قرآنی کلمات کی صرفی تحلیل:
قرآنی لفظ حسدکی صرفی تحلیل:
تحریر:حافظ تقی رضا
08/04/2023
حَسَدَ قرآنی لفظ ہےجو قرآن کریم میں متعدد آیات میں وارد ہواہے۔راغب اصفہانی اور اہل دیگر لغت نے اس کی تصریح کی ہےاس لفظ کےمادہ’’ح-س-د‘‘جس کےمعنی ’’ زوال نعمت کا تمنا کرنا اس سے جو نعمت کا مستحق ہو اس کےجو اس نعمت کو ہٹا نے کی کوشش کرے ‘‘ بنےگے۔لفظ ’’ حسد ‘‘ کےمتعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے ۔جن کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہیں:
حَسَدَ:
یہ لفظ ثلاثی مجرد کےابواب میں سے ’’ فَعَلَ یَفۡعُلُ،نَصَرَ یَنۡصُرُ‘ ‘ کےوزن پے آتا ہے۔قرآن کریم میں اس باب سے اس کا فعل ماضی ایک آیت کریمہ میں ’’ سورہ فلق۵‘‘ وارد ہواہے’’ سورہ فلق ۵ میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: وَ مِنۡ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ؛اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگ جائے۔
باب ثلاثی مجرد سے حَسَدَکے متعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے :
یَحۡسُدُونَ:
یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہوا ہے ’’ سورہ نساء۵۴‘‘ میں صرفی اعتبارسے یہ صیغہ ’’ فعل مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ’’ یَحۡسُدُونَ ‘‘ ہے جس کےمعنی ’’ وہ سب حسدکرتے ہیں‘‘ بنےگے۔
تَحۡسُدُونَنَا:
یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہواہے’’ سورہ فتح۱۵‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ فعل مضارع جمع مذکر مخاطب(اصل میں صیغہ ’’ تَحۡسُدُونَ‘‘تھا اس میں ضمیر مفعولی ملنے کی وجہ سے ’’ تَحۡسُدُونَنَا ‘‘ بن گیا) کا صیغہ ’’ تَحۡسُدُونَنَا ‘‘ ہے جس کےمعنی ’’ تم سب حسد کرتے ہوں‘‘ بنےگأ۔
حَاسِدٍ:
یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ واردہوا ہے ’’سورہ فلق ۵‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ ’’ اسم فاعل کا صیغہ ’’ حَاسِدٍ(یہ صیغہ ’’ حَاسِدٌ‘‘ تھا اصل میں شروع میں عامل کےآنے کی وجہ سے ’’ حَاسِدٍ ‘‘ بن گیا ) ‘‘ہے جس کےمعنی ’’ حسدکرنے والا‘‘ بنےگأ۔
حَسَدًا:
یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہواہے’’ سورہ بقرہ ۱۰۹‘‘ میں صرفی اعتبارسےیہ صیغہ مصدر کا صیغہ ’’ حَسَدًا ‘‘ہےجس کےمعنی ’’ حسد کرنا‘‘ بنےگا۔