loading

أمارات العدالۃ والوثاقۃ

تحریر:بہادر علی
05/12/2023

امارات العدالۃ والوثاقۃ میں ایک بحث اس طرح سے کی جاتی ہے کہ وثاقت اور عدالت کس طرح سے ثابت ہوتی ہے اور دوسری بحث ہے  وثاقت اور عدالت کے علائم جوکہ ہم  پہلے پڑھ چکے ہیں اسکا موضوع یہ ہے کہ کس طریقے سے راوی کے لیے وثاقت ثابت ہوتی ہے آپ نے ملاحظہ کیا کہ وہ قول رجالی کے ذریعے ثابت ہوتی ہے یا آئمہؑ میں سے کسی امام نے کسی روایت میں کسی راوی کی تصدیق یا توثیق کی ہےلیکن یہ جو موضوع ہے اس کو ہم نام دیتے ہیں کہ یہ کون سے علائم ہیں وہ کونسے اوصاف ہیں جو راوی میں پائے جائیں تو یہ کیا شمار کریں گے کہ یہ ثقہ ہے اگرچہ کسی نے کہا نہیں ہے قول رجالی ہمارے پاس نہیں ہے کہ یہ ثقہ ہے یاکوئی روایت ہمارے پاس نہیں ہے کہ یہ ثقہ ہے بلکہ ہمارے پاس اس باب میں امارۃ ہے بالفاظ دیگرایک علامت ہے اگر وہ راوی میں پائی جائے تو وہ ثقہ شمار ہو گااس ضمن میں انھوں نے پہلے وکالت کو ذکر کیا لیکن اس کی بحث سے پہلے انھوں نےوثاقت وعدالت کو بیان کیا کہ اس میں فرق ہے یا نہیں محقق مامقانی کا یہ کہنا تھا کہ اگر کلمہ ثقہ مطلقا استعمال ہو بغیر کسی قرینے کے کہ جو اسکا خاص معنی لینے کے اوپر ہمیں مجبور کر رہا ہواگر ایسا قرینہ نہ تو کلمہ ثقہ عدالت کے مترادف شمار ہو گأ ۔اس کا مقابلے میں دوسراقول یہ تھا جو شیخ طوسی نے ذکر کیا کہ ثقہ اور عادل میں فرق کیا جائے گالہذا اگر فاسد المذہب موجود ہے تو اس کی بات کے اوپر اعتماد کیا جائے گا اس باب سے کہ وہ متحرز من الکذب ہے یعنی جھوٹ سے وہ بچتا ہے لیکن اس طرف توجہ رہے کہ یہ صرف نقل کے اعتبار سے ہے اس طریق میں ان فقہا ء نےاسکے اوپر عمل کو جائز قرار دیا ۔  شیخ طوسی نے العدۃ میں ان دونوں باتوں کا ذکر کیا ہے ۔

مقتضی تحقیق:

ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ قول ثانی صحیح ہےیعنی وثاقت اور عدالت آپس میں متباین ہیں وثاقت اعم اور عدالت اخص ہے ، اس کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں ادلہ سے یہ استفادہ ہوتا ہے چاہے یہ ادلہ ادلہ لفظیہ ہوں یعنی نصوص  یا سیرۃ عقلائیہ کی بنا پر ہو-حجیت خبرثقۃ ،بمعنی خاص عادل کی خبر کو فقط حاصل نہیں ہے ۔ہم نے اپنی کتاب (مقیاس الروایۃ )اسکی طرف اشارہ کیا ہے [1] سیفی مازندرانی ،علی اکبر،مقیاس الرِّواية ،ص ۵۵ جب ہم نے یہ بحث کی کہ عمل مشہور کے ذریعے سے ضعیف خبر کا جبران ہو جاتا ہے اسی طرح کتاب کے آغاز میں بھی ہم نے یہ نکتہ ذکر کیا ہے ۔
حجیت خبر ثقہ(نص یاسیرت عقلائیہ) کی ادلۃ کےمدلول کا معنی احکام میں بھی جاری ہوتا ہے اور موضوعات(یعنی وہ امور جنکا متحقق ہونا سبب بنتا ہے کہ حکم شرعی جاری ہو) میں بھی جاری ہوتا ہے ،جرح وتعدیل کے باب میں جو موضوعات کے دیگر پہلو ہیں اور اسی طریقے سے تزکیہ راوی کے اعتبار سے جو دیگر پہلو ہیں یا سنت رسولﷺ  و احادیث اھل بیت کے بارے میں اس نے جو خبریں ہیں انکو قبول کرنے کے اعتبار سے خبر ثقۃ حجت اس سب میں ملاق ایک ہی ہے ۔یہ بات مخفی نہ رہے کہ محل کلام میں ہمارا جو اختلاف ہے یہ فقط اصطلاح کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس میں حجیت خبر ہمارے لیے معیار ہے ،بعید نہیں ہے کہ ثقہ کے لفظ کی تفسیر میں جو اختلاف وارد ہوا ہے یہ کہاں سے پھوٹا ہے یہ حجیت خبر کے ملاک میں اختلاف کی بنیاد پے ہے کہ کونسی خبر ہے جو حجیت رکھتی ہے آیا عادل کی خبر اور عادل نے جو بات کی وہ حجیت رکھتی ہے یا عادل سے عام تر ثقہ نے جوبات کی ہے وہ حجیت رکھتی ہے کہتے ہیں ممکن ہے کہ یہ اس جگہ پر ملاک اور معیار کی بنیاد پے ثقہ کی تفسیر مختلف کی ہے شیخ طوسی کتابوں میں ایسا ہی دیکھائی دیتا ہے ،اصل ثقہ اور عدالت کے دو کلموں میں اختلاف کی بات نہیں تھی اصل یہ تھا جب کوئی خبر لے کے آتا ہے اگر عادل ہو تو بلاشک وشبہ قبول ہے لیکن ایک ہے فاسد المذہب ایک ہے جس کے عمل میں فسق پایا جاتا ہےلیکن جھوٹ سے وہ محفوظ ہے یہاں پے دونوں میں فرق کرنے کے لیےیعنی عادل کی خبر میں اور جو جھوٹ سے بچتا ہے اس کی خبر میں فرق کرنے لیے ثقہ اور عادل کے الفاظ کو استعمال کیا ہے ۔جس نے یہ رائے اختیار کی کہ معیاروثاقت بمعنی اعم ہے یعنی جھوٹ سے اجتناب ،اس نے کس چیز کاارادہ کیا ہے کہ وہ اس معنی سے لفظ ثقہ کے مطلق ہونے کا استفادہ کرتا ہے لیکن جس نے خبر کی حجیت کا معیار عدالت بمعنی اخص قرار دیا یعنی امامی ضابط عادل تو شاید اس نے لفظ ثقہ سے یہی معنی مراد لیا ہو ۔
بہر حال کوئی بھی صورت ہو مقتضی تحقیق یہ ہے کہ ثقہ کا لفظ استعمال خصوصی طور پر عدل ضابط ہرگزانکی مراد نہیں ہے بلکہ وہ اس کلمہ ثقہ کا استعمال ہر اس شخص پرکرتے ہیں جو جھوٹ سے بچا ہوا ہو چاہے وہ عدل ضابط ہو یا عدل ضابط نہ ہو ۔اور اس کی وجہ کیا ہے ثقہ کا یہی معنی علماء کے استعمال میں غلبہ رکھتا ہے زیادہ تر اسی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ان کی اصطلاح میں معروف اور شہرت بھی یہی رکھتا ہے ،اسی لیے انھوں نے توثیق کی ہے بعض ایسے قابل اعتماد افراد کی جو جھوٹ سے بچے ہوتے تھے اور غیر امامی اثناء عشری ہیں جیسے سماعۃ اور ابن بکیر۔اسکے بعد کلام وارد ہوا ہے امارات العدالۃ والوثاقۃ کے تعین میں ۔

منھا :الوکالۃ عن الامامؑ

ہماری گفتگو امامؑ کی وکالت کے بارے میں ہے کہ کیا وکالت وکیل کی عدالت کے امارۃ ہے یا وکیل وثاقت کے اوپر امارۃ ہے یا وکیل کی مدح وحسن حال کے اوپر امارۃ ہے ؟یا وکالت ان میں سے کسی ایک کی بھی علامت نہیں ہے ؟یا وکالت فقط امارۃ مدح ہے ؟اس میں اختلاف ہے ۔
ایک گروہ نے یہ نظریہ اختیار کیا ہے کہ یہ وکالت اور عدالت کی علامات میں سے ہے جیسے شیخ بھائی اور وحید البھبھانی [2] راجع تعلیقہ علی المقال :ص۲۱ اور السید العدّۃالرجالیۃمیں بلکہ علامۃحلی کی طرف بھی اس کی نسبت دی گئی ہے ،اور اسی طرح حسن بن زین الدین آملی منتقی الجمان [3] نام کتاب : منتقى الجمان فى الاحاديث الصحاح و الحسان (العاملي، حسن بن زين‌الدين الشهيد الثاني (صاحب المعالم ، جلد : 1 ، صفحه : 19 ))میں محمد جعفر استر آبادی لبّ اللباب میں [4] نام کتاب : لب اللباب في علم الرجال (شريعتمدار الأسترآبادي، محمد جعفر) ، جلد : 1 ، صفحه : 121 اور محمد بن اسماعیل حائری منتھی المقال [5]  نام کتاب : منتهى المقال في أحوال الرّجال (المازندراني، محمّد بن إسماعيل) ، جلد : 5 ، صفحه : 163 میں بلکہ محقق مامقانی مقباس الھدایۃ میں لکھتے ہیں کہ :(مقباس الھدایۃ :ج۲،ص۲۵۸ )وکالت کا ہونا مدح کے امارات میں سب سے قوی ہے بلکہ وثاقت اور عدالت کو ثابت کرتا ہے ۔
بعض علماء رجال نے ان بزرگان کی مخالفت کی ہے ،جیسا کہ سید حسن الصدر نھایۃ الدرایۃ میں (نھایۃ الدرایۃ:ص ۴۱۷ )اورالسید الخوئی اپنی معجم رجال میں ان سے اختلاف کیا ہے۔[6]  نام کتاب : معجم رجال الحديث (الخوئي، السيد أبوالقاسم) ، جلد : 17 ، صفحه : 222
اس مقام میں مقتضی تحقیق یہ ہے :کہ کسی شخص کو امامؑ کا وکیل بنانا اس کی وثاقت کے اوپر امارت ہے،بلکہ وکالت کے بعض ایسے پہلو وجوانب بھی ہیں جو وکیل کی عدالت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ بعض جوانب وکیل کی جلالت اور عظمت اور منزلت کو بیان کرتے ہیں جب تک اس کا منحرف ہونا ثابت نہیں ہوتا یا اس کے عقیدے کا فاسد ہونا یا اس کی خیانت کا ثبوت نہیں ملتا ۔وہ جو وکیل منحرف وخائین تھے اور فاسد المذہب ہو وہ تو معروف ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ ان خائنین اور فاسد المذہب وکلاءکے بارے میں ان کے احوال میں بھی تذکرہ بھی موجود اور ہمارے پاس آئمہؑ سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں ان وکلاء کی مزمت میں اور ان کو جھٹلانے اور ان کو رد کرنے کے بیان میں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ وکلاء کب منحرف ہوئےاورانھوں نےاپنا مذہب اور ایمان سے خارج ہوئے اور ان میں تبدیلی وارد ہوئی اسکا وقت بھی ان کے حالات زندگی اور کتب رجالیہ سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہےیہ جو نظریہ ہم نے اختیار کیا ہے کہ کسی شخص کی وکالت کا امام کی جانب سے ہونا اس شخص کی وثاقت کے اوپر علامت ہے ۔