{حدیث یوم}
تین چیزوں میں مومن و کافر برابر
تدوين:بلال حسين
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:
ثَلَاثٌ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہِ تَعَالٰی لِاَحَدٍ فِیْھِنَّ رُخْصَةٍ: اَدَاءُ الْاَمَانَةِ اِلٰی البِرَ وَالْفَاجِرِ و۔الْوَفَاءُ بِالْعَھْدِ اِلٰی البِْرِّ وَالْفَاجِرِ وَبِرُّ الْوَالِدَیْنِ بِرَّین کاِنَا اَوْفَاجِرَیْنِ [1] بحار الأنوار – العلا مة المجلسي، جلد : 75 ، صفحه : 92
ترجمہ
تین چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ (اول) امانت کی واپسی، اگر چہ مالک مومن ہو یا کافر (دوم) ایفائے عہد کرنا، معاہدہ کرنے والا خواہ مومن ہو یا کافر (سوم) والدین سے نیکی کرنا، خواہ وہ مومن ہوں یا کافر ۔
حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے مامون کے نام ایک خط لکھا جس میں شریعت اسلامیہ کا ذکر تھا اور اس ضمن میں یہ مضمون بھی تحریر تھا:
وَبِرُّالْوَالِدَیْنِ وَاجِبٌ وَاِنْ کَانا مُشْرِکَیْنِ وَلاطَاعَةَ لھُمَّا فِیْ مَعْصِیةِ الخالِق [2] التفسير الصافي الفيض الكاشاني، جلد : 4 ، صفحه : 144
والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا واجب ہے اگر چہ دونوں مشرک ہی ہوں۔ البتہ والدین کی اطاعت واجب نہیں جبکہ خالق کی نافرمانی کا سبب بنے۔
زکریا بن ابراہیمؑ کو صادق آل محمد کی نصیحت
ابراہیم کا بیٹا زکریا نصرانی تھا، بعد میں مسلمان ہو گیا اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی زیارت سے مشرف ہوا تو اس نے عرض کی کہ میری ماں نصرانی و نابینا ہے، وہ بڑھاپے کی حالت میں ہے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ، ماں کی خدمت کرو اور اچھے طریقے سے پیش آؤ۔
مرنے پر اس کا جنازہ دوسروں کے حوالے نہ کرنا، بذات خود تجہیز و تکفین کا کام انجام دینا۔ اس جملے میں بعد ہونے والی دو پیش گوئی کی طرف اشارہ فرمایا، ایک اس کی ماں کی وفات اور دوسرا اس کا مسلمان ہونا۔
زکریا جب واپس کوفہ پہنچا تو والدہ کے ساتھ بہت ہی ہمدردی و مہر بانی سے پیش آنے لگا۔ یہاں تک کہ نوالے اس کے منہ میں رکھتا، کپڑے تبدیل کرتا، نہلاتا و دھلاتا تھا۔ مختصر یہ کہ ہر ممکن خدمات انجام دیتا رہا۔
ماں نے پوچھا، بیٹا، جس وقت تم نصرانی تھے اس قدر میری خدمت نہیں کرتے تھے۔ اب کیا وجہ ہے کہ دن رات میری خدمت کرتے ہو؟
زکریا نے جواب دیا : اے میری ماں، میرا ایک مولا ہے، وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا فرزند ہے۔ اس نے مجھے اس طرح تیری خدمت انجام دینے کی نصیحت کی ہے۔
ماں نے پوچھا، کیا وہ پیغمبر ہے؟
زکریا نے کہا، نہیں۔ بلکہ وہ فرزند پیغمبر ہے۔
ماں نے کہا، اے بیٹا، ایسا شخص پیغمبر ہونا چاہیئے۔ کیونکہ ایسی نصیحتیں اور احکامات انبیاء کرام (علیہم السلام) ہی دیتے ہیں۔
زکریا نے کہا، پیغمبر اسلام حضرت محمد بن عبد اللہ پر سلسلہٴ نبوت ختم ہو چکا ہے۔ وہ خاتم الانبیاء ہیں۔ لیکن مجھے نصیحت کرنے والے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں۔
اس کی ماں بے ساختہ کہہ اٹھی کہ اے بیٹا، یہ دین اسلام تمام ادیان سے بہتر ہے۔ جسے تو اپنایا ہے۔ وہ مجھے بھی تعلیم دے تاکہ میں بھی مسلمان ہو جاؤں۔
پس زکریا نے اسے شہادتین اور تمام عقائد حقہ کی تعلیم دی۔ اس کے بعد اس عورت نے نماز ظہرین و مغربین ادا کی۔ اسی شب اس پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگے تو اپنے بیٹے سے کہنے لگی، بیٹا، جو کچھ تم نے مجھے تعلیمات دی تھیں، ان کی دوبارہ تکرار کرو۔ زکریا نے تکرار شروع کی، وہ عورت سنتی رہی اور اسی حالت میں رحلت کر گئی۔[3]مشكاة الأنوار في غرر الأخبار الشيخ الطبرسي، جلد : 1 ، صفحه : 319
والد ین سے زند گی اور موت کے بعد نیکی کرنا
والدین کی نافرمانی کرنا حرام اور ان کے ساتھ نیکی کرنا واجب ہے، چاہے وہ زندہ ہو ں یا مر گئے ہوں۔ بعبارت دیگر ، ان کی موت کے بعد بھی اولاد کے ذمے ان کے حقوق باقی رہتے ہیں۔
اگر والدین کی موت کے بعد اولاد ان کو فراموش کردے، ان کے لیے کارِ خیر بجا نہ لائے تو اس صورت میں اولاد عاقِ والدین شمار ہوگی۔ اگرچہ ان کی زندگی میں حقوق ادا بھی کیے ہوں اور مرتے وقت تک ان کی خدمت سرانجام دی ہو۔