ہر انسان معاشرے میں تبدیلی کو برپا دیکھنا چاہتا ہے۔ تبدیلی سے مراد مثبت اور نفع بخش تبدیلی ہے۔ ایسی تبدیلی جس کے نتیجے میں معاشرے کے اندر ظلم و ستم ختم ہو جائے اور عدل و انصاف آ جائے، جہالت و بے شعوری کا خاتمہ ہو جائے اور علم و بصیرت کی رونق سے معاشرہ جھلک اٹھے، غربت و فقر دب جائے اور مضبوط و محکم اقتصاد معاشرے کو توانا و غنی کر دے، فتنہ و فساد کی بجائے امن و امان اور خوشحالی کا دور دورہ ہو، کرپشن و خیانت و رشوت کی بجائے امانت و دیانت اور وظیفہ پر عمل کرنا رائج ہو جائے، لا قانونیت و اجارہ داری کی بجائے قوانین کا احترام اور اس کی اتباع ہو … پس ہر انسان کی خواہش ہے کہ تبدیلی آئے لیکن کیسے ؟ کس دوش پر تبدیلی ہو ؟ ایک تفکر یہ ہے کہ تعلیمی ادارے بنا کر جہالت کا خاتمہ کرو، عدالتوں کو مضبوط بنا کر انصاف کو رائج کیا جائے، مارشل لاء یا سخت سزاؤں کے ذریعے سے قانون کے تابع کیا جائے ، لوگوں کو وظیفے دے دے کر غربت کا خاتمہ کیا جائے … یعنی ظاہری تبدیلی لائے جائے ۔ قرآن کریم ظاہر کی اساس پر تبدیلی کو تبدیلی کا نام نہیں دیتا بلکہ قرآن کریم اس موضوع کا جائزہ الہٰی قوانین کی حاکمیت اور اجراء کے ضمن میں لیتا ہے۔ وہ قوانین جن كو اللہ تعالى نے وجود دیا اور انسانى معاشروں پر حاكم قرار دیا اور انسانی معاشرے انہی قوانین کے تابع نعمت یا نقمت سےمربوط ہوتے ہیں۔ یہ قوانین جبری نہیں بلکہ انسان کے ارادہ اور اختیار سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالى كے متعدد قوانین دنیا میں حاكم نظر آتے ہیں مثلا روشنى كا اندھیرے میں اجالا برپا كر دینا، سو درجہ حرارت پر پانى كا ابل پڑنا، تیز دھار آلے كا نرم جسم كو كاٹ دینا ، زمین كا اپنى طرف اشیاء كو كھینچنا ۔۔۔ جس طرح ہم اللہ تعالى كے ان قوانین كو كائنات میں حاكم دیتے ہیں اسى طرح اللہ تعالى نے انسانى معاشروں پر بعض قوانین كو لاگو كیا ہے اور انہى قوانین كے تحت معاشرے زندگى بسر كرتے ہیں۔ دیگر قوانین اور سنن الہٰی کے عنوان سے قوانین میں فرق یہ ہے کہ سنن الہٰی جبری نہیں بلکہ انسان کے ارادہ و اختیار سے تعلق رکھتے ہیں اور سنن الہٰی انسان کے اعمال کا نتیجہ ہیں اور انسانی اعمال ہیں جو ان قوانین کو دعوت دیتے ہیں۔ [1]شہید صدر، سید محمد باقر، السنن التاریخیۃ فی القرآن، ص ۷۵۔
فہرست مقالہ
سنن الہی کی قانونی حاکمیت
معاشرے پر حاكم لاگو قوانین كو ’’ سنن تاریخ یا سُنَن الہى ‘‘ سے تعبیر كیا جاتا ہے ۔ قوانین كا یہ مزاج ہوتا ہے كہ شرائط پورا ہونے پر لامحالہ جارى ہوتے ہیں جوکہ استثناء پذیر نہیں ہو سکتے۔ معاشرے پر اللہ تعالی کے حاکم قوانین انسانی اختیار اور ارادہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کائنات میں اللہ تعالی کے بعض قوانین ایسے ہیں جو جبری طور پر انسان پر حاکم اور مسلط ہیں اور انسان کے ارادہ اور اختیار سے باہر ہیں جیسے نظام شمسی، انسانی بدن کا اندرونی نظام، قبائلی اور نسلی سلسلہ وغیرہ ۔ لیکن بعض ایسے قوانین ہیں جو انسان کے اختیار اور ارادہ سے تعلق رکھتے اور سنن الہٰی کا تعلق ایسے ہی قوانین سے ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس نوعیت کے قوانین سے ٹکراؤ اختیار کیا جا سکتا ہے! ! ارادہ و اختیار سے مقصود جبر اور روز زبردستی کی نفی ہے۔ قانون اگرچے ہمیشہ جاری ہو کر ہی رہتا ہے اس پہلو سے یہ شائبہ آتا ہے کہ ہم معاشرے کے الہٰی قوانین کے سامنے بھی مجبور ہیں۔ حقیقت میں سنن الہٰی سے متعلق قوانین ہمارے ارادہ اور اختیار سے وابستہ ہے۔ ہم اپنے ارادہ اور اختیار کے ساتھ جس راہ اور طریق کا انتخاب کریں گے اسی کے مطابق قانونِ الہٰی ہمارے نصیب قرار پائے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے راہِ مستقیم اور ایمان و عمل صالح کا انتخاب کیا ہو اور بربادی و ہلاکت کا قانون ہمارے اوپر جاری ہو جائے !! پس نجات و ہلاکت کے اعتبار سے ہمیں اختیار دیا گیا ہے کہ کس قانونِ الہٰی کو ہم دعوت دیتے ہیں۔
مثال
شہید باقر الصدر نے معاشرے پر حاکم قانونِ الہٰی کا ارادہ و اختیار سے سازگار ہونے کی مثال پانی اور درجہ حرارت کی دی ہے۔ [2]شہید صدر، سید محمد باقر، المدرسۃ القرآنیۃ، ص ۶۸۔ پانى كے نیچے ۱۰۰ درجہ حرارت كى آگ برپا كرنا ہمارے اختیار میں ہے لیكن اس كے بعد پانى نہ ابلے یہ ہمارے اختیار سے باہر ہے كیونكہ جب پہلے حصے كو جنم دے كر قوانین كے اجراء كو دعوت دے دى تو اب ہم اس قانون كے جارى نہ ہونے كا تقاضا نہیں كر سكتے سوائے اس كے كہ ہم قانون جارى ہونے كے سبب كو ختم كریں۔ پس جب سبب كو وجود دیں گے تو اس کے مطابق قانون جارى ہو کر رہے گا۔ یہاں سے ہمارے سامنے یہ حقیقت آئى كہ قوانین كے سامنے انسانى عمل ہمیشہ سبب و علت كى حیثیت ركھتا ہے اور جبكہ علت كے برپا ہونے كے بعد اس كا نتیجہ ہمارے اختیار سے باہر ہے۔انسانى معاشروں میں لاگو قوانین الہٰیہ كے اسباب كو معاشرے كے اجتماعى اعمال وجود دیتے ہیں ۔ یہ اجتماعى اعمال علت اور سبب بنتے ہیں كہ اجتماعى طور پر بركات و نعمات نازل ہوں یا معاشرے پر تنگ دستى و ناامنیت و ہلاكت كا عذاب نازل ہو ۔ بركت و رحمت اور عذاب و عقاب ہر دو كا سبب انسانى معاشرہ كا عمل وجود دیتا ہے۔
انفرادی اور اجتماعی عمل میں فرق
انسان كا انفرادى عمل معاشرے كے اوبر كسى قانون كا دعوت نہیں دیتا بلكہ مجموعى طور پر ایك معاشرہ اپنے افكار و اعمال سے قوانین الہى كو دعوت دیتا ہے ۔ بالفاظ دیگر انسان كى انفرادى زندگى پر لاگو قوانین كى نوعیت اور اجتماعى زندگى سے مربوط قوانین میں فرق ہے ۔ انفرادى زندگى زمین كى سازگار حیات سے مربوط ہے لیكن اجتماعى صورت میں قوانین اجتماعى اعمال سے تعلق ركھتے ہیں۔ اس جگہ علم عمرانیات و سوشیالوجى میں مذكور الہٰى قوانین اور سنن تاریخ و سنن الہٰى كے عنوان سے جارى ہونے والے قوانین میں فرق كیا جائے۔
سوشیالوجی اور سنن الہٰی میں فرق
سوشیالوجى میں انسان كے طبعى وجود كے مطابق لاگو قوانین كو ملاحظہ كیا جاتا ہے ، مثلا انسان مذكر و مؤنث میں تقسیم ہوتا ہے اور بالطبع اجتماعى زندگى گزارنا چاہتا ہے، انسان گھرانہ آباد كر كے خاندان اور مختلف خاندان مل كر قصبہ اور مختلف قصبے مل كر شہر اور مختلف شہر مل كر صوبے اور صوبے مل كر ریاست كو وجود دیتے ہیں ۔ یہ سب قوانین بھى الہٰى قوانین ہیں اور انسانى زندگى كى ابتداء و بقاء ہر دو سے تعلق ركھتے ہیں ۔ ان كى طرف بھى قرآن كریم كى آیات میں ذكر موجود ہے۔ لیكن ’’ سنن الہٰى ‘‘ سے مراد وہ قوانین ہیں جو انسان كى سعادت یا شقاوت ، انسان كى آبادى یا بربادى اور انسان كے اجتماعى اعمال سے متعلق ہیں، مثلا اگر انسان معاشروں نے فلاں فلاں شرائط كو برپا كرتے ہوئے اجتماعى عمل كو جنم دیا تو یہ اجتماعى عمل سبب بن جائے گا كہ بركات و رحمت و نعمات نازل ہوں اور آخرت میں سعادت و خوش بخت زندگى میسر آئے یا یہى اجتماعى عمل پورے معاشرے كے افراد كى سختى ، مشقت اور تكلیف كا سبب بن جائے گا اور مجرمین كو شقاوت كى زندگى میسر آئے گى۔
معاشرے میں امن اور فساد اتفاق نہیں
انسانى معاشروں كى سعادت اور ہلاكت اتفاقى امر نہیں ہے اور نہ ہى قوانین سے باہر ہے۔ اگر معاشرے میں كوئى بھى حادثہ برپا ہوتا ہے یا معاشرے میں اجتماعى صورت میں كوئى بھى مشكل پیش آتى ہے وہ اتفاقى نہیں ہے بلكہ الہى قوانین كے تابع ہے اور معاشرے نے اجتماعى طور پر اس كو خود دعوت دى ہے ۔ یہى وجہ ہے كہ تاریخ ہمارے پاس اس باب سے بہترین آئینہ ہے جس میں ہم ان قوانین كى حاكمیت كو قوموں پر ملاحظہ كر سكتے ہیں اور دیكھ سكتے ہیں كہ ہنستے بستے معاشرے كیسے اجڑ گئے اور پستیوں ظلمتوں میں ڈوبے ہوئے معاشرے كیسے امن و امان كا عظیم نمونہ بن گئے ۔ ان سب كا تعلق اجتماعى اعمال سے ہے۔ یہ اجتماعى اعمال دعوت دیتے ہیں كہ امن و راحت برپا ہو یا شقاوت و ہلاكت ۔ پس انسان كى انفرادى زندگى كى طرح انسان كى اجتماعى زندگى بھى ہے اور اس اجتماعى زندگى پر برپا ہونے والے اجتماعى حوادث و واقعات اجتماعى اعمال سے تعلق ركھتے ہیں ۔ پس اعمال ’’ سبب اور علّت ‘‘ ہیں اور حوادث جو قانون كى صورت میں جنم لیتے ہیں ’’ مسبَّب و معلول اور نتیجہ ‘‘ ہیں۔ سبب اور علت ہمارے اختیار میں ہے جبكہ معلول ہمارى دسترس سے باہر ہے ۔
اجتماعی اچھے یا برے اعمال کا سبب کون؟
عموماً یہ سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ انسانى اعمال بالخصوص اجتماعى سطح پر اعمال كا سبب اور علت كون ہے ؟اگر ہم معاشرے کے تحرکات اور اسباب پر دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ انسانى اعمال و افعال خصوصا اجتماعى سطح پر ’’ انسانى افكار و نظریات اور ان كى بناء پر جنم لینے والے ارادہ ‘‘ كا نتیجہ ہیں۔ پس انسانى عمل كا ظہور اس وقت تك نہیں ہوتا جب تك كوئى شىء اس كو وجود نہ دے، عمل كو ہمیشہ انسانى فكر و ارادہ وجود دیتا ہے۔ جیسى فكر ہو گى ویسا ارادہ وجود میں آئے گا جیسا ارادہ ہو گا ویسا عمل ہو گا ، جیسا عمل ہو گا ویسا نتیجہ برآمد ہو گا۔ ہم اس كڑى كو اس طرح بھى بیان كر سكتے ہیں : انسانى معاشروں میں برپا حوادث ، فرق نہیں پڑتا وہ انسان نفع میں ہوں یا انسان نقصان میں حوادث كا سبب ’’اجتماعى عمل‘‘ ہے ۔ البتہ وہ اجتماعى عمل جو فکر و ارادہ کے بعد اختیار سے انجام پائے۔
فکر و ارادہ کا عمل سے تعلق
فكر و ارادہ وہ بنیادی عنصر ہیں جو عمل كو جنم دیتے ہیں اور عمل ’’قانونِ الہى‘‘ كے جاری ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ پس اختیار سے جو عمل صادر ہو گا اس کے مطابق قانونِ الہٰی جاری ہو گا۔ انسان ان میں سے فكر ، ارادہ اور عمل كے مرحلہ تك خود مختار اور آزاد ہے اس كے بعد انسان كى دسترس سے باہر ہے۔ قرآن كریم كى متعدد آیات اور روایاتِ اہل بیت ^ ان حقائق كو بیان كرتے ہیں۔ اس حقیقت کو ہم درج ذیل آیات کریمہ کے ضمن میں سمجھ سکتے ہیں:
انسانی معاشرے قوانینِ الہٰی کے تابع
قرآن کریم میں قانون و سنتِ الہٰی کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:
فَهَلْ ینْظُرُونَ إِلاَّ سُنَّتَ الْأَوَّلینَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدیلاً وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْویلا. [3]سورہ فاطر: ۴۳
