نے یہ شہادت دی ہے کہ امامؑ نے مجھے یہ املاء لکھوائی ہے ۔
اس بات کو اگر مان لیں کہ ابن شہر آشوب نے جو نقل کیا ہے ان کی وہ بات درست ہے اور یہ تفسیر جو آج ہمارے پاس موجود ہے اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ یہ عین وہی کتاب ہے جو حسن بن خالد برقی کے پاس تھی جس کی طرف ابن شہرآشوب نے نسبت دی ہے یا اس کا بعض حصہ ہے تو قاعدہ تبدیلی سند کے قاعد ہ سے اسکا اعتبار ثابت ہو جاتا ہے جیسا کہ اس بحث کے آغاز میں ہم نے کہا تھا۔ابن شہر آشوب ،حسن بن خالد برقی کے ہم عصر نہیں ہیں یہ بات اس لیے نقصان نہیں پہنچاتی کیونکہ اس کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ حسن بن خالد کی روایت امامؑ سے یقینی طور پے ہے یہ بات ابن شہر آشوب نے بڑے ٹھوس کے ساتھ بیان کی ہے ،کیونکہ ممکن ہے کہ اس وقت یہ تفسیر حسن بن خالد کے خط کے ساتھ جو امامؑ نے املاء کروائی تھی پائی جاتی ہو اور وہ ان کے پاس موجود ہواس لیے انھوں نے بڑے جزمی طور پے کہا کہ یہ نسخہ حسن بن خالد برقی کا ہے ۔اور فرق نہیں پڑتا کہ یہ تفسیر اپنے زمانے میں معروف نہیں تھی اگر یہ شہرت یافتہ ہوتی تو نجاشی اور شیخ کی فہرست میں اس کا تذکرہ ہوتا۔انکے ظاہر کلام کی حجیت بھی اس کو ضرر نہیں پہنچاتی کیونکہ ان بزرگان نے اپنی کتابوں  کی فہرست کے  آغازمیں یہ لکھا ہےکہ ہم سب کی سب کتابوں کا احاطہ نہیں کر سکے ایسا ہو سکتا ہے کہ شہرت یافتہ ہو لیکن ان کے دائرہ اختیار میں نہ آئی ہو۔
اقوی یہی ہے کہ یہ تفسیر معتبر ہے ہاں اگر کوئی ایسا مورد ہے کہ امام کے کلام کو وہاں عقلا یا نقلا اختیار نہیں کیا جا سکتا بس اس حصے کو ہم معتبر قرار نہیں دیں گےاس صورت میں ہم ان روایات کے علم کو اس کے اہل کی طرف لوٹا دیں گے یعنی آئمہؑ کی طرف جیسا کہ تمام صحیح روایات میں ہم یہی ضابطہ اختیا ر کرتے ہیں کہ کوئی صحیح وسند روایت موجود ہو اور ایسے مضامین پر مشتمل ہو جن کو قبول نہیں کیا جا سکتا اس روایت کے پور ے حصے کو یا اس کے بعض حصے کو ۔

منابع:

منابع:
1 طبرسی ،أبی منصور احمد بن ابی طالب ،الاحتجاج:ج ۱،ص۴
2 محدث نوری ،الحاج مرزاحسین ،المستدرک الوسائل:ج۳،ص۶۶۱
3   مجلسی ،المولی محمدتقی ،روضۃالمتقین :ج ۱۴،ص ۲۵۰
4 مجلسی ،المولی محمدتقی ،روضۃالمتقین :ج۵:ص۱۴۲
5 علامہ مجلسی ،محمدباقر،بحارالأنوار:ج۱،ص۲۸
6 شیخ حر عاملی ،محمد بن الحسن ،الوسائل:ج۲۰،ص۵۹
7 الشیخ مرتضی الأنصاری، فرائدالأصول :ص۸۶
8 التفسیرالمنسوب الی الامام العسکری :ص۳۰۰ وطبرسی ،أبی منصور احمد بن ابی طالب ،الاحتجاج :ج۲،ص۲۶۳
9 محقق مامقانی ،الشیخ عبداللہ ،تنقیح المقال فی علم الرجال :ج۳،ص۱۷۵
10 الرسائل الأربعۃعشرۃ،ص۱۹۴-۲۰۷
11 الرسائل الأربعۃ عشرۃ:ص۱۹۶
Views: 19