علماء رجال کے اقوال کی حجیت
علم رجال کی اہم ترین ابحاث میں سے ایک بحث قولِ رجالی کی حجیت سے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرح و تعدیل کے باب میں کس ضابطہ اور کس دلیل کی بناء پر کسی راوی کی توثیق یا تضعیف قبول کی جائے گی؟آیا اصحابِ جرح و تعدیل کا کسی راوی کو ثقہ یا ضعیف قرار دینا شہادت و گواہی کے باب سے ہے یا خبر واحد کے طور پر یا عادل کی خبر دینے کی جہت سے ہے؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں جن میں سے اہم اقوال درج ذیل ہیں:
فہرست مقالہ
قول اول
حجیت خبر واحد پر پہلا قول سید مرتضی علم الہدی کا اور ان کے پیروکاروں کا ہے۔ سید مرتضی کے قول کے مطابق خبر واحد چونکہ علم کا فائدہ نہیں دیتی اس لیے ہمارے لیے فاقد اعتبار ہے صرف وہ اخبار حجیت رکھتی ہیں جو قطعی الصدور ہیں اور ایسے قرائن کے ہمراہ ہیں جو ہمیں یقین کا فائدہ دیتی ہیں۔[1] شیخ مرتضی، علی بن حسین، الذریعۃ الی اصول الشریعۃ، ج۱، ص۵۳۱۔
قول دوم
صرف عادل شخص کی خبر قبول ہے۔ اگر عدالت ثابت نہ ہو وہ خبر ہمارے لیے حجیت نہیں رکھتی۔ عدالت سے مراد راوی کا شیعہ اثنا عشری ہونا ہے۔ محقق حلی، صاحب معالم اور شہید ثانی نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔[2] شہید ثانی، علی بن احمد، الرعایۃ فی علم الدرایہ، ج۱، ص۷۳۔
قول سوم
خصوص ثقہ کی خبر حجیت رکھتی ہے۔ با الفاظ دیگر اگر راوی ثقہ ہے تو اس کا نقل کردہ بیان ہمارے لیے حجیت رکھتا ہے لیکن اگر راوی ثقہ نہیں ہے تو اس کی روایت حجیت نہیں رکھتی۔ راوی کا شیعہ اثنا عشری ہونا بھی ضروری نہیں ہے صرف یہ پتہ چل جاۓ کہ روایت بیان کرنے میں جھوٹ نہیں بولتا قابل اعتماد ہے تو اس کی خبر حجت ہے۔ شیخ انصاری اور موجودہ فقہاء میں آیت اللہ سیستانی اور آیت اللہ وحید خراسانی اسی قول کو اختیار کرتے ہیں۔[3] مظفر ، محمد رضا ، اصول الفقہ، ج۲، ص ۸۱۔ [4] شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، ج۱، ص۱۲۵۔
قول چہارم
خبر واحد موثوق بہ حجیت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو امام سے خبر کے صادر ہونے کا یقین ہو جاۓ چاہے یہ یقین خصوصی طور پر حاصل ہو یا قرائن کی مدد سے ثابت ہو جاۓ۔ اس قول کے مطابق روایت کے سب رواۃ کا ثقہ ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر بعض راوی ضعیف بھی ہوں لیکن آپ کو بعض قرائن کی بنا پر خبر کے صدور کا یقین ہو جاۓ کافی ہے۔ شہید صدرؒ اور موجودہ ایرانی بعض فقہاء اس قول کو اختیار کرتے ہیں۔[5] حوالہ درکار ہے۔
قول پنجم
وثوق اور اطمینان صدور حجیت کا باعث بنتا ہے۔ اگر وثوق اور اطمینان حاصل ہو جاۓ روایت کے صادر ہونے کا کافی ہے۔
قول ششم
ہمارے اصحاب اور علماء نے جن روایات پر عمل کیا ہے وہ روایات حجت ہیں جن پر عمل نہیں کیا وہ حجت نہیں ہیں۔[6] حوالہ درکار ہے۔
حجیت خبر واحد اور اس پر اقوال
علم حدیث کی اصطلاح میں خبر واحد اس روایت کو کہتے ہیں جس بارے میں ہمیں یقین نہ ہو کہ واقعا امام سے صادر ہوئی ہے یا نہیں۔ اس کے مقابلے میں خبر متواتر ہے جس کے بارے میں ہمیں یقین ہوتا ہے کہ امام سے صادر ہوئی ہے۔ [7] حکیم، سید محمد تقی، اصول عامہ، ج ۱، ص ۱۹۷۔ چونکہ خبر واحد یقین کا فائدہ نہیں دیتی اور ظن کا باعث بنتی ہے اس لیے حکم اولی کے طور پر ہمارے لیے حجیت نہیں رکھتی۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:
يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثيراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ.
ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان یقینا گناہ ہیں۔ [8] حجرات: ۱۲۔
لیکن ہمارے پاس چند ادلہ ہیں جن سے ثابت ہو جاتا ہے کہ شارع مقدس نے ایک مورد استثنائی طور پر ایسا قرار دیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خبر واحد حجت ہے اور ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔ اصولی علماء نے قرآن و روایات سے خبر واحد کی حجیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ سب ادلہ ہی قابل اشکال ہیں۔ ایک دلیل جو محکم اور قابل اثبات ہے سیرت عقلائیہ ہے۔ تمام عقلاء ہی ثقہ کی خبر کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اگر شارع کی نظر میں عقلاء کی یہ سیرت درست نہ ہوتی تو حتما اعتراض کرتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ شارع نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔[9] نائینی، محمد حسین، فوائد الاصول، ج۳، ص۱۹۴۔
۔
منابع:
↑1 | شیخ مرتضی، علی بن حسین، الذریعۃ الی اصول الشریعۃ، ج۱، ص۵۳۱۔ |
---|---|
↑2 | شہید ثانی، علی بن احمد، الرعایۃ فی علم الدرایہ، ج۱، ص۷۳۔ |
↑3 | مظفر ، محمد رضا ، اصول الفقہ، ج۲، ص ۸۱۔ |
↑4 | شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، ج۱، ص۱۲۵۔ |
↑5, ↑6 | حوالہ درکار ہے۔ |
↑7 | حکیم، سید محمد تقی، اصول عامہ، ج ۱، ص ۱۹۷۔ |
↑8 | حجرات: ۱۲۔ |
↑9 | نائینی، محمد حسین، فوائد الاصول، ج۳، ص۱۹۴۔ |