تحریر: سید محمد حسن رضوی
معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص کا شمار ان بدترین دشمنانِ اسلام میں ہوتا ہے جنہیں رسول اللہ ﷺ کے حکم سے خصوصی طور پر قتل کیا گیا اور اس کے شر سے عالم اسلام کو نجات عطا کی گئی۔ معاویہ بن مغیرہ وہی شخص ہے جو جناب حمزہؑ کے قتل میں شریک تھا اور اس نے جناب حمزہ ؑ کو ہند بنت عتبہ (زوجہ ابو سفیان )کے ساتھ مثلہ کیا۔ اس کا پورا نام ’’معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص بن امیہ‘‘ ہے جو کہ مروان بن حکم کا چچا زاد اور اس کی بیٹی عائشہ عبد الملک بن مروان کی ماں تھی۔ [1]ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج ۶، ص ۱۲۷، رقم: ۸۱۰۰۔ ابن اثیر نے الکامل میں معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص کے بارے میں نقل کیا ہےکہ یہی وہ شخص ہے جس نے جناب حمزہ ؑ کا مثلہ کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو ان تمام افراد سے شدید نفرت تھی جو جناب حمزہؑ کے قتل میں شریک ہوئے اور انہیں مثلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ معاویہ بن مغیرہ جب مسلمانوں کے ہتھے چڑھا تو اس کو قتل کر دیا گیا۔
فہرست مقالہ
رسول اللہ ﷺ کا جناب حمزہؑ کا غم منانا
رسول اللہ ﷺ کو جناب حمزہؑ سے انتہائی محبت و عقیدت تھی کیونکہ جناب ابو طالبؑ کے بعد آپ ہی وہ شخصیت ہیں جو امام علیؑ کے ہمراہ مسلسل رسول اللہ ﷺ کا دفاع کرتے رہے اور اسلام کی سربلندی کےلیے اپنی شخصیت و ہستی کو قربان کر دیا۔ تاریخ میں وارد ہوا ہے کہ جنگ اُحد میں مسلمانوں کے منتشر ہونے اور رسول اللہ ﷺ کے زخمی ہونے کے بعد مطلع صاف ہوا اور میدان جنگ سے دشمن چلا گیا تو آپ ﷺ مسلسل جناب حمزہؑ کو ڈھونڈتے رہے لیکن آپ ﷺ کو کہیں جناب حمزہؑ دکھائی نہ دئیے۔ آنحضرتﷺ مسلسل جناب حمزہؑ کو پوچھتے رہے لیکن کسی کو بتانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں اور مثلہ کیے گئے ہیں۔ بلاذُری نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حارث بن صمہ انصاری سے دریافت کیا کہ میرے چچا حمزہؑ کے بارے میں کوئی خبر ہے!! حارث نے آپﷺ کو ان کی شہادت کی خبر دینا مناسب نہیں سمجھا ، پھر آنحضرتﷺ نے امام علیؑ سے دریافت کیا لیکن امام علیؑ بھی اس ناگوار خبر سے مطلع کرنے کی جرأت نہیں کر سکے، پھر آپﷺ نے سہل بن حنیف انصاری سے پوچھا لیکن وہ بھی نہیں بتا سکے، پھر آپﷺ نے جناب عمار سے دریافت کیا تو اب کوئی چارہ نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ سے اس خبر کو چھپا کر رکھا جائے، چنانچہ جناب عمارؓ نے ہمت باندھتے ہوئے آنحضرتﷺ کو جناب حمزہؑ کی مصیبت کی خبر سنائی جسے سنتے ساتھ آنحضرتﷺ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور فرمایا: ان کی مانند کوئی مصیبت میں مبتلا نہیں ہوا اور اللہ ہی سے میں صبر چاہتا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ خود آگے بڑھے اور جناب حمزہؑ کو مقتولین میں تلاش کیا اور جب آپﷺ کی نگاہیں وادی کے دامن میں جناب حمزہؑ کے مثلہ کیے گئے جسد مبارک پر پڑیں تو آپ ﷺ گریہ فرمانے لگے۔ آپﷺ نے جناب حمزہ ؑ کو خود کفن دیا لیکن جب چادر سر پر کرتے تو پاؤں ظاہر ہو جاتے اور پاؤں کو ڈھانپا جاتا تو سر عیاں ہو جاتا۔ آپﷺ نے انہیں اسی حالت میں دفنا دیا۔ [2]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۴، ص ۲۸۸۔ رسول اللہ ﷺ کو جناب حمزہؑ کے دشمنوں سے شدید نفرت تھی اور انہیں ایک ذرہ مہلت نہیں دینا چاہتے تھے۔ کرنا ایسا ہوا کہ جناب حمزہؑ کے قاتلوں میں سے ایک قاتل معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص راستہ بھٹکنے کی وجہ سے مدینہ آ گیا ۔ اس کی اطلاع آپﷺ کو پہنچی گئی لیکن تعجب آور بات ہے کہ یہاں قبائلی حمیت اور خاندانی نسبتیں غالب آ گئیں اور اس پست ترین شخص کی سفارش لے کر حضرت عثمان آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔
معاویہ بن مغیرہ کا قتل :
رسول اللہ ﷺ کو جیسے یہ خبر ملی کہ معاویہ بن مغیرہ مدینہ میں موجود ہے آپ ﷺ نے فورا اس کی گرفتاری کے لیے افراد روانہ کر دیئے لیکن حضرت عثمان کی سفارش پر اپنے اوپر جبر کرتے ہوئے آنحضرتﷺ نے اس کو فرار کے لیے تین دن کی مہلت دے دی۔ اس واقعہ کو ابن اثیر نے الکامل میں اس طرح رقم کیا ہے:
وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ بْنُ الْمُغِيرَةِ بْنِ أَبِي الْعَاصِ بْنِ أُمَيَّةَ، وَهُوَ الَّذِي جَدَعَ أَنْفَ حَمْزَةَ وَمَثَّلَ بِهِ مَعَ مَنْ مَثَّلَ بِهِ، وَكَانَ قَدْ أَخْطَأَ الطَّرِيقَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَى دَارَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَلَمَّا رَآهُ قَالَ لَهُ عُثْمَانُ: أَهْلَكْتَنِي وَأَهْلَكْتَ نَفْسَكَ. فَقَالَ: أَنْتَ أَقْرَبُهُمْ مِنِّي رَحِمًا، وَقَدْ جِئْتُكَ لِتُجِيرَنِي. وَأَدْخَلَهُ عُثْمَانُ دَارَهُ، وَقَصَدَ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لِيُشَفَّعَ فِيهِ، فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: إِنْ مُعَاوِيَةَ بِالْمَدِينَةِ فَاطْلُبُوهُ. فَأَخْرَجُوهُ مِنْ مَنْزِلِ عُثْمَانَ، وَانْطَلَقُوا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ عُثْمَانُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا جِئْتُ إِلَّا لِأَطْلُبَ لَهُ أَمَانًا فَهَبْهُ لِي، فَوَهَبَهُ لَهُ وَأَجَّلَهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَأَقْسَمَ لَئِنْ أَقَامَ بَعْدَهَا لِيَقْتُلَنَّهُ، فَجَهَّزَهُ عُثْمَانُ وَقَالَ لَهُ: ارْتَحِلْ. وَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – إِلَى حَمْرَاءِ الْأَسَدِ، وَأَقَامَ مُعَاوِيَةُ لِيَعْرِفَ أَخْبَارَ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الرَّابِعُ قَالَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مُعَاوِيَةَ يُصْبِحُ قَرِيبًا وَلَمْ يَبْعُدْ، فَاطْلُبُوهُ، فَطَلَبَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ وَعَمَّارٌ فَأَدْرَكَاهُ بِالْحُمَاةِ، فَقَتَلَاهُ. وَهَذَا مُعَاوِيَةُ جَدُّ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ لِأُمِّهِ.[3]ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج ۲، ص ۵۳۔
ترجمہ: معاویہ بن مغیرۃ بن ابی العاص وہ شخص ہے جس نے جناب حمزہؑ کی ناک کو کاٹا اور مُثلہ کرنے والوں کے ساتھ مثلہ کیا۔ معاویہ بن مغیرہ جنگ اُحد میں راستہ بھول گیا اور جب صبح ہوئی تو وہ سیدھا عثما ن بن عفان کے گھر آ گیا۔ جب اس نے عثمان کو دیکھا تو حضرت عثمان نے اس کو کہا: تم نے مجھے بھی ہلاکت میں ڈال دیا ہے اور اپنے آپ کو بھی ہلاکت کے سپرد کر دیا ہے۔ معاویہ بن مغیرہ نے کہا: تم ان کی نسبت میرے قریبی ترین رشتہ دار ہو، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ تم مجھے پناہ دو۔ حضرت عثمان نے معاویہ کو اپنے گھر میں داخل کر لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ معاویہ کی سفارش کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے تمام بات سنی تو فرمایا: معاویہ مدینہ میں ہے ، جاؤ اس کو تلاش کرو، صحابہ نے معاویہ کو عثمان کے گھر سے گرفتار کر لیا اور اس کو لے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے، حضرت عثمان نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں تو اس کے لیے امان کا مطالبہ کرنے آیا تھا ، مہربانی فرما کر آپﷺ اس کو میرے سپرد کر دیں، رسول اللہ ﷺ نے معاویہ کو عثمان کے حوالے کر دیا اور تین دن کی مہلت دی کہ معاویہ مدینہ سے نکل جائے اور قسم کہا کر فرمایا: اگر تین کے بعد یہ نظر آیا تو وہ اس کو ہر صورت میں قتل کر دیں گے۔ عثمان نے معاویہ بن مغیرہ کے لیے سفر کے تمام وسائل مہیا کر کے دیئے أور کہا کہ مدینہ سے چل پڑو۔ رسول اللہ ﷺ اس کے بعد حمراء الاسد کے مقام کی طرف تشریف لے گئے اور معاویہ بن مغیرہ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کی جاسوسی کرنے کے لیے ٹھہرا رہا ، جب چوتھا دن آیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: معاویہ قریب ہے وہ زیادہ دور نہیں گیا، اسے تلاش کرو ، زید بن حارثہ اور جناب عمار نے اس کو پا لیا اور اس کو پکڑ کر قتل کر دیا۔ معاویہ بن مغیرہ عبد الملک بن مروان کا نانا لگتا ہے۔
بلاذُری نے انساب میں نقل کیا ہے کہ جناب عمارؓ نے مسلسل ضربیں مار مار کر معاویہ بن مغیرۃ کو ہلاکت کے گھاٹ اتار دیا اور کہا جاتا ہے کہ امام علیؑ نے اس کو قتل کیا۔[4]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف،ج۱، ص ۳۳۸۔ مکتب اہل بیتؑ میں وارد ہونے والی احادیث کے مطابق امام علیؑ نے معاویہ بن مغیرہ کو قتل کیا تھا۔ الکافی میں شیخ کلینی نے اپنے طریق سے امام جعفر صادقؑ سے ان الفاظ میں روایت نقل کی ہے:
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْكُوفِيُّ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ يَزِيدَ بْنِ خَلِيفَةَ الْخَوْلَانِيِّ وَهُوَ يَزِيدُ بْنُ خَلِيفَةَ الْحَارِثِيُّ قَالَ: سَأَلَ عِيسَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَنَا حَاضِرٌ فَقَالَ تَخْرُجُ النِّسَاءُ إِلَى الْجَنَازَةِ وَ كَانَ ع مُتَّكِئاً فَاسْتَوَى جَالِساً ثُمَّ قَالَ إِنَّ الْفَاسِقَ عَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ آوَى عَمَّهُ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ وَ كَانَ مِمَّنْ هَدَرَ رَسُولُ اللَّهِ ص دَمَهُ فَقَالَ لِابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ ص لَا تُخْبِرِي أَبَاكِ بِمَكَانِهِ كَأَنَّهُ لَا يُوقِنُ أَنَّ الْوَحْيَ يَأْتِي مُحَمَّداً فَقَالَتْ مَا كُنْتُ لِأَكْتُمَ رَسُولَ اللَّهِ ص عَدُوَّهُ فَجَعَلَهُ بَيْنَ مِشْجَبٍ لَهُ وَ لَحَفَهُ بِقَطِيفَةٍ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ ص الْوَحْيُ فَأَخْبَرَهُ بِمَكَانِهِ فَبَعَثَ إِلَيْهِ عَلِيّاً ع وَ قَالَ اشْتَمِلْ عَلَى سَيْفِكَ ائْتِ بَيْتَ ابْنَةِ ابْنِ عَمِّكَ فَإِنْ ظَفِرْتَ بِالْمُغِيرَةِ فَاقْتُلْهُ فَأَتَى الْبَيْتَ فَجَالَ فِيهِ فَلَمْ يَظْفَرْ بِهِ فَرَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ص فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ أَرَهُ فَقَالَ إِنَّ الْوَحْيَ قَدْ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ فِي الْمِشْجَبِ وَ دَخَلَ عُثْمَانُ بَعْدَ خُرُوجِ عَلِيٍّ ع فَأَخَذَ بِيَدِ عَمِّهِ فَأَتَى بِهِ إِلَى النَّبِيِّ ص فَلَمَّا رَآهُ أَكَبَّ عَلَيْهِ وَ لَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهِ وَ كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ ص حَيِيّاً كَرِيماً فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا عَمِّي هَذَا الْمُغِيرَةُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ وَفَدَ وَ الَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ آمَنْتَهُ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ كَذَبَ وَ الَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا آمَنَهُ فَأَعَادَهَا ثَلَاثاً وَ أَعَادَهَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع ثَلَاثاً أَنَّى آمَنَهُ إِلَّا أَنَّهُ يَأْتِيهِ عَنْ يَمِينِهِ ثُمَّ يَأْتِيهِ عَنْ يَسَارِهِ فَلَمَّا كَانَ فِي الرَّابِعَةِ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُ قَدْ جَعَلْتُ لَكَ ثَلَاثاً فَإِنْ قَدَرْتُ عَلَيْهِ بَعْدَ ثَالِثَةٍ قَتَلْتُهُ فَلَمَّا أَدْبَرَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص- اللَّهُمَّ الْعَنِ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ وَ الْعَنْ مَنْ يُؤْوِيهِ وَ الْعَنْ مَنْ يَحْمِلُهُ وَ الْعَنْ مَنْ يُطْعِمُهُ وَ الْعَنْ مَنْ يَسْقِيهِ وَ الْعَنْ مَنْ يُجَهِّزُهُ وَ الْعَنْ مَنْ يُعْطِيهِ سِقَاءً أَوْ حِذَاءً أَوْ رِشَاءً أَوْ وِعَاءً وَ هُوَ يَعُدُّهُنَّ بِيَمِينِهِ وَ انْطَلَقَ بِهِ عُثْمَانُ فَآوَاهُ وَ أَطْعَمَهُ وَ سَقَاهُ وَ حَمَلَهُ وَ جَهَّزَهُ حَتَّى فَعَلَ جَمِيعَ مَا لَعَنَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ ص مَنْ يَفْعَلُهُ بِهِ ثُمَّ أَخْرَجَهُ فِي الْيَوْمِ الرَّابِعِ يَسُوقُهُ فَلَمْ يَخْرُجْ مِنْ أَبْيَاتِ الْمَدِينَةِ حَتَّى أَعْطَبَ اللَّهُ رَاحِلَتَهُ وَ نُقِبَ حِذَاهُ وَ وَرِمَتْ قَدَمَاهُ فَاسْتَعَانَ بِيَدَيْهِ وَ رُكْبَتَيْهِ وَ أَثْقَلَهُ جَهَازُهُ حَتَّى وَجَسَ بِهِ فَأَتَى شَجَرَةً فَاسْتَظَلَّ بِهَا لَوْ أَتَاهَا بَعْضُكُمْ مَا أَبْهَرَهُ ذَلِكَ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ ص الْوَحْيُ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ فَدَعَا عَلِيّاً ع فَقَالَ خُذْ سَيْفَكَ وَ انْطَلِقْ أَنْتَ وَ عَمَّارٌ وَ ثَالِثٌ لَهُمْ فَأْتِ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ تَحْتَ شَجَرَةِ كَذَا وَ كَذَا فَأَتَاهُ عَلِيٌّ ع فَقَتَلَهُ فَضَرَبَ عُثْمَانُ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ قَالَ أَنْتِ أَخْبَرْتِ أَبَاكِ بِمَكَانِهِ فَبَعَثَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ص تَشْكُو مَا لَقِيَتْ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ ص اقْنَيْ حَيَاءَكِ مَا أَقْبَحَ بِالْمَرْأَةِ ذَاتِ حَسَبٍ وَ دِينٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ تَشْكُو زَوْجَهَا فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ مَرَّاتٍ كُلَّ ذَلِكَ يَقُولُ لَهَا ذَلِكَ فَلَمَّا كَانَ فِي الرَّابِعَةِ دَعَا عَلِيّاً ع وَ قَالَ خُذْ سَيْفَكَ وَ اشْتَمِل عَلَيْهِ ثُمَّ ائْتِ بَيْتَ ابْنَةِ ابْنِ عَمِّكَ فَخُذْ بِيَدِهَا فَإِنْ حَالَ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهَا أَحَدٌ فَاحْطِمْهُ بِالسَّيْفِ وَ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ ص كَالْوَالِهِ مِنْ مَنْزِلِهِ إِلَى دَارِ عُثْمَانَ فَأَخْرَجَ عَلِيٌّ ع ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ فَلَمَّا نَظَرَتْ إِلَيْهِ رَفَعَتْ صَوْتَهَا بِالْبُكَاءِ وَ اسْتَعْبَرَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ بَكَى ثُمَّ أَدْخَلَهَا مَنْزِلَهُ وَ كَشَفَتْ عَنْ ظَهْرِهَا فَلَمَّا أَنْ رَأَى مَا بِظَهْرِهَا قَالَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مَا لَهُ قَتَلَكِ قَتَلَهُ اللَّهُ وَ كَانَ ذَلِكَ يَوْمَ الْأَحَدِ وَ بَاتَ عُثْمَانُ مُلْتَحِفاً بِجَارِيَتِهَا فَمَكَثَ الْإِثْنَيْنَ وَ الثَّلَاثَاءَ وَ مَاتَتْ فِي الْيَوْمِ الرَّابِعِ فَلَمَّا حَضَرَ أَنْ يَخْرُجَ بِهَا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ص فَاطِمَةَ ع فَخَرَجَتْ ع وَ نِسَاءُ الْمُؤْمِنِينَ مَعَهَا وَ خَرَجَ عُثْمَانُ يُشَيِّعُ جَنَازَتَهَا فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ص قَالَ مَنْ أَطَافَ الْبَارِحَةَ بِأَهْلِهِ أَوْ بِفَتَاتِهِ فَلَا يَتْبَعَنَّ جَنَازَتَهَا قَالَ ذَلِكَ ثَلَاثاً فَلَمْ يَنْصَرِفْ فَلَمَّا كَانَ فِي الرَّابِعَةِ قَالَ لَيَنْصَرِفَنَّ أَوْ لَأُسَمِّيَنَّ بِاسْمِهِ فَأَقْبَلَ عُثْمَانُ مُتَوَكِّئاً عَلَى مَوْلًى لَهُ مُمْسِكاً بِبَطْنِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَشْتَكِي بَطْنِي فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَأْذَنَ لِي أَنْصَرِفُ قَالَ انْصَرِفْ وَ خَرَجَتْ فَاطِمَةُ ع وَ نِسَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُهَاجِرِينَ فَصَلَّيْنَ عَلَى الْجِنَازَةِ.
یزید بن خلیفہ حارثی بیان کرتے ہیں کہ عیسی بن عبد اللہ نے امام صادقؑ سے سوال کیا جبکہ میں ان کے پاس موجود تھا، اس نے پوچھا: کیا خواتین جنازے میں شرکت کے لیے نکل سکتیں ہیں؟ امامؑ ٹیک لگائے ہوئے تھے، یہ سن کر سیدھے ہو کر تشریف فرما ہو گئے اور فرمایا: فاسق – اس پر اللہ کی لعنت ہو – نے اپنے چچا (معاویہ بن) مغیرہ بن ابی العاص کو پناہ دی جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا خون حلال قرار دے دیا تھا اور رسول اللہ ﷺ کی بیٹی سے کہا: اپنے والد کو اس کی خبر نہ دینا، گویا کہ اس کو یقین نہیں تھا کہ محمد ﷺ پر وحی نازل ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ کی بیٹی نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ سے ان کے دشمن کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتی، اس (فاسق) نے ابن مغیرۃ کو اپنے کپڑے لٹکانے کی جگہ پر چھپا دیا اور اس کو اپنے کپڑوں سے ڈھانپ دیا، اتنے میں رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور جبرئیلؑ نے آپ ﷺ کو اس کے مخفی گاہ کی خبر دی، آپ ﷺ نے امام علیؑ کو اس کی طرف بھیجا اور فرمایا:کہ اپنی تلوار کو اپنے ہمراہ لے لو اور اپنے چچا زاد کی بیٹی کے گھر جاؤ ، اگر وہاں (معاویہ بن) مغیرۃ کو پا لیا تو اس کو قتل کر دو، امامؑ ان کے گھر تشریف لائے اور گھر میں کافی ڈھونڈا لیکن انہیں (معاویہ بن ) مغیرہ نہیں ملا، آپؑ واپس رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں لوٹ آئے اور انہیں سارا ماجرا سنایا اور فرمایا: اے اللہ کے رسول ﷺ وہ مجھے نہیں ملا، آپ ﷺ نے فرمایا: وحی میرے پر اتری ہے اور وحی نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ کپڑے لٹکانے کی جگہ میں چھپا ہوا ہے۔ جب امام علیؑ تلاشی لے کر واپس جا چکے تو عثمان (معاویہ بن) مغیرہ کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے نبی ﷺ کے پاس لے آیا، جب آنحضرت ﷺ نے اس کو دیکھا تو اپنی نگاہیں نیچے کر لیں اور اس کی طرف اصلاً توجہ نہیں دی، کیونکہ نبی ﷺ انتہائی با حیا کریم و نفیس شخصیت تھے، عثمان نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ میرا چچا ہے یہ (معاویہ بن) مغیرۃ بن ابی العاص ہے، قسم اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ ﷺ کو مبعوث کیا وہ یہ گزارش لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اس کو امان دے دی تھی، امام صادقؑ فرماتے ہیں: اس نے کذب بیانی کی ، قسم اس ذات کی جس نے آںحضرت ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا انہوں نے اس کو امان نہیں دی تھی، اس نے یہ بات تین بار دہرائی تھی اور امام صادقؑ نے بھی اس کو تین مرتبہ دہرایا کہ آنحضرت ﷺ نے کب اس کو پناہ دی ہے؟! مگر یہ کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی منت سماجت کرتے ہوئے دائیں طرف سے آیا، پھر بائیں جانب سے آیا، جب وہ چوتھی مرتبہ آیا تو آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک بلند کیا اور عثمان کو مخاطب کر کے فرمایا: میں اسے تین دن مہلت دیتا ہوں، اگر ان تین کے بعد میں نے اس کو پا لیا تو میں اس کو قتل کر دوں گا، جب وہ واپس پلٹ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بارِ الہٰا ! (معاویہ بن ) مغیرۃ بن ابی العاص پر لعنت فرما اور اس پر بھی لعن فرما جس نے اس کو پناہ دی ہے اور ان پر بھی لعنت فرما جس نے اس کا بوجھ اٹھایا اور اس پر بھی لعنت فرما جس نے اس کو کھانا کھلایا اور اس پر بھی لعنت فرما جس نے اس کو پانی پلایا اور اس پر بھی لعنت فرما جس نے اس کے لیے (فرار و بچاؤ) کا اہتمام کیا اور اس پر بھی لعنت فرما جس نے اس کو سیراب کیا یا پہننے کے لیے لباس جوتے دیئے یا رہنے سہنے اور کھانے پینے کے وسائل مہیا کر کے دیئے جبکہ عثمان ان سب کو اپنے دائیں ہاتھ سے شمار کر رہا تھا، پھر عثمان اس کو لے کر چلا گیا اور (معاویہ بن مغیرہ) کو پناہ دی اور اس کو کھانا کھلایا اور پانی پلا کر سیراب کیا اور اس کو اپںے ساتھ لے گیا اور اس کے لیے تمام امکانات و وسائل مہیا کر کے دئیے، یہاں تک کہ وہ تمام کام انجام دیئے جن کو انجام دینے والے پر نبی ﷺ نے لعن فرمائی تھی، پھر عثمان نے اس (معاویہ بن مغیرہ) کو چوتھے دن نکالا اور اپنے پیچھے پیچھے اس کو چلایا تاکہ وہ فرار کر سکے، ابھی وہ مدینہ کے اطراف سے نہیں نکلا تھا کہ اللہ نے اس کی سواری کو ہلاک کر دیا اور اس کے جوتے پھٹ گئے اور اس کے قدموں میں وَرم پڑ گیا، وہ مجبورا اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کی مدد سے چلنے لگا، اس کے سامان کے بوجھ نے اس کو مزید بوجھل بنا دیا یہاں تک کہ اسے موت کا خوف محسوس ہونے لگا اور وہ سہمے ہوئے ایک درخت کی آڑ میں آیا گیا اور اس کے سائے میں بیٹھ گیا، اگر تم میں سے بعض (مدینہ) سے آتے تو انہیں یہاں پہنچتے ہوئے ایسی مشقت و زحمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو مشقت اس کو اٹھانا پڑی ہے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور اللہ نے انہیں وحی کے ذریعے (معاویہ بن) مغیرہ کی خبر دی، آنحضرتﷺ نے امام علیؑ کو بلایا اور فرمایا: اپنی تلوار اٹھا لو، تم اور عمار اور تیسرا شخص جاؤ اور فلاں جگہ پر اس اس طرح کے درخت کے نیچے (معاویہ بن) مغیرہ ہے اس کو پکڑ لو، امام علیؑ نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے (معاویہ بن) مغیرہ کو پکڑا اور قتل کر دیا۔ اس پر عثمان نے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو مارا اور کہا: تم نے اس اپنے باپ کو اس جگہ کی خبر دی ہے، جناب رقیہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا اور جس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا اس کی شکایت آپ ﷺ کی خدمت میں کی ، رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف پیغام بھیجا، اپنی عزت و حیاء کی حفاظت کرو، ایک حسب و شرف رکھنے والی ایک دین دار خاتون کے لیے کس قدر قبیح ہے کہ وہ ہر روز اپنے شوہر کی شکایت کرے، پھر ہر روز عثمان کا یہی سلوک ہوتا اور ہر مرتبہ رقیہ آنحضرت ﷺ کو پیغام بھجواتی، یہاں تک کہ تین دن گزر گئے، جب چوتھا دن آیا تو آنحضرت ﷺ نے امام علیؑ کو بلایا اور فرمایا: اپنی تلوار اٹھاؤ اور اس کو اپنے ہمراہ لے لو اور اپنے چچا زاد کی بیٹی کے گھر پر جاؤ اور اس کو اپنے ہمراہ لے آؤ، اگر تمہارے اور اس کے درمیان کوئی حائل ہو تو اس کو تلوار سے زمین بوس کر دو، پھر رسول اللہ ﷺ اپنے گھر سے عثمان کے گھر کی طرف اس شخص کی مانند نکلے جس کی اولاد کھو گئی ہو، امام علیؑ نے دخترِ رسول اللہ ﷺ کو گھر سے نکالا، جب رقیہ نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو بلند آواز کے ساتھ رونے لگی، رسول اللہ ﷺ نے کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے اور آپ ﷺ نے بھی گریہ فرمایا، پھر آپ ﷺ رقیہ کو لے کر اپنے گھر تشریف لے آئے، رقیہ نے زخموں کی وجہ سے اپنی کمر کو ظاہر کیا، جب رسول اللہ ﷺ نے ان کی کمر کو دیکھا تو تین مرتبہ فرمایا: اس کا برا ہو، اللہ اس کو قتل کرے جس نے تجھے قتل کیا،وہ دن اتوار کا دن تھا، عثمان نے وہ رات اپنے کنیز کے ساتھ ایک بستر پر گزاری اور پیر و منگل کے دن تک اسی طرح رہا، چوتھے دن یعنی بدھ والے دن رقیہ کی وفات ہو گئی۔ جب عثمان آیا تاکہ وہ رقیہ کے ساتھ نکلے تو رسول اللہ ﷺ نے جناب فاطمہؑ کو حکم دیا، پس جناب سیدہؑ اور مؤمنین کی خواتین رقیہ کو اٹھا کر نکلیں، عثمان بھی ان کے ساتھ ہو لیا اور رقیہ کے جنازے کے پیچھے پیچھے چلنے لگا، جب نبی ﷺ کی نگاہ عثمان پر پڑی تو فرمایا: جس شخص نے گذشتہ رات اپنی اہلیہ یا کسی لڑکی کے ساتھ ہمبستری کی ہے وہ رقیہ کے جنازے کے پیچھے پیچھے نہ چلے،آنحضرت ﷺ نے یہ جملہ تین مرتبہ تکرار کیا لیکن عثمان واپس نہیں پلٹا، جب چوتھی مرتبہ کہنے کی نوبت آئی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اسے چاہیے کہ وہ پلٹ جائے یا میں اس کا نام لے کر اس کو کہوں، اس پر عثمان اپنے غلام کا سہارا لیے ہوئے اور پیٹ کو ہاتھ سے پکڑے ہوئے آگے بڑھا اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں شکم میں تکلیف ہے اگر آپ ﷺ مجھے اجازت دیں تو میں واپس پلٹ جاؤں، آپ ﷺ نے فرمایا: واپس چلے جاؤ، جناب فاطمہؑ اور مؤمنین و مہاجرین کی خواتین جنازے کو لے کر آگے بڑھیں اور ان خواتین نے جنازہ پڑھأ۔[5]كلينی، محمد بن يعقوب، الکافی، ج3، ص251۔
منابع: