loading
{ سوال جواب نشست}

کیا پاکستان میں نظامِ ولایت آ سکتا ہے؟

مدرس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

آج کی نشست کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ مومنین کے ذہنوں  میں موجود نظام ولایت کے حوالے سے سوالات کا جواب دیا جا سکے۔عموما یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ نظامِ ولایت کیا ہے؟  کیا یہ نظام پاکستان میں آ سکتا ہے یا نہیں؟ کیا پاکستان کے سیاسی اور اجتماعی حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم اس نظام کی بات کریں؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کی ابتدا میں وضاحت ضروری ہے۔

سوال۱: ولایت کے لغوی معنی وضاحت کر دیں؟

جواب: کلمہِ ولایت ’’و ۔ ل ۔ ی‘‘ سے مشتق ہے۔ عربی لغات اور مفسرین نے اس کے معنی دو اشیاء کا قریب ہونابیان کیا ہے۔ البتہ ایسی قربت یا نزدیکی جو مالکیت اور حقِ تصرف کا باعث بنے۔ بعض دیگراہل لغت نے تحریرکیا ہے کہ دو اشیاء کا اس طرح سے قریب ہونا کہ ان کےدرمیان ان کا غیر حائل نہ ہو۔ [1] راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۵۳۳۔ [2] ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج۶، ص۱۴۱۔ [3] مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱۳، ص۲۰۳۔ [4] علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۶، ص۱۲۔ [5] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت در قرآن، ج۱، ص۸۳۔ پس معلوم ہوا کہ کلمہِ ولایت یا ولی کے لغوی معنی دو اشیاء کا قریب آنا اور ان کے درمیان غیر کا رکاوٹ یا واسطہ نہ بننا ہے۔

سوال ۲:   قرآن کریم میں کس کس کو ولی کہاں گیا ہے؟

جواب:  قرآن کریم میں ولی کا معنی اور اس کا استعمال ایک طولانی بحث ہے جس میں وارد ہوئے تو ہم اصل موضوع سے باہر نکل جائیں گے۔ اس سوال کا جواب اختصار کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ پہلے مرحلے میں ولایت کو اپنی ذات کے ساتھ مختص قرار دیا اور خلقِ خدا کو باور کرایا ہے کہ اصل ولی و سرپرست فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے بعد دنیا میں کمال و جمال کی دوڑ میں میدانِ آزمائش و امتحان میں حق و باطل کے تناظر میں ولایت کا تسلسل بیان فرمایا ہے جس میں اہل حق و ایمان کا ولی اپنی ذات کو اور اہل باطل و کفر کا ولی طواغیت کو قرار دیا ہے۔ اہل ایمان میں ولایت کا تسلسل اس طرح سے ہے کہ حقیقی ولی اللہ سبحانہ ہے اور پھر رسول اللہ ﷺ اور صاحبانِ اولی الامر یعنی آئمہ اطہارؑ اور پھر مومنین ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اہل کفر و ضلالت کے ولی طواغیت اور شیاطین ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ ذیل میں چند آیات کریمہ اس مطلب پر بیان کی جاتی ہیں:

 { أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ فَاللهُ هُوَ الْوَلِيُّ }.
ترجمہ:   کیا انہوں نے اللہ کے علاوہ ولی بنا لیے ہیں؟! پس ولی تو صرف اللہ ہے۔[6] شوری: ۹۔

آیت کریمہ کے اس حصے ’’فَاللهُ هُوَ الْوَلِيُّ ‘‘ میں ھو ضمیر حصر کا معنی دے رہی ہے اور ولایت کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص قرار دے رہی ہے۔ آیت کریمہ کے اس حصے سے مراد یہ ہے کہ ولایت اور ولی فقط و فقط اللہ تعالی کی ذات اقدس ہے۔ اللہ تعالیٰ حقیقی ولی ہے اس لیے اسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی اور ولایت عنایت فرمائے اور بطورِ ولی متعارف کروائے۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

{إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَهُمْ راكِعُونَ}.
ترجمہ: تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔[7] مائدہ: ۵۵۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ولایت کاس تسلسل بیان کیا ہہے اور تصریح کی ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ اور ان اہل ایمان کو ولی بنایا ہےجو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکات (مال ) دیتے ہیں۔ اسی طرح سورہ نساء میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

{ أَطيعُوا اللهَ‌ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ }.
ترجمہ:  اے  ایمان والو!  اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔ [8] نساء: ۵۹۔

ان آیات کریمہ سے معلوما ہوا کہ اہل ایمان میں ولیِ حقیقی فقط اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ولایت کو رسول اللہ ﷺ اور صاحبانِ امر کے سپرد کیا ہے اور مومنین کو تاکید کی ہےکہ وہ صاحبانِ حکومت یعنی الہٰی حکمرانوں کی اطاعت کریں۔ پس الہٰی حکمرانی جسے منصوب کریں اور اقتدار دیں تو اس کی ولایت بھی قرآن سے ثابت ہوتی ہے۔ ولایت کے اسی تسلسل کو نظام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ہم جب نظام ولایت کہتے ہیں تو ہماری مراد یہی تسلسل ولایت اور اس کا غلبہ ہے۔

سوال ۳: کیا لفظِ ولایت روایات میں حاکم و حکمران کے معنی میں آیا ہے؟

جواب: لفظِ ولایت’’ و ۔ ل ۔ ی ‘‘کے مادہ سے مأخوذ ہےجس کے  مشتقات روایات میں کثرت سے استعمال ہوۓ ہیں، مثلاً تولی، متولی، والی، ولی، مولاوغیرہ۔ روایات اہل بیتؑ بالخصوص نہج البلاغہ میں لفظ ولایت حکمران اور حکومت کی زمام ہاتھ میں لینے کے بارے میں آیا ہے۔ یہیں سے یہ کلمہ ’’ ولایت فقیہ‘‘ کی اصطلاح کے لیے انتخاب کیا گیا۔ رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کے ادوار میں لفظ ولایت حکومت کے معنی میں  استعمال ہوتا تھا۔ جس طرح آج کے دور میں ہم لفظِ حکمران ،لیڈر، سیاستدان وغیرہ کو دیکھتے یا سنتے ہیں تو فورا ہمارے ذہن میں وہ شخص آتا ہے جس کے ہاتھ میں زمامِ حکومت ہے اور وہ ایک ریاست کے اداروں کو چلاتا ہے۔ بالکل اسی طرح رسول اللہ ﷺ اور آئمہ اطہارؑ کے دور میں لفظِ مولی ، ولی یا والی یا ولایت بولا جاتا تھا تو اس سے مراد حکمران اور حاکمِ وقت لیا جاتا تھا۔ امام علیؑ نے اپنے خطبات و مکتوبات میں اسی معنی میں ولایت ، ولی اور والی کے کلمات کا استعمال کیا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے مالک اشتر نخعی کو جب مصر کی ولایت یا حکومت عطا کی تو ان کے لیے ایک دستاویز تحریر فرمائی جوکہ عہدنامہ کے نام سے معروف ہے۔ اس کے آغاز میں لفظِ ولایت حاکم بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے:

> هَذَا مَا أَمَرَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ عَلِیٌّ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ مَالِکَ بْنَ الْحَارِثِ الْأَشْتَرَ فِی عَهْدِهِ إِلَیْهِ حِینَ وَلاَّهُ مِصْرَ جِبَایَهَ خَرَاجِهَا وَجِهَادَ عَدُوِّهَا وَاسْتِصْلاَحَ أَهْلِهَا وَعِمَارَهَ بِلاَدِهَا <.
ترجمہ: یہ وہ فرمان ہے جس پر کاربند رہنے کا حکم دیا ہے خدا کے بندے علی امیرالمومنینؑ نے مالک اشتر کو جب مصر کا انہیں والی بنایا تاکہ وہ خراج جمع کریں، دشمنوں سے لڑیں، رعایا کی فلاح و بہبود اور شہروں کی آبادی کا انتظام کریں۔[9] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ص ۴۲۷، مکتوب۵۳۔

امام علیؑ نے محمد بن ابی بکر ؓ کے نام ایک مکتوب تحریر فرمایا جسے سید رضی نے نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے۔ اس مکتوب میں امام علیؑ نے کلمہِ ولایت کے مشتقات کو حکومت اور حاکم کے معنی میں استعمال کرتے ہوئے اس طرح خطاب فرمایا ہے:

« أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِی مَوْجِدَتُکَ مِنْ تَسْرِیحِ الْأَشْتَرِ إِلَی عَمَلِکَ وَ إِنِّی لَمْ أَفْعَلْ ذَلِکَ اسْتِبْطَاءً لَکَ فِی الْجَهْدَ وَلاَ ازْدِیَاداً لَکَ فِی الْجِدِّ وَلَوْ نَزَعْتُ مَا تَحْتَ یَدِکَ مِنْ سُلْطَانِکَ لَوَلَّیْتُکَ مَا هُوَ أَیْسَرُ عَلَیْکَ مَئُونَهً وَأَعْجَبُ إِلَیْکَ وِلاَیَهً ، إِنّ الرّجُلَ ألّذِی کُنتُ وَلّیتُهُ أَمرَ مِصرَ کَانَ رَجُلًا لَنَا نَاصِحاً وَعَلَی عَدُوّنَا شَدِیداً نَاقِماً ».
ترجمہ: مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہاری جگہ پر(مالک)  اشتر کو بھیجنے سے تمہیں ملال ہوا ہے، تو واقعہ یہ ہے کہ میں نے یہ تبدیلی اس لیے نہیں کی کہ تمہیں کمزور اور ڈھیلا پایا ہو اور یہ چاہا ہو کہ تم اپنی کوشش تیز کر دو اور اگر تمہیں اس منصب حکومت سے جو تمہارے ہاتھ میں تھا، میں نے ہٹایا تھا تو تمہیں کسی ایسی جگہ کی ولایت (حکومت) سپرد کرتا جس میں تمہیں زحمت کم ہو اور وہ تمہیں پسند بھی آۓ۔ بلاشبہ جس شخص کو میں نے مصر کا والی(حاکم) بنایا تھا وہ ہمارا خیر خواہ اور دشمنوں کے لیے سخت گیر تھا۔[10] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ،ص ۴۰۷،  مکتوب۳۴۔

نہج البلاغہ کے متعدد خطبات و مکتوبات میں کلمہِ والی بمعنی حاکم اور ولایت بمعنی حکومت وارد ہوا ہے۔[11] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ص ۴۶۱، مکتوب۷۱۔    یہاں سے ثابت ہوا کہ رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کے دور میں جب ’’والی، ولی یا ولایت‘‘ بولا جاتا تھا تو اس سے مراد معنوی بلندیوں پر فائز ہستی مراد نہیں ہوتی تھی جیساکہ آج کل لفظِ ولی اور ولایت فضائل اہل بیتؑ کے لیے فقط معنوی بلندی اور قدرت و طاقت کی وسعت کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچے احادیث میں بالخصوص عرفانی مباحث میں کلمہِ ولی و ولایت ایک عظیم رتبہ اور اس رتبہ کی خصوصیات کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے لیکن اس سے ’’ولی و ولایت‘‘ اصل معنی متاثر نہیں ہوتا۔   بالخصوص پاکستانی معاشرے میں جب ولایت کا لفظ بولا جاتا ہے تولوگوں کے ذہنوں میں کلمہِ ولایت یا ولی سے وہ عظیم فضائل اجاگر ہوتے ہیں جو آئمہ اہل بیتؑ کے ساتھ مختص ہیں۔ اس کے مقابلے میں میدانِ غدیر میں رسول اللہ ﷺ نے  ہزاروں صحابہ کرام کے درمیان  امام علیؑ کو مولیٰ کا عنوان دے کر جس معنی کو مراد لیا  وہ اسلامی ریاست کی رہبری اور حاکمیت تھی نہ کہ وہ معنوی مرتبہ اور عظمت جو امام علیؑ کی ذات کے ساتھ مختص ہےاور ان سے چھن نہیں سکتی۔امام خمینی ؓنے جب اسلامی حکومت اور نیابتِ امام زمانہؑ میں حاکمِ وقت کے لیے الفاظ کا چناؤ کیا تو قرآن و احادیث سے رہنمائی لیتے ہوئے اسلامی حاکمیت کو ’’ولایت فقیہ‘‘ اور اسلامی حاکم کو ’’ولی فقیہ‘‘ سے تعبیر کیا۔ ولی فقیہ کے عنوان میں ولی یا ولایت سے مراد مقامِ عصمت یا مقامِ قدرت و وسعت نہیں ہے بلکہ اس سے وہی معنی مراد ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے غدیر خم کے میدان میں مراد لیے تھے۔  بالفاظِ دیگر ولایت فقیہ یا ولی فقیہ میں ’’ولی یا ولایت‘‘ بمعنی حکومت یا حکمران و حاکم کے ہیں۔ یہ گمانِ باطل نہیں ہونا چاہیے کہ ’’ولی فقیہ‘‘ قرار دے  کسی فقیہ بزرگوار  کو عصمت و ولایت عظمیٰ کے مقام و مرتبت پر قرار دیا جا رہا ہے !! ہرگز نہیں! بلکہ ولایت فقیہ سے مراد نیابتِ امام زمانہؑ میں ایک عادل اور با شرائط فقیہ کی ایسی اسلامی حکومت ہےجس کا محور حاکمیت و قانون الہٰی ہو اور وہ عوامی مقبولیت کی حامل ہو۔

سوال ۴: ولایت اور امامت تو ایک نظریہ ہے یہ نظام(system)  کب سے ہو گیا، خصوصاً سیاسی نظام؟!

جواب: احادیث مبارکہ میں ولایت اور امامت یکساں معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ کسی بھی نظریہ و آئیڈیالوجی یا عقیدہ کو جب اختیار کیا جاتا ہے تو اس عقیدہ کو اختیار کرنے والا یا تو اس کو زبانی کلامی اقرار کر کے  اپنے قلبی احساسات سے وابستہ کر لیتا ہے جس کے پیچھے فہم و دانش کا بہت قلیل اثر ہوتا ہے یا اس کے برخلاف عقیدہ کو اختیار کرنے والا اس عقیدہ کو حق و باطل کے آئینہ میں دقت سے مطالعہ کرتا ہے اور انسانی زندگی کو اس سے وابستہ کرتے ہوئے اس کے نتائج اور اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔ یہاں لمحہِ غور و فکر یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ ہمیں ان میں سے طرز کو کیا آئمہ معصومینؑ کی ولایت اور امامت ایک سیاسی نظام ہے؟ یا اس سے مراد صرف آئمہ معصومینؑ کے فضائل اور ان کا بلند مرتبہ ہے؟

اگر روایاتِ اہل بیتؑ سے رہنمائی لی جائے تو معلوم ہو گا کہ احادیث مبارکہ میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ ولایت اور امامت دین اسلام کی طرف سے مسلمانوں کے لیے ایک نظام ہے۔ چنانچہ اسے ہمیں نظام کے طور پر لینا چاہیے نہ کہ فقطا لسانی اور زبانی اظہار عقیدت کے طور پر۔ تعلیماتِ آل محمد ؑ کے مطابق، اللہ تعالی نے امت اسلامیہ کے لیے اجتماعی نظام ‘‘امامت و ولایت‘‘ تجویز کیا  ہے۔ ذیل میں چند احادیث پیش خدمت ہیں جن میں واضح اور شفاف الفاظ میں امامت کو نظام کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے:

حدیث نمبر ۱:

شیعہ و سنی کتب میں جناب فاطمہ زہراؑسے خطبہِ فدک منقول ہوا ہے۔ قدیم منابع میں اس خطبہ کا وجود اور اس کے عمیق معانی و بلیغ زبان ہمیں سندی تحقیق سے بے نیاز کرتی ہے۔ عربی ، فارسی اور اردو میں اس خطبے کی کئی شروحات منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جناب زہراء سلام اللہ علیہا اس خطبہ میں شرعی احکام کی حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں :

{ فَجَعَلَ اللَّهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ، وَالصَّلاةَ تَنْزیهاً لَکُمْ عَنِ الْکِبْرِ، وَالزَّکاةَ تَزْکِیَةً لِلنَّفْسِ وَنِماءً فِی الرِّزْقِ، وَالصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ، وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ، وَالْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ، وَطاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ }.

ترجمہ: پس اللہ تعالی نے ايمان كو تمہارے لیے شرک سے طہارت و پاکیزگی قرار دیا ہے، نماز کو تمہارے لیےتکبر سے پاک و منزہ ہونے کا سبب قرار دیا، زکات کو نفس کا تزکیہ اور رزق میں اضافہ کا باعث قرار دیا  ، روزہ کو اخلاص کو راسخ و ثابت کرنے کا ذریعہ قرار دیا ، حج کو دین کی پختگی و مضبوطی اور عدل کو دلوں کی ہمآہنگی ، درستگی و اصلاح قرار دیا اور ہماری اطاعت کو ملت کے لیے ’’نظام‘‘ قرار دیا۔[12] شيخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص۵۶۸۔ [13] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، ج۱، ص۱۱۳۔[14] نعمان مغربی، نعمان بن محمد، شرح الاخبار في فضائل الائمہ الاطہار، ج۳، ص۳۴۔ [15] امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۳۱۱۔ [16] طبرسی، ابو منصور، الاحتجاج، ج۱، ص۹۹۔ [17] فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، الوافی، ج۵، ص۱۰۶۴۔

اس خطبے کے اس جملہ پر دقت کریں: ’’وَطاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ‘‘، جناب فاطمہ علیہا السلام فرماتی ہیں کہ ہم اہل بیت عصمت و طہارتؑ کی اطاعت ایک نظام ہے جس کا تعلق فقط ایک فرقہ یا گروہ سے نہیں بلکہ پوری ملتِ اسلام سے ہے۔ لہٰذا طاعتِ اہل بیتؑ کو ہمیں بطور پر نظام لیناچاہیے۔ نیز’’ نِظاماً لِلْمِلَّةِ‘‘کے کلمات پر غور کریں کہ یہاں نظام مطلق طور پر آ رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے جتنے شعبے ہیں ان سب شعبوں میں اطاعتِ آئمہ اطہارؑ کی اطاعت کرنا ’’ملت کا نظام ‘‘ہے اور ہر شعبہِ زندگی کو نظام میں ڈھال کر قابل استفادہ قرار دینا چاہیے۔ چاہے وہ شعبہ تعلیم کا ہو یا سماجی و اقتصادی و عسکری شعبہ جات زندگی ہو،ان سب امور میں آئمہ اطہار ؑ کی اطاعت نظام کے مرحلہ میں انجام دیں۔   نعرہ لگانا کافی نہیں بلکہ نظام بناتےہوئے  اطاعت ضروری ہے۔ ہم نظریات اورا عتقادات کو خوارج کی طرح نہ لیں جنہوں ’’ان  حکم الا للہ‘‘  کا نعرہ لگاکر اپنے آپ کو نظامِ امامت سے کاٹ دیا !!  اس  امیرالمومنینؑ نے فرمایا کہ یہ نعرہ تو درست ہے لیکن اس سے مراد غلط لے رہے ہیں۔[18] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۱۹۸۔ جس طرح سے آج بھی ہم اپنے وطن عزیز میں دیکھتے ہیں کہ بعض افرادامریکہ مخالفت کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن اس سے مراد امریکہ سے دشمنی اور امریکہ کے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج بننا نہیں ہے بلکہ اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا ہے۔ خان صاحب کے پاس جب حکومت اور تمام وسائل موجود تھے اور امریکہ سے دشمنی کا بھر پور قوت کے ساتھ شاندار موقع موجود تھا تب انہوں نے دشمنی  نہیں کی؟!!لیکن جب اقتدار خطرے میں پڑا اور عوام الناس کو جمع کرنے کے لیے سیاسی نعروں کے چناؤ کی نوبت آئی تو انہوں نے امریکہ مداخت پر احتجاج کو اپنا وطیرہ بنا لیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اب تو وہ واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ ہماری امریکہ مخالفت سے مراد ہر گز امریکہ سے دشمنی یا قطع تعلق نہیں ہے !! یہ وہی بات ہے کہ کلمات اچھے لیکن ان کے معانی خود ساختہ باطل ہیں!! ہمارے لیے یہ حقیقت واضح ہونی چاہیے کہ  اہل بیتؑ کی اطاعت صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہم اطاعتِ اہل بیتؑ کو نظام کی صورت میں لیں  ورنہ زبانی کلامی امامت کا دَم بھریں گے لیکن عملی قدم غیروں کے نظام جیسے جمہوریت و بادشاہت و ڈکٹیٹر شب کی راہوں پر اٹھ رہے ہوں گے جوکہ امامت کے ماننے والے مقام ِ محاسبہ و مراقبہ ہے۔

حدیث نمبر ۲:

شیخ مفیدؒ نے کتاب امالی میں رسول اللہﷺ سے روایت نقل کی ہے جس میں آپﷺ نے اسلامی نظام متعارف کروایا ہے:

«اسْمَعُوا وَ أَطِيعُوا لِمَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ الْأَمْرَ فَإِنَّهُ نِظَامُ الْإِسْلَامِ».

ترجمہ: الہی حکمرانوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو کہ ان کی اطاعت اسلام کا نظام ہے۔[19] شیخ مفید، محمد بن نعمان، الامالی، ج۱، ص۱۴۔

غرر الحكم مرحوم تميمی کی کتاب ہے۔ جس میں امیرالمومنینؑ کے چھوٹے کلمات پر مشتمل اقوال موجود ہیں۔ یہ کتاب نہج البلاغہ کے ایک سو سال بعد لکھی گئی۔ اس کتاب میں امیرالمومنینؑ سے منقول ہے:

«الْإِمَامَة نِظَامُ الامّة».

ترجمہ: امت کا نظام امامت ہے۔[20] تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۵۸۔ ایک اور روایت امام رضاؑ سے منقول ہے جس میں امام صراحت كـے ساتھ نظام امامت کی تشریح فرماتے ہیں:

«إِنَّ الْإِمَامَةَ خِلَافَةُ اللَّهِ وَ خِلَافَةُ الرَّسُولِ ص وَ مَقَامُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ مِيرَاثُ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ ع إِنَّ الْإِمَامَةَ زِمَامُ الدِّينِ وَ نِظَامُ الْمُسْلِمِينَ وَ صَلَاحُ الدُّنْيَا وَ عِزُّ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ الْإِمَامَةَ أُسُّ الْإِسْلَامِ النَّامِي».

ترجمہ: بے شک امامت اللہ تعالی اور اس کے رسول کی خلافت ہے۔ مقام امیرالمومنین اور میراث امام حسنؑ و حسینؑ ہے۔ بے شک امامت دین کی زمام سنبھالنا اور مسلمین کا نظام ہے۔ امامت دنیا کی صلاح اور مومنین کے لیے باعث عزت ہے۔۔[21] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۰۰۔ [22] شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۲۱۸۔ یہ بہت تفصیلی حدیث ہے مامون نے جبری طور پر امامؑ کو جب مدینہ سے خراسان بلوایا تو راستے میں مرو کے مقام پر امام نے یہ حدیث بیان فرمائی، نظریہ امامت کو سمجھنے کے لیے یہ حدیث بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ہم نظریہ امامت کو آئمہ معصومینؑ کی زبانی سمجھنے کی کوشش کریں۔ رسول اللہﷺ، امیرالمومنینؑ اور بی بی فاطمہؑ نے کس نظام کے لیے حرکت وہ تحریک شروع کی؟ امام رضاؑ کس سیاسی نظام کے خواہاں تھے؟ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شیعہ سیاسی مؤقف تو اپنے طور پر کہیں سے بنا لے اور پھر بھی شیعہ ہونے کا دعوی کرے۔ آپ کوئی بھی سیاسی مؤقف بنا لیں اس سے آپ کا دین اور اعتقادات متاثر ہوتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ جس غیر اسلامی نظام کا حصہ ہوں اسے امامت کی حاصل نہیں ہے اور آپ پھر بھی شیعہ ہوں۔ امت اسلامی کا نظام، نظام الامہ، نظام المسلمین، جو صلاح الدنیا اور عز المومنین ہے صرف امامت ہے۔ امامت بتاۓ گی کہ آپ زندگی کیسے گزاریں؟ آپ کی عبادات کیسی ہوں، آپ کا رہن سہن، تعلیم، اقتصاد اور سیاست کیسی ہو یہ صرف امامت بتاۓ گی۔ 

امامت کے علاوہ دیگر نظاموں کا حصہ بننا

سوال: کیا مسلمین اور مومنین پر ضروری ہے کہ وہ صرف نظام امامت کی پیروی کریں؟ کسی بھی جگہ یا دیگر ممالک میں غیر اسلامی نظاموں کو مانا جا سکتا ہے؟ اضطراری حالت میں کسی دوسرے نظام کا حصہ بننے کے حوالے سے کیا حکم ہے؟اور کیا نظام امامت کے علاوہ کسی اور نظام کا حصہ بن کر اپنے حقوق کا دفاع کرنا درست عمل ہے؟

جواب:اگر آپ کی حکم سے مراد حلال اور حرام ہے تو یہ بحث فقہ سے مربوط ہو جاۓ گی۔ اور یہ کام مرجع تقلید کا ہے کہ وہ آپ کو حرام یا حلال کے بارے میں بتائے ۔ ہماری یہاں بحث نظریاتی ہورہی ہے۔ فقہی طور پر آپ کو اپنے فقیہ سے تکلیف معلوم کرنی چاہیے ابھی ہم اس بحث کو حرام حلال کی جہت سے نہیں دیکھ رہے ۔ اگر نظریاتی طور پر اس بحث کو دیکھا جاۓ تو اس بات میں تو کسی کو کوئی دوراۓ نہیں ہونی چاہیے کہ نظام صرف نظام ولایت و امامت ہے۔ اب آ جاتے ہیں شرائط اور حالات کی طرف کہ آیا ہمیں اس نظام کی پاکستان میں کوشش کرنی چاہیے یا نہیں؟اگر پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوۓ کوئی یہ کہے کہ ہم اضطرار کی حالت میں ہیں تو درست ہے اسی نظام کا حصہ بنا جا سکتا ہے اور اپنے حقوق کا بھی دفاع کیا جاسکتا ہے لیکن اگر ہم دوسرے قول کو مان لیں جو کہ درست بھی ہے کہ پاکستان میں شیعہ اضطرار کی حالت میں نہیں ہے تو پھر ایک حرکت کا آغاز ضروری ہے۔ اولا انسان جس معاشرے میں خود رہتا ہے اور جن حالات کا خود حصہ ہوتا ہے اس کا اندازہ لگانا اس کے لیے مشکل نہیں ہوتا۔ پاکستان میں مکتب تشیع کس حالت میں ہے کیا واقعی اضطرار کی حالت ہے؟ یعنی کیا پاکستان کا شیعہ اس مقام پر ہے کہ اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے ایک ہی قطرہ بچا ہے اور وہ شراب کا ہے؟ یا اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے صرف ایک ہی لقمہ کھانے کو ہے اور وہ صرف خنزیر کا ہے۔ کیا پاکستان میں  شیعہ اس مقام پر پہنچا ہوا ہے؟ اگر واقعی ہم پاکستان میں اس حالت میں ہیں تو پھر تو تمام حلال حرام کی تشخیص اور ان کی حلیت اور حرمت ختم ہو جاۓ گی۔ اگر ہم اضطرار کو مان لیں تو پھر تو سود، رشوت، سمگلینگ کرپشن سب جائز ہو جائیں گی۔ کوئی کہے کہ بھائی میرا گزر بسر سود اور رشوت کے علاوہ نہیں ہوتا اس لیے سود اور رشوت میرے لیے ضروری ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میرا کرپشن یا سمگلنگ کیے بغیر گزارا نہیں ہوتا تو کیا حرام اور حلال کے سب فلسفے اس کے لیے اٹھا دیے جائیں گے؟ کیا مراجع آپ کو اجازت دیں گے؟ پھر تو سب باتوں میں ہی افراد بہانہ بنا کر لائیں گے کہ ہم حالت اضطرار میں ہیں۔ کیونکہ پھر تو سب ہی کہیں گے کہ جان بچانی ہے اس لیے ہم یہ سب کر رہے ہیں۔ اضطراری حالت ویسے بھی حکم ثانوی ہوتا ہے۔ حکم اولی یہ ہے کہ نظام ولایت کا حکم ہم سب پر ثابت ہے اور اسی کی طرف ہمیں حرکت کرنی چاہیے مگر یہ کہ واقعی طور پر کوئی اضطرار آ جاۓ اور ہم اس سمت میں حرکت نہ کر سکیں تو تب حکم ثانوی لاگو ہوگا کہ آپ مثلا جب اضطرار ختم نہیں ہوجاتا حکم ثانوی پر عمل کریں اور دوسرے نظاموں کا حصہ بنیں۔ لیکن حکم ثانوی کا موضوع یا اضطرار آپ کو ثابت کرنا ہوگا تب جا کر اس کا حکم پر کے لیے جاری ہوگا ورنہ نہیں۔ طلاب اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ حکم جاری ہی تب ہوتا ہے جب اس کا موضوع متحقق ہو جاۓ ۔ مثلا جب ظہر کا وقت داخل ہوگا تو تب نماز واجب ہو گی ،اگر ظہر کا وقت داخل نہیں ہوا تو ظہر کی نماز بھی تب تک آپ پر واجب نہ ہوگی۔ فقہ میں آپ کو ہر حکم کے لیے اضطرار ثابت کرنا پڑتا ہے اگر آپ واقعی اضطراری حالت میں ہونگے تو تب آپ پر حکم ثانوی جاری ہوگا ورنہ نہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم اضطراری حالت میں ہیں کیونکہ شیعوں کو جاب نہیں مل رہی، بم دھماکے ہو رہے ہیں اور شیعوں کو اغوا کر دیا جاتا ہے تو  عرض کیا جاۓ گا کہ جاب تو سنیوں کو بھی نہیں مل رہی، دہشتگردی سے تو اہلسنت بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اور پھر پاکستان میں اگر واقعی اضطراری حالت ہوتی تو جو افراد بھی نظام امامت کی بات کررہے ہیں وہ سب جیل میں ہوتے یا ان کو قتل کر دیا جاتا، ان کی کتابوں پر پابندی اور ان کے مدرسے بند ہو جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہے شیعہ اس نظام کی بات کر سکتا ہے اور اس کی کوشش کر سکتا ہے ، حد اقل اس کی تبلیغ کر سکتا ہے، کیونکہ نظام ولایت اور امامت کے نفاذ کی جب بات ہوتی ہے تو اس سے مراد دہشتگردی نہیں ہے۔ نظام ولایت دہشتگردی پھیلا کر کسی بے گناہ کو مار کر نافذ نہیں ہوتا، یہ نظام ملک گیر تحریک سے آنا ہے۔ لہذا ایسا نہیں ہے کہ ہم حتما دوسرے نظاموں کا ہی حصہ بنیں اور کوئی دوسرا آپشن ہمارے پاس موجود ہی نہ ہو۔ جی نہیں! ہمیں دل سے اسی نظام کو قبول کرنا چاہیے اور اسی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

علامہ جواد نقوی صاحب یا دیگر علماء کرام؟

سوال: پاکستان میں علامہ جواد نقوی صاحب کی تشخیص یہ ہے کہ صرف نظام امامت کے لیے کوشش کی جاۓ اور دیگر نظاموں کا حصہ نہیں بننا چاہیے،کیا وہ درست کہہ رہے ہیں؟ اور بقیہ اکثر علماء کرام اس بات کے قائل ہیں کہ پاکستان میں چونکہ تشیع اقلیت میں ہیں اس لیے ہمیں موجودہ نظام کا حصہ بن کر اپنے حقوق کا دفاع کرنا چاہیے۔ ایسے میں وہ حزب اللہ کی بھی مثال لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام موسی صدر کی تحریک بھی لبنان میں اسی طرح سے چلی تھی کہ انہوں نے رفاہی اور فلاحی کام کیے اور پھر لبنانی پارلیمنٹ میں جگہ بنانے کی کوشش کی۔ امام موسی صدر کو خمینی ثانی کہا جاتا ہے اور آج بھی لبنان میں حزب اللہ کی سیٹیں ہیں۔حزب اللہ نے تو کبھی نظام ولایت کے نفاذ کی بات نہیں کی؟ جب حزب اللہ لبنان میں پارلیمانی سیاست کر کے ولایت فقیہ کی پیرو ہو سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں؟ عام مومنین ان حالات میں علامہ جواد نقوی صاحب کی تشخیص کے مطابق عمل کریں یا بقیہ علماء کرام کی تشخیص پر؟

جواب:آقای جواد نقوی صاحب کہ اللہ تعالی ان کی حفاظت فرماۓ اور ان کی توفیقات خیر میں اضافہ فرماۓ،پاکستانی تشیع کے لیے ان کی بہت خدمات ہیں۔ اب آتے ہیں آپ کے سوال کی طرف کہ کیا ان کی بات درست ہے یا بقیہ علماء کرام کی؟

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«أَ لَيْسَ الصُّبْحُ بِقَريبٍ».

ترجمہ:  کیا صبح کا وقت قریب نہیں؟[23] ہود: ۸۱۔

دعاءعہد کے آخر میں ہم پڑھتے ہیں:

«وَعَجِّلْ لَنا ظُهُورَهُ، إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً وَنَرَاهُ قَرِيباً».

ترجمہ: اور ہمارے لیے جلد انکا ظہور فرما کہ لوگ انکو دور اور ہم انہیں نزدیک سمجھتے ہیں۔[24] دعاء عہد۔

اللہ تعالی کا وعدہ یہ ہے کہ صبح قریب ہے، ظلمت کی شب ختم ہونے والی اور نجات عنقریب ہے۔ اگر پاکستان میں ایک عالم دین حق اور امامت کے اعتبار سے دینی وظیفہ سمجھتے ہوۓ نظام امامت کی تبلیغ کرتا ہے اور عملی صورت میں اس کے نفاذ کی مومنین میں امید پیدا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ نظام امامت کے لیے کوشش کرو اور یہ نظام پاکستان میں آ سکتا ہے کیونکہ یہ وعدہ الہی ہے، اگر وہ یہ سب کام کرتے ہیں تو کیا ہم اعتراض ان پر کریں یا ان افراد  پر جن کا مؤقف شکوک و شبہات پر کھڑا ہے اور حکم اولی کی بجاۓ حکم ثانوی کی بات کرتے ہیں؟ ہمیں اعتراض تو ان پر کرنا چاہیے تھا جنہوں نے وعدہ الہی کے برخلاف تشخیص دی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا قرآن کریم میں وعدہ ہے کہ حق غالب آ کر رہے گا اور باطل مٹ جانے والا ہے اور وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔[25] اسراء: ۸۱۔ [26] آل عمران: ۹۔ یعنی جب پوری امت نے بی بی فاطمہؑ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور وہ معاشرہ بی بی کی بات تک سننے کو تیار نہ تھا اس وقت بی بی نے یہ تشخیص دیتے ہوۓ کہا کہ ملت کا نظام ہماری اطاعت ہے تو یہاں پر نعوذ باللہ ہم یہ کہیں کہ بی بی خطا پر ہیں اور باقی سب درست؟ کیا بی بی نے غلط تشخیص دی؟ مامون اور اس کے ساتھیوں کے جمگٹھے میں امام رضاؑ کا یہ فرمانا کہ نظام امامت ہی حقیقی نجات کا ذریعہ ہے۔ جب امام شدید دباؤ میں تھے اور شیعہ تقیہ کی حالت میں تھے، تو وہاں پر کیا ہم یہ کہیں گے کہ امام کی تشخیص درست ہے یا نہیں؟ تو ہمارا جواب بھی یہی ہے کہ علامہ جواد نقوی صاحب پر سوال کرنے کے بجاۓ آپ ان افراد پر سوال کریں جو یہ تشخیص دے رہے ہیں کہ نظام امامت کے علاوہ دیگر نظاموں کا حصہ بن کر حرکت کی جانی چاہیے۔ سوال کی نوعیت درست نہیں ہے سوال یہ بنتا ہے کہ جب نظام امامت کی شکل میں دین نے ایک سیاسی نظریہ آپ کو دیا ہے جو امام رضاؑ کے بقول امت اسلامی کی نجات کا ذریعہ ہے، اس کے ہوتے ہوۓ پاکستانی علماء کرام دوسرے نظاموں کا حصہ کیوں بننا چاہتے ہیں۔

آگے آپ نے پوچھا ہے کہ حزب اللہ اور امام موسی صدر کے حوالے سے پوچھا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ہمیں ذہن نشین کرنا چاہیے کہ جب بھی کسی شے کو دین کی نظر میں تجزیہ تحلیل کرنا شروع کریں تو ترتیب کا خیال رکھیں۔ سب سے پہلے قرآن کریم اور سیرت اہلبیتؑ میں اس کا جواب ڈھونڈیں۔ اس کے بعد شخصیات اور دیگر امور کی طرف آئیں۔ سب سے پہلے ہمیں معلوم کرنا چاہیے کہ حق کیا ہے جو حق ہو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ حق کی تلاش سب سے پہلے قرآن کریم اور سیرت اہلبیتؑ میں کریں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تقیہ کا مقام کسی جگہ پر ہے ہی نہیں یا اضطرار کی حالت کا ہی انکار کر رہے ہوں، یا بی بی کے کلام کا مقصد یہ ہرگز نہ لیا جاۓ کہ ان کے کلام کو لے کر ہمیں اپنے ملک میں نظام ولایت کی کوئی تدبیر ہی نہیں کرنی چاہیے۔ ممکن ہے میدانی حقائق کوئی اور ہوں اور ہمیں اپنی تدبیر اور تشخیص میں تبدلی لانی پڑے۔ مثلا امام خمینیؒ نے ایران کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوۓ الگ طرح کی تدبیر اختیار کی اور امام موسی صدرؒ نے لبنان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوۓ الگ تدبیر کو اپنایا۔ امام خمینیؒ کی تدبیر یہ تھی کہ دربار کا حصہ بننے والے علماء کے عمامے نوچ لیے جانے چاہیں۔[27] خمینی، روح اللہ، ولایت فقیہ، ص۱۴۸۔

سوال کے اگلے حصے میں آپ نے بیان کیا کہ ہمیں حزب اللہ لبنان کی تدبیر کو پاکستان میں اختیار کرنا چاہیے اور انہوں نے لبنان میں نظام ولایت کی کوشش نہیں کی ہمیں بھی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بات درست نہیں! یہ کہنا کہ حزب اللہ کی سیاست اور ان کے تحرکات پارلیمانی سیاست سے متاثر ہیں یہ بات بھی غلط ہے حزب اللہ مکمل طور پر ولایت فقیہ کے ساۓ میں کام کرتی ہے اور اس کے جنرل سیکرٹری رہبر معظم کو اپنا امام اور قائد مانتے ہیں۔ جب رہبر معظم کو امام کہا جاتا ہے تو یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ وہ بھی ۱۲ اماموں کی طرح ایک امام ہیں۔ یہ مراد ہرگز نہیں ہوتا کیونکہ حق امامت صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے، اللہ تعالی کی اتباع میں رسول اللہ ﷺ اور ان کے ۱۲ وصی امام ہیں۔ حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری رہبر معظم کی شخصیت میں اس طرح سے فناء ہیں کہ وہ خود کہتے ہیں کہ اگر ہم احتمال بھی دیں کہ کسی کام سے رہبر معظم خوش ہونگے تو اس کام کو ہم حتما انجام دیتے ہیں اور کسی کام کے بارے میں اگر احتمال ہو کہ اس سے رہبر معظم خوش نہ ہونگے اس کام کو ہم حتما ترک کرتے ہیں۔ پس حزب اللہ اور ان کے سربراہ کی ایک سیاسی تدبیر یا تحلیل ہے، آپ کی بھی ایک سیاسی اور اجتماعی تدبیر یا تحلیل ہو سکتی ہے لیکن رہبریت اور ولایت فقیہ کے نظام کے اندر۔ اولا ہمیں اس طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ حزب اللہ ایک سیاسی جماعت نہیں اور نا ہی اس کی بنیاد سیاسی جماعت کے طور پر رکھی گئی تھی۔ حزب اللہ ایک دفاعی جماعت ہے جس کا اصلی ہدف اسلامی سرحدوں کی حفاظت، قدس کی آزادی اور مقامات مقدسہ کا دفاع ہے۔ وہ کسی پارلیمانی نظام یا ان کی بات کو اپنے لیے حجت نہیں مانتے مثلا اگر آپ سے ہی پوچھا جاۓ کہ اگر آج لبنان کے پچاس لاکھ افراد یہ کہہ دیں کہ حزب اللہ شام سے نکل جاۓ اور ہتھیار ڈال دے، ساتھ ہی لبنان کی پارلیمنٹ بھی یہ کہہ دے کہ حزب اللہ کو ختم ہو جانا چاہیے یا اس کو اپنے تحرکات روک لینے چاہیں تو کیا وہ رک جاۓ گی؟ یا رہبر معظم کے حکم کے مطابق چلے گی؟ واضح ہے کہ وہ کسی کی بھی بات نہیں مانیں گے جیسا کہ کئی دفعہ ایسا ہو بھی چکا ہے لیکن حزب اللہ نے کسی کی بھی بات نہیں مانی۔ یہاں پر پتہ چلتا ہے کہ ایک جماعت اپنے ملک کے سیاسی نظام سے زیادہ متاثر ہے یا ولایت فقیہ کے نظام سے؟ اگر حزب اللہ لبنانی عوام یا پارلیمنٹ کے آگے خاضع ہوتی یا ایک سیاسی پارٹی ہوتی تو حتما ان کی بات مان لیتی۔ لیکن وہ دفاعی جماعت ہے ان کا ہدف خود پارلیمنٹ نہیں ہے بلکہ اپنے نظریات کا دفاع ہے، اور یہ بات بھی روشن رہے کہ حزب اللہ پارلیمانی سیاست سے حزب اللہ نہیں بنی بلکہ اپنی قربانیوں اور دفاع کی وجہ سے حزب اللہ بنی ہے۔ ہم حزب اللہ کی مثالیں تو بہت دیتے ہیں لیکن جو کام وہ لبنان میں کرتے ہیں یا دیگر خطوں میں کیا ہے اس کو ہم بجا نہیں لاتے۔ امام موسی صدر نے بھی پہلے دفاع اور رفاہ کی بات کی۔ امام موسی صدر کو اگر کوئی خمینی ثانی کہتا ہے تو کوئی قرآن کریم کی آیت تو نہیں ہے ہمارے لیے سب سے پہلے اور اولین صورت میں امام خمینی کے نظریات کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ امام خمینی کے نظریات علمی اور دینی مبانی پر کھڑے ہیں اور ان کی شخصیت مرجعیت کی حامل ہے۔ بہرحال روایات اور دین کی روشنی میں جو بات ہم پر واضح ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں پاکستان میں نظام ولایت کی کوشش کرنی چاہیے باقی خود علامہ جواد نقوی صاحب اس کا درست جواب دے سکتے ہیں کہ ان کی تشخیص اور حکمت عملی کیا ہے کیونکہ ہم یہ جوابات ان سے پوچھ کر نہیں دے رہے بلکہ جو بات ان کی تقاریر سے ظاہر اور عیاں ہوتی ہے وہ یہی ہے۔

پاکستانی شیعہ اضطراری حالت میں ہے یا نہیں؟

سوال: ہم پاکستانی مومنین اضطراری حالت میں ہیں یا نہیں اس اضطرار کی تشخیص کون کرے گا؟ ایک عام انسان جس کے پاس زیادہ علم نہیں ہے وہ کس کی بات مانے؟ ایک تشخیص یہ ہے کہ پاکستان کے حالات لبنان کے حالات سے مشابہ ہیں، لبنان میں بھی شیعہ اقلیت میں ہیں اور پاکستان میں بھی، وہاں حزب اللہ نے نظام ولایت کی کوشش نہیں، اس لیے پاکستان میں ہمارے لیے امام موسی صدر کی تحریک اسوہ ہے نا کہ ایران میں امام خمینی کی تحریک۔ کیونکہ ایران میں تو اکثریت شیعہ کی ہے اس لیے وہاں نظام امامت کی بات کرنا درست ہے۔ اب ان دو راہوں میں سے عوام کس راہ پر چلے؟ اضطراری حالات قرار دے کر امام موسی صدر کی راہ پر چلے یا علامہ جواد نقوی صاحب کی تشخیص پر چلے جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی نظام ولایت و امامت کے لیے راہ ہموار کی جاۓ؟

جواب: پاکستانی شیعہ اضطرار کی حالت میں ہے یا نہیں اس پر بحث ہو چکی ہے اور یہ تشخیص ہمیں بصیرت حاصل کرنے پر ہی حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ ممکن نہیں۔ تاہم پاکستان کے سیاسی حالات اور نظام کو لبنان کے مشابہ قرار دینا بھی خطا ہے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ لبنان کا آئین بہت فرق کرتا ہے مثلا وہاں صدر شیعہ یا سنی نہیں بن سکتا حتما عیسائی ہی ہمیشہ صدر ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم بھی کوئی شیعہ نہیں بن سکتا، اسی طرح سے لبنان میں ایک بہت بڑی تعداد عیسائیوں کی رہتی ہے۔ لبنان میں تشیع قوت میں ہے۔ کیا یہی یا اس کے مشابہ حالات پاکستان میں ہیں؟ کیا پاکستان میں فوج کے ہوتے ہوۓ حزب اللہ بن سکتی ہے؟ پاکستان میں جتنے شیعہ رہتے ہیں کیا وہ اپنی دفاعی جماعت بنا سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں آپ ہرگز حزب اللہ والی مماثلتیں پاکستان میں لاگو نہیں کریں گے۔ پس معلوم ہوا جزوی مشابہتوں اور مماثلتوں کو نہیں دیکھا جاۓ گا۔ جس مبنا پر آپ تشخیص دے رہے ہیں اگر اسی کو درست مان لیں تو پھر شیخ نمرؒ نے سعودی عرب میں ولایت فقیہ کا نعرہ لگا کرہ غلطی کی۔ امام موسی صدر نے بھی لبنان میں جہاد کا علم بلند کیا تھا۔ ہم صرف پارلیمانی سیاست کے جواز کو ان شخصیات سے نکال لیتے ہیں ان کے جہادی اقدامات کو اپنے لیے لازم نہیں سمجھتے۔ اگر حزب اللہ سے ہی مماثلت نکالنی ہے تو خود مقائسہ کریں کہ انہوں نے لبنان میں کتنی دفاعی خدمات انجام دیں؟ حتی رفاہی میدان میں انہوں نے کتنا کام کیا۔ اس کا مقائسہ کریں اب پاکستانی مذہبی تنظیموں سے مثلا تحریک جعفریہ کو بنے ہوۓ کتنے سال ہو گئے ہیں انہوں نے کتنے رفاہی کام کیے ہیں؟ کتنے سکول اور کالج یا مدرسے کھولے ہیں؟ کتنے روڈ بنواۓ ہیں؟ یا حتی مجلس وحدت المسلمین نے کتنے کام کیے ہیں؟ اس کے مقابلے میں جو عام مدارس کے افراد ہیں اور انہوں نے کبھی بھی پاکستانی موجود سیاسی نظام میں شرکت یا شمولیت نہیں کی انہوں نے کتنے کام کیے ہیں؟ مثلا حافظ محسن نجفی صاحب اور علامہ جواد نقوی صاحب ہیں۔ انہوں نے کتنے ہی رفاہی اور تعلیمی خدمات انجام دی ہیں؟ پس اگر لبنان اور حزب اللہ سے مشابہت اور مماثلت نکالنی ہے تو دفاع اور رفاہ ہر دو میدانوں میں مقائسہ کریں؟ ہم نے حزب اللہ کی مانند نہ تو رفاہی خدمات انجام دی ہیں اور نا ہی دفاعی لیکن پارلیمنٹ میں جانے کے لیے حزب اللہ مشعل راہ بنائی ہوئی ہے۔ ہم ہر میدان میں سب سے آسان راستہ اختیار نہ کریں، مقہور ہور کر ضعف اور کمزوری کا ثبوت نہ دیں۔ ہمارا راستہ اور ہمارا نعرہ مہدویت ہے۔ ہم ہمیشہ اسی راستے سے ہی نا امید نظر کیوں آتے ہیں؟ یعنی ہمیں ہر نظام اور ہر راستے سے امید ہے لیکن اگر کوئی نا امیدی ہے تو وہ صرف مہدویت سے اور حقیقی دینی نظام سے ہے۔ اگر آج ہم پاکستان میں اقلیت ہونے کا شور مچاتے ہیں کیا اس دلیل سے امام مہدیؑ کے قیام کو آپ درست سمجھتے ہیں؟ کیونکہ امام مہدیؑ تو اقلیت کے ذریعے اسلام کا جھنڈا پورید دنیا پر لہرائیں گے۔ کیا امام مہدیؑ کو اقلیت ۳۱۳ افراد مہیا ہونگے یا اکثریت؟ جن محاسبات کے تحت آپ پاکستان میں نظام امامت و ولایت کے نفاذ کو مشکل اور ناممکن سمجھتے ہیں انہیں محاسبات کے تحت بتائیں کیا پاکستان میں نظام امامت لانا مشکل ہے یا پوری دنیا پر؟ امام تو پوری دنیا پر امامت کا نظام لائیں گے۔ دنیا میں کتنے ہی ممالک ہیں جہاں عیسائی اور ہندو رہتے ہیں آخر ان ممالک میں نظام امامت کیسے آۓ گا؟ پس ہمیں مہدویت اور حق کے راستے سے ناامید نہیں ہونا بلکہ ان باطل نظاموں سے ناامید ہونا ہے۔ باطل نظاموں اور باطل حکمرانوں سے محبت پیدا کرنے کے یہ باطل جواز بالکل درست نہیں ہیں۔ ہمیں شجاعت اور مقاومت سے نظام امامت و ولایت کی کوشش کرنی ہے۔

نظام امامت سے مراد

سوال: نظام امامت کے نفاذ سے کیا مراد ہے؟ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ ہر ادارے پر ایک عالم دین ہیڈ بنا دیا جاۓ؟ اگر سب امور اور ادارے علماء کے ہاتھ آ جائیں تو کیا یہی نظام امامت ہے؟ اور اگلا سوال یہ ہے کہ ہمارے تمام علماء کرام نظریہ امامت و ولایت کے اوپر متفق اور متحد ہو نظام امامت کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟

جواب:اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ نظام کیا ہے؟ نظام اور اداروں میں کیا فرق ہے؟ کیا حکومتی اداروں سے مراد نظام ہے؟ یہ وہ اصطلاحات ہیں جن میں فرق کرنا ضروری ہے۔ یقینا ہم جب نظام ولایت کی بات کرتے ہیں اس سے مراد یہ نہیں کہ ہر ادارے میں ایک عمامہ پوش عالم دین موجود ہو، یا ملک کا صدر یا وزیر اعظم عمامہ پوش شخص ہو۔ نظام ولایت سے مراد یہ ہرگز نہیں۔ پوری دنیا میں ممالک پر سیاسی نظام نافذ ہیں۔ مشہور ترین نظام جو آج ممالک میں نافذ ہے جمہوری نظام ہے۔ اسی طرح سے بادشاہی نظام ہے جیسا کہ عرب ممالک میں یہی نظام نافذ ہے۔ جمہوری نظام بھی بادشاہی نظام کے قریب قریب ہی ہے ظاہری طور پر فرق کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں وہی آمرانہ نظام ہے۔ سوشلزم اور باقی نظام بھی اسی طرح سے ہیں۔ انہیں نظاموں میں سے ایک نظام ولایت ہے۔ ایک ملک کے اندر نظام کی مثال ڈھانچے کی سی ہوتی ہے۔ اور ادارے اس نظام کے مختلف اعضاء ہیں۔ ہمارا ہدف مکمل طور پر اس نظام اور ڈھانچے کو ہی تبدیل کرنا ہے اداروں کی اصلاحات یا ان کے اندر علماء بٹھانا مراد نہیں ہے بلکہ ہدف یہ ہے کہ ملک کا نظام اور اس کا ڈھانچہ اسلامی ہو۔اسلامی ڈھانچے سے مراد  ایہ ہے کہ ملک کا حکمران اسلامی ہو، یعنی اسلامی بنیادوں پر اس کو حکومت سونپی جاۓ گی، ملک کا قانون اسلامی ہو۔ اسلامی قانون اور اسلامی حکمران کی حکومت میں یہ سب ادارے کام کریں۔اس کو مثال کے ذریعے سمجھتے ہیں فرض کرتے ہیں کہ ہمیں روٹی چاہیے، ایسا نہیں کہ ہم گندم سے فوری طور پر روٹی تک پہنچ جائیں گے اس کے لیے آپ کو نظام کی ضرورت ہے۔ مثلا پہلے آپ گندم اگائیں گے، جب فصل تیار ہوگی اس کی کٹائی ہوگی، کٹائی کے بعد مشین سے گزر کر اس کا آٹا بنے گا، آٹے سے دوبارہ اس کو گوندنا اور پھر اس کو خاص مقدار میں حرارت دینے کے بعد روٹی تیار ہوگی۔ یہ ایک سادہ سی مثال ہے نظام کی۔دنیا کے تمام سیاسی نظاموں کے اپنے اپنے اہداف ہیں۔ مثلا جمہوری نظام کا ہدف کیا ہے؟ اس کا ہدف یہ ہے کہ لوگوں کے اندر رفاہ لائی جاۓ، ان کے طبی، تعلیمی اور اقتصادی مسائل حل کیے جائیں۔ ا س لیے ہمارے ملک کے حکمران بھی اسی طرح کے شعار بلند کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم آپ کو روٹی کپڑا مکان دیں گے انصاف دیں گے اور نوکریاں دینگے۔ اگر کسی نظام کا یہی ہدف ہو تو اس کے لیے تو اسلامی نظام کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ سب تو امریکہ اور یورپ میں ہو رہا ہے۔ اسلامی نظام کا ہدف اولین سطح پر لوگوں کا رفاہ نہیں ہے بلکہ  اسلامی نظام کے اہداف اور ہیں جو الگ موضوع ہے۔رہی بات علماء کرام کی کہ وہ امامت و ولایت کے مؤقف پر جمع ہو کر اس کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے تو اس کا جواب سادہ ہے۔ تاریخ بھر میں ایسا ہی رہا ہے۔ حق اور اہل حق قلیل مقدار میں رہے ہیں ہمارا یہ امید رکھنا کہ سب علماء اکٹھے ہو کر حق کی بات کریں درست نہیں۔  

نظام اور اداروں میں فرق

سوال: اگر نظام امامت کے علاوہ باقی سب نظام رد ہیں تو عدم اعتماد کی صورت میں کیا ہوگا؟ مومنین کیسے امور کو انجام دیں؟ کیا اداروں میں جا سکتے ہیں نظام کا حصہ بننے اور نہ بننے سے کیا مراد ہے؟

جواب:جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہمارا ہدف صرف چند اداروں کی اصلاح نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی ہے۔ از سرِ نو اس موجودہ نظام کی جگہ امامت کا نظام لایا جاۓ۔ اور جب نظام تبدیل ہوتا ہے وہ سب کچھ اپنا لاتا ہے ،قانون اور تدابیر سب لاتا ہے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ موجودہ نظام کو تبدیل ہونا چاہیے اس سے مراد اداروں کو تبدیل کرنا مراد نہیں ہوتی، یا جب کہا جاتا ہے کہ موجودہ فاسد غیر اسلامی نظام کا حصہ نہ بنا جاۓ اس سے مراد یہ بھی نہیں ہوتا کہ موجود نظام کے اداروں میں بھی نہ جایا جاۓ۔ اداروں اور نظام میں فرق کرنا ضروری ہے۔ صرف نظام کا حصہ بننا درست نہیں جو ان تمام اداروں پر حاکم ہے نہ کہ خود ان اداروں کا حصہ بننا ۔ بلکہ اداروں میں مومنین کا جانا اور خدمت خلق کرنا درست عمل ہے یہ نظام کا حصہ بننا شمار نہیں ہوتا۔ جیسا کہ امیرالمومنینؑ اور باقی آئمہ معصومینؑ کی سیرت ہے۔ امام علیؑ خلفاء کے دور میں مسجد میں جا کر نماز پڑھتے تھے ایسا نہیں تھا کہ امام اگر مسجد میں جو کہ ایک دینی ادارہ ہے اس میں چلے جائیں تو یہ باطل نظام میں شامل ہونا ہے۔ انہوں نے نظام خلافت کو نہیں مانا لیکن اسی خلافت کے زمانے میں مساجد میں جاتے اور بعض دفاعی اور عدالتی اداروں کو حتی مشورہ دیتے۔ مثلا جب روم کے اسلامی ریاست پر حملوں کے خلاف آپ سے مشورہ لیا گیا تو آپ نے مشورہ دیا، عدالت کے غیر اسلامی فیصلوں پر اعتراض کرتے تھے۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ امام علیؑ نے اس دور کے موجودہ طاغوتی سسٹم میں مشورہ یا دخالت کر کے اس کی حمایت اور اس میں شمولیت کیوں اختیار کی؟ باطل حکومت کے اندر قوہ قضائیہ کی مدد کرنا غلط بات نہیں۔ ہم جس ملک کے اندر رہتے ہیں اگرچہ اس ملک کا نظام فاسد ہوتا ہے لیکن ہمیں اسی فاسد ملک کے اداروں میں ہی زندگی بسر کرنا ہوتی ہے، ہم ان اداروں کا حصہ بن سکتے ہیں لیکن خود نظام کا حصہ نہیں بن سکتے۔ لیکن اگر کوئی ایسا ادارہ ہے جو براہ راست اس ملک کے فاسد سیاسی نظام سے مربوط ہے مثلا پارلیمنٹ تو اس کا حصہ بننا درست نہیں کیونکہ اس سے بلاواسطہ طور پر اس نظام کو تقویت ہوتی ہے اور ہمارا ہدف موجود نظام کی تقویت نہیں۔ ہمارے لیے صرف وہی نظام اور ادارہ قابل قبول ہے جو حق کی اساس پر قائم ہے۔ امیرالمومنینؑ  نے بھی اپنے دور کے کنفیوز افراد کو یہی فرمایا اگر حق قائم ہوتا ہے تو ادارہ بھی قبول ، نظام بھی قبول اور حکومت بھی قبول لیکن اگر کسی ادارے ،نظام اور حکومت سے حق قائم نہیں ہوتا تو وہ قبول نہیں۔[28] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۳۳۔ ورنہ اگر ہدف حق کا قیام نہیں اور ہدف صرف رفاہ اور امنیت ہے تو وہ تو بنو امیہ اور بنو عباس نے پورا کر دیا تھا ۔ پھر تو بنو امیہ اور بنو عباس کی حکومت او ران کے نظاموں کو بھی قبول کر لینا چاہیے لیکن آئمہ معصومینؑ نے یہ کام نہیں کیا۔اسی مطلب کو ہم ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر یزید یا معاویہ جیسا حکمران ملک میں رفاہ عام کر دے، مسلمین کے گھر خوب چل رہے ہوں، ہسپتال، روڈیں اور یونیورسٹیاں بھی بنوادے، عبادات میں بھی سب افراد آزادہوں، ملک میں عموما لوگ یزید کی تعریف کر رہے ہوں ،بیرونی ریاستوں کو بھی یزید خوب آنکھیں دکھاتا ہواور اپنے ملک کا دفاع کرے،کیا ہم یزید کی حمایت کرنا شروع کر دیں گے؟ یا پھر بھی مخالفت کریں گے؟ اگر آج کے پاکستانی معاشرے کو دیکھا جاۓ تو وہ یزید کی حکومت کی مکمل حمایت کرے گا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آئمہ معصومینؑ نے بنوامیہ اور بنو عباس کی حکومتوں کی شدید مخالفت کی اور اسی مخالفت میں ان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ہمیں انہیں روشوں اور طریقوں پر چلنا ہے استقلال حاصل کرنے کی کوشش کریں، حق کی بات کریں اور اس کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر لوگ نظام امامت کے آنے سے ہی مایوس ہو گئے تو پھر امام زمانؑ اقلیت کے ساتھ حکومت کیسے بنائیں گے؟اگرآج کے شیعہ کا تمام ہم و غم ہی یہ ہو کہ کسی نا کسی طرح سے موجود ہ نظام کا حصہ بنا جاۓ اور اس میں شامل ہوا جاۓ تو وہ نظام امامت کی نصرت اور اپنے وقت کے امام کی مدد کیسے کرے گا؟ پس جتنا ممکن ہو موجود نظام کے نقائص بیان کریں اور نظام امامت کی خصوصیات مومنین میں تبلیغ کریں۔ اگر کوئی ادارہ اللہ تعالی کی ولایت سے نہیں ٹکراتا تو ان اداروں میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمارے آج کے پاکستان کے حالات  امام کاظمؑ کے دور کے شیعوں سے تو سخت تر نہیں ہیں؟ اس دور میں تو شیعوں کو اپنا مذہب چھپانا پڑتا تھا، حتی آئمہ معصومینؑ کو اپنی امامت چھپانی پڑتی تھی،لیکن آج حالات کھل چکے ہیں، تشیع آزاد ہے، امامت و ولایت پر کتابیں چھپ رہی ہیں، نظام ولایت کے نفاذ کی تقاریر ہو رہی ہیں ۔ اضطراری حالات ویسے نہیں ہیں جیسے آئمہ معصومین ؑ کے دور میں تھے۔ ان حالات کو سمجھنے کے لیے بصیرت کی ضرورت ہے، علماء یا شخصیات کی طرف نہ دیکھیں اور نا ان کی تشخیص کو حجت مانیں بلکہ خود بصیرت حاصل کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ جیسا کہ امیرالمومنینؑ نے جنگ جمل کے موقع پر ایک الجھن (confuse) شخص سے فرمایا کہ یہ مت دیکھو کہ لشکر کے ہر دو طرف صحابی ہیں ،ایک طرف رسول اللہ ﷺ کی بیوی اور دوسری طر ف ان کے داماد بلکہ حق کو پہنچانو اور اس کے مطابق عمل کرو۔ شخصیات معیار نہیں ہیں بلکہ حق معیار ہے۔[29] طبرسی،فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیرالقرآن، ج۴، ص۵۵۰۔

نظام امامت اور جبری حکومت

سوال: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں شیعہ اقلیت میں ہیں تو جب ہم نظام امامت کی بات کرتے ہیں تو کیا اہلسنت کا اس نظام کو ماننا ضروری ہے؟ یا ان کا اس نظام پر راضی ہونا یا نہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا؟

جواب:سیرت رسول اللہ ﷺ و سیرت آئمہ معصومینؑ کو دیکھا جاۓ تو ہمارے پاس یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اسلام جبری حکومت کا قائل نہیں۔ اسلامی نظام کو جبر اور طاقت کے زور پر عوام پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اہلسنت علماء میں بعض اس چیز کے قائل ہیں کہ جبری حکومت بھی قبول ہے، اس طرح سے وہ اموی اور عباسی حکومتوں کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ ان کے بقول اگر لشکر کشی کے ذریعے کسی ملک پر کوئی جماعت قابض ہو جاۓ اور اسلامی حکومت ان پر قائم کر دے تو درست ہے۔ لیکن تشیع اس بات کا شدت سے مخالف ہے۔ داعش اور طالبان نے اسی بنا پر حکومت قائم کی۔ ترکی کا مشہور ارطغرل ڈرامہ بھی اسی نظریے کے تحت بنایا گیا ہے کہ وہ حملے کی صورت میں علاقوں پر چڑھ دوڑتے ہیں اور وہاں اسلامی نظام کو نافذ کرتے جاتے ہیں۔ البتہ چند اہلسنت علماء اس کے قائل نہیں ڈاکٹر اسرار اور علامہ اسحاق مدنی صاحب بھی اس نظریے کو رد کرتے تھے۔ خود شام میں جبہۃ النصرہ کے گروہ نے جب قبضہ کیا تو داعش میں موجود حنفی اور اہلحدیث آپس میں ہی لڑ پڑے۔ ان کا باہمی ٹکراؤ ہوا اور بعد میں جو گروہ ان میں سے جیت گیا وہی حاکم ہو گیا۔ یہاں پر تشیع کا نظریہ یہ ہے کہ اسلامی نظام کو اکثریت اپنے اختیار اور انتخاب سے قبول کرے۔ اکثریت کا فلسفہ اس طو ر پر تو درست ہے کہ ایک نظام کو وہ قبول کرتے ہیں یا نہیں ،لیکن خود حاکم کے انتخاب میں اکثریت حجت نہیں۔ [30] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۱۔ [31] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۱۔  اکثریت اور اقلیت کا فلسفہ حاکمیت کے مسئلے میں باطل ہے۔یعنی ایک حاکم صرف اس بنا پر مشروع نہیں ہو سکتا کہ اس کو اکثریت قبول کرلے۔ اور نا ہی حاکمیت کے مسئلے میں قبائلی بنیادوں پر فیصلہ کرنا درست ہے جیسا کہ ثقیفہ بنی ساعدہ میں پہلے خلیفہ کا انتخاب قبائلی بنیادوں پر ہوا نا کہ اسلامی معیارات کی روشنی میں ان کا انتخاب ہوا۔ ہاں جب تک اکثریت ایک نظام کو لبیک نہیں کہتی تب تک ان پر وہ نظام مسلط نہیں کیا جاۓ گا، لیکن واضح رہے کہ جس نے حقیقی نظام کو ٹھکرایا اس نے اپنا نقصان کیا، یہی اقلیت آج ایران میں بھی موجود ہے جو اسلامی نظام ولایت فقیہ کو قبول نہیں کرتے جب تک دشمنی نہیں کرتے ان کو کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ 

نظام امامت کا روڈ میپ

سوال: پاکستان میں نظام امامت کے نفاذ کے عملی مراحل کیا ہے؟ روڈ میپ کیا ہے جس سے یہ نظام نافذ ہو جاۓ؟ 

جواب:یہ وہ سوال ہے جو بہت زیادہ کیا جاتا ہے اور عموما پوچھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس کے جواب میں یہ کہا جاۓ گا کہ بندوقیں اور اسلحہ اٹھا کر ایوانوں پر حملہ کیا جاۓ ، اپنی ہی فوج اور اداروں پر حملہ کر کے اسلامی نظام کونافذ کر دیا جاۓ۔ جبکہ امامت کا نظام اس طرح سے نافذ نہیں ہو سکتا جیسا کہ اوپر بیان ہوا یہ داعش اور طالبان کی روش ہے ،مکتب تشیع اس کی سخت مخالف ہے۔ ظاہر ہے نظام امامت کے نفاذ کے مراحل کو ہم خود سے ایجاد نہیں  کر سکتے یہ بھی ہم سیرت آئمہ معصومینؑ سے نکالیں گے۔ سیرت رسول اللہ ﷺ اور آئمہ معصومینؑ کی زندگی ہمارے لیے نمونہ عمل ہے اور واقعا قابل عمل بھی ہے۔ یعنی جو کام آئمہ معصومینؑ نے کیا وہی ہم بھی کریں۔ جو کام پہلے تین خلفاء کے دور میں امیرالمومنینؑ نے کیا ہم بھی وہی کام کریں۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں جو آئمہ معصومینؑ کا موقف تھا وہی موقف ہم بھی اختیار کریں۔ اموی اور عباسی سیاسی پارٹیوں کے درمیان جو کچھ ہوا اور اس سیاسی نزاع میں امام صادقؑ کا جو مؤقف تھا وہی مؤقف ہمارا آج کی سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے بھی ہونا چاہیے۔ بنو عباس ہاشمی تھے، اور بنو امیہ قاتلان آئمہ تھے، عباسیوں نے آج کے حکمرانوں کی طرح نعرہ بھی بہت دلربا لگایا، انہوں نے یہ نعرہ لگایا کہ ہم امام حسینؑ کے قاتلوں سے انتقام لیں گے ، اس لیے انہوں نے اپنا پرچم بھی سیاہ رکھا ،اس وقت کے شیعہ بھی اس نعرے کے پیچھے بہت بھاگے لیکن امام صادقؑ نے کیا کیا؟ وہی کام آج ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ امام ؑ نے دونوں کا ساتھ نہیں دیا اگرچہ ظاہری طور پر بنو عباس نے شیعہ کی حمایت میں علم بلند کیا، ان حالات میں امام ؑ نے اپنا سیاسی مؤقف یعنی نظام امامت و ولایت کا مؤقف ترک نہیں کیا۔ آج ہم بھی جو حالات بھی بن جائیں اپنے سیاسی مؤقف نظام امامت و ولایت سے پیچھے نہ ہٹیں۔ یہی روڈ میپ ہے اور یہی اس نظام کے نفاذ کے مراحل ہیں جو امام نے انجام دیے۔ امامؑ نے اس وقت کیا کیا؟امام کی وہ عملی سیرت علماء کرام کے مطابق چند مراحل پر مشتمل ہے۔

۱۔ پہلے مرحلے میں ضروری ہے کہ حق کی حمایت کرنا شروع کر دیں  اور باطل سے نفرت کا اظہار کریں۔ باطل سے دوری اور حق سے قریب ہوں خود بھی اور دوسروں کو بھی باطل سے دور اور حق کے قریب کرنا شروع کر دیں۔

۲۔ دوسرے مرحلے میں حق کی تبلیغ او رنشرو اشاعت کریں۔ حق کی دعوت دیں اور حق کی شناخت کروائیں۔[32] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۸۰تا۸۴۔  

۳۔ تدبیر کریں، قوت حاصل کریں اور اصلاحات و رفاہ لانے کی کوشش کریں۔ مثلا جتنا ممکن ہو سکے تشیع کے لیے امکانات بڑھائیں، سکول، کالج، مدارس، مساجد اور خیر کے امور میں شامل ہوں حق کے امور کو اجاگر کریں۔ ایسے ادارے بنائیں جن میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام حاکم ہو جس سے اسلامی نظام امامت کی راہ ہموار ہو، ایسے ادارے نہ بنائیں جس میں حق قائم نہ ہو افراد تنخواہیں لے کر چلے جائیں اور آپ صرف اس بات پر خوش ہوں کہ چلو ادارے میں اجتماعی طور پر دعاء امام زمانہ تو پڑھی گئی۔ 

۴۔ باطل کے ایوانوں اور نظاموں سے جتنا ہو سکے مسلمین اور مومنین کو ناامید کریں۔ جب تک مومنین کے دلوں میں باطل نظاموں کے لیے محبت ہے، ان طاغوتی حکمرانوں کے لیے سے امیدیں رکھی بیٹھے ہیں تب تک امامت کے لیے راہ ہموار نہیں ہو سکتا اور نا ہی امام زمانؑ تشریف لائیں گے۔ مومنین کے اندر شدید قسم کی ناامیدی  پیدا کر دینی چاہیے اور اس کے برعکس نظام امامت اور مہدویت کے لیے امیدیں زندہ کرنی چاہیں۔ آج اگر کوئی نظام امامت و ولایت کے بلاک میں آتا ہے تو اس کو وہی مرتبہ دیا جاۓ گا جو بشار اسد کو دیا جاتا ہے، اگر کوئی حقیقی معنی میں امریکہ کی مخالفت کرتا ہے اور ولایت کے بلاک میں آتا ہے تو اس کی حمایت کریں ورنہ اس سے عوام کو ناامید کریں۔ روڈ میپ بہت واضح اور صاف ہے ہاتھ پاؤں چلانا ضروری ہے خود حق کو جانیں، صداۓ حق بلند کریں، اس کی نشر و اشاعت کریں، اسلامی نظریات کو پھیلائیں کم از کم اپنے گھر اور دوستوں میں یہ کام کریں۔ آئمہ معصومینؑ نے بھی یہی کام کیا۔

منابع:

منابع:
1 راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۵۳۳۔
2 ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج۶، ص۱۴۱۔
3 مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱۳، ص۲۰۳۔
4 علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۶، ص۱۲۔
5 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت در قرآن، ج۱، ص۸۳۔
6 شوری: ۹۔
7 مائدہ: ۵۵۔
8 نساء: ۵۹۔
9 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ص ۴۲۷، مکتوب۵۳۔
10 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ،ص ۴۰۷،  مکتوب۳۴۔
11 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ص ۴۶۱، مکتوب۷۱۔
12 شيخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص۵۶۸۔
13 طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، ج۱، ص۱۱۳۔
14 نعمان مغربی، نعمان بن محمد، شرح الاخبار في فضائل الائمہ الاطہار، ج۳، ص۳۴۔
15 امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۳۱۱۔
16 طبرسی، ابو منصور، الاحتجاج، ج۱، ص۹۹۔
17 فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، الوافی، ج۵، ص۱۰۶۴۔
18 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۱۹۸۔
19 شیخ مفید، محمد بن نعمان، الامالی، ج۱، ص۱۴۔
20 تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۵۸۔
21 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۰۰۔
22 شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۲۱۸۔
23 ہود: ۸۱۔
24 دعاء عہد۔
25 اسراء: ۸۱۔
26 آل عمران: ۹۔
27 خمینی، روح اللہ، ولایت فقیہ، ص۱۴۸۔
28 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۳۳۔
29 طبرسی،فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیرالقرآن، ج۴، ص۵۵۰۔
30 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۱۔
31 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۱۔
32 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۸۰تا۸۴۔
Views: 69