اس کے اوپر ان کی دلیل یہ ہے :آئمہؑ کی شان بزگ وبرتر ہے کہ وہ فاسقین اور فاجرین کو اپنا وکیل قرار دیں بلکہ یہ تواہم کرنا انکے حق میں کہ وہ فاسق اور فاجر کو اپنا وکیل قرار دیں یہ انکی توہین ہے اور انکی بلند شان کے اوپر جسارت ہےبلکہ یہ تو ممکن نہیں ہےکہ عادل اور بزرگ فقہا یہ کام کریں کہ فاسقین اور فاجرین کو اپنا وکیل قرار دیں،کجا ہم آئمہ معصومینؑ کے بارے میں یہ گمان کریں ،اور جہاں بک بات حقوق مالیہ کی آجائے جیسے خمس لینے کی بات اور زکوۃ لینے کی بات واوقاف وصدقات کی بات آجائے توکیسے ممکن ہے کہ انھیں وکیل بنا دیں    ۔
گر آئمہ معصومؑ کے لیے جائز قرار دیں کہ ایک شخص فاسق کو انھوں نےاپنے امور کو چلانے کے لیے اختیار کیا ہے ،تو یہ ہتک دین اور دین کی اہانت ہے ،اور مقام عصمت و امامت اس سے بزرگ تر اور اجل تر ہے ۔
ہم نے جو بات بیان کی اس کے اوپر دلیل ،کہ وہ لوگ جنھوں نے وکالت کا جھوٹا دعوا کیا ،تو آئمہؑ نے ان کے اس دعوا کی تکذیب بھی کی اور ان لوگوں کے دعوا کو رد کرنے کے لیے توقیعات صادر کی اس سے بچتے ہوئے تاکہ دین میں کسی قسم کا فساد پیش نہ آئے۔اس کے ساتھ کیسے ممکن ہے کہ امامؑ اپنے امور کی سپردگی کسی فاسق کو کر دیں ۔کہ جن امور کے ذریعے دین کی اساس کو قائم کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے منافع و مصالح کی حفاظت کی جاتی ہے ۔کیسے ان کو وہ فاسقین کے سپرد کرسکتے ہیں ؟
جو ہم نے بیان کیایہ بات بھی اس کے اوپر تائید کے طور پر ملتی ہے  بالخصوص وہ نصوص جس میں آئمہؑ نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کے وکلاء کی اطاعت کریں اور ان کی معصیت سے اجتناب کریں جیسا کہ شیخ نے غیبت طوسی ذکر کیا ہے ،انھوں نے اپنی سند سے محمد بن عیسی سے نقل کیا ہے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ امام نقی ؑ نےاپنے موالیوں کو بغداد ومدائن وسواد ودیگر علاقوں میں لکھ کے بھیجا:میں نے أباعلی بن راشد کو علی بن الحسین بن عبدربه اور ان سے پہلے جتنے بھی وکیل تھے ان سب کی جگہ پر انھیں قرار دیا ہے ۔اور اس کی اطاعت میں میں نے اپنی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے اور اس معصیت کرنا وہ میری معصیت کرنے کی طرف آنا ہے ۔[7] کتاب الغیبة:الطبعةالثانية،ص ۲۱۲
امام نقیؑ سے کشی نے بھی نقل کیا ہے کہ امامؑ نے اپنے بعض وکلاء کو منصوب کرنے کےبعدانکے حق میں یہ کہا   :(میں نے اس کو تولیت دی ہے اس کے علاوہ تم سے پہلے میرے وکلاء تھےانھوں نےجن جن امور کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا تھا ان امور کی تولیت میں نے اس کے سپردکردی ہے تا کہ یہ میرے حق کو لے لے اور میں اس کےاوپر تو لوگوں کے لیے راضی ہوں ،اور اس باب میں میں نےاس کو دیگر کے اوپر مقدم کیا ہے اور یہ اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے اور یہ اسکا مقام ومنزلت بھی ہے )۔[8] رجال کشی :طبع مؤسسہ آل البیت ،ص۸۰۰
کلینی اپنی سند سے حسن بن عبدالحمیدسے نقل کرتے ہیں بیان کرتے ہیں کہ:میں نے شک کیا کہ حاجز بن یزیدوکیل ہے کہ نہیں میں نے بعض اس کی باتیں اور امور جمع کیے پھر میں محلہ عسکر چلا گیا ۔میرے پاس یہ مکتوب آیا کہ شک کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے ،اور وہ ہمارے امر کے اعتبار سے قائے مقام ہے یعنی وہ نہ ہم میں سےاور اسکا شمار ان لوگوں میں سے ہوتا ہے جن کو میں تم لوگوں پر اپنا قائم مقام قرار دیا ہے تم اس گروہ میں بھی شمار نہیں ہو گے۔تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ حاجز بن یزید کے پاس لوٹا دو ۔[9] کلینی ،محمد بن یعقوب،اصول کافی:ج۱،ص۵۲۱،ح۱۴
اس کی دلالت میں اشکال کیا گیا ہے :امام ؑ کے قول سے مراد ومقصودیہ ہے کہ  :(یہاں پے امر کے قائم مقام سے مراد نیابت وسفارت ہے ،کہتے ہیں کہ یہ جواشکال ہے یہ وارد نہیں ہے ،کیونکہ یہ امامؑ کااطلاق وکالت کو شامل ہے اس کے برخلاف ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ آپ ادھرسے نیابت اور سفارت کا معنی لے لیں ؟اس جملے کا مورد وکالت ہے ،کیا یہ ممکن ہے آپ اس کو شامل کریں اس مورد سے ہٹ کے یعنی جو وکالت کے لیے ہے اس سے ہٹ کے ایک معنی لے لیں یہ کیسے ممکن ہے ؟مصنف کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیثیں نقل کی ہیں یہ ضعیف ہیں عبد الحمید کی مدح اور توثیق میں کچھ بھی وارد نہیں ہوا ۔یہ تو تب تھا کہ وکالت امور دینی میں ہویا وکالت مالیات لینے میں ہویا وکالت عمومی ہو گی ۔
اگر وہ اپنے شخصی امور میں کسی کو وکیل بناتے ہیں جیسے خادم یا بوّاب یا انکی طرح کہ نہ وہ مال میں تصرف کر سکتے ہیں نہ ہی امور دین میں سے کسی امر میں دخالت رکھتے ہیں تو یہاں پے ان کی وثاقت کا حکم لگانا قابل اشکال ہے کیونکہ ان کی وکالت اس باب میں اس سے ثابت نہیں ہوتی ۔
کہتے ہیں کہ ہم یہاں پے جو اپنا نظریہ بیان کرتے ہیں وہ تفصیل کا ہے کہ اس طرح کے شخصی امور اور وکالت عامہ ،یا وکالت جو امور دینیہ یا حقوق مالیہ میں ہے اس میں تفصیل ہے ،جیسا کہ غائب شدہ کے اموال ہیں ان کے اموال کی تولیت ان کے سپر د ہو گی ،اوقاف وزکاۃ لینا وخمس اور صدقات لینا وغیرہ کی تولیت یہ امور اموال سے تعلق رکھتے ہیں ۔
ہم نے یہ جوبات بیان کی ہے کہ وکالت عامہ اور امور دینیہ ار حقوق مالیہ اس میں وثاقت کے لیے علامت شمار ہوتی ہےوکالت امور شخصیہ میں وکالت وثاقت کی علامت شمار نہیں ہوتی ۔حقیقت میں خادم اور بوّاب کے اوپر وکالت کا عنوان اطلاق نہیں کرتا کیونکہ معاشرے کے افراد جب خادم اور بوّاب کا لفظ سنتے ہیں ان کے ذہنوں میں وکالت کے علاوہ کوئی اور عنوان آتا ہے اور وہ عنوان خدمت گزار کا ہے ،امامؑ کی جانب سے وکالت کا قرار دینے سے اس میں مقصود وثاقت کا علامت اس کے لیے ہونا ہے اس میں اس چیز کو کشف کرتا ہے کہ یہ خادم اور بوّاب نہیں ہے بلکہ وکیل ہے عرف میں لفظ وکالت سے مرتکز یہی معنی ہے  ۔اب ہم مطلق طور پےاس بات کو بیان کرسکتے ہیں:کہ وکالت امامؑ کی جانب سے وثاقت کی دلیل ہے ۔
وہ شخص جو ہمیشہ امامؑ کے ساتھ رہتا ہے یا ان کے خواص میں شمار ہوتا ہے یا امامؑ کی طرف سے کاتب ہے ،قوی قول یہ ہے کہ یہ بھی وکالت کی طرح أمارات وثاقت میں شمار ہوگأ۔اس کی بھی وہی وجہ ہے کہ جو ہم نےوکالت کی امارت کے ضمن میں  استدلال بیان کیا ہے ،امام کی منزلت اور مقام اس سے اجل اور بزرگ تر ہے کہ وہ فاسق اور فاجر کو اپنے خواص میں شامل کریں امامت کے مقام کی جو منزلت وشأن ہے وہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ فاسقین کو یہ عہدہ نہ دیں ،اس لیے کسی کا عادل اور کاتب ہونا ثقہ وعادل ہونے کی بنیاد پر ہے ،اگرچہ کاتب کا اماریت ہونا وہ قوت نہیں رکھتا جو قوت اماریت وثاقت کو حاصل ہے ۔ہاں بعض اوقات ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص امامؑ کے ساتھ رہا ہو یا امامؑ کا کاتب رہا ہولیکن اس سے یہ عمل انجام پانا اس کی وثاقت کی دلیل نہیں بنتا لیکن ایک شخص جو ہمیشہ یاغالبا امامؑ کےساتھ رہا یا انکا کاتب رہا یہ یقینا وثاقت کے اوپر دال ہے یہاں تک کہ وہ امامؑ کے خاص اصحاب میں شمار ہونے لگا ۔جیسا کہ امامؑ کا فقط صحابی ہونا یہ تو اتنی قوت بھی نہیں رکھتا کہ اس کی مدح اور حسن حال کے اوپر دلالت کرےکہاں آپ انکے بارے میں وثاقت کی بات کریں ۔کتنے ایسے افراد ہیں کہ جنھوں نے نبیﷺ اور امامؑ کے صحابی ہونے کے شرف حاصل کیا بلکہ کتنے ایسے افراد ہیں جن کے فسق اورحق سے منحرف ہونے میں کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں ہے انھوں نےان سے کتنی حدیثیں نقل کی ہیں یہ ان کے برخلاف ہے کہ جن کے بارے میں یہ خصوصی طور پر یہ کہا گیا ہے کہ یہ شخص نبیﷺ یا امامؑ کے خاص اصحاب میں سے تھا ۔

منابع:

منابع:
1 سیفی مازندرانی ،علی اکبر،مقیاس الرِّواية ،ص ۵۵
2 راجع تعلیقہ علی المقال :ص۲۱
3 نام کتاب : منتقى الجمان فى الاحاديث الصحاح و الحسان (العاملي، حسن بن زين‌الدين الشهيد الثاني (صاحب المعالم
4 نام کتاب : لب اللباب في علم الرجال (شريعتمدار الأسترآبادي، محمد جعفر) ، جلد : 1 ، صفحه : 121
5   نام کتاب : منتهى المقال في أحوال الرّجال (المازندراني، محمّد بن إسماعيل) ، جلد : 5 ، صفحه : 163
6   نام کتاب : معجم رجال الحديث (الخوئي، السيد أبوالقاسم) ، جلد : 17 ، صفحه : 222
7 کتاب الغیبة:الطبعةالثانية،ص ۲۱۲
8 رجال کشی :طبع مؤسسہ آل البیت ،ص۸۰۰
9 کلینی ،محمد بن یعقوب،اصول کافی:ج۱،ص۵۲۱،ح۱۴
Views: 6