{ روشِ تفسیر قرآن کریم }
قرآن کریم کی مختلف روشیں
تحریر: سید محمد حسن رضوی
06/01/2024
کلمہِ تفسیر عربی زبان کا لفظ ہے کہ جس کے لغوی ’’ایک شیء کو روشن کرنے اور واضح کرنے ‘‘ کے ہیں۔ [1]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۴، ص ۵۰۴۔راغبِ اصفہانی نے فسر کا معنی عقلی معنی کا ظاہر کرنا ذکر کیا ہے۔ [2]راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن، ص ۳۸۰۔ پس لغت میں تفسیر کا مطلب کسی معنی کو آشکار، روشن ، واضح اور تفصیل سے بیان کرنا ہے۔ عربی لغت سے قرآن کریم میں اللہ سبحانہ کی بیان کردہ ہدایت کو تفسیر کا نام دے دیا گیا۔اس اعتبار سے راغب اصفہانی کا بیان کردہ معنی حقیقت کے عین مطابق ہے کہ قرآن کریم نے معانیِ الہٰیہ کو الفاظ کے قالب میں بیان کیا ہے جس کو انہی الفاظ کی مدد سے ظاہر کرنا تفسیر کہلائے گا۔ پس قرآن کریم کے الفاظ و کلمات اور جملات جنہیں آیات کہا جاتا ہے جسم کی مانند ہیں اور ان کے ذریعے ظاہر ہونے والے معانی روح کی مانند ہے کیونکہ اصل حیات روح سے ہوتی ہے اور وہی تمام امور میں مقصودِ نظر ہوتی ہے ۔ اسی طرح اصل اہمیت قرآن کریم کے معانی کو حاصل ہے جو ہمیں حقائق سے روشناس کراتے ہیں ۔ الفاظ کی مدد سے ہم انہی عظیم معانی تک پہنچتے ہیں اور ان معانی کے ذریعے حقائق کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔
قرآن کریم کے معانی و مطالب آیاتِ کریمہ کے مطابق واضح اور روشن ہیں جس کو مزید روشن کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا اس معنی میں تفسیرِ قرآن درست معنی نہیں کہ مخلوق کا کلام اللہ تعالیٰ کے کلام سے زیادہ واضح ، روشن، فصیح و بلیغ ہے جس کے ذریعے سے خالق کے کلام کو آشکار کیا جائے !! قرآن کریم میں متعدد مقامات میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: { شَهْرُ رَمَضانَ الَّذي أُنْزِلَ فيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَ بَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَ الْفُرْقانِ ؛ماہِ رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جوکہ لوگوں کے لیے ہدایت اور واضح آشکار ہدایت و فرقان ہے }۔[3]بقرہ: ۱۸۵۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا تعارف آشکار واضح ہدایت اور فرقان کے اعتبار سے کرایا ہے۔ نیز حکمت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ جب عام سطح سے لے کر بلند بالا مقامات پر فائز فرد کے لیے قرآن کریم ہدایت ہے تو اس پیغامِ ہدایت کو ایسی زبان میں بیان کیا جائے جسے ہر کوئی سمجھ سکے۔ اگر قرآن کریم کو ایک مخصوص طبقہ سمجھ سکتا اور بقیہ سمجھنے سے عاجز و قاصر ہوتے تو قرآن کریم تمام لوگوں کے لیے کتابِ ہدایت نہ ہوتا۔ چنانچہ اللہ سبحانہ نے قرآن کریم میں ایسی جملہ بندی اور الفاظ کا چناؤ کیا ہے جسے لوگ بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن کریم کا اہم معجزہ یہی ہے کہ عوامی سطح پر بولے جانے والے الفاظِ فصیح و بلیغ کے ذریعے ملکوت و لوح محفوظ کی سطح پر درج حقائق کو معانی و الفاظ کے قالب میں ڈھال کر لوگوں کی دسترس اور پہنچ کے قابل بنا دیا ۔ چنانچہ تفسیرِ قرآن کا مطلب ہر گز قرآن کے مبہم و مجمل کلمات کو کھولنا نہیں ہے بلکہ تفسیرِ قرآن سے مراد اللہ سبحانہ کا بیان کردہ معنی سمجھنا اور اسے اختیار کرنا ہے۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے تمام جہان کی انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے۔ لہٰذا اس کی زبان بھی جہانی اور آفاقی ہونی چاہیے۔ اس اعتبار سے قرآن کریم کی ایک ظاہری زبان ہے اور ایک فہمی و ادراکی کی زبان ہے۔ قرآن کریم کی ظاہری زبان عربی ہے جیساکہ خود قرآن کریم میں متعدد جگہ وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عربیِ مبین میں نازل فرمایا ہے۔ جبکہ قرآن کی فہمی کی زبان زبانِ فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو فطرت پر خلق کیا ہے اور انسان کو عقل و فطرت دے کر بقیہ خلقت سے ممتاز کیا ہے۔ چنانچہ انسان اپنی پاک فطرت کی اساس پر عقل و تدبّر کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآنی معانی و معارف سے آشنا ہو سکتا ہے اور اپنی قلبی و روحی تعلق قائم کر سکتا ہے۔ پس لغتِ فطرت تمام انسانوں میں مشترک پہلو اور جہانی زبان ہے۔
قرآن کریم کو ہر دور میں مختلف زاویوں اور متعدد علوم کے آئینے میں مطالعہ کیا گیا ہے۔ آیا اس طرزِ مطالعہ سے قرآن کا بیان کردہ معنی آشکار ہوتا ہے یا نہیں ؟ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبہ جات ہر دور میں اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قرآن کریم سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔ اس طور پر ہمارے پاس قرآن کریم کی تفسیر کی درج ذیل روشیں آ جاتی ہیں:
۱۔ تفسیر قرآن با قرآن
۲۔ تفسیر روائی
۳۔ تفسیر عقلی و اجتہادی
۴۔ تفسیر فقہی
۵۔ تفسیر کلامی
۶۔ تفسیر عرفانی
۷۔ تفسیر رمزی
۸۔تفسیر اشاری
۔
منابع: