loading

{حدیث یوم}

کس پر اللہ کی نظر رحمت نہیں

تدوین:بلال حسین

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم فرماتے ہیں:

ثَلٰثَةٌ لٰا یُکلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلٰا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰامٰةِ وَلٰا یُزَکِیِّھِمْ وَلَھُمْ عَذٰابٌ اِلِیْمٌ۔شَیْخٌ زٰانٍ وَمَلِکٌ جَبّٰا رٍ وَمُقِلٌّ مَخْتٰالٍ [1] کافی صفحہ  ۳۱۱

روز قیامت اللہ تعالیٰ تین گروہوں سے کلام نہیں کرے گا۔ (یعنی وہ خداوند عالم کے غضب کا نشانہ ہوں گے)اور ان پر رحمت کی نظر نہیں کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔۱۔بوڑھا زانی۲۔ ظالم حاکم ۳۔مغرور فقیر۔

شرح حديث:

یعنی ان تین گروہوں کا عذاب،جوانی میں زنا کرنے والے اور ایسے ظالم سے جو حاکم نہ ہو اور ایسے مغرور سے جو فقیر نہ ہو،زیادہ ہے اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کیونکہ مذکورہ تین گروہوں میں گناہ کا سبب موجود نہیں۔یعنی شہوت کی جو آگ جوانی میں ہوتی ہے وہ بڑھاپے میں نہیں ہوتی۔تو جب بھی(بوڑھا)زنا کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ بہت بے حیاء ہے اور احکام خدواوندی کی پروا نہیں کرتا لہذا گناہوں میں بوڑھوں کی سزا جوانوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ۔اور اسی طرح حاکم کے لئے جیسا کہ خداوند عالم نے اسے حکومت اور طاقت عدل کو وسعت دینے کے لئے دی ہے لیکن اگر وہ ستم کو اپنا پیشہ بنائے تو گناہ کے علاوہ خداوند عالم کی نعمتوں کے انکار کی بنا پر درحقیقت اپنی بندگی کا منکر ہو گیا۔اور اسی طرح تکبر کرنے والا فقیر کے لئے جیسا کہ بڑائی کا ایک سبب مال ہے اور جو کوئی مال کے نہ ہوتے ہوئے تکبر کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ خبیث اور پیدا کرنے والے خدا کا دشمن ہے۔

ایک شخص نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا۔

عَنْ حَکِیْم قٰالَ سَئَلْتُ اَبٰا عَبْدِ اللّٰہِ عَیَیْہِ السَّلٰامُ عَنْ اَدْنَی الْاِلْحٰادِ۔فَقَالَ عَلَیْہِ اَنَّ الْکِبْرَاَدْ نٰاہُ۔[2] کافی جلد ۲۔صفحہ ۳۰۹

کفرکے کمترین درجات یعنی حق سے رو گردانی کیا ہے؟امام (علیہ السلام) اس کا کمترین درجہ تکبر ہے۔امام محمد ماقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔

اَلعِزُّرِدآءُ اللّٰہِ وَالْکِبْر اِزٰارُہُ فَمَنْ تَنٰاوَلَ شَیئاً مِّنْہُ اَکَبَّہُ اللّٰہُ فِیْ جَھَنَّم [3] کافی جلد۲۔صفحہ ۳۰

عزت و بزرگی اور کبریائی کا اظہار اللہ تعالیٰ کے دو مخصوص لباس کی مانند ہیں۔یعنی جس طرح حاکم کے مخصوص لباس میں کوئی شرکت کا حق نہیں رکھتا اسی طرح کوئی بھی مخلوق ان دو صفات اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرکت کا حق نہیں رکھتی)پس جو کوئی بھی ان دو صفات سے متصف ہونے کی جرأت کرے گا تو خداوند عالم اسے سر کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔

آپ نے یہ بھی فرمایا۔

اَلْکِبْرُ رِدٰآءُ اللّٰہِ وَالْمُتَکَبِّرُ ینُازِغُ اللّٰہَ رِدٰوآئہُ۔[4] کافی جلد ۲۔صفحہ۳۰۹

کبر و بزرگی اللہ تعالیٰ کے دو مخصوص لباس کی مانند ہے اور جو کوئی تکبر کرے(خداوند عالم کی اس مخصوص صفت میں )تو اس نے خداوند عزوجل سے جنگ کی ہے ۔

کیونکہ تکبر کرنے والا حالت تکبر میں اپنے بندگی کو فراموش کر دیتا ہے ۔جبکہ اس کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اور اپنے آپ کو مستقل اور فعال شئے سمجھتا ہے۔اور فرعون کی طرح کہتا ہے کہ میں سب سے بڑا اور اعلیٰ ہوں میں ایسا اور ویسا ہوں پس اس حالت میں خدائے واحد کے مقابل کھڑا ربوبیت کا دعویٰ کرتا ہے۔خلاصہ یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کی (اس کے علاوہ)ہر ایک صفت مثلاً عفو در گزر ،رحم،سخاوت احسان،کرم ،حلم ،علم ،محبت ،مہربانی سے متصف ہو سکتا ہے۔بلکہ قرب کے درجات انہی صفات کی کمی و زیادتی سے ظاہر ہوتے ہیں لیکن عزت و عظمت اور کبریائی کی صفت صرف خدائے عزوجل سے مختص ہے اور کسی انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ان دو صفات سے متصف کرے۔قرآن مجید میں خداوند عالم فرماتا ہے۔

وَلَہُ الْکِبْرِیٰآءُ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔[5]سورہ جاثیہ آیت   ۳۷

اور سارے آسمان و زمین میں اس کے لئے بڑائی ہے۔امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔

اِنَّ فِیْ جَھَنَّمَ لَوادٰ یاً للّمتکبّرِیْن یُقٰالُ لَہُ سَقَر شکَیٰ اِلَی اللّٰہِ عَزَّو جَلَّ شِدّ ةِ حِدِّہ۔وَسَئَلَہُ اَنْ یثاذَنَ لَہُ اَنْ یَتَنَفَّسَ فَتَنَفَّسَ فَاحَرْقَ جَھَنَّمَ  [6] کافی جلد۲صفحہ۳۱۰

دوزخ میں ایک ایسا درہ ہے جو متکبروں کے لئے مخصوص ہے کہ جسے سقر کہتے ہیں اس سے اپنی گرمی کی شدت کی خداوند عالم سے شکایت کی اور سانس لینے کی اجازت چاہی پس اس نے سانس لیا اور جہنم کو جلادیا ۔آپ نے یہ بھی فرمایا۔

اِنَّ المُتکَبَّرِیْن یَجْعَلُونَ فِیْ صُوَرِ الذَرِّ یتَوَ طَئَاھمُ النّٰاسَ حَتّٰی یَفْرغُ اللّٰہُ مِنَ الْحِسٰابِ [7] کافی جلد ۲صفحہ ۳۱۱

بلاشبہ تکبر کرنے والے(روز قیامت)باریک چیونٹیوں کی صورت میں محشور ہوں گے اور خداوند عالم کی مخلوق کے حساب سے فارغ ہونے تک لوگ انہیں پاوٴں تلے روندیں گے۔

علامہ مجلسی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ممکن ہے کہ روز قیامت انسان اپنے دنیاوی جسم کے مقابلے میں ایک چھوٹے سے ذرے کی مانند ہو حالانکہ سب اصلی اجزاء یا کچھ اس میں موجود ہوں۔اور اس کے بعد دوسرے اجزاء کا اضافہ اپنے آپ کو اور اپنی تمام حیثیت کو اس کی مخلوق اور اس کا پروردہ سمجھتا ہو تو محال ہے کہ وہ اس(خدائے بزرگ و برتر)کا انکار کرے اور اگر کسی ایسے (شخص)سے کوئی گناہ سر زد ہوا اور وہ حکم خداوندی کی مخالفت کرے تو یہ (گناہ )خداوند عالم کی ربوبیت کے انکار اور اس کے سامنے تکبر کی بناء پر نہیں ہے بلکہ غفلت،شہوت کے غالب آنے اور خواہش نفسانی کی وجہ سے ہے۔چنانچہ امام زین العابدین (علیہ السلام) ابو حمزہ میں عروج کرتے ہیں

اِلٰھِیْ لَمْ اَعْصِکَ جِیْنَ عَصَیْتُکَ و اَنَا بِرُبُوْ بِیَّتِکَ جٰاحِدٌ وَلٰا بِاَمِرْکَ مُسْتخِفُّ ولا لِوَعِیْدِکَ مُتِھٰاوِنٌ ولا لِعُقُوتْبِکَ مُتَعرِّضٌ ولکن خطیئتہً عُرِضَتْ وَسوَّلَتْ لِی نَفْسِیْ وَغَلَبْنِیْ ھَوٰایَ وَ اَعٰانفی عَلٰی ذُلِلَ شُقُوفِیْ۔[8] دعای ابو حمزہ ثمالی

بار الہٰا!جب میں نے تیر گناہ کیا تو(اس وقت) میں تیری خدائی کا منکر نہیں تھا اور نہ تیرے حکم کو پست اور حقیر سمجھتا تھا۔اور تیرے عذاب کے وعدے کو حقیر نہیں جانتا تھا اور نہ تیرے سزا کی متعلق مجھے کسی قسم کا اعتراض تھا۔در حقیقت وہ گناہ جو مجھ سے ہواہے اسے میرے نفس نے ابھارا اور مجھے فریب دیا اور میری خواہش مجھ پرغالب آئی۔

ہر وہ گناہ جو تکبر و سر کشی کی بناء پر ہو وہ قابل بخشش نہیں ہے۔ کیونکہ وہ کرنے والے کے کفر پر دلالت کرتا ہے اور یہاں سے ہی ابلیس کا کفر ظاہر ہوا جسیا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنا حکم خداوندی تھا لیکن اس نے سرکشی کی بناء پر اسے ترک کیااور کہا۔

قَالَ لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہُ مَنْ صَلْصٰالٍ مِنْ حَمَئاٍ مَّسْنُوْن [9] سورہ حجرات آیت ۳۳

(ابلیس نے )کہا میں ایساتو نہیں ہوں کہ ایک ایسے آدمی کو سجدہ کروں جسے تونے سڑی ہوئی کھنکھن بولنے والی مٹی سے پیدا کیا ہے۔

خداوند عالم نے اس کے جواب میں فرمایا۔

فَمٰا یَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْھٰا فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰاغِرِیْنَ [10] سورہ اعراف آیت  ۱۳

تو(بہشت سے)نیچے اتر جا کیونکہ تیری یہ مجال نہیں کہ تو یہاں رہ کر غرور کرے تویہان سے نکل جابیشک تو ذلیل افراد میں سے ہے۔خدائے بزرگ وبر ترنے یہ بھی فرمایا:اَبیٰ وَاسْتَکَبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰافِرِیْنَ[11]سورہ بقرہ آیت۳۴ ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہو گیا۔

منابع:

منابع:
1 کافی صفحہ  ۳۱۱
2 کافی جلد ۲۔صفحہ ۳۰۹
3 کافی جلد۲۔صفحہ ۳۰
4 کافی جلد ۲۔صفحہ۳۰۹
5 سورہ جاثیہ آیت   ۳۷
6 کافی جلد۲صفحہ۳۱۰
7 کافی جلد ۲صفحہ ۳۱۱
8 دعای ابو حمزہ ثمالی
9 سورہ حجرات آیت ۳۳
10 سورہ اعراف آیت  ۱۳
11 سورہ بقرہ آیت۳۴
Views: 7