ترجمہ: پس كیا انہوں نے سوائے پہلے والوں كى سنت كے كچھ دیكھا ؟! پس آپ ہر گز اللہ كى سنت (قانون) میں كسى قسم كى تبدیلى نہیں پائیں گے اور ہر گز اللہ كى سنّت میں تحوُّل پائیں گے ۔
اس آیت کریمہ میں سنّت بمعنی قانون آیا ہے اور اس کی دو خصوصیات قرآن کریم نے ذکر کی ہیں: ۱۔ سنت میں تبدیلی نہیں ہو گی ، ۲۔ سنت میں تحوُّل نہیں ہو گا۔ پس جس طرح اللہ تعالی کے یہ قوانین گذشتہ قوموں کے لیے تھے بعینہٖ اسی طرح یہ موجود امت کے لیے بھی قائم ہیں۔ الہٰی قانون کی یہی خصوصیت سورہ فتح میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
سُنَّةَ اللَّهِ الَّتی قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدیلا.[4]سورہ فتح: ۲۳
ترجمہ: اللہ كى وہ سنّت جو ان سے پہلے بھى گزر چكى ہے اور آپ ہر گز اللہ كى سنّت (قوانین) میں تبدیلى نہیں پائیں گے ۔
سنن الہٰی کا سعادت و ہلاکت سے ربط ہونا
اللہ تعالیٰ کے یہ قوانین انسانی معاشروں کی سعادت ، نجات، امنیت اور پُر سکون زندگی سے وابستہ ہیں ۔اگر سعادت و نجات کے قوانین کو انسانی معاشرے نے لبیک کہا تو اللہ تعالی کی طرف سے رحمتیں، برکتیں اور الطاف خصوصی جاری ہوں گے۔ لیکن اگر انسانی معاشرے اپنی شقاوت و بدبختی کی بناء پر جرائم اور کفر و انکار کو برملا کریں تو گویا انہوں نے خود عذابِ الہٰی کو لبیک کہا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاشرہ تباہی و ہلاکت کا شکار ہو جائے گا۔ قرآن کریم میں اسی ہلاکت کے پہلو کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُروا كَیفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبین.[5]سورہ آل عمران: ۱۳۷
ترجمہ: تم سے قبل بھى بہت سى سنن (قوانین) گزر چكے ہیں ، پس تم لوگ زمین پر چلو پھرو پھر دقت كرو جھٹلانے والوں كى عاقبت كیسى تھى ۔
قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَها ما كَسَبَتْ وَلَكُمْ ما كَسَبْتُمْ وَلا تُسْئَلُونَ عَمَّا كانُوا یعْمَلُون.[6]سورہ بقرۃ: ۱۳۴
ترجمہ: یہ وہ امت ہے جو اس نے كسب كیا وہ اس كے لیے قرار پایا اور تمہارے لیے وہ ہے جو تم لوگوں نے كسب كیا اور تم سے ماضى میں گزرے لوگوں كے اعمال كے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔
ان آیت كریمہ سے معلوم ہوتا ہے كہ معاشرے نے الہٰى حجتوں اور تعلیمات كو جب اجتماعى طور پر جھٹلایا تو اس كے نتیجے میں بربادى مقدر قرار پائى۔ اس بربادى كا تعلق سنن یعنى الہٰى قوانین سے تھا۔ نیز یہ بھى معلوم ہوا كہ اس دنیا میں ہر قوم اور معاشرے كو اللہ تعالى نے مہلت عنایت فرمائى ہے كہ وہ كیا كسب كرے اور كیا کسب نہ کرے … پھر انسان معاشرہ جو كسب كرے گا وہى كا اس كے لیے قرار پایا جائے گا۔
انسانوں کا اجتماعی حساب کتاب
قرآن کریم نے انسان کو خود اس کا تفصیلی تعارف کروایا ہے تاکہ انسان اپنے آپ کو پہچان کر اپنے نفع و نقصان کی تشخیص دے ۔ اگر انسان اپنی شناخت میں اشتباہ کا شکار ہو گا تو یقینًا اس کو کیا قدم اٹھانا چاہیے اس میں خطاء و اشتباہ سے گزرے گا۔ قرآن کریم نے انسان کی شناخت اور معرفت کے اعتبار سے جو تعلیمات پیش کی ہیں اس کے مطابق انسان کی زندگی کا ایک انفرادی پہلو ہے اور ایک اجتماعی۔ ہر دو پہلوؤں کے اعتبار سے انسان کی ذمہ داری اور مسئولیت و وظائف اس کی گردن پر عائد ہوتے ہیں۔ چنانچہ روزِ قیامت انسان کاانفرادی حساب کتاب بھی ہے اور اجتماعی حساب کتاب بھی۔ انسان کے اجتماعی حساب کتاب کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:
