(قرآنی الفاظ معانی)
قرآنی لفظ سقر
تحریر:سید محمد حسن رضوی
قرآن کریم میں جہنم کے متعدد نام وارد ہوئے ہیں۔ بعض نے انہیں جہنم کی مختلف وادیاں یا گھاٹیاں شمار کیا ہے۔ جہنم کے انہی ناموں میں سے ایک لفظ سقر ہے۔
فہرست مقالہ
سقر کا لغوی معنی :
لفظِ سقر کے لغوی معنی جلانے اور آگ کے ذریعے داغ کر شیء کو ظاہر کرنے کے ہیں۔ ابن فارس بیان کرتے ہیں: السين والقاف والراء أصل يدلّ على إحراق أو تلويح بنار، يقال: سقرتْهُ الشمس، إذا لوّحته؛ اس لفظ کے اصلی حروف ’’س -ق-ر‘‘ ہے جس کے معنی جلانا اور آگ کے ذریعےداغنہ کے ہیں ، کہا جاتا ہے: سقرتہ الشمس ،جب سورج کسی شیء کو انتہائی گرم کر دے۔[1] ابن فارس، احمد، معجم مقاييس اللغۃ، ج۳، ص۸۶۔ جوہری نے درج کیا ہے کہ جہنم کو اس لیے سقر کہتے ہیں کیونکہ انتہائی شدت کی آگ ہو گی جو چیز بدل کر رکھ دے گی۔ [2]جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح، ج ۲، ص ۶۸۷۔معروف محدث اور لغوی ابن اثیر جزری اپنی کتاب ’’النہایۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سقر عربی زبان کا لفظ نہیں ہے بلکہ اعجمی لفظ ہے جو عرب زبان میں منتقل ہوا ہےاور آخرت میں جہنم کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔[3]ابن اثیر، النہایۃ فی غریب الحدیث، ج ۲، ص ۳۷۷۔ [4]ابن منظور، لسان العرب، ج ۴، ص ۳۷۲۔
لفظ سقر قرآن و حدیث میں :
قرآن کریم میں یہ لفظ چار مرتبہ آیا ہےاور ان تمام موارد میں ایک ہی معنی میں استعمال ہوا یعنی جہنم کی جلا دینے والی آگ۔ یہ موارد درج ذیل ہیں:
قرآن کریم کی ان آیات میں ’’سقر‘‘ کی مختلف خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، مثلاً سقر ایسی آگ ہے جو انسان کھال کو جھلسا کر رکھ دے گی اور اس کا چھونا ہی عذابِ شدید ہے۔ سقر ایسی آگ ہے جو نہ کچھ باقی چھوڑتی ہے اور نہ شیء کا پیچھا چھوڑتی ہے یعنی ایسی چمٹتی ہے کہ پھر اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ انہی آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو سقر کی آگ میں دکھیلنے والے انسانی اعمال ہیں، مثلا کفر و شرک کرنا، نماز نہ پڑھنا ، یتیم و مسکین کو کھانا نہ کھلانا وغیرہ جیساکہ سورہ مدثر کی آخری آیات میں وارد ہوا ہے۔ [8]مدثر:۴۳۔
سقر احادیث کی روشنی میں:
آئمہ اہل بیت ؑ سے وارد ہونے والی احادیث میں سقر کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ سقر جہنم میں ایک وادی کا نام ہے جس میں اللہ تعالیٰ بدترین مجرموں کو منہ کے بل گھسیٹے گا۔ [9]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۹، ص ۲۴۶۔
منابع:
↑1 | ابن فارس، احمد، معجم مقاييس اللغۃ، ج۳، ص۸۶۔ |
---|---|
↑2 | جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح، ج ۲، ص ۶۸۷۔ |
↑3 | ابن اثیر، النہایۃ فی غریب الحدیث، ج ۲، ص ۳۷۷۔ |
↑4 | ابن منظور، لسان العرب، ج ۴، ص ۳۷۲۔ |
↑5 | قمر: ۴۸۔ |
↑6 | مدثر: ۲۶-۲۹۔ |
↑7 | مدثر:۴۲۔ |
↑8 | مدثر:۴۳۔ |
↑9 | مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۹، ص ۲۴۶۔ |