loading

لفظِ رزق

تحریر: سید محمد حسن رضوی
04/11/2025

كلمہ ’’ رزق ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جوکہ قرآن كريم میں سو زيادہ آيات میں وارد ہوا ہے ۔  اُردو اور فارسى میں يہ كلمہ ’’ انسانی ضروریات اور وافر نعمات كے میسر آنے ‘‘ كے لیے استعمال ہوتا ہے ۔عربی لغات اور قرآن كريم كى آيات کے تناظر میں لفظِ رزق كو ذيل ميں ملاحظہ كرتے ہيں:

کلمہِ رزق اہل لغت کی نظر میں

رزق عربی زبان کا وہ لفظ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں الہٰی معارف اور حقائق کی ہدایت دینے کے لیے متعدد آیات میں استعمال کیا ہے۔ کسی بھی لفظ کے بارے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں زبان کا لفظ ہے ہے تو اس سے مقصود اس زبان میں وضعی لفظ یا استعمالی لفظ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ صلاحیت عنایت کی ہے کہ وہ اپنی نفس میں موجود معانی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ ایجاد کرتا ہے اور ان الفاظ کو استعمال کر کے دوسروں تک معنی پہنچاتا ہے۔ چنانچہ لغوی تحقیق دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے:
۱۔ کسی بھی معنی کا وضعی لفظ، اسے اصطلاح میں دلالتِ تصوری کہتے ہیں۔ دلالتِ تصوری میں ایک لفظ اس معنی پر دلالت کرتا ہے جس کے معنی کے لیے اس لفظ کو ایجاد کیا گیا ہے۔اگر لفظ کو کسی شخص یا گروہ کسی خاص معنی کے لیے ایجاد کرے تو اس کو ’’وضعِ تعیینی‘‘ کہتے ہیں اور اگر ایک لفظ کو کسی خاص معنی میں اس کثرت سے استعمال کیا جائے کہ لفظ سنتے ساتھ معنی ذہن میں آ جائے تو اس کو’’وضعِ تعیُّنی‘‘ کہتے ہیں۔
۲۔ معنی کے لیے جب لفظ ایجاد کر دیا جاتا ہے تو پھر اس لفظ کو متکلم استعمال کرتا ہے۔ مقامِ استعمال میں بعض اوقات متکلم معنی میں کمی یا زیادتی کرتا ہے جوکہ حالِ متکلم یا مقالِ متکلم سے جانا جاتا ہے۔اصطلاح میں اس کو دلالتِ تصدیقی کہا جاتا ہے۔
تمام عربی لغات یا تو ایک لفظ کا وضعی معنی ذکر کرتی ہیں یا ایک لفظ کا استعمالی معنی۔ اکثر لغات میں استعمالی معنی کو بیان کیا جاتا ہے اور اسی استعمالی معنی میں اگر مجاز و کنایہ کے قرائن نہ ہوں تو اس کو معنیِ وضعی سے موسوم کر دیا جاتا ہے۔ قرآنی الفاظ کی تحقیق میں ایک لفظ کو دو مراحل میں تحقیق کے دائرہ میں لایا جاتا ہے:

۱۔ لفظ کے ارتکازی معانی:

ارتکازی سے مراد وہی تبادُر ہے جسے علم اصول فقہ میں بیان کیا جاتا ہے۔ اہل زبان کے نزدیک ایک لفظ کے متعدد معانی میں سے جو معنی لفظ سنتے ساتھ ذہن میں آ جائے اسے ارتکازی یا تبادُری معنی کہتے ہیں۔ اگر ایک لفظ کے قرائن کی بنیاد پر اضافی معنی نہ پایا جائے تو لغت میں لفظ کا معنی یہی تبادُری یا ارتکازی معنی کہلائے گا۔ ارتکازی معنی میں اہمیت کا حامل پہلو یہ ہے کہ یہ ارتکاز اہل زبان کے درمیان ہونا چاہیے ورنہ کسی خاص گروہ یا کسی خاص فرد کے غور و فکر کی اساس پر حاصل شدہ معنی ارتکازی یا لغوی معنی نہیں کہلا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ لغت کے بیان کردہ معانی حجت نہیں ہیں اور نہ ان کے معانی کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ بلکہ ماہرینِ لغت کے بیانات سے اگر ارتکازی معنی حاصل ہوتا ہے تو وہ معنی ہمارےلیے حجت ہیں جو ماہرینِ لغت، کلامِ عرب، شعر و نثر  میں اہل زبان لفظ استعمال کر کے معنی مرادلیتے ہیں۔