وَتَرى كُلَّ أُمَّةٍ جاثِیةً كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعى إِلى كِتابِهَا الْیوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُون۔ [7]سورہ جاثیہ: ۲۸
ترجمہ: اور آپ ہر امت كو عاجز گھٹنوں كے بل گرا ہوا دیكھیں گے ، ہر امت كو اس كى كتاب كى طرف بلایا جائے گا، آج وہ دن ہے جس میں تمہیں اس كى جزاء دى جائے گى جو تم لوگ انجام دیا كرتے تھے۔
معاشرے میں تبدیلی کی بنیاد
پس معلوم ہوا کہ انسان کو انفرادی و اجتماعی ہر دو پہلوؤں سے ہدایت کی ضرورت ہے۔ ہدایت کا دائرہ کار انسان کے نظریات و افکار کو بھی شامل ہے اور انسانی عمل سے بھی مربوط ہے۔ قرآن کریم معاشروں کی تبدیلی کا طریقہ کار باطن کی اساس پر پیش کرتا ہے۔ ہمارے پاس معاشرے میں تبدیلی لانے کے دو ہی اہم طریقے ہیں:
۱۔ معاشرے میں ظاہری تبدیلی اور انسان کے باطن افکار، نظریات اور اعتقادات کو ہر شخص کا شخصی اور ذاتی مسئلہ قرار دے دیا جائے جس میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں ۔ ہر انسان آازاد ہے کہ وہ باطن پر کیا افکار و نظریات رکھتا ہے اور کن کن چیزوں کا منکر اور کن کا معتقد ہے ۔ لیکن ظاہری زندگی کے اعتبار سے اس کو ریاست کے قوانین کا تابع ہونا ضروری ہے اور ظاہری طور پر سب کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس نظریہ کے مطابق معاشرے کی تبدیلی سے مراد ظاہری تبدیلی ہے نہ کہ باطنی و ایمانی تبدیلی، مثلاً معاشرے میں تعلیمی ادارے فراواں قائم کر دیئے جائیں، مریضوں کی سہولت کے لیے وسیع و عریض ہسپتال بنا دیئے جائیں، اچھی سوسائٹی بنا کر لوگوں کو رہنے سہنے کی اچھی جگہیں فراہم کی جائیں، جاب اور کاروبار کے وسیع مواقع پیدا کیے جائیں ، سائنسی ترقی کے دوش پر معاشرے کے لوگوں کے لیے سہولیات اور آسانیاں فراہم کی جائیں وغیرہ۔
۲۔ پہلے نظریے کے مدمقابل قرآن کریم کا نظریہ ہے۔ قرآن کریم بھی قائل ہے کہ فتنہ فساد کی بجائے امنیت ہو، جنگ و جدال کی بجائے صلح و آشتی ہو، غربت وفقر کی بجائے مضبوط معیشت پر قائم معاشرہ ہو، جہالت و بے شعوری کی بجائے تعلیم و بصیرت و شعور ہو، پسماندگی کی بجائے ارتقاء و جدت ہو، قدامت کی بجائے تسخیرِ کائنات کے نظریہ کے ساتھ سائنسی ترقی اور انکشافات ہوں … وغیرہ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب تبدیلی کیسے برپا کی جائے؟ ! قرآن کریم اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ انسانی معاشرے میں اجتماعی طور پر باطنی ایسی تبدیلی وجود میں آئے جس کے دوش پر اجتماعی عمل انجام دیا تو معاشرے میں حقیقی تبدیلی رونما ہو گی۔ فساد کے اوپر خوش نما بناوٹی سجاوٹ کرنے کو تبدیلی نہیں کہتے بلکہ ضروری ہے کہ پہلے باطن کو کفر کی بجائے اسلام اور نفاق کی بجائے ایمان سے تبدیل کیا جائے اور الہٰی ہدایات اور افکار کے نتیجے میں ان سب امور کو انجام دینے کی کوشش کی جائے۔ پس جو معاشرے اندر سے اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرتے اللہ تعالی ان کے ظاہر کو تبدیل نہیں کرتا اور اللہ تعالی کی نعمتیں نقمت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔[9]علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۹، ص ۱۰۱۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو قانون کی زبان میں اس طرح سے بیان کیا ہے:
ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّراً نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ عَلِیۡمٌ.[10]سورہ انفال: ۵۳
ترجمہ: یہ اس لیے كہ اللہ نے جس قوم كو بھى جو نعمت دى ہے اس كو اس وقت تك تبدیل نہیں كرتا جب تك وہ قوم خود اپنے طور پر تبدیلى برپا نہ كریں اور بے شك اللہ سمىع علیم ہے۔
یہی قانون اور کلی ضابطہ سورہ رعد میں اس طرح سے بیان ہوتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذا أَرادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوْءاً فَلا مَرَدَّ لَهُ وَ ما لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ.[11]سورہ رعد: ۱۱
ترجمہ: بے شك اللہ اس وقت تك كسى بھى قوم كو تبدیل نہیں كرتا جب تك وہ اپنے نفوس میں تبدیلى برپا نہ كریں ، اور جب اللہ كسى قوم كے ساتھ سوء كا ارادہ كر لے لت و ان كے لیے كوئى جائے فرار نہیں ہے اور اللہ كے علاوہ كوئى ان كا سرپرست و والى ہے ۔
ان آیت سے معلوم ہوا كہ اللہ تعالى كا قانونِ تبدیلى كبھى ظاہرى تبدیلى پر جارى نہیں بلكہ قرآن کریم کی نظر میں ظاہری تبدیلی کو ہم تبدیلی نہیں کہہ سکتے ۔ تبدیلی وہ ہوتی ہے جوباطن کے دوش پر جنم لے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی راہ پر گامزن ہونے معاشرتی و اجتماعی سطح پر خیرات و برکات کے نزول کا سبب بنتا ہے اور فسق و فجور و انحراف و گمراہی کا معاشرے کی سطح پر نمودار ہونا اللہ تعالیٰ کی نقمت، عذاب اور قوموں کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے ۔[12]علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۲، ص ۱۸۱۔ کیونکہ اگر باطن میں کفر ہو اور آپ تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیز بنانا شروع کر دیں تو وہاں سے انسانوں کی بجائے پڑھے لکھے تخریب کار نکلیں گے جو دنیا میں مافیاکو ایجاد کر کے قوموں کی قوموں کو غلام بنائیں گے۔ اگر اندر انسانیت اور ایمان کی رونق برپا نہ ہو تو میڈیکل کالج سے بننے والا ڈاکٹر بائیولوجیکل بم بنائے گا، انسانی اعضاء کی تجارت کرے گا، دوائیوں کی قیمتوں پر مریضوں کو لوٹے گا وغیرہ۔ اگر ایک انجینئر کالج سے انجینئر بن کر نکلے تو انسانیت کو ہلاک و برباد کرنے کے لیے ایٹم بم، ہائیڈروجن بم وغیرہ بنائے گا، اگر ایک سیاسیات کی یونیورسٹی ہو تو وہاں سے ایسے فاسد سیاست مدار نکلیں گے جو مفادات اور ریاست طلبی کے نظریات پر سیاست کا درس دیں گے … غرض آج کے دور کی اصل مشکل ہی یہ امور ہیں۔ پس ضروری ہے کہ پہلے انسان بنے ، پہلے ایمان کی رونق سے افروز ہو، پہلے قلب کو سیدھا کرے پھر معاشرے کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش میں انسانیت کے معیارات کو برپا کرنے کی کوشش کی جائے گی اور حیوانیت و فساد کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ مجرم سے جرم ہی کی توقع ہوتی ہے بے شک وہ جتنا پڑھ لکھ جائے اور مومن عادل سے امن کی توقع ہوتی ہے چاہے وہ کتنا سختیوں اور مشکلوں میں گھر جائے۔
علامہ طباطبائی کا نظریہ
علامہ طباطبائی انہی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کے نفسانی باطنی حالات اور بیرونی مسائل کے درمیان ربط و تلازم پایا جاتا ہے۔ خیر کی جانب سے بھی یہ تلازم موجود ہے اور شر و فساد کی جانب سے بھی۔ اگر کوئی معاشرہ یا قوم ایمان لائے اور اطاعت بجائے لائے اور شکرِ نعمت کرے تو اللہ تعالیٰ کی ظاہری و باطنی تمام نعمات اس کے شاملِ حال ہو جائیں گی۔ اس کے برعکس اگر انسان کفرِ نعمت کرے، فسق و فجور کو معاشرے میں عام کرے تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کو نقمت سے تبدیل کر دیتا ہے اور اس وقت تک یہ نقمت اور تباہی رہتی ہے جب تک وہ معاشرہ اور قوم اپنی حالت تبدیل نہ کر لیں یعنی جب تک وہ معاشرہ اجتماعی طور پر مومن نہ بن جائے اور عمل صالح انجام نہ دینے لگ جائے۔ [13]علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۱۱، ص ۳۱۱۔
علامہ اقبال کا اصلاحی نکتہ اور شہید مطہری کی تائید
شہید مطہری ذکر کرتے ہیں کہ علامہ اقبال لاہوری نے بہت بہترین نکتہ بیان کیا ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ [14]سورہ انفال: ۵۳ میں اللہ تعالیٰ نے ’’یُغَیِّرُوا ‘‘ کی بجائے ’’یُغَیِّرُ‘‘ نہیں کہا ۔ بالفاظ دیگر ’’یُغَیِّرُوا ‘‘ کی صورت میں جمع کی ضمیر واؤ ہے جوکہ قوم یا ملت کی طرف لوٹ رہی ہے اور آیت میں ’’ما‘‘ مفعول بہ بن رہا ہے ۔ اگر ہم ’’یُغَیِّرُ‘‘ پڑھیں تو اس صورت میں فاعل ضمیر نہیں رہے گی بلکہ ’’ما‘‘ فاعل بن جائے گا۔ ’’یُغَیِّرُوا ‘‘ اور ’’یُغَیِّرُ‘‘ میں فرق ضمیر سے پڑتا ہے اور دونوں کا معنی تبدیل ہو جاتا ہے ۔ ’’یُغَیِّرُ‘‘ کی صورت میں معنی یہ بنتا ہے کہ قوم کے حالات – فرق نہیں پڑتا قوم کے احوال اچھے ہوں یا بُرے …- جو بھی حالات ہیں اس کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ حالات اور احوال خود ان سے تعلق پیدا نہ کر لیں اور ان سے مربوط نہ ہو جائیں ۔ یعنی جب تبدیلی کے عناصر ان کی روح، اخلاق اور خصوصیات جوکہ ان کی اپنی ذات اور عمل سے عبارت ہیں سے تعلق قائم نہ ہو تب تک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت تبدیل نہیں کرتا ، بے شک وہ تبدیلی کے عناصر اتفاقی طور پر قوم سے تعلق پیدا کر لیں یا باہر سے کوئی دوسری قوم آ کر زور زبردستی سے ان پر تبدیلی کو مسلط کر دیں ، جیسے ہی تبدیلی کے عناصر ایک قوم کی ذات اور اجتماعی حقیقت سے تعلق قائم کرے گی اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت تبدیل کر دے گا!!! علامہ اقبال بیان کرتے ہیں کہ قرآن کریم یہ بات نہیں کر رہا بلکہ قرآن کریم نے فرمایا: ’’یُغَیِّرُوا ‘‘،جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جب تک ایک قوم خود اپنے اندر ارادہ ، عزم اور استقلالِ فکری پیدا نہ کرے ان کی حالت کو اللہ تعالیٰ تبدیل نہیں کرتا۔ یعنی اگر ایک دوسری ملت یا قوم آئے اور وہ قہرًا و جبرًا اس قوم پر مسلط ہو کر اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرے تو بھی لوگوں کے حالات صحیح نہیں ہوں گےبلکہ ضروری ہے کہ اگر ایک قوم تبدیلی چاہتی ہے تو وہ عزم و ارادہ کرے ، وہ قوم استقلال فکری پیدا کرے جب یہ اقدام ایک قوم کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت تبدیل کر دیتا ہے ۔ [15]شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج ۱۷، ص ۲۲۳-۲۲۴۔
باطن کی اساس پر ظاہری حقیقی تبدیلی
پس قرآن کریم کی نظر میں معاشرے کی تبدیلیاں یعنی فساد کی بجائے امن، ظلم کی بجائے عدل، جہالت کی بجائے علم و شعور، بے راہ روی کی بجائے تہذیب نفس اور پسماندگی بجائے ترقی یافتہ معاشرہ اور ریاست ہونی چاہیے لیکن ان تبدیلیوں کو کون برپا کرے اور کس انداز سے برپا ہوں؟ یہ پہلو اہمیت کا حامل پہلو ہے۔ قرآن کے مطابق ایمان کے سہارے ، تقوی کے دوش پر، رضائے الہٰی کے تقاضوں کے تحت فساد ختم کیا جائے، عدل لایا جائے، امنیت قائم کی جائے، فقر و غربت کا علاج کیا جائے، مریضوں کے علاج کے لیے مختلف اقدامات کیے جائیں … اگر معاشرہ اجتماعی طور پر ایمان اور تقوی کی اساس پر سوسائٹی بناتا ہے اور تعلیمی و اقتصادی و دفاعی و رفاہی ادارے بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا محکم وعدہ ہے کہ وہ اس معاشرے کو آسمان و زمین کی برکات سے بھر دے اور اللہ تعالیٰ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ قرآن کریم اللہ سبحانہ کے اس وعدہ اور اس قانون کو اس اسلوب میں بیان کرتا ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَیهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ وَلكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْناهُمْ بِما كانُوا یكْسِبُون.[16]سورہ اعراف:۹۶
ترجمہ: اور اگر بستیوں والے (اس معاشرے كے لوگ) ایمان لے آتے اور تقوى اختیار كرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین كى بركات كے دروازے كھول دیتے ، لیكن انہوں نے جھٹلایا پس ہم اُس پر ان كى پكڑ كى جو انہوں نے كسب كیا تھا۔
اللہ سبحانہ نے یہ قانون فقط اس امت کے لیے نہیں بنایا بلکہ تمام امتوں چاہے وہ گذشتہ زمانوں میں گزر چکی ہوں یا مستقبل میں آنے والی ہوں سب کے لیے یہ ضابطہ اور قانون بنایا ہے۔ سورہ مائدہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجیلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ.[17]سورہ مائدہ: ۶۶
ترجمہ: اور اگر وہ اس كو (اپنے معاشروں میں ) قائم كر دیتے جو تورات اور انجیل اور ان كے ربّ كى طرف سے جو ان كى طرف نازل كیا گیا تو وہ اپنے اوپر اور اپنے قدموں كے نیچے سے بھى كھاتے ۔
پس نعمت و عزت اور اسی طرح نقمت و ذلت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یہ قانونِ الہٰی ہے کہ ہم نعمت و عزت کو چاہیں گے تو اس کی راہ ایمان ، تقوی اور معنوی و روحی تقاضے پورے کرنا ہے اور اگر ہم نے فسق و فجور و کفر و عصیان کیا تو نقمت اور ذلت ہمارے نصیب ہو گی۔ [18]شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج ۲۶، ص ۲۹۱۔ اللہ تعالیٰ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کا قانون کسی امت کے لیے تبدیل نہیں ہوتا ۔ اگر آج ہم اپنے ملک اور اسلامی ممالک میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فساد و فتنہ کی بجائے امن و امان ہو جائے، ظلم و کرپشن کا خاتمہ ہو کر عدل و انصاف آ جائے ، غربت و فقر ختم ہو جائے اور ملک کی معیشت بھال ہو جائے … تو ضروری ہے کہ ہم اجتماعی طور پر مسلمان اور مومن بنیں، تقوی کو غلبہ دیں، برائیوں کا خاتمہ کریں اور باطل و طواغیت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں ان شاء اللہ حسب وعدہ الہٰی ہمارے ملک بالخصوص امت اسلامیہ کی تقدیر بدل جائے گی اور عروج و کامیابی و کامران ان کے نصیب میں آ جائے گی۔
منابع: