أمارات العدالۃ والوثاقہ
تحریر:بہادر علی
04/20/2023
فہرست مقالہ
خلاصہ مطلب:
علماءرجال نےایسے علائم ذکر کیے ہیں یاایسےامورذکر کیےہیں اگروہ امورکسی کےحق میں متحقق ہوجائیں تو یا وہ اس کی وثاقت کو بیان کرے گأیا وہ اس کے اوپر جرح کوبیان کرے گأ ۔ضعیف ہونے والےامور ہمارے لیے واضح ہیں اس لیے علم رجال میں یہ والی بحث مذکور نہیں ہے کہ جن سے ایک راوی ضعیف قرار پاتا ہے انھوں نے یک طرفہ بحث کی ہے وہ یہ کہ اگر ایسے امارات یا ایسی علامات کسی کے حق میں متحقق ہو جائیں تو یہ ثابت کرتیں ہیں کہ وہ راوی یا عادل ہے یا ثقہ ہے۔
اب ہماری بحث آرہی ہے کہ آپ قول رجالی کے علاوہ کس طریقے سے ہم راوی کی عدالت اور وثاقت کو ثابت کرسکتے ہیں ؟بعض امارات علماءنے ذکر کی ہیں اگر وہ امارات کسی راوی میں پائی جائیں تو یہ امارات نشان دہی کریں گیں کہ یہ راوی عادل ہے یا ثقہ ہے ۔اہل سنت میں ثقۃ اور عدالت میں کوئی فرق نہیں پایا جاتاعلماء امامیہ میں اختلاف ہے بعض عدالت اور وثاقت میں فرق کے قائل نہیں ہیں یہ قلیل ہیں اس کے مد مقابل عدالت اور وثاقت میں فرق کیا ہے اور یہی قول مقتضی تحقیق کے مطابق مصنف نے اختیار کیا ہے ،ہمارے آج کے علماء اسی کے قائل ہیں کہ وثاقت اور عدالت میں فرق پایا جاتا ہے ،انھوں نے عدالت سے کیا مرادلیا ہے ؟۱:عدالت کاایک معنی ہے تمام گناہوں سے بچنا۔۲:ایسا راسخ ملکہ پایا جائے کہ جس کی بنیاد پر گناہان کبیرہ سے تو بچتا ہولیکن گناہان صغیرہ سے بھی اجتناب کرتا ہویا حد اقل گناہ صغیرہ پر اصرار نہ ہو۔یہاں پر جب ہم عدالت کہیں گے تو اس سے مراد یہ دوسرا معنی ہے۔وثاقت بعض نے عدالت کے معنی میں لیا ہےکلمہ ثقہ موثوق کے معنی میں ہے جیسے خلق بمعنی مخلوق لیا جاتا ہے ،بعض کہتے ہیں کہ ثقہ عدالت کے مترادف ہے انھوں نےاس سے اتفاق نہیں کیا اور بیان کیا ہے کہ علم رجال میں ثقہ سے مراد یہ ہے کہ وہ جھوٹ سے محفوظ رہے اور اپنی زندگی میں یہ عادتا جھوٹ نہیں بولتا اگرچہ اسکا مذہب فاسد ہی کیوں ناہواس کے باوجود وہ ثقہ کہلائے گأ ہمارے پاس اصل دلیل حجیت خبر ثقہ ہےکیونکہ عقلا اپنی عام زندگی میں جوامور انجام دیتے ہیں وہ عدالت دیکھ کے اس کی بات کو قبول نہیں کرتے بلکہ اس کی عام زندگی میں دیکھتے ہیں کہ وہ عادتاجھوٹ نہیں بولتا ادھر بھی یہی معنی مراد ہے ۔
امارات میں سے پہلا امارۃانھوں نےوکالت امام ذکر کیا ہے ،وکیل کسے کہتے ہیں یہ علم فق کا ایک تفصیلی موضوع ہے جس کے احکام ذکر کیے جاتے ہیں ایک ہے مؤکَل جووکیل بناتا ہے اور ایک ہے مؤکَل جس کو ایک امر پر وکیل بنایا گیا ہے انکے درمیان وکالت ہوتی ہے یہاں پر وکیل مؤکَل کے معنی میں ہے یہاں ہمیں وکالت میں دو چیزیں دیکھنی پڑیں گیں ایک عمل اور دوسرا اختیارات جس عمل میں وکیل بنایا ہے ایک دفعہ مؤکل نے وکیل بنا یا اسکو تام الاختیار دیے ہیں ،بعض اختیارفقط صیغہ جاری کرنے کی حد تک ہے ،بعض ہے کہ صرف ایک چیز لینے کا اختیار ہے ۔