۲۔ قرآن میں لفظ کے استعمالی معنی:

قرآن کریم میں سیاق سباق یا قرائن کی موجودگی میں الفاظ کا معنی سمجھا جائے گا۔ اس صورت میں قرآنی استعمال دو مراحل میں ہمارے سامنے آتا ہے:
مرحلہِ اوّل: اہل زبان لفظ کا استعمال جس معنی میں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اسی معنی کی رعایت کرتے ہوئے لفظ کو استعمال کیا ہے۔ قرآن کریم کا پہلے مرحلہ میں یہی اصل معنی کہلاتا ہے جس کے لیے ہم ماہرینِ لغت، کلامِ عرب اور شعرو نثر کی طرف رجوع کر کے ایک جامع اور کلی معنی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مرحلہِ دوم:اہل زبان کے بیان کردہ معنی کو ہو بہو قرآن کریم نے مراد لیا ہے یا نہیں وحی کی صورت میں اترنے والے معنی کی مناسبت اہل زبان کے معنی سے پائی جاتی تھی اس لیے قرآنِ کریم اس لفظ کا استعمال کیا اور پھر معنیِ وضعی میں مزید قیود کے ذریعے معانی کا اضافہ کیا ۔ ان قیود کا علم دیگر آیاتِ کریمہ اور اسی آیت کے سیاق سباق سے ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم فقط ارتکازی یا عرفی معنی کو قرآنی معنی قرار نہیں دیں گے بلکہ وہ معنی قرآنی معنی کہلائے گا جو تمام آیات میں اس لفظ کے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے سامنے ابھرا ہے۔ذیل میں انہی دو مراحل میں لفظِ رزق کو ملاحظہ کرتے ہیں اور پہلے اہل لغت کے بیان کردہ معانی تحقیقی طور پر لینے کی کوشش کریں گے اور اس کے بعد مفسرین کے کلام سے استفادہ کرتے ہوئے رزق کے معنی کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

۱۔ معجم مقاييس اللغۃ:

ابن فارس لکھتے ہیں  : > الراء والزاء والقاف أُصَيْلٌ واحدٌ يدلُّ على عَطاءِ لوَقت، ثم يُحمَل عليه غير الموقوت، فالرِّزْق: عَطاء اللَّه جلَّ ثناؤُه؛ راء، زاء، قاف  : اس كا ایک معنیِ اصیل کی دلالت ایک وقت کے لیے عطاء پر ہے، پھر اس لفظ پر عطاءِ غیر وقت کو حمل کیا گیا ہے، پس اللہ جّل ثناؤہ کی عطاء کو بھی رزق کہا جاتا ہے < [1]ابن فارس، احمد،  معجم مقاييس اللغۃ ، ج ۲ ، ص ۳۸۸، مادة : رزق۔ ابن فارس کے بیان کردہ لغوی معنی سے درج ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں:
۱۔ ایک وقت تک ملنے والی عطاء رزق کہلاتی ہے۔
۲۔ دوسرے مرحلہ میں اس عطاء کو بھی رزق کہا جاتا ہے جس میں وقت معین نہیں ہے۔
۳۔ اللہ سبحانہ کی ہر عطاء کو رزق سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۲۔ مفردات الفاظ القرآن:

راغب اصفہانی لفظِ رزق کو قرآنی آیات میں استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان کرتے ہیں: > الرِّزْقُ يُقَال لِلعَطَاءِ الجَارِي تَارَةً، دنيويًّا كَانَ أَم أُخرَوِيًّا، وَلِلنَّصِيبِ تَارَةً؛  رِزق : يہ لفظ كبھى جارى ہونے والى عطاء كے ليے بولا جاتا ہے چاہے وہ  عطاء دنيوى ہو يا اخروى ، اور كبھى يہ لفظ اس كے ليے استعمال ہوتا ہے جو نصيب و حصے ميں ہوتا ہے  <  [2]راغب اصفہانی، حسین، مفردات الفاظ القرآن ، ص ۳۵۱، مادة : رزق ۔ راغب اصفہانی کے بیان کردہ معنی کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے مقامِ استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان کیے ہیں۔ لہٰذا راغب اصفہانی قرآنی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے رزق کے لفظ کے دو لغوی معنی ذکر کرتے ہیں:
۱۔ عطاءِ جاری: اس عطاء و بخشش کو رزق کہا جاتا ہے جو جاری رہے اور منقطع نہ ہو، چاہے وہ دنیاوی عطا ہو یا اخروی عطا۔ یہاں سے یہ معنی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ رزق یا دنیاوی ہے یا اخروی ہے جیساکہ بعض اہل لغت نے صراحت کے ساتھ اس کو بیان کیا ہے۔
۲۔ عطاءِ نصیبی: نصیب یا حصے میں ملنے والی عطاء کو رزق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس اعتبار سے کسی کے حصہ میں رحمت و مشیتِ الہٰی کے مطابق وسیع رزق رکھ دیا گیا ہے اور کے نصیب میں قلیل رزق۔ البتہ ہر دو رزق کہلائیں گے کیونکہ ہر دو عطاء ہیں۔

