loading

{قرآنی کلمات کی صرفی تحلیل}

قرآنی لفظ حَفِظَ کی صرفی تحلیل

تحرير :حافظ تقي رضا

09/03/2023

حفظ قرآنی لفظ ہےجو قرآن کریم کی متعدد آیات میں وارد ہوا ہے۔راغب اصفہانی اور اہل دیگر لغت نے اس کی تصریح کی ہےاس لفظ  کے مادہ ’’ ح-ف-ظ‘‘ ہے جس کےمعنی ’’ کسی چیز کو نفس میں ضبط(حفاظت ) کرنا ‘‘ [1]نام کتاب : المفردات في غريب القرآن (الراغب الأصفهاني) ، جلد : 1 ، صفحه : 442بنےگا۔لفظ ’’ حَفِظَ ‘‘ کے متعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں۔جن کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہیں:

فہرست مقالہ

حَفِظَ:

یہ لفظ ثلاثی مجرد کے ابواب میں سے ’’فَعِلَ یَفۡعَلُ،عَلِمَ یَعۡلَمُ ‘‘کے وزن پے آتا ہے ۔قرآن کریم میں اس باب سے اس کا فعل ماضی ایک آیت کریمہ ’’ سورہ نساء ۳۴‘‘  میں وارد ہوا ہے سورہ نساء میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:آیت {فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰه،پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں، اللہ نے جن چیزوں (مال اور آبرو) کا تحفظ چاہا ہے، (خاوند کی) غیر حاضری میں ان کی محافظت کرتی ہیں}[2]سورہ نساء ۳۴

باب ثلاثی مجرد سے حَفِظَ کے متعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں ۔سورہ حجر ۱۷ میں اس باب سے فعل ماضی جمع متکلم کاصیغہ ’’ حَفِظۡنَا‘‘وارد ہوا ہےجس کےمعنی ’’ ہم سب نے حفاظت کی ‘‘ بنےگا۔

اس باب کے علاوہ فعل ماضی و مضارع و امر و فعل مجھول بھی قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں:

سورہ نور ۳۰،سورہ رعد۱۱ میں اس باب سے فعل مضارع جمع مذکر غائب کا  صیغہ ’’ یَحۡفَظُونَ‘‘ (سورہ نور میں لفظ یَحۡفَظُوا  استعمال ہوا ہے عامل کی وجہ سے آخر کی نون حذف  ہوگئی اور سورہ رعد میں ضمیر (ھو) کےساتھ استعمال ہوا ہے)وارد ہوا ہےجس کےمعنی ’’ وہ سب حفاظت کرے ‘‘ بنےگا۔ سورہ نور ۳۱ میں فعل مضارع جمع مؤنث  غائب کا صیغہ ’’ یَحۡفَظۡنَ‘‘ وارد ہوا ہےجس کےمعنی ’’ وہ سب حفاظت کرتی ہیں ‘‘ بنےگا۔سورہ مائدہ ۸۹میں فعل امر حاضر واحد مذکرمخاطب کا صیغہ ’’ اِحفَظُوا‘‘ وارد ہوا ہےجس کےمعنی ’’ تم سب حفاظت کرو‘‘ بنےگا۔ سورہ طارق ۴میں اسم فاعل کا صیغہ ’’ حَافِظٌ ‘‘ وارد ہوا ہےجس کےمعنی ’’ حفاظت کرنےوالا شخص ‘‘ بنےگأ۔سورہ توبہ ۱۱۲،سورہ یوسف ۱۳،سو رہ یوسف ۶۳،سورہ حجر ۹،سورہ مؤمنون ۵ ،سورہ معارج ۲۹میں اسم فاعل کا صیغہ ’’ حَافِظُونَ‘‘ وارد ہواہےجس کےمعنی ’’ وہ سب حفاظت کرنےوالے ‘‘ بنےگا۔سورہ یوسف ۸۱ ،سورہ انبیاء ۸۲،سورہ احزاب ۳۵،سورہ انفطار ۱۰،سورہ مطففین ۳۳ میں اسم فاعل کا صیغہ ’’ حَافِظِینَ‘‘ وارد ہوا ہےجس کےمعنی ’ ’حفاظت کرنےوالی (عورت)‘‘بنےگا۔سورہ نساء ۳۴ ،سورہ احزاب ۳۵میں اسم فاعل کا صیغہ ’’ حَافِظَاتٌ‘‘ وارد ہوا ہےجس کےمعنی ’’ وہ سب عورتیں حفاظت کرنے والی ہیں‘‘ بنےگأ۔سورہ بروج ۲۲ ،سورہ انبیاء ۳۲میں اسم مفعول کا صیغہ ’’ مَحۡفُوظٍ،مَحۡفُوظاً(اصل میں یہ صیغہ ’’ مَحفُوظٌ‘‘ تھا لیکن عامل کی وجہ سے آخر کی حرکات تبدیل ہوگئی)‘‘ کا صیغہ وارد ہوا ہےجس کےمعنی ’’ جس کی حفاظت کی جائے ‘‘ بنےگا۔

باب ثلاثی مزید فیہ سے قرآن کریم میں حَفِظَ کے متعدد مشتقات وارد ہوئے ہیں :

باب ثلاثی مزید فیہ سے باب استفعال وارد ہوا ہے:

سورہ مائدہ ۴۴میں اس باب سے ماضی مجھول جمع مذکر غائب کا صیغہ ’’ اُسۡتُحۡفِظُوا‘‘ وارد ہوا ہےجس کےمعنی ’’ ان سب نے حفاظت کیا‘‘ بنےگا۔

باب ثلاثی مزید فیہ سے با ب مفاعلہ  وارد ہوا ہے:

سورہ انعام ۹۲،سورہ مؤمنون۹،سورہ معارج ۳۴ میں اس باب سے فعل مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ’’ یُحَافِظُونَ‘‘جس کےمعنی ’’ وہ حفاظت کرتے ہیں ‘‘ بنےگا۔

حِفظً:

یہ مشتق قرآن مجید میں ۲ مرتبہ ’’سورہ صافات ۷،سورہ فصلت ۱۲‘‘ وارد ہواہیں۔

حَفَظَۃ:

یہ مشتق قرآن مجید میں ۱ مرتبہ ’’ سورہ انعام ۶۱‘‘ وارد ہواہے۔

حَفِیظ:

یہ مشتق قرآن مجید میں ۱۱ مرتبہ ’’سورہ انعام ۱۰۴،سورہ ھود ۵۷،۸۶،سورہ یوسف ۵۵،سورہ سبا۲۱،سورہ شوری ۶،سورہ ق۴،۳۲،سورہ نساء ۸۰،سورانعام ۱۰۷،سورہ شوری ۴۸‘‘ وارد ہوا ہیں۔

تبصرہ:

لفظ ’’حَفِظَ‘‘ سے مصدر قرآن مجید میں  کئی مقامات  پروارد ہوئے ہیں   مختلف شکلوں سے اور جس کےمعنی ’’حفاظت  کرنا‘‘ بنے گے۔

Views: 5