اب عمل کی بات آجاتی ہے ایک دفعہ عمل شخصی ہوتاہے ،ایک دفعہ وکیل ہے وصول اموال کے لیے ،ایک دفعہ وکیل سوال جواب کے لیے ہے ،ایک وکیل دینی امور کی انجام دہی کے لیے ہے اسی طرح آئمہ ؑ کے سارے وکیل یکساں نہیں ہوتے تھے ۔وکیل کے ضمن میں ہمارے پاس آتا ہے بوّاب یعنی دربان اورایک آتا ہے خادم یعنی خدمت گزار اب ہمارے پاس تین نام آگئے ۔آئمہ ؑ کی احادیث پڑھیں تو بعض جگہوں پے خادم ہو گا بعض جگہوں پے بواب کا تذکرہ ہے بعض جگہوں پے وکیل کا تذکرہ ہے ،وکیل اور سفیر ایک ہی ہیں اسی طریقے سے ہے نائبین یہ سب ایک ہی ضابطے کے تحت آئیں گے ، اگر کسی شخص کے بارے میں یہ وارد ہو کہ یہ وکیل امام ہے تو یہ وکیل ہونا اسکی عدالت یا وثاقت کے اوپر دلالت کرے گأ یا نہیں ؟اس پے ہمارے علماءرجال نے بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ مجرد وکیل ہونا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ ثقہ ہے یا عادل ہے صرف ایک مورد رہ جاتا ہے کہ جہاں پے یقینی طور پے ثقہ ہے یا عادل ہے وہ یہ کہ امر وکالت اسے سپر کرنے کے لیے عدالت یا وثاقت شرط ہے جیسے دینی امور کی انجام دہی ہے کہ غیر ثقہ کو دینی امور نہیں سونپے جاسکتے لیکن شخصی امور سونپے جا سکتے ہیں کیونکہ امور شخصی میں وثاقت اور عدالت شرط نہیں ہے،اس لیے انھوں نےکہا کہ آپ حصے پر نگاہ رکھیں جہاں پر وکالت نہیں دی جا سکتی فرد کو جہاں پے وثاقت وعدالت کااعتبار قائم نہ کیا جائے اس دائرے میں اگر وکیل ہو تووہ وکالت وثاقت عدالت کے لیے امارۃ بن سکے گی۔آیت اللہ خوئی اس بات کے قائل تھے جیساکہ معجم رجال الحدیث کے مقدمے میں انھوں نے لکھا ہے کہ یہ وکالت کا عنوان صرف سفراونائبین پر ہی منطبق ہوتا ہے بقیہ کے اوپر نہیں۔
ترجمہ عبارت
تمہید:
علماء رجال نے امارات وعلائم ذکر کی ہیں جرح وتعدیل کے لیے ،اسی طرح تزکیہ وتعدیل اور جرح وتضیف میں الفاظ بھی استعمال کیے ہیں ۔اختلاف اس میں وارد ہوا ہے کہ جرح وتعدیل کو ثابت کرنے کے لیے یہ امارات دلیل ہیں یا دلیل بننے کی صلاحیت رکھے ہیں یا نہیں (یعنی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہ عادل یاثقہ ہے کہ نہیں )اسی طرح سے الفاظ جرح وتعدیل میں بھی اختلاف وارد ہوا ہے کہ الفاظ جرح وتعدیل کے معنی میں اختلاف پیدا ہوا ہے ۔اس لیے ہم دو مرحلوں میں بحث کریں گے ،اول:ہمارے پاس کلام وارد ہوا ہے کہ وہ امور جو امارۃ اور دلیل ہونے کے اعتبار سے ہمارے سامنے آتے ہیں تا کہ راوی کے اندر عدالت اور وثاقت کو ثابت کریں اور مدح فسق کو ثابت کریں ۔الثانی :الفاظ جرح وتعدیل کیا ہیں۔
اصل بحث میں داخل ہونے سے پہلے دو مقدموں کی تمہید کا بیان کرنا ضروری ہے :
الأولی:کیاراوی میں وثاقت کا معتبر ہونا حدیث کو بیان کرتے وقت ضروری ہے یا تحمل حدیث کے وقت ضروری ہے ۔یہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے مقیاس الروایۃ میں اس موضوع کے اوپر بحث کی ہے جس میں ہم نے حدیث کو تحمل کرنے کی بھی شرئط بیان کی ہیں اور نقل کرنے کی بھی شرائط بیان کی ہیں ۔وہاں پے ہم نےثابت کیا ہے کہ حدیث کے بیان کرنے کرنے اور اسے نقل کرنے کا وقت وثاقت کے ثابت کرنے کا معیارہے نہ کہ حدیث کو لینے کاوقت معیار ہے ۔
الثانیۃ:علماء رجال کی وثاقت اور عدالت سے کیا معنی مراد ہے ،جہاں تک عدالت کی بات ہے ہم نے اس سے بحث کی تھی حدیث کی تقسیم کی بحث میں ،اپنی کتاب مقیاس الروایۃ میں ۔اس بحث کا خلاصہ :علم رجال میں عدالت سے ہمارا معنی مقصود وہ معنی ہے جو فق میں اصطلاحی معنی ہے یہ معنی محل اختلاف وارد ہوا ہے ۔ہم نےمقیاس الروایۃ میں بیان کیا ہے :کہ آپ کے نفس میں حاصل ہونےوالی صلاحیت جو گناہان کبیرۃ کے ارتکاب سے اور گناہان صغیرۃ کےاسرار سے منع کر دے ،جیسا کہ اکثر فقہاء ورجالین کے کلمات میں ہمیں یہ فائدہ دیتا ہے یعنی فقہاء اور رجالین نے اسی معنی میں لیا ہے ۔
شہید ثانی بیان فرماتے ہیں :کہ عدالت کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ تمام کے تمام گناہوں سے بچتا ہوبلکہ یہ معنی ہے کہ وہ اسباب فسق سے سالم ہو جو کبائر بچنا ہو اور صغائر پر اصرار نہ کرتا ہو جو کہ مروت کو ختم کر دے ،مروت سے مراد ان چیزوں سے متصف ہونا جن سےآراستہ ہونا عموما اچھا شمار ہوتا ہے یہ اپنے مقام اپنی شان و منزلت کے عتبار سے ہوگا کہ وہ اس فعل کو باآسانی انجام دے سکے یا ترک کر سکے یہ صلاحیت ملکہ کے درجے تک پہنچی ہو کیونکہ ملکہ معتبر ہونے کی صراحت نہیں کی جاتی کیونکہ اسباب مذکورہ سے سالم نہیں رہا جا سکتا مگر یہ کہ آپ کو اتنی مقدار کا ملکہ حاصل ہوکیونکہ یہ بہت واضح ہے اس لیے ہم اس کے اعتبار سے مستغی تھے اس لیے علماء نے بیا ن نہیں کیا ورنہ ملکہ ضروری ہے ۔[1] شہید الثانی ،زین الدین بن نور الدین علی بن احمدعاملی ،الدرایۃ :ص ۶۵
جرح وتعدیل میں جو الفاظ استعمال کیےجاتے ہیں اس بیان میں شہیدثانی نے کہا ہے کہ ہمارے نزدیک راوی میں اعتبار کیا کیا جاتا ہے وہ عدالت جو اس طرح کے ملکہ سے حاصل کی جائےتو ہم مسلم یا راوی کے ظاہر حال پر اکتفاء نہیں کریں گے اس لیے تعدیل میں واضح وآشکار لفظ ہونا چاہیے جو عدالت کے اس معنی کو اس کے ان ثابت کر رہا ہو۔[2] شہید الثانی ،زین الدین بن نور الدین علی بن احمدعاملی ، الدرایۃ :ص ۷۵ اس بنا پے علم رجال میں عدالت کامعنی وہ عمومی نہیں ہے جو وثاقت کے برابر شمار ہوتا ہے جیسا کہ بعض گمان کرتےہیں کہ وثاقت وعدالت ایک ہی معنی میں ہیں جیسے اکثر اہل سنت یہی شمار کرتے ہیں کہ وثاقت وعدالت ایک ہی معنی میں ہیں ۔