شہادت… خیال سے حقیقت کا ایک سفر
تحریر : سید محمد حسن رضوى
راہِ شہادت پر ثابت قدمی سے گامزن رہنا اور دنیا کے جھمیلوں میں دین کى آباد کارى کے راستوں میں قدم رکھنا ’’ خیال سے حقیقت کا ایک سفر ‘‘ ہے جس کا اختتام راہِ الہٰى پر اپنے وجود کو قربان کرنے دینے اور لقاء اللہ کے بحرِ بیکراں میں فناء ہوجانےکى صورت میں نکلتا ہے۔ اگرچے یہ سفر خطرات و زحمات میں گھرا ہوا ہے لیکن ان خطرات میں اطمینان اور زحمات میں ایمان ہے …
🍂 انسان جب کسى کمال کو دیکھتا اور جرأت مند داستانوں کو سنتا ہے تو اس کى قوتِ خیال فوراً اس کی ذات کو اُس کمال سے آراستہ کر دیتى ہے اور اسے صاحبِ جمال و کمال بنا کر بلند مرتبہ کا حامل دکھاتی ہے … لیکن دنیائے خیال کا شہسوار جب دنیائے عمل میں قدم رکھتا ہے تو بھونچکا سا ہو کر رہ جاتا ہے اور خیالات کے آئینے میں بنی ہوئی دلکش و دلفریب تصویر کو ٹوٹتا ہوا دیکھتا ہے تو جان لیتا ہے کہ ابھی ارادہِ محکم اور عزمِ پیہم کے ساتھ خیال سے حقیقت کا سفر کرنے کی ضرورت ہے …
🍂 خیال بھى عجیب دنیا ہے جو انسان کو کبھى تو حقیقت سے کوساں دور لے جاتى ہے اور کبھى خواہشات و تمناؤں کے متلاطم سمندر میں طوفانِ سرکشی اٹھا کر بے قرار و بے تاب کر دیتی ہے … خیال تو قلمِ آزاد ہے جو نفس وجود پر بغیر کسی زحمت و مشقت کے کسی بھی منظر کی تصویر کشی کر سکتی ہے ، پھر انسان تصورات کے بادلوں میں سوچوں کی حرکت سے جو بننا چاہے اور جو بنانا چاہے بنا سکتا ہے … خیال کو زحمت و مشقت سے کیا واسطہ !! وہ تو ایک جنبش سے شجاعت کی تاریخ رقم کر دیتی ہے اور مرحلہِ صبر و جگر ایک آن میں طے کر کے دنیائے تخیلات کو رنگین کر دیتی ہے …
لیکن… ليكن حقیقت كی دنیا ہى جدا ہے… یہ وہ دنیا ہے جس میں کچھ برپا کرنے کے لیے صبر و تحمل کے کٹھن مراحل طے کرنے پڑتے ہیں …[1]بلد: ۴۔ حقیقت کى آباد کارى میں خونِ جگر بہانا پڑتا ہے جس کا ثمرہ معمولى سی ہریالى کى صورت میں برآمد ہوتا ہے…خواہشات کی قربانی ، اپنوں سے دوری ، دَرد و تکلیف کی سختیوں میں مسکرانا ، غموں کے تیروں کو سینے کی وسعتوں میں گم کر دینا ، خلوص و وفا کے تاجروں میں بے لوث خدمت کی سخاوت ، تنہائیوں کی وحشتوں میں ذکرِ الہٰی کی رونقیں ، معاشرے کی بے رخی پر جذبات کی موجوں کو پُر سکون رکھنا، دنیا کی رنگینوں سے اُکتاہٹ محسوس کرنا اور ترکِ لذت کی لذت سے آشنا ہونا ’’راہِ حقیقت ‘‘ کے مسافر کی پہچان ہے…
🍃 ترکِ دنیا میں رونقِ دنیا بھى ہے اورحُسن ِآخرت بھى۔ ’’دنیا‘‘ خوبصورت اور نرم و ملائم ہے لیکن اس کے آرام میں اضطراب اور اس کی لذتِ حلال میں حساب اور لذتِ حرام میں عذاب ہے … [2]سید رضی، نہج البلاغہ ، ص ۱۰۶، خطبہ ۸۲۔ ’’خیال‘‘ دنیا کو جنّت بنا کر پیش کرتا ہے اور حقیقت کو حماقت سے تعبیر کرتا ہے … تخیلات کی صداؤں پر لبیک کہنے والا دنیا کے بھنور میں ایسا پھنس جاتا ہےجس سے چھٹکارا ممکن دکھائی نہیں دیتا … ایسے میں انسان اپنے آپ ہی سے غداری کرنے لگتا ہے اورمعلومات کی جمع آوری کو انتہاءِ معرفت کا نام دیتا ہے اور عمل کی آزمائش سے فرار کرتے ہوئے زبانی کلامی دعوؤں پر زندگی بسر کرنا اپنا وتیرہ بنا لیتا ہے !! انسانى معلومات عمل کی زمین پر اظہارِ وجود نہ کریں تو یہ معلومات بھی ایک نوع تخیل ہے یا محض عقلی مجموعہِ تصور ہے … اگر علم کا عمل سے جوڑ ہو جائے اور روحِ معرفت عمل کے جسم سے تعلق پیدا کر لے تو یہاں حقیقت کو زندگی مل جاتی ہے اور انسان حقیقت سے وابستہ ہو جاتا ہے … پس معلومات کو عمل کا جامہ پہنانا دراصل ’’ خیال سے حقیقت کاایک سفر ‘‘ ہے۔
🍃 عموماً انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ دنیا بھی خوب رکھتا ہو اور دین کی خاطر تمام خطرات مول کر جان فدا کرنے والی شہرت یافتہ شخصیات میں سے بھی ہو ۔ وہ دنیا کے حصول میں لذت و عزت جبکہ دین میں اطمینان و سکون کا احساس کرتا ہے… پھر ہر دو کو جمع کرنے کی سرتوڑ کوشش کرنے لگتا ہے۔ لیکن جب اسے دنیائے حقیقت میں ان دنوں کا جمع ہونا محال نظر آتا تو اپنی فکر و نظر کی اصلاح کی بجائے اپنے ’’خیال‘‘ کو آباد کر لیتا ہے ۔ جب سوچیں آباد اور خیال آزاد ہو جائے تو اب کیا مشکل ہے !! اب تو وہ بہترین تاجر، مال و ثروت کا دلدادہ ، دنیا کی رونقوں میں گم اور لذتِ دنیا کا عادی بھی ہے اور دوسری طرف علم و عمل سے آراستہ سربکف مجاہد بھی !! ’’خیال کا آزاد قلم‘‘ اب اس کے پردہِ ذہن میں یہ منظر کشی کرتا ہے کہ اگر ہمارے مولی و آقاؑ نے ایک اشارہ کیا تو اپنا تَن مَن کیا اپنی آل اولاد و مال سب لوٹا دوں گا !! ہمارے جذبات و احساسات کی کسی کو کیا خبر …ہمارے باطنی مقام و منزلت سے کہاں کوئی آشنا … اگر قربانی دینے والوں کی فہرست بنیں تو ہم سرفہرست ہوں گے … اگر دفاع کرنے والوں کے نام لکھے جائیں تو ہم سینہ سپرصفِ اول کے مجاہد ہوں گے !! اگر مال و اسباب کی قربانی کی بات آئے تو دنیا سے بے رخی برَت کر سب مال و متاع اپنے مولا اور آقا کے قدموں میں رکھنے والوں میں تم ہمیں پاؤ گے !! ذرا ایک مرتبہ پھر امام وقت ؑ سے’’ھل من ناصر‘‘ کی صدا تو بلند ہونے دو پھر معلوم ہو گا کہ اس عصر کا حبیب کون ہے اور میدانِ کار زار کا اشتر کون ہے !! ہمیں منصب داروں اور آقاؤں میں مت تلاش کرنا ہم تو تمہیں اپنے مولا اور آقا کے قدموں میں ملیں گے !! غلامی کے سلیقے ہم سے پوچھو !! آقا کے بدلتے تیور دیکھ کر جو قدم اٹھا لے ہمیں ان اطاعت گزاروں میں شمار کرنا !! ہمارے جذبات کو ابھی پُر سکون رہنے دو اگر یہ بپھر گئے تو طوفانوں کے رخ کو موڑ دینے والے ، دشمن پر چیتے کی لپک سے حملہ آور ہونے والے ، بلندیوں کی سختیوں کو جھیلنے میں شاہین کو مات دے جانے والے ہم ہی تمہیں دکھائی دیں گے !! زمانہ ہمیں آزما کر تو دیکھے امامؑ کے ہونٹوں کی جنبش سے ایک حرف ادا ہو تو ہم دنیا کو ان کے قدموں میں حاضر کر دیں گے !! ایسے میں اگر کوئی اہل بیت عصمتؑ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے یا ان کی عزت و آبرو پر زبان دراز کرے یا ان کے حرَم و مقدسات پر حملہ کرے تونصرت و دفاع کرنے والوں میں سب سے آگے ہمیں ہی پاؤ گے !!! لوگ کیا جانیں میں کتنى محبت و مؤدت رکھتا ہوں ، میں جس منزلِ محبت پر پہنچا ہوا ہوں دوسرے کو اس کی کیا خبر !! زمانے کو توتب پتہ چلے گا جب امام زمانہؑ تشریف لائیں گے اور تمام بندوں میں مجھے اپنا خادم یا گارڈ یا لشکر کا سپہ سالار بنائیں گے …!! ’’خیالات کی وادیوں میں گم انسان‘‘ ان سب مقامات و مراتب سے اپنے آپ کو آراستہ دیکھتا ہے اور اسی زعم میں دنیا کی بھاگ دوڑ میں مشغول زندگی بسر کر دیتا ہے … حقیقت تو تب آشکار ہوتی ہے جب حالات پلٹا کھاتے ہیں اور میدانِ کار زار سج جاتا ہے اور خطرات ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ ہیں اور انسان کو دوراہے پر کھڑا کرتے ہیں کہ کیا کانوں میں پڑنے والی ’’ھل من ناصر‘‘ کی صدا پر لبیک کہوں یا کانوں کو گونگا اور آشناؤں کو اجنبی بنا لوں !! جس کی زندگی کا معمول خطرات سے اجتناب اور گھر بار و آرام ہو تو اس کے یہ خیالات حقیقت کا رخ اختیار نہیں کر پاتے ۔ آہستہ آہستہ خیالی دنیا کا شہسوار ناامیدى، سستى، مایوسى اور آرام طلبى کا شکار ہو کر اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر دنیا کى آغوش میں سو جاتا ہے اور اس طرح جان و مال کےکھو جانے کے خوف سے سہمی ہوئی غلام روحیں معاشرے کی زندگی میں گم ہو جاتی ہیں …[3]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۷۳، خطبہ ۲۹۔
🌷 راہِ شہادت کے راہى اور دین حق کے فدائی کا اندازِ زندگی ہی جدا ہے … وہ حقیقت میں رہنا چاہتا ہے اور خیالی پروازوں کو حقیقی رخ عطا کرنا چاہتا ہے … اگرچے حق کى حمایت بھى ایک کمال ہے لیکن اس کمال کو حقیقت چاہیے جو نصرت، مقاومت اور استقامت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی … شہادت کا آروز مند اس حقیقت کو وظیفہ اور ذمہ داری سمجھتے ہوئے ثابت قدمی سے انجام دیتا ہے… اب ترکِ دنیا کرنا پڑے تو مسافرِ حق جرأت کی داستان بن جاتا ہے ، اگر موت سے گلے لگانا پڑے تو یہ شجاعت کی عملی تصویر بن جاتا ہے ، اگر قیدو بند کی آزمائش کا سامان کرنا پڑے تو یہ زمانے کے اوراق پر صبر و شکیبائی کی عظیم تحریر بن جاتا ہے … اگر معاشرہ سکوتِ جرم اختیار کر لے تو یہ ’’مردِبلند ہمت ‘‘حق کی صدا بن کر سکوت کی چھائی ہوئی گھٹاؤں میں امید کی کرن بن جاتا ہے … جب باطل پنجے گاڑ کر غلامی کا قلادہ پہنا دیتا ہے تو یہ بت شکن حرّیت کاعلمبردار بن جاتا ہے … خوف و خطر کا اس پر سے گزر کہاں ، اس کی تو آرزو ہی شہادت تھی !! یہ اپنے وجود میں پہلے ہی موت سے گلے لگا چکا تھا … اگر شہید ہو گیا تو اپنے عہدو پیمان کو نبھاتے ہوئے اپنی آرزؤ کو پا گیا … اگر زندہ ہے دولتِ شہادت سے ہمکنار ہونے کے بعد منتظر ہے کب دنیائے عمل میں منزلِ شہادت آتی ہے اور بے تاب و بے قرار عاشق کو اپنے محبوب سے لقاء کےپُر سکون لمحات میسر آتے ہیں جہاں نہ جدائی کا اندیشہ ہے اور نہ بچھڑنے کا کوئی غم … [4]احزاب: ۲۳۔
🌱 ترک دنیا کا مطلب کھانا پینا یا ملنا ملانا ترک کردینا نہیں ہے بلکہ اپنے نفس اور اپنے گھر بار آل اولاد کی رنگینوں کی قربانی کی تلخیوں کو جھیلتے ہوئے اپنے عہد و پیمان کوخون کے آخری قطرے تک نبھا کر سرخرو ہونے کا نام ’’ ترک دنیا ‘‘ ہے ۔۔ امام على علیہ السلام نہج البلاغہ میں ایسے کامیاب اور عظیم انسانوں کی زندگی کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
’’ اللہ کے بندو!تمہیں جاننا چاہیے کہ اہل تقوی نے جانے والی دنیا اور آنے والی آخرت دونوں کے فائدے اٹھائے۔ وہ دنیا والوں کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے، مگر دنیا دار ان کی آخرت میں حصہ نہ لے سکے۔ وہ دنیا میں بہترین طریقہ پر رہے اور اچھے سے اچھا کھایا اور اس طرح وہ ان تمام چیزوں سے بہرہ یاب ہوئے جو عیش پسند لوگوں کو حاصل تھیں اور وہ سب کچھ حاصل کیا کہ جو سرکش و متکبر لوگوں کو حاصل تھا۔ پھر وہ منزل مقصود پر پہنچانے والے زاد کا ساز و سامان اور نفع کا سودا کر کے دنیا سے روانہ ہوئے۔ انہوں نے دنیا میں رہتے ہوئے ترک دنیا کی لذت چکھی اور یہ یقین رکھا کہ وہ کل اللہ کے پڑوس میں ہوں گے، جہاں نہ ان کی کوئی آواز ٹھکرائی جائے گی، نہ ان کے حظ و نصیب میں کمی ہو گی‘‘۔ [5]سید رضی، نہج البلاغہ ، ص ۳۸۳، مکتوب ۲۷۔