۳۔ تاج العروس من جواھر القاموس:

زبیدی رزق کا معنی تحریر کرتے ہیں : > الرِّزْقُ، بالكَسْرِ: ما يُنْتَفَعُ به‏؛  رِزق : وہ جس سے فائدہ اٹھايا جائے  < [3]زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، ج ۱۳، ص ۱۶۲، مادة : رزق ۔ زبیدی مزید لکھتے ہیں کہ رزق کی جمع ارزاق آتی ہے جوکہ دو دو طرح كا ہوتا ہے :
۱) ظاہرى رزق : جو ابدان و اجسام كے ليے ہوتا ہے ، جيسے اقوات (یعنی انسان كى ضرورت كے مطابق ملنے والا نفع یا عطا) ۔
۲) باطنى رزق: جو دلوں اور نفسوں كے ليے ہوتا ہے ، جيسے معارف اور علوم ۔ [4]زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، ج ۱۳، ص ۱۶۲، مادة : رزق ۔

۴۔ التحقيق فى كلمات القرآن الكريم :

مصطفوی قدیمی کتبِ لغت اور قرآن کریم میں لفظ کے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے رزق کا معنی تحریر کرتے ہیں: > إنّ الأَصلَ الواحد فِي هَذِهِ المَادّة: هُوَ إِنعَامٌ مَخصُوصٌ بِمُقتَضَى حَالِ الطَّرَفِ وَمُطَابَقِ احتِيَاجِهِ لِتَدُومَ بِهِ حَيَاتُهُ؛  الرز ق: اس مادة كا اصلى معنى ملنے والا وہ  انعام ہے جو کسی حالت اور اس کی احیتاج کے عین مطابق ہو تاکہ اس کے ذریعے اس کی زندگی دوام پا سکے  < [5]مطصفوی ، حسن، تحقيق فى كلمات القرآن الكريم ، ج ۴، ص ۱۱۶، مادة: رزق ۔  مصطفوی مزید لکھتے ہیں  رزقِ حقيقى وہ جارى عطاء ہے جو صرف اور صرف حلال طريقے سے حاصل ہو ، برخلافِ غذاء، نصيب اور صرف عطاء كے كہ يہ حلال بھى ہو سكتے ہيں اور حرام بھى۔ قرآن کریم کی آیات میں رزق یا مادی ہوتا ہے یا رزق معنوی ہوتا ہے اور بعض آیات میں رزق کا اطلاق مادی اور معنوی ہر دو پر کیا گیا ہے۔ ایجاد اور خلقت کے بعد دوسرے مرحلہ میں رزق کے عطاء کا مرحلہ ہوتا ہے جوکہ زندگی برقرار ہونے اور ایک ذات کی تکمیل کا ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اشیاء کو جسمانی اور روحانی طور پر خلق کیا ہے اور اس کے بعد ان کی فطرت کے تقاضوں کے تحت ان کے لیے رزق کا اہتمام کیا ہے۔ یہ نوعِ رزق ہدایتِ تکوینی کہلاتی ہے جو ہر شیء میں اس کے وجود کو کمال اور بلندی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ رزق کی نسبت قرآن کریم میں اکثر و بیشتر آیات میں اللہ سبحانہ کی طرف دی گئی ہے لیکن بعض آیات میں غیر اللہ کی طرف بھی اس کی نسبت دی گئی ہے جوکہ مجاز ہے، جیساکہ قرآن کریم میں خیر الرزاقین متعدد آیات میں آیا ہے اور سورہ بقرہ آیت ۲۳۳ میں  اہل و عیال کو رزق دینا اورسورہ نساء آیت ۸ میں اپنے ماتحت کو رزق دینے کا بیان وارد ہوا ہے۔ [6]مطصفوی ، حسن، تحقيق فى كلمات القرآن الكريم ، ج ۴، ص ۱۱۶، مادة: رزق ۔

نتيجہ:

قرآنِ کریم میں لفظِ رزق کے استعمال اور اہل لغت کے بیانات اور کتبِ لغوی میں کلامِ عرب اور اقوالِ شعراء و ادباء سے رزق کے درج ذیل معانی آتے ہیں اور ظاہراً یہی معنی آیات و روایات میں پیش نظر ہیں:
۱۔ ایسی عطا یا ملنے والے نفع کو رزق کہا جاتا ہے جو انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے عنایت ہو۔
۲۔ ہر ذات و ذرہ کو خلق کرنے کے بعد اس کی زندگی کو برقرار کرنے اور ضرورتِ زندگی پوری کرنے کے لیے نصیب ہونے والی عطاء رزق کہلاتی ہے۔ لہٰذا پہلا مرحلہ ایک شیء کا وجود پانا ہے اور اس کے بعد اس کی ضرورت اور زندگی کے قیام کے لیے تمام احتیاجات رزق سے تعبیر ہیں۔
۳۔ انہی مخلوقات میں ایک انسان ہے جسے ظاہری اور باطنی ہر زندگی اور  نشوونما کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے والے عطاء رزق کہلائے گی۔
۴۔ رزق کا اطلاق فقط حلال ذریعے سے ملنے والی عطا پر ہوتاہے۔رزق کا اطلاق حرام چیز پر نہیں ہوتا۔ اس معنی پر دقّت کرنے سے یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ انسان جو حلال طریقے سے استعمال کرتا ہے وہ رزق کہلاتا ہے۔ انسان حلال طریقے سے اپنی ضرورت یا زندگی کے لیے جمع کرتا ہے اس پر رزق کا اطلاق ہوتا ہے لیکن عملاً وہ تب رزق کہلائے گا جب اسے استعمال کیا جائے۔ وسعتِ رزق سے مراد ضرورت پوری کرنے کے لیے وسیع ذرائع کا انسان کے اختیار میں ہونا ہے اور تنگی رزق سے مراد عین ضرورت کے مطابق عطا ہونا ہے اور اس سے زائد میسر نہ آنا ہے۔ حرام طریقے سے جتنا کچھ جمع کیا جائے یا استعمال کیا جائے ہر دو صورت میں وہ رزق نہیں کہلائے گا۔
۵۔ انسان کی مادی ضروریات بھی ہیں  اور معنوی بھی۔ مادی ضروریات کو پورا کرنے والی عطاء مادی رزق اور روحانی نشوونما کا باعث بننے والی عطا معنوی رزق کہلاتی ہے۔ معنوی رزق کو بعض اہل لغت نے اخروی اور بعض نے روحانی رزق سے تعبیر کیا ہے۔

آیات و روایات سے مادی و معنوی رزق کی درج ذیل خصوصیات سامنے آتی ہیں:
۱) مادى رزق کی مدت اس وقت تک ہے جب تک مادی جسم موجودہے۔ انسان کی موت کے ساتھ مادی رزق ختم ہو جاتا ہے لیکن معنوی رزق بعد از موت بھی جاری رہتا ہے۔ ۔
۲) مادى رزق کم مدت اور محدود لذت ہے جبکہ معنوی رزق طویل مدت اور کثیر لذت ہوتا ہے۔
۳) مادى رزق لذت كے بعد زحمت و مشقت ميں تبديل ہو جاتا ہے جبكہ معنوى رزق سکون اور ابدی آرام کا باعث بنتا ہے۔
۴) مادی رزق فناء ہو جانے والا ہے لیکن معنوی رزق اللہ سبحانہ کے پاس ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔
۵) مفسرین کے مطابق مادی و معنوی ہر دو رزق وسیع و تنگ بھی ہوتے ہیں اور ہر دو بغیر حساب عنایت بھی ہوتے ہیں۔

منابع:

منابع:
1ابن فارس، احمد،  معجم مقاييس اللغۃ ، ج ۲ ، ص ۳۸۸، مادة : رزق۔
2راغب اصفہانی، حسین، مفردات الفاظ القرآن ، ص ۳۵۱، مادة : رزق ۔
3, 4زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، ج ۱۳، ص ۱۶۲، مادة : رزق ۔
5مطصفوی ، حسن، تحقيق فى كلمات القرآن الكريم ، ج ۴، ص ۱۱۶، مادة: رزق ۔
6مطصفوی ، حسن، تحقيق فى كلمات القرآن الكريم ، ج ۴، ص ۱۱۶، مادة: رزق ۔
Views: 45

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اہم اور قدیمی لغات کا تعارف
اگلا مقالہ: