ولایت فقیہ سے دشمنی کی اساس
ولایت فقیہ کے معنی کو سمجھنے میں بہت سوں نے اشتباہ کیا ہے۔ سال ہا سال حوزہ جات میں پڑھنے والے طلاب نے بھی ولایت فقیہ کا معنی سمجھنے میں اشتباہ کیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ انہوں نے صرف فقہ و اصول اور ادبیات تو پڑھے لیکن سیاسی ابحاث نہیں پڑھیں۔ ولایت کا معنی، ولایت فقیہ میں ولایت سے مراد، مقام و منصب، مدیریت اور حاکمیت کے معنی میں اشتباہ کیا۔ ولایت فقیہ کے ذیل میں دلیل پیش کرتے ہوۓ ہمارا وظیفہ یہ ہے کہ ولایت فقیہ کا درست تصور افراد پر واضح کریں۔ کیونکہ ہمارے ادعا کے مطابق ولایت فقیہ بدیہی موضوع ہے۔ اور بدیہی موضوعات کو دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم صرف ولایت فقیہ کا صحیح معنی اور مفہوم سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں انسانی عقل اس کی خود تصدیق کرے گا۔ اصلی مشکل یہ ہے کہ ولایت فقیہ کا صحیح تصور نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے شبہات پیش آۓ۔
فہرست مقالہ
قاعدہ لطف کے ذیل میں ولایت فقیہ کا اثبات
قاعدہ لطف کی اساس عقلی دلیل پر ہے۔ عقلی دلیل کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ شرعی دلیل نہیں ہے بلکہ عقل بھی دین کا منبع ہے۔ عقلی دلیل بھی شرعی و دینی دلیل ہوتی ہے۔ بلکہ عقلی دلیل کا مرتبہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ۹۸ علماء ایک بات کر رہے ہوں اور ان کے مقابلے میں دو عالم دین کسی اور راۓ کو اختیار کر رہے ہوں تو اگر ان دو کی بات عقلی ہے تو ہم ۹۸ علماء کو ترک کر کے ان دو کی بات مانیں گے۔ اگرچہ مشہور قول کے مقابلے میں یہ شاذ قول ہے لیکن ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ کس قول کو زیادہ علماء مان رہے ہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ عقلی بات کون کر رہا ہے۔ بہرحال قاعدہ لطف ایک ایسا قاعدہ ہے جس کی اساس پر نبوت، امامت اور ولایت فقیہ ثابت ہوتی ہے۔ لاکھوں انبیاء کا مبعوث ہونا، آئمہ معصومینؑ کی اتنی قربانیاں صرف اس لیے نہیں تھیں کہ دین اسلام کا اجراء ۲۶۰ ہجری تک ہو۔ قاعدہ لطف کے تحت زمانہ غیبت میں امت الہی لطف سے محروم نہیں ہو سکتی۔ دین کو تعطیل نہیں کیا جا سکتا۔ زمانہ امامت میں امتوں پر جو لطف الہی تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ ہدایت اور قوانین الہیہ کی جو ضرورت زمانہ امامت کے لوگوں کو تھی وہی ضرورت آج بھی ہے۔ حکومت اسلامی کا قیام زمانہ امامت میں ضروری تھا تو آج بھی ضروری ہے۔ لذا امامت کا ہر دور میں امت کی سیاست(مدیریت و تدبیر) سے تعلق ہے۔ یہ جملہ بہت افسوسناک ہے جو کہا جاتا ہے کہ امامت کا سیاست سے کیا تعلق؟ اگر امامت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے تو شیعہ سنی کا جھگڑا کس اساس پر ہے؟ امامت کا معنی ہی لوگوں کے رہبر و رہنما ہونا ہے۔ چاہے وہ دین کے امور ہوں یا دنیوی امور ہوں ہر دو امور امام کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں۔
ولایت فقیہ اور ایرانیت
جس طرح نبوت اور امامت کا مفہوم اور اس کے مصادیق کسی زمین کے خاص خطے سے محدود نہیں ہو جاتے اسی طرح سے ولایت فقیہ بھی ایرانیت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ امام یا نبی کا عربی ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ کسی بھی قومیت کا ہو سکتا ہے۔ ولی فقیہ کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ ایرانی ہو۔ ولایت فقیہ کا تعلق ایرانیت سے نہیں بلکہ امامت سے ہے۔ امامت کی نیابت میں یہ سلسلہ کسی بھی خطے پر نافذ ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ ولایت فقیہ تشکیکی مراتب رکھتی ہے۔ امامت میں تشکیک کے اعتبار سے شدت پائی جاتی ہے۔ اس میں عصمت موجود ہے، اللہ تعالی کی طرف سے ہادی اور منذر ہونا پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالی کی جانب سے منصوب امام ہے۔ یہی ضرورت آج بھی موجود ہے لیکن اس کا حامل شخص اس درجے کا تو موجود نہیں جو زمانہ امامت میں تھا۔ لیکن اس کے نچلے درجے کا فرد موجود ہے جس میں عدالت پائی جاتی ہے، اپنے محدود دائرہ میں رہتے ہوۓ فقیہ اور مدیر ہے۔ یہاں پر عراق کے مشہور و معروف انقلابی عالم دین جناب ہاشم حیدری کے جملات کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا ایرانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایرانی قوم اس نظریہ سے دوسروں کی نسبت پہلے متسمک ہو گئے اس لیے اس سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔[1] حوالہ درکار ہے۔ ایرانی اس نظریہ کو باقی قوموں سے پہلے تطبیق دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس لیے شبہات کا شکار ہو کر اس کی نعمات سے خود کو محروم نہ کریں۔ درست ہے کہ الہی حاکم صرف معصوم ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اختیاری حالات میں ہے۔ زمانہ غیبت اضطرار کا زمانہ ہے معصوم پردہ غیبت میں ہیں۔ ان حالات میں ان کے نائبین کو حاکم قرار دیا جاۓ گا جس طرح سے امیرالمومنینؑ نے اپنے دور میں مالک اشترؓ، عثمان بن حنیفؓ، اشعث بن قیس، زیاد ابن ابی جیسے افراد کو مختلف علاقوں کا حاکم مقرر فرمایا۔ یہ سب معصوم نہیں تھے۔ بلکہ ان میں سے بعض کو امیرالمومنینؑ نے بعد میں مختلف جرائم کرنے کی بنا پر معزول کیا۔ جب تک ان کا فسق سب پر عیاں نہیں ہو گیا ان کی عدالت کی بنا پر حاکم مقرر فرمایا۔ لذا اضطراری صورت میں تشکیک کے مراتب کا لحاظ کیا جانا ضروری ہے۔ اگر امام معصوم کی مثال سورج کی سی ہے تو ولی فقیہ شمع کی مانند ہے۔ اس میں نور کا مرتبہ پائین ہے اور امام میں وہ مرتبہ اوج کا ہے۔ شدت و ضعف اپنی جگہ برقرار ہے۔
ولایت فقیہ سے دشمن کا ڈر
نیابت کے نظام ولایت فقیہ کے دو عنصر ہیں۔
۱۔ قوانین الہیہ کا اجراء
۲۔ قوانین الہیہ کو جاری کرنے والا مجری
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ ان کے تجربات سے دیگر اقوام بہت فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اب مسئلہ یہاں پر یہ پیش آیا کہ جب تک انقلابیوں نے اسلامی قوانین کے اجراء کی بات کی تب تک کسی کو کوئی مشکل نہ تھی۔ سبھی خوش تھے کہ اسلامی قوانین کا اجراء ہوگا، قرآن کریم کی تعلیمات عام ہونگی، اسلامی حدود و تعزیرات کا خیال رکھا جاۓ گا وغیرہ۔ لیکن جب یہ بات کی گئی کہ کہ الہی قوانین کو جاری کرنے والا مجری ایک فقیہ ہوگا ایران سمیت پوری دنیا میں پروپیگنڈے شروع ہو گئے۔ کیونکہ دشمن کو اسلامی قوانین سے مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کو مسئلہ اسلامی قوانین کے اجراء کرنے والے سے ہے۔ ورنہ آپ نے اگر صرف قرآن کریم ہی پڑھنا ہے تو وہ آپ کو امریکہ خود چھاپ چھاپ کر دینے کو تیار ہے۔ چاہے آپ عمامے کے ساتھ امریکہ برطانیہ میں قرآن پڑھیں اور سب کو پڑھائیں کسی کو کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کو مسئلہ یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کو معاشرے میں جاری نہ کیا جاۓ۔ قانون کو بیان کرنا ہے، شریعت کے مسائل اور احکام یاد کرنے ہیں، درس خارج دینا ہے، اسلامی قوانین کا دفاع کرنا ہے، حجاب کی اہمیت بتانی ہے یہ سب کام کرو، لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کروانا۔ شریعت اور قانون الہی کو نافذ نہیں کرنا۔ حجاب کی اہمیت بیان کرو لیکن معاشرے میں خواتین پر حجاب کرنے کی پابندی نہیں لگانی۔ آپ ہزاروں توضیح المسائل لکھوائیں اور تقلیدیں کروائیں ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ توضیح المسائل کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انفرادی زندگی میں بعض احکام پر عمل کرنا ہے اگر اس توضیح المسائل کو اجتماعی مسائل میں اجراء بھی کرنا شروع کر دیں دشمن آپ کے خلاف ہو جاۓ گا۔
دشمن کے لیے خطرہ قانون یا مجری
دشمن کو اختلاف یہ نہیں ہے کہ اسلامی قوانین کو بیان نہیں کرنا چاہیۓ۔ وہ چاہتا ہے کہ ان کا اجراء نہ ہو۔ صدر اسلام میں بھی یہی ہوا جب تک رسول اللہﷺ دین لاتے رہے، قوانین بیان کرتے رہے کسی کو کوئی مشکل نہ تھی۔ لیکن جب غدیر میں قوانین الہی کو جاری کرنے والے کا اعلان ہوا تو تب دشمن کو مشکل پیش آئی۔ غدیر میں مجری کا اعلان ہوا۔ جب تک الہی قانون کی بات ہو رہی تھی کسی کو کوئی مشکل نہ تھی لیکن جب قانون الہی کو جاری کرنے والے الہی مجری کی بات ہوئی تو یہاں پر دشمن مایوس ہوا:
«اَلیَومَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم».
ترجمہ: آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں۔[2] مائدہ: ۳۔
رسول اللہﷺ کو حکم دیا گیا تھا کہ آپ مجری کا اعلان کریں۔ معاشرے کو الہی قوانین کے مطابق چلانے والا بھی اللہ تعالی کی جانب سے ہوگا۔ اصل مشکل یہاں پر پیش آئی ورنہ کسی کو فقط شریعت سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ خود دشمن آپ کو مسجدیں، مدرسے بنانے کا چندہ دینے کو تیار ہےجب تک کہ آپ الہی قوانین کے اجراء کی بات نہیں کرتے۔ آج تشیع کو استعماری طاقتوں سے کیا مشکل ہے؟ امریکہ شیعہ کا دشمن کیوں ہے؟ امریکہ کی تجارت تو شیعہ قوم پر موقوف نہیں ہے پھر اس کو شیعہ سے کیا مشکل ہے؟ کیا ہم شیعہ ہیں اور وہ عیسائی، یہی مسئلہ ہے؟ جی نہیں! اس کو مسئلہ صرف شیعہ ہونے سے نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ شیعہ کے پاس ولی فقیہ کی شکل میں الہی قوانین کو جاری کرنے والا مجری موجود ہے۔ ان کو ڈر شیعہ کے نظریاتی گروہ سے ہے جو ولایت فقیہ سے مربوط ہیں۔ یہ ولایت فقیہ ہے جو الہی قانون کی امت میں معرفت بڑھاتی ہے، اس کو بیان کرتی ہے، اور اس کی بالاتری پوری دنیا میں چاہتی ہے۔ صرف الہی قوانین کو پڑھنے اور اجتہاد کرنے تک محدود نہیں سمجھتی بلکہ اس کو نافذ کرنا اپنا فریضہ سمجھتی ہے۔ ان تین کاموں کی وجہ سے دشمن کو اس نظریہ سے مسئلہ ہے۔ اصلی مشکل دشمن کو تیسرے نکتے کے ساتھ ہے۔ پہلے دو تو ہر جگہ موجود ہیں۔ یعنی الہی قوانین کی معرفت اور اس کی تبیین پر تو ہزاروں کتابیں موجود ہیں وہ پہلے بھی موجود تھیں اب بھی موجود ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ تب پیش آتا ہے جب ان کتابوں میں لکھا ہوا مطلب معاشرے میں جاری کیا جاتا ہے۔ ورنہ قانون کو آپ جتنا پڑھیں، جتنا چھاپیں، پھیلائیں اس کو کوئی مشکل نہیں ہے۔
پاکستان میں اجراء کا مسئلہ
وطن عزیز پاکستان میں بھی یہی مسئلہ ہے۔ اکثریتی آبادی مسلمان ہے لیکن پھر بھی اسلامی قوانین کا اجراء نہیں ہے۔ اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی بات آتی ہے تو بہت سوں کو اپنے مفادات ڈوبتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ اس کام کے لیے دشمن نے فرقوں کو فعال کیا ہوا ہے۔ امت کے اندر زہر اگلنا اور آپس میں لڑانا، ایک دوسرے کو اسلام کے دائرے سے خارج کرنافرقوں کا کام ہے۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کی توہین کر کے اور دوسروں کو دائرہ اسلام سے خارج کر کے ہمارا فرقہ بچ جاۓ گا۔ اگر اسلام نہ رہا تو یہ فرقہ بھی ختم ہو جاۓ گا۔ اہل سنت میں تکفیری گروہ اور اہل تشیع میں غالی گروہ جس نے امت کو آپس میں لڑانے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے یہ لوگ ولایت فقیہ کو بھی فرقہ وارانہ تعصبات کا شکار کر دینا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ ۱۰۰ فیصد اسلامی حکومت پاکستان میں قائم نہیں ہو سکتی لیکن تشکیکی صورت میں تو ولایت فقیہ آ سکتی ہے۔ کمترین صورت پر اکتفاء کرتے ہوۓ بعد میں اس میں ترقی کی جا سکتی ہے۔ ہم یہ کبھی بھی نہیں کہتے کہ آپ جمہوری اسلامی ایران کے آئین کی فوٹو کاپی کروا کے وطن عزیز میں یہ والا آئین نافذ کر دیں۔ لیکن دونوں کی اساس تو ایک ہے۔ دونوں اسلامی ملک ہیں۔ ۱۹۷۳ کے آئین کو کامل ترین اسلامی آئین نہیں قرار دیا جا سکتا، نا ہی جمہوری اسلامی ایران کے آئین کو کامل ترین آئین قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس میں جو اچھی اور قابل تعریف چیزیں موجود ہیں اس کا بھی انکار کرنا مقصود نہیں ہے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ ایک رکعت سے نماز کامل نہیں ہوتی دوسری بھی پڑھی جاۓ تو نمازکامل ہوتی ہے۔ ہم اس آئین کو کامل تر کرنے کا تقاضا کر سکتے ہیں۔
جمہوری اسلامی ایران کا آئین
جمہوری اسلامی ایران کے آئین کی چوتھی اصل میں بیان ہوا ہے کہ تمام ثقافتی، اقتصادی، سیاسی و غیر سیاسی امور، اور تمام اداروں کی اساس اسلامی موازین کے مطابق ہونا ضروری ہے۔[3] آئین جمہوری اسلامی ایران۔ تمام قوانین، مقررات، حاکم کا چناؤ اسی اصل کے مطابق ہونگے۔ جب تک یہ شق لکھی گئی تھی سب خوش تھے، سب نے کہا کہ بہت اچھی بات ہے۔ کیونکہ اچھی بات کرنے اور لکھنے میں تو سب خوش ہوتے ہیں۔ لیکن مشکل تب پیش آتی ہے جب اچھی بات پر عمل درآمد کروایا جاۓ۔ اور وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ آئین کی پانچویں شق میں بیان کیا گیا کہ امت کی امامت و ولایت، ملک کی حکومت ایک عادل، باتقوی، باتدبیر اور باشرائط فقیہ کے ہاتھ میں ہوگی جو اسلامی موازین کا خیال رکھتے ہوۓ ملک کی مدیریت کرے گا تو پوری دنیا میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ یہاں سے ٹکراؤ شروع ہوا۔ مجلس خبرگان اور پارلیمنٹ کو منحل کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ ایران کے اندر دشمنوں نے ہنگامے کرنا شروع کر دیے۔
ایران کی جمہوری اسلامی سے دشمنی
باقی ممالک میں موجود جمہوری نظاموں اور ایران کے اندر نافذ اسلامی جمہوری نظام میں فرق ہی یہ ہے کہ اس کے آئین میں بیان کیا گیا ہے کہ قوانین کا مجری کون ہوگا۔ اسلامی جمہوری ایران میں قوانین کا مجری یا حقیقی حاکم معین شدہ ہے۔ ولی فقیہ کو عوام کی راۓ سے ولی فقیہ نہیں بنایا جاۓ گا بلکہ وہ مذکور شرائط کی بنا پر ولی فقیہ منصوب ہوگا۔ جبکہ دیگر جمہوری نظاموں میں حاکم کو خود عوام منتخب کرتی ہے۔ دشمن کو دشنی بھی اسی نظریہ سے ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ حاکم کو دینی معیاروں پر انتخاب کیا جاۓ اور وہ دینی احکام کو جاری کرے۔ اس لیے وہ اس کو ہرگز قبول نہیں کر سکتا۔ ولایت فقیہ کی بنیاد اسلامی نظریات اور اس کے قوانین کے اجراء کی اساس پر کھڑی ہے۔ وہ اس نظریہ کو قومیتی بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔ ہم جانتے ہیں اقوام کا ایک دوسرے سے شدید ٹکراؤ موجود ہے۔ دشمن اس کو قومیتوں کا مسئلہ بنا کر ان کو ایک امت بننے کی بجاۓ قومیتوں میں تقسیم کر کے ضعیف کرنا چاہتا ہے۔ ولایت فقیہ کی اساس قومیت پر نہیں ہے۔ ہاں کوئی یہ بھی اشتباہ نہ کرے کہ ولایت فقیہ کا مطلب یہ ہے کہ قومیں ختم ہو جائیں۔ مختلف اقوام اپنا اجتماعی مفاد مدنظر رکھ کر ایک امت کے ساۓ میں زندگی گزار سکتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دشمن کو ایسی کوئی صورت پسند نہیں ہے وہ ان کو متحد نہیں دیکھ سکتا۔
زمانہ غیبت میں ممکن ترین صورت
اگر فتوی اور قضاوت کی دنیا میں دوسری قوم کے مجتہد کی تقلید کی جا سکتی ہے تو مدیریت کے مسئلے میں ولایت فقیہ کو قبول کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ یعنی ولایت فقیہ کا انکار کرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ ولی فقیہ تو ایرانی ہے جبکہ ہم پاکستانی ہیں تو وہ تقلید کرتے ہوۓ یہ بات کیوں نہیں کرتے؟ وہ ایک عراقی یا ایرانی کی تقلید کرنے میں تو کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ مدیریت کے مسئلے میں قوم پرستی پر اتر آتے ہیں۔ درست ہے کہ زمینی سرحدوں کی حفاظت کرنا ضروری ہے اور ہر ملک کی اپنی زمینی حدود ہیں، ہر ملک کا اپنا تشخص اور اس کی ہویت ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ زمانہ غیبت میں مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ وحدت کے ساتھ ہی نہ رہیں۔ کیونکہ آئیڈیل ترین صورت تو امام زمانؑ کے دور میں ہی ممکن ہوسکتی ہے اور اس وقت ایک سرزمین اور اس کا ایک حاکم ہوگا۔ لیکن اس سے پہلے کیا کریں؟ کیا ایک دوسرے کے دشمن بن کر رہیں؟ یا جن امور پر دشمن نے اتحاد کیا ہوا ہے کم از کم ان امور میں تو متحد ہوں۔ اگر یورپی ممالک کی فوج ایک، کرنسی ایک، اور تمام مفادات اور نقصان کا محور ایک ہے تو اسلامی ممالک میں ایسا اتحاد ممکن کیوں نہیں؟ اگر یورپی ممالک کا ایک باشندہ کسی بھی دوسرے یورپی ملک میں بغیر ویزہ کے جا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ ویزا ہٹا دینے سے ان کی سرحدیں تو ختم نہیں ہوئیں۔ وہ بھی مختلف ثقافتوں اور حکمرانوں کے باوجود ایک ہیں اور ان کا بین الاقوامی سطح پر ایک مؤقف ہوتا ہے ہم ایک مرکزیت پر جمع کیوں نہیں ہو سکتے؟ مشترک نکات پر جمع ہو جانے سے ملک کی سرحدیں ختم تو نہیں ہو جاتیں۔ بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کا ایک مؤقف کیوں نہیں؟ آخر کار ایک مسلمان ملک کو کیوں ہمسایہ ممالک کا دشمن بنایا جاۓ؟ یہ کیسی سیاست ہے کہ آپ کی تمام ہمسائیوں سے ایک نوع دشمنی ہے۔ مان لیا بھارت سے پاکستان کی مشکل ہے لیکن افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات کیوں نہیں ہیں؟ زمانہ غیبت میں آپ آئیڈیل ترین صورت اختیار نہیں کر سکتے تو کم از کم ایسی صورت اختیار ضرور کریں جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ ہم خود کو کہتے تو مسلمان ہیں لیکن اسلامی اقدار کے بغیر مسلمان ہیں۔ ہم اسلامی قوانین تو چاہتے ہیں لیکن مجری نہیں چاہتے۔ دین تو چاہتے ہیں لیکن دین کو نافذ کرنے والا نہیں چاہتے۔
اجراء قانون الہی پر ہنگامہ
پوری دنیا کا ایران نے کیا بگاڑا ہے کہ سب نے ایکا کر کے ان پر اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں؟ ایران میں ہونے والے چند قلیل اوباشوں کے فتنے کو پوری دنیا کا میڈیا کوریج کیوں دیتا ہے اور ان کی مالی امداد کیوں کرتا ہے؟ کیا صدام نے ۸ سالہ جنگ میں جو ایران کا نقصان کیا وہ کافی نہیں تھا؟ ایران کے اندر ہزاروں کی تعداد میں انسانی جانوں کا جو نقصان ہوا وہ کم تھا؟ جو اب دوبارہ ایران میں امنیت کو خراب کرنا چاہتے ہیں؟ آخر مسئلہ پیچھے کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی ملک میں اسلامی حکومت حجاب کے بارے قانون کو جاری کرنا چاہتی ہے اور مغربی طاقتیں اس قانون کو جاری ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اسلامی حکومت کا ہم و غم یہ ہے کہ اسلامی قوانین کا اجراء کرے، جبکہ دشمن کا ہدف ہی یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پر اسلامی حدود کا اجراء نہ ہونے پاۓ۔ یہی غم اٹھانا سب کی ذمہ داری ہے۔ مسلمان ملکوں میں الہی قوانین کو جاری کیوں نہیں کیا جا رہا؟ آخر یہ غم ہم مسلمانوں کے دلوں سے کیسے نکال دیا گیا؟ آپ کا بچہ نمازی نہیں ہے یا عزاداری نہیں کرتا اس کا غم تو دل میں موجود ہے،لیکن پوری مملکت بغیر اسلامی قوانین کے چل رہی ہے اس کا کسی کو کوئی غم نہیں۔ آج ہر طبقہ پاکستان میں اس پر خاموش ہے۔ عالم ہوں، یا ذاکر، ماتمی ہوں یا حافظ، طالب علم ہوں یا عام مذہبی لوگ سب ہی خاموش ہیں۔ اس جمود کو توڑنا ضروری ہے۔[4] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۶۲تا ۱۶۷۔