قرآن کریم میں جناب ہود #کے نام پر پوری ایک سورہ کا نام ہے جس میں جناب ہود # کا تذکرہ موجودہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح# کے بعد کئی انبیاء و رسل ^ کو بھیجا جن میں نمایاں ہستی حضرت ہود# ہیں۔ حضرت نوح# نے آپ کے بارے میں پہلے سے اپنی امت بالخصوص اپنے شیعوں کو تفصیل سے بتایا تھا اور حکم دیا تھا کہ جناب ہود# تشریف لائیں گے اور معاشرے میں توحید کی اساس پر تبدیلی کا تقاضا کریں گے۔ ان کی قوم ان کوجھٹلائے گی اور بالآخر اللہ تعالیٰ ایک سنسناٹی خشک ہوا سے ان کو ہلاک کرے گا اور جناب ہود# اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عنایت فرمائے گا۔
فہرست مقالہ
جناب نوحؑ کی اپنے قائم جناب ہودؑ کے لیے وصیت
الکافی اور دیگر کتب احادیث میں وارد ہوا کہ جب حضرت نوح# کی وفات کو وقت قریب پہنچا تو انہوں نے اپنے بیٹے سام کو علمی میراث اور آثارِ نبوت سپرد کیے اور انہیں اور اپنے شیعوں کو وصیت کی کہ میرے بعد زمانہِ غیبت آئے گا جس میں طواغیت غالب آ جائیں گے اور اللہ عزوجل میری اولاد میں قائم کو بھیجے گا جو میری اولاد میں سے ہو گا اور اس کا نام ہود# ہو گا جو خَلقًا اور خُلُقًا میرے مشابہ ہوں گے اور سکون وقار ان کی علامت ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہوا کے ذریعے سے ان کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا ۔ [1]شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج ۱، ص ۱۳۵۔ حضرت نوح# نے اپنے شیعوں کو جناب ہود# کے انتظار کا حکم دیا اور ان سے عہدو پیمان باندھنے کی ہدایت کی اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس وصیت کو ہر سال کھولیں اور اس پر دقت کریں اور سال کا یہ دن ان کے لیے عید کا دن قرار دیا۔ [2]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱۵، ص۶۴۷۔ حضرت نوح #کے شیعہ ان کی وصیت کے مطابق انتظار کرتے رہے اور عید کے دن اس عہد و پیمان کو دہراتے یہاں تک جناب ہود# کا ظہور ہو گیا اور ان کی قوم نے ان کی تکذیب کی جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو ہوا کے ذریعے ہلاک کر دیا اور اہل ایمان کو نجات عطا کر دی۔[3]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱۵، ص ۲۸۱۔
۱۔ جناب ہودؑ کا قوم عاد کا بھائی ہونا
جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع فَقَالَ يَا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ إِنَّ جَدَّكَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَتَلَ الْمُؤْمِنِينَ فَهَمَلَتْ عَيْنَا عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ دُمُوعاً حَتَّى امْتَلَأَتْ كَفُّهُ مِنْهَا ثُمَّ ضَرَبَ بِهَا عَلَى الْحَصَى ثُمَّ قَالَ يَا أَخَا أَهْلِ الْبَصْرَةِ لَا وَاللَّهِ مَا قَتَلَ عَلِيٌّ مُؤْمِناً وَلَا قَتَلَ مُسْلِماً وَمَا أَسْلَمَ الْقَوْمُ وَلَكِنِ اسْتَسْلَمُوا وَكَتَمُوا الْكُفْرَ وَأَظْهَرُوا الْإِسْلَامَ، فَلَمَّا وَجَدُوا عَلَى الْكُفْرِ أَعْوَاناً أَظْهَرُوهُ وَقَدْ عَلِمَتْ صَاحِبَةُ الْجَدْبِ وَالْمُسْتَحْفَظُونَ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ ص أَنَّ أَصْحَابَ الْجَمَلِ وَأَصْحَابَ صِفِّينَ وَأَصْحَابَ النَّهْرَوَانِ لُعِنُوا عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِ، وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى، فَقَالَ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ يَا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ إِنَّ جَدَّكَ كَانَ يَقُولُ: إِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَيْنَا!! فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ع: أَ مَا تَقْرَأُ كِتَابَ اللَّهِ- { وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ هُوداً }، فَهُمْ مِثْلُهُمْ أَنْجَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هُوداً وَالَّذِينَ مَعَهُ وَأَهْلَكَ عَاداً بِالرِّيحِ الْعَقِيمِ. [7]طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی أہل اللجاج، ج ۲، ص ۳۱۲۔
جناب ہودؑ کا اپنے آپ کا تعارف کروانا
جناب ہود نے اپنی قوم کو اپنا تعارف چار صفات کے ساتھ کرایا:
۱) رب العالمین کی طرف سے رسول
۲) ربّ کے پیغامات کا مبلغ
۳) اپنی قوم کے لیے ناصح
۴) اپنی قوم کے لیے امین
قرآن کریم میں سورہ اعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:
جناب ہودؑ کا اعلانیہ طور پر دعوت دینا
حضرت ہود# نے جب قوم کو تبلیغ اور دعوت دینا شروع کی تو جہاں ہر نبی تدبیر فرماتا ہے اسی طرح آپؑ نے بھی مکمل تدبیر کے ساتھ اس وظیفہ کو انجام دیا۔ جناب ہود# نے اپنی قوم کو پورے معاشرے میں آشکار اور اعلانیہ طور پر پیغام دین اور درسِ توحید دیا۔ عمومًا لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک فرد یا ایک جماعت کو ہم درسِ توحید دے دیں اور ایک حلقہ میں صدائے حق بلند کر دیں تو یہ کافی ہے جبکہ جناب ہود# کے حالات سے معلوم ہوتا ہے آپ ؑ نے پورے معاشرے کو مخاطب کرکے توحید اور حق کا درس دیا۔ یہ معاملات اس وقت زیادہ پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب معاشرے کے اعتقادات اور نظریات ایک طرف اور حق نظریہ ایک طرف ہو۔ کیونکہ اس صورت میں حق کے داعی کو انتہائی جرأت و شجاعت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے اور پورے معاشرے کی مخالفت مول لینا پڑتی ہے۔ اس مخالفت کا نتیجہ قتل کی دھمکیاں، تمسخر و اہانت، تذلیل و رسوائی اور غربت و ضعف کی صورت میں نکلتا ہے۔ جناب ہود# کی قوم بت پرستی اور مختلف فسق و فجور میں مبتلا تھی۔ چنانچہ آپؑ کو جب پورے معاشرے کے سامنے اللہ تعالیٰ کی عبادت و پرستش کی صدائے حق بلند کرنا پڑی تو آپؑ نے تمام خطرات مول لیے اور کسی خوف و خطر کاشکار ہوئے بغیر پورے معاشرے کے سامنے اعلانیہ طور پر اللہ سبحانہ کی عبادت کی دعوت دی اور شرک کی نفی کی ۔ یقینًا اس کا نتیجہ تمسخر، اہانت، گالم گلوچ ، قتل و تشدد اور سختی و مشقت نکلنا تھا اور یہ خطرات جناب ہود# کو پیش آئے جن میں آپؑ نے کمال استقامت و پامردی کا مظاہرہ کیا۔قرآن کریم نے جناب ہود# کی اعلانیہ دعوت اور استقامت و شجاعت کو ان آیات میں بیان کیا ہے:
جناب ہودؑ کا قوم سے اجرت نہ لینا
جناب ہودؑ کی قوم کا انکار
جناب ہودؑ کا اپنی قوم کو جواب
قوم ہود پر اللہ کا عذاب
۵۔ سورہ ہود: ۶۰
۶. سورہ ہود: ۸۹
آیات جن میں صرف قوم عاد کا تذکرہ ہے
قرآن کریم کی متعدد آیات ہیں جن میں حضرت ہود کی قوم کا فقط تذکرہ وارد ہوا ہے۔ قومِ عاد ان قوموں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالی نے وسیع عریض جثہ اور بلند ہیکل والے اجسام دیئے اور انہیں بے پناہ قوت و وسعت دی۔ قرآن کریم کی درج ذیل آیات میں قوم عاد کا فقط ذکر ہوا ہے:
سورہ الذاریات میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{ وَفِي عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ مَا تَذَرُ مِن شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ }
ترجمہ:’’اور قوم عاد میں بھی ایک نشانی ہے جب ہم نے ان کی طرف بانجھ ہوا کو چلا دیا، کہ جس چیز کے پاس سے گزر جاتی تھی اسے بوسیدہ ہڈی کی طرح ریزہ ریزہ کردیتی تھی۔‘‘ [23]سورہ ذاریات: آیت ۴۱-۴۲۔
سورہ النجم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{ وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الْأُولَىٰ }
ترجمہ:’’اور اس نے پہلے عاد کو ہلاک کیا ۔‘‘ [24]سورہ نجم: آیت ۵۰۔
{ كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ ﴿١٨﴾ إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ ﴿١٩﴾ تَنزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنقَعِرٍ ﴿٢٠﴾ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ ﴿٢١﴾ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ }
ترجمہ:’’اور قوم عاد نے بھی تکذیب کی تو ہمارا عذاب اور ڈرانا کیسا رہا، ہم نے ان کی اوپر تیز و تند آندھی بھیج دی ایک مسلسل نحوست والے منحوس دن میں، جو لوگوں کو جگہ سے یوں اُٹھالیتی تھی جیسے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہوں، پھر دیکھو ہمارا ذاب اور ڈرانا کیسا ثابت ہوا، اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔‘‘ [25]سورہ قمر: آیت ۱۸-۲۲۔
{ كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ ﴿٤﴾ فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ ﴿٥﴾ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ﴿٦﴾ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ﴿٧﴾ فَهَلْ تَرَىٰ لَهُم مِّن بَاقِيَةٍ}
ترجمہ:’’قوم ثمود و عاد نے اس کھڑ کھڑانے والی کا انکار کیا تھا، تو ثمود ایک چنگھاڑ کے ذریعہ ہلاک کردیئے گئے، اور عاد کو انتہائی تیز و تند آندھی سے برباد کردیا گیا، جسے ان کے اوپر سات رات اور آٹھ دن کے لئے مسلسل مسخرکردیا گیا تو تم دیکھتے ہو کہ قوم بالکل مردہ پڑی ہوئی ہے جیسے کھوکھلے کھجور کے درخت کے تنے، تو کیا تم ان کا کوئی باقی رہنے والا حصہّ دیکھ رہے ہو۔‘‘ [26]سورہ حاقۃ: آیت ۴-۸۔
سورہ الحاقۃ میں بھی قومِ عاد کی تباہی کے متعدد اوصاف بیان کیے گئے ہیں :
{ كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ ﴿٤﴾ فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ ﴿٥﴾ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ﴿٦﴾ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ﴿٧﴾ فَهَلْ تَرَىٰ لَهُم مِّن بَاقِيَةٍ}
ترجمہ:’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا ہے، ستون والے ارم والے، جس کا مثل دوسرے شہروں میں نہیں پیدا ہوا ہے۔‘‘ [27]سورہ فجر: آیت ۶-۸۔
منابع: