loading
حضرت ہودؑ قرآنی آیات کے تناظر میں
تحریر: سید محمد حسن رضوی
2021-09-01

قرآن کریم میں جناب ہود #کے نام پر پوری ایک سورہ کا نام ہے جس میں جناب ہود  # کا تذکرہ موجودہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح# کے بعد کئی انبیاء و رسل ^ کو بھیجا جن میں نمایاں ہستی حضرت ہود# ہیں۔ حضرت نوح# نے آپ کے بارے میں پہلے سے اپنی امت بالخصوص اپنے شیعوں کو تفصیل سے بتایا تھا اور حکم دیا تھا کہ جناب ہود# تشریف لائیں گے اور معاشرے میں توحید کی اساس پر تبدیلی کا تقاضا کریں گے۔ ان کی قوم ان کوجھٹلائے گی اور بالآخر اللہ تعالیٰ ایک سنسناٹی خشک ہوا سے ان کو ہلاک کرے گا اور جناب ہود# اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عنایت فرمائے گا۔

جناب نوحؑ کی اپنے قائم جناب ہودؑ کے لیے وصیت

الکافی اور دیگر کتب احادیث میں وارد ہوا کہ جب   حضرت نوح# کی وفات کو وقت قریب پہنچا تو انہوں نے اپنے بیٹے سام کو علمی میراث اور آثارِ نبوت سپرد کیے اور انہیں اور اپنے شیعوں کو وصیت کی کہ میرے بعد زمانہِ غیبت آئے گا جس میں طواغیت غالب آ جائیں گے اور اللہ عزوجل میری اولاد میں قائم کو بھیجے گا جو میری اولاد میں سے ہو گا اور اس کا نام ہود# ہو گا جو خَلقًا اور خُلُقًا میرے مشابہ ہوں گے اور سکون وقار ان کی علامت ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہوا کے ذریعے سے ان کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا ۔  [1]شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج ۱، ص ۱۳۵۔   حضرت نوح# نے اپنے شیعوں کو جناب ہود# کے انتظار کا حکم دیا اور ان سے عہدو پیمان باندھنے کی ہدایت کی اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس وصیت کو ہر سال کھولیں اور اس پر دقت کریں اور سال کا یہ دن ان کے لیے عید کا دن قرار دیا۔  [2]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱۵، ص۶۴۷۔ حضرت نوح #کے شیعہ ان کی وصیت کے مطابق انتظار کرتے رہے اور عید کے دن اس عہد و پیمان کو دہراتے یہاں تک جناب ہود# کا ظہور ہو گیا اور ان کی قوم نے ان کی تکذیب کی جس پر اللہ تعالیٰ نے ان  کو ہوا کے ذریعے ہلاک کر دیا اور اہل ایمان کو نجات عطا کر دی۔[3]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱۵، ص ۲۸۱۔

۱۔ جناب ہودؑ کا قوم عاد کا بھائی ہونا 

جناب ہود#  نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اور اللہ وحدہ کی عبادت کی تلقین کی۔ قرآن کریم کی آیات سے جناب ہود# کی دعوت و تبلیغ اور اس وظیفہ کو انجام دینے کے طریقے کی نشاندہی کی گئی جسے درج ذیل نکات میں ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں:
{ وَإِِلَى‏ عَادٍ أَخاهُمْ هُوْداً قالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ أَ فَلا تَتَّقُونَ‏ }. [4]سورہ اعراف: آیت ۶۵۔
ترجمہ:’’اور  ان کے بھائی عاد کی جانب ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو ، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اس کے غیر کو الہ مانتے ہوں ، پس کیا تم ڈرتے نہیں ہو۔‘‘
{ وَإِلى‏ عادٍ أَخاهُمْ هُوداً قالَ يا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ ما لَكُمْ مِنْ إِلهٍ غَيْرُهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلاَّ مُفْتَرُوۡنَ }. [5]سورہ ہود: آیت ۵۰۔
ترجمہ:’’اور  ان کے بھائی عاد کی جانب ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو ، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اس کے غیر کو الہ مانتے ہوں ، تم صرف افتراء پردازی کرنے والے ہو۔‘‘
{ وَاذْكُرْ أَخا عادٍ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ اللَّهَ إِنِّي أَخافُ عَلَيْكُمْ عَذابَ يَوْمٍ عَظيم‏ }
ترجمہ:’’اور قوم عاد کے بھائی ہود کو یاد کیجئے کہ انہوں نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا …. اور ان کے قبل و بعد بہت سے پیغمبر علیھ السّلام گزر چکے ہیں …. کہ خبردار اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو میں تمہارے بارے میں ایک بڑے سخت دن کے عذاب سے خوفزدہ ہوں۔‘‘ [6]سورہ احقاف: ۲۱۔
احتجاجِ طبرسی میں امام سجاد # سے روایت نقل کی ہے جس سے اخ کا مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ 

جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع فَقَالَ يَا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ إِنَّ جَدَّكَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَتَلَ الْمُؤْمِنِينَ فَهَمَلَتْ عَيْنَا عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ دُمُوعاً حَتَّى امْتَلَأَتْ كَفُّهُ مِنْهَا ثُمَّ ضَرَبَ بِهَا عَلَى الْحَصَى ثُمَّ قَالَ يَا أَخَا أَهْلِ الْبَصْرَةِ لَا وَاللَّهِ مَا قَتَلَ عَلِيٌّ مُؤْمِناً وَلَا قَتَلَ مُسْلِماً وَمَا أَسْلَمَ الْقَوْمُ وَلَكِنِ اسْتَسْلَمُوا وَكَتَمُوا الْكُفْرَ وَأَظْهَرُوا الْإِسْلَامَ، فَلَمَّا وَجَدُوا عَلَى الْكُفْرِ أَعْوَاناً أَظْهَرُوهُ وَقَدْ عَلِمَتْ صَاحِبَةُ الْجَدْبِ وَالْمُسْتَحْفَظُونَ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ ص أَنَّ أَصْحَابَ الْجَمَلِ وَأَصْحَابَ صِفِّينَ وَأَصْحَابَ النَّهْرَوَانِ لُعِنُوا عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِ‏، وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى‏، فَقَالَ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ يَا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ إِنَّ جَدَّكَ كَانَ يَقُولُ: إِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَيْنَا!! فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ع: أَ مَا تَقْرَأُ كِتَابَ اللَّهِ- { وَإِلى‏ عادٍ أَخاهُمْ هُوداً فَهُمْ مِثْلُهُمْ أَنْجَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هُوداً وَالَّذِينَ مَعَهُ وَأَهْلَكَ عَاداً بِالرِّيحِ الْعَقِيمِ. [7]طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی أہل اللجاج، ج ۲،  ص ۳۱۲۔

جناب ہودؑ کا اپنے آپ کا تعارف کروانا

جناب ہود نے اپنی قوم کو اپنا تعارف چار صفات کے ساتھ کرایا:

۱) رب العالمین کی طرف سے رسول

۲) ربّ کے پیغامات کا مبلغ

۳) اپنی قوم کے لیے ناصح

۴) اپنی قوم کے لیے امین

قرآن کریم میں سورہ اعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:

قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي سَفَاهَةٌ وَلَٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٦٧﴾‏ أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ ‎﴿٦٨﴾‏ أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً ۖ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎﴿٦٩﴾‏. [8]سورہ اعراف: آیت ۶۷-۶۹۔
ترجمہ: ’’انہوں نے جواب دیا کہ میں نادان و سادہ لوح نہیں بلکہ میں  ربّ العالمین کا رسول ہوں، میں تمہارے تک اپنے ربّ کے پیغام کو پہنچاتا ہوں اور تمہیں امانتداری کے ساتھ نصیحت کرنے والا ہوں، کیا تم لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک شخص پر تمہارے ربّ کی جانب سے ذکر آیا ہے تاکہ وہ تمہیں انذار کرے!!اور تم یاد کرو اس نے قومِ نوحؑ کے بعد تمہیں (زمین پر ) خلفاء بنایا اور تمام خلقت میں تمہیں اس نے وسعت عطا کی ،  لہٰذا تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو  شاید تم فلاح پا جاؤ۔‘‘
قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
فَإِن تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ ۚ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّي قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ ‎﴿٥٧﴾‏. [9]سورہ ہود: آیت۵۷۔
ترجمہ:’’ اس کے بعد بھی انحراف کرو تو میں نے اللہ کا  پیغام تم تک پہنچادیا ہے،  اب اللہ تمہاری جگہ پر دوسری قوموں کو لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہو بیشک میرا ربّ  ہر شیء کی حفاظت کرنے والا ہے۔‘‘

 جناب ہودؑ کا اعلانیہ طور پر دعوت دینا

حضرت ہود# نے جب قوم کو تبلیغ اور دعوت دینا شروع کی تو جہاں ہر نبی تدبیر فرماتا ہے اسی طرح آپؑ نے بھی مکمل تدبیر کے ساتھ اس وظیفہ کو انجام دیا۔ جناب ہود# نے اپنی قوم کو پورے معاشرے میں آشکار اور اعلانیہ طور پر پیغام دین اور درسِ توحید دیا۔ عمومًا لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک فرد یا ایک جماعت کو ہم درسِ توحید دے دیں اور ایک حلقہ میں صدائے حق بلند کر دیں تو یہ کافی ہے جبکہ جناب ہود# کے حالات سے معلوم ہوتا ہے آپ ؑ نے پورے معاشرے کو مخاطب کرکے توحید اور حق کا درس دیا۔ یہ معاملات اس وقت زیادہ پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب معاشرے کے اعتقادات اور نظریات ایک طرف اور حق نظریہ ایک طرف ہو۔  کیونکہ اس صورت میں حق کے داعی کو انتہائی جرأت و شجاعت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے اور پورے معاشرے کی مخالفت مول لینا پڑتی ہے۔ اس مخالفت کا نتیجہ قتل کی دھمکیاں، تمسخر و اہانت، تذلیل و رسوائی اور غربت و ضعف کی صورت میں نکلتا ہے۔ جناب ہود# کی قوم بت پرستی اور مختلف فسق و فجور میں مبتلا تھی۔ چنانچہ آپؑ کو جب پورے معاشرے کے سامنے اللہ تعالیٰ کی عبادت و پرستش کی صدائے حق بلند کرنا پڑی تو آپؑ نے تمام خطرات مول لیے اور کسی خوف و خطر کاشکار ہوئے بغیر پورے معاشرے کے سامنے اعلانیہ طور پر اللہ سبحانہ کی عبادت کی دعوت دی اور شرک کی نفی کی ۔ یقینًا اس کا نتیجہ تمسخر، اہانت، گالم گلوچ ، قتل و تشدد اور سختی و مشقت نکلنا تھا اور یہ خطرات جناب ہود# کو پیش آئے جن میں آپؑ نے کمال استقامت و پامردی کا مظاہرہ کیا۔قرآن کریم نے جناب ہود# کی اعلانیہ دعوت اور استقامت و شجاعت کو ان آیات میں بیان کیا ہے:

{قالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ أَ فَلا تَتَّقُونَ‏ }. [10]سورہ اعراف: آیت ۶۵۔
ترجمہ:’’ انہوں نے کہا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو ، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اس کے غیر کو الہ مانتے ہوں ، پس کیا تم ڈرتے نہیں ہو۔‘‘
{ قالَ يا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ ما لَكُمْ مِنْ إِلهٍ غَيْرُهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلاَّ مُفْتَرُوۡنَ }. [11]سورہ ہود: آیت ۵۰۔
ترجمہ:’’ انہوں نے کہا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو ، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اس کے غیر کو الہ مانتے ہوں ، تم صرف افتراء پردازی کرنے والے ہو۔‘‘

جناب ہودؑ کا قوم سے اجرت نہ لینا

کامیاب تبلیغ اور مؤثر دعوت کے لیے ضروری ہے کہ مبلغ اپنے روز مرہ زندگی کے امور میں بے نیاز اور مستغنی زندگی بسر کرے اور لوگوں کے وظائف و عطیات سے بے پروا  ہو کر اپنے معاش کی خود تدبیر کرے۔ جس جگہ دین کی تبلیغ کرنے والا لوگوں کے عطیات اور انجمنوں کے چندوں پر گزر بسر کرتا ہے وہ شخص پیسہ خرچ کرنے والوں کے دباؤ میں آ جاتا ہے اور اس کے ارادے خالص نہیں رہتے۔ قرآن کریم نے تمام انبیاء و رسل^ کی یہ اعلیٰ صفت بیان کی ہے کہ وہ اپنے معاش اور زندگی کے گزر بسر کے اخراجات کا اہتمام خود فرماتے تھے۔ جناب ہود# بھی اسی طرح اپنی زندگی اخراجات اور معاش کے لیے خود کوشش کرتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے کماتے کھاتے تھے۔ اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ اس کا ہر گزر یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کسی مؤمن کے ہدیہ کو قبول نہ کرے!! نیز دو امور میں فرق کرنے کی ضرورت ہے: 
۱۔ اپنی ذاتی زندگی اور اخراجات کے لیے بے نیاز اور مستغنی زندگی بسرکرنا اور خود اپنی معاش کا اہتمام کرنا۔
۲۔دینی امور کی نشر و اشاعت اور دینی تعلیمات کے غلبہ کے لیے لوگوں کے اموال و جان کی ضرورت اور اموال کا لوگوں سے تقاضا کرنا۔ 
ان دونوں مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات ان دونوں امور میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے اور پہلے امر یعنی ذاتی زندگی میں لوگوں سے بے نیاز ہو کر بسر کرنے کا مفہوم بھی صحیح نہیں سمجھا جاتا۔ ذاتی زندگی میں لوگوں سے بے نیاز ہونے سے ہر گز یہ مراد نہیں ہے کہ لوگوں کی انسان کو ضرورت ہی نہ ہو اور انسان ہر قسم کے کام خود انجام دے!! یقینًا ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ انسان بالآخر معاشرے کے مختلف شعبہ جات کا محتاج ہے۔ کسان بیچ بوتا ہے اور تاجر فصل اٹھا کر بازار منتقل کرتا ہے اور پھیر ی لگا کر بیچنے والے یا دکاندار اس ضرورتِ زندگی کی چیزوں کو ہر محلے میں مہیا کرتے ہیں اور اس طرح معاشرہ چلتا ہے۔ یہاں اس نوعیت کے شعبہ جات سے بے نیازی مراد نہیں ہے۔ بے نیازی اور استغناء سے مراد کسی سے بھیک نہ مانگنا اور اپنی زندگی کے امور چلانے کے لیے خود معاش کا اہتمام کرنا ہے۔
سورہ شعراء کی اس آیت کے ذیل میں جناب ہود# اور ان کی دعوت سے متعلق بقیہ  آیات درج ذیل ہیں:
إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ ‎﴿١٢٥﴾‏ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ ‎﴿١٢٦﴾‏ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‎﴿١٢٧﴾‏ أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ ‎﴿١٢٨﴾‏ وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ ‎﴿١٢٩﴾‏ وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ ‎﴿١٣٠﴾‏ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ ‎﴿١٣١﴾‏ وَاتَّقُوا الَّذِي أَمَدَّكُم بِمَا تَعْلَمُونَ ‎﴿١٣٢﴾‏ أَمَدَّكُم بِأَنْعَامٍ وَبَنِينَ ‎﴿١٣٣﴾‏ وَجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ‎﴿١٣٤﴾‏ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ‎﴿١٣٥﴾‏قَالُوا سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَكُن مِّنَ الْوَاعِظِينَ ‎﴿١٣٦﴾ إِنْ هَٰذَا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ ‎﴿١٣٧﴾‏ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ‎﴿١٣٨﴾‏ فَكَذَّبُوهُ فَأَهْلَكْنَاهُمْ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ‎﴿١٣٩﴾‏ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ‎﴿١٤٠﴾‏. [12]سورہ شعراء: ۱۲۴-۱۴۰۔
ترجمہ:’’میں تمہارے لئے ایک امانتدار پیغمبر ہوں، لہذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، اور میں تو تم سے تبلیغ کا کوئی اجر بھی نہیں چاہتا ہوں میرا اجر صرف رب العالمین کے ذمہ ہے، کیا تم کھیل تماشے کے لئے ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار بناتے ہو، اور بڑے بڑے محل تعمیر کرتے ہو کہ شاید اسی طرح ہمیشہ دنیا میں رہ جاؤ، اور جب حملہ کرتے ہو تو نہایت جابرانہ حملہ کرتے ہو، اب اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، اور اس کا خوف پیدا کرو جس نے تمہاری ان تمام چیزوں سے مدد کی ہے جنہیں تم خوب جانتے ہو، تمہاری امداد جانوروں اور اولاد سے کی ہے، اور باغات اور چشموں سے کی ہے، میں تمہارے بارے میں بڑے سخت دن کے عذاب سے خوفزدہ ہوں، ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے لئے سب برابر ہے چاہے تم ہمیں نصیحت کرو یا تمہارا شمارنصیحت کرنے والوں میں نہ ہو،یہ ڈرانا دھمکانا تو پرانے لوگوں کی عادت ہے، اور ہم پر عذاب ہونے والا نہیں ہے، پس قوم نے تکذیب کی اور ہم نے اسے ہلاک کردیا کہ اس میں بھی ہماری ایک نشانی ہے ا ور ان کی اکثریت بہرحا ل مومن نہیں تھی، اور تمہارا پروردگار غالب بھی ہے اور مہربان بھی ہے ۔‘‘

جناب ہودؑ کی قوم کا انکار 

حضرت ہود کی قوم نے آپؑ کی تعلیمات کو قبول کرنے سے واضح انکار کر دیا۔ قوم عاد کا با اثر طبقہ خصوصا پُر شکم سردار و منصب دار آپؑ کا تمسخر اڑاتے اور طرح طرح سے اہانت کرتے تاکہ قوم عاد میں حضرت ہود# کی کوئی حیثیت نہ رہے۔ قرآن کریم نے قوم عاد کے اس با اثر اور دنیا پرست طبقہ کے افکار و نظریات اور مختلف جرائم کا تذکرہ کیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي سَفَاهَةٍ وَ إِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِينَ  ؛ ان کی قوم میں کفر کرنے والے سرداروں نے کہا ہمیں تم تو نادان دکھائی دیتے ہو اور ہمارے خیال میں تم جھوٹوں میں سے ہو}[13]سورہ اعراف: آیت ۶۶۔، اس آیت میں قوم عاد کے با اثر طبقے کے دو اہم جرائم کا تذکرہ کیا گیا ہے:
۱۔ حضرت ہود# کی توہین کرنا اور انہیں برے کلمات اور صفات سے نوازنا
۲۔ حضرت ہود # پر الزام تراشی کرنا اور انہیں نعوذ باللہ جھوٹا کہنا
اس   آیت کریمہ کے بعد جناب ہود# کا جواب قرآن نے نقل کیا اور پھر قوم عاد اپنی دشمنی کی وجہ واضح الفاظ میں اس طرح بیان کی ہے: { قَالُوا أَ جِئْتَنَا  لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَ نَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ؛ انہوں نے کہا کیا تم یہ تعلیمات لے کر ہمارے پاس آئے ہو کہ ہم تنہا اللہ کی عبادت کریں اور ہمارے آباء جو عبادت کیا کرتے تھے اسے ترک کر دیں ، اگر ایسا ہے تو تم جو ہم سے وعدے کرتے ہو اس کو لے آؤ اگر تم سچوں میں سے ہو}[14]سورہ اعراف: آیت ۷۰۔،  قوم عاد نے جناب ہود# کی دعوتِ توحید کا انکار کیا اور مزید طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ تم بار بار جس عذاب کا ہم سے وعدہ کرتے ہو، ایسا کرو وہ عذاب ہمارے اوپر لے آؤ اگر واقعاً تم راست گو اور سچے ہو۔
قوم عاد نے فقط اس پر اکتفاء نہیں بلکہ خود سے جواب دیتے ہوئے کہتے کہ اے ہود ؑ ! تم اپنے تعلیمات کی حقانیت پر نہ کوئی ثبوت، گواہ  یا واضح دلیل نہیں لائے۔ لہٰذا ہم تمہارے کہنے پر آ کر اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں ہیں  اور  ہم تم پر کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے۔  سورہ ہود میں اللہ تعالیٰ قوم عاد کے جرائم کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: { قَالُوا يَا هُودُ  مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَ مَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَ مَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ؛ انہوں نے کہا : اے ہودؑ! تم ہمارے پاس کوئی بینہ (ثبوت) نہیں لے کر آئے اور ہم تمہارے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں  اور نہ ہی تم پر ہم ایمان لانے والے ہیں}[15]سورہ ہود: آیت ۵۳۔۔ قوم عاد کو اپنے تراشی ہوئے خداؤں پر بڑا ناز تھا اور سمجھتے تھے کہ پرانے دور کے لوگ چونکہ ضعیف تھے اس لیے ان کے خدا بھی ضعیف تھے جنہیں زمانے نے نابود کر دیا۔ لیکن ہمارے خدا بڑے قوی اور مضبوط ہیں جنہیں کوئی نابود نہیں کر سکتا۔ قوم عاد سمجھتی تھی کہ جناب ہودکو جو تنہائی میسر ہے اس کی بنیادی ان کا بت نما خداؤں کی مذمت اور ان کا انکار ہے اور جناب ہود کی حالت ہمارے بعض خداؤں ہی نے بنائی ہوئی ہے، جیساکہ قرآن کریم نے ان کے انہی گمراہ نظریات کو اس آیت میں بیان کیا ہے:{ إِن نَّقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ ؛ ہم تو بس یہی اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارے بعض معبودوں میں سے کسی نے تمہیں نقصان پہنچایا ہے }. [16]سورہ ہود: آیت۵۴۔

جناب ہودؑ کا اپنی قوم کو جواب

قوم کی اس جفا و ستم اور طرح طرح کی الزام تراشی میں جناب ہود# نے انتہائی حکمت ، دلیری اور صبر کا مظاہرہ کیا اور راہِ حق پر اپنی استقامت کو شجاعت سے بیان کیا  اور اپنی قوم فاسد انحرافی نظریات کا بھر پور جواب دیا۔ قرآن کریم نے جناب ہود# کے بعض جوابات کو انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے :
{ ‏قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ‎﴿٥٤﴾‏ مِن دُونِهِ ۖ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنظِرُونِ ‎﴿٥٥﴾‏ إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم ۚ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ‎﴿٥٦﴾‏ فَإِن تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ ۚ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّي قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ؛ جناب ہود نے کہا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم لوگ گواہ رہو کہ میں تم لوگوں کے شرک و مشرکانہ اعمال سے بیزار ہوں، اللہ کو چھوڑ کر تم سب مل کر جو مکر و فریب کی سازش کرنا چاہتے ہو وہ کرو اور ایک لحظہ میں مہلت نہ دو ، میں اللہ ہی پر توکل کرتا ہوں جو میرا ربّ بھی ہے اور تمہارا ربّ بھی، کوئی زمین پر رینگنے چلنے والا نہیں ہے مگر اس کے قبضہ قدرت میں اس کے پیشانی کے بال ہیں ، بے شک میرا ربّ صراط مستقیم پر ہے، پس اگر تم منہ پھیر لو تو میں نے تمہیں وہ سب پہنچا دیا ہے جو میرے طرف تمہارے لیے بھیجا گیا تھا اور میرا ربّ تم لوگوں کی کے علاوہ ایک اور قوم کو لے آئے گا اور تم اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے ، بے شک میرا ربّ ہر شیء کی حفاظت کرنے والا ہے }. [17]سورہ ہود: آیت۵۴۔

قوم ہود پر اللہ کا عذاب

{ وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُودًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَنَجَّيْنَاهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيْظٍ  }. [18]سورہ ہود: آیت ۵۸۔
ترجمہ:’’اور  ان کے بھائی عاد کی جانب ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو ، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اس کے غیر کو الہ مانتے ہوں ، تم صرف افتراء پردازی کرنے والے ہو۔‘‘

۵۔ سورہ ہود: ۶۰

{ وَأُتْبِعُوا في‏ هذِهِ الدُّنْيا لَعْنَةً وَ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا إِنَّ عاداً كَفَرُوا رَبَّهُمْ أَلا بُعْداً لِعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ }. [19]سورہ ہود: آیت ۶۰۔
ترجمہ:’’اور  ان کے بھائی عاد کی جانب ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو ، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اس کے غیر کو الہ مانتے ہوں ، تم صرف افتراء پردازی کرنے والے ہو۔‘‘

۶. سورہ ہود: ۸۹

{ وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ۚ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ }. [20]سورہ ہود: آیت ۸۹۔
ترجمہ:’’اور اے میری قوم ! کہیں مجھ سے جدائی اور میری مخالفت تم لوگوں پر ایسا عذاب نہ لے يئے جیسا عذاب قوم ِنوحؑ یا قومِ ہود ؑیا قوم ِصالحؑ پر نازل ہوا تھا اور قومِ لوطؑ بھی تم سے کچھ دُور نہیں ہے۔‘‘
۸۔ سورہ احقاف: ۲۱
سورہ احقاف کی اس آیت کے ذیل میں جناب ہود# اور ان کی دعوت سے متعلق بقیہ  آیات درج ذیل ہیں:
قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ‎﴿٢٢﴾‏ قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ ‎﴿٢٤﴾‏ تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَىٰ إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ ‎﴿٢٥﴾‏ وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِن مَّكَّنَّاكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُم مِّن شَيْءٍ إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٢٦﴾‏. [21]سورہ احقاف: آیت ۲۲-۲۶۔
ترجمہ:’’ان لوگوں نے کہا کہ کیا تم اسی لئے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے خداؤں سے منحرف کردو تو اس عذاب کو لے آؤ جس سے ہمیں ڈرا رہے ہو اگر اپنی بات میں سچے ہو، انہوں نے کہا کہ علم تو بس خدا کے پاس ہے اور میں اسی کے پیغام کو پہنچادیتا ہوں جو میرے حوالے کیا گیا ہے لیکن میں تمہیں بہرحال جاہل قوم سمجھ رہا ہوں، اس کے بعد جب ان لوگوں نے بادل کو دیکھا کہ ان کی وادیوں کی طرف چلا آرہا ہے تو کہنے لگے کہ یہ بادل ہمارے اوپر برسنے والا ہے…. حالانکہ یہ وہی عذاب ہے جس کی تمہیں جلدی تھی یہ وہی ہوا ہے جس کے اندر دردناک عذاب ہے، یہ حکم خدا سے ہر شے کو تباہ و برباد کردے گی. نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے مکانات کے کچھ نہ نظر آیا اور ہم اسی طرح مجرم قوم کو سزا دیا کرتے ہیں، اور یقینا ہم نے ان کو وہ اختیارات دیئے تھے جو تم کو نہیں دیئے ہیں اور ان کے لئے کان, آنکھ, دل سب قرار دیئے تھے لیکن نہ انہیں کانوں نے کوئی فائدہ پہنچایا اور نہ آنکھوں اور دلوں نے کہ وہ آیات الٰہی کا انکار کرنے والے افراد تھے اور انہیں عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔‘‘

آیات جن میں صرف قوم عاد کا تذکرہ ہے

قرآن کریم کی متعدد آیات ہیں جن میں حضرت ہود کی قوم کا فقط تذکرہ وارد ہوا ہے۔ قومِ عاد ان قوموں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالی نے وسیع عریض جثہ اور بلند ہیکل والے اجسام دیئے اور انہیں بے پناہ قوت و وسعت دی۔ قرآن کریم کی درج ذیل آیات میں قوم عاد کا فقط ذکر ہوا ہے:

{ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ وَعادٌ وَ فِرْعَوْنُ‏ وَإِخْوانُ‏ لُوط وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ }
ترجمہ:’’ان سے پہلے قومِ نوحؑ نے بھی تکذیب کی تھی اور اصحابِ رسّ اور ثمود اور عاد اور فرعون اور برادرانِ لوطؑ نے بھی اور اصحاب ایکہ اور قومِ تُبَّع نے بھی ، ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا جس کی وجہ سے وعید ان کا مقدر قرار پائی۔‘‘ [22]سورہ ق: آیت ۱۲-۱۴۔

سورہ الذاریات میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

{ وَفِي عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ مَا تَذَرُ مِن شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ }

ترجمہ:’’اور قوم عاد میں بھی ایک نشانی ہے جب ہم نے ان کی طرف بانجھ ہوا کو چلا دیا، کہ جس چیز کے پاس سے گزر جاتی تھی اسے بوسیدہ ہڈی کی طرح ریزہ ریزہ کردیتی تھی۔‘‘ [23]سورہ ذاریات: آیت ۴۱-۴۲۔

 سورہ النجم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الْأُولَىٰ }

ترجمہ:’’اور اس نے پہلے عاد کو ہلاک کیا ۔‘‘ [24]سورہ نجم: آیت ۵۰۔

 سورہ القمرقومِ عاد کی تباہی و بربادی کے متعدد اوصاف ذکر کیے گئے ہیں ، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

{ كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ ‎﴿١٨﴾‏ إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ ‎﴿١٩﴾‏ تَنزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنقَعِرٍ ‎﴿٢٠﴾‏ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ ‎﴿٢١﴾‏ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ }

ترجمہ:’’اور قوم عاد نے بھی تکذیب کی تو ہمارا عذاب اور ڈرانا کیسا رہا، ہم نے ان کی اوپر تیز و تند آندھی بھیج دی ایک مسلسل نحوست والے منحوس دن میں، جو لوگوں کو جگہ سے یوں اُٹھالیتی تھی جیسے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہوں، پھر دیکھو ہمارا ذاب اور ڈرانا کیسا ثابت ہوا، اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔‘‘  [25]سورہ قمر: آیت ۱۸-۲۲۔

سورہ الحاقۃ میں بھی قومِ عاد کی تباہی کے متعدد اوصاف بیان کیے گئے ہیں : 

{ كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ ‎﴿٤﴾‏ فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ ‎﴿٥﴾‏ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ‎﴿٦﴾‏ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ‎﴿٧﴾‏ فَهَلْ تَرَىٰ لَهُم مِّن بَاقِيَةٍ}

ترجمہ:’’قوم ثمود و عاد نے اس کھڑ کھڑانے والی کا انکار کیا تھا، تو ثمود ایک چنگھاڑ کے ذریعہ ہلاک کردیئے گئے، اور عاد کو انتہائی تیز و تند آندھی سے برباد کردیا گیا، جسے ان کے اوپر سات رات اور آٹھ دن کے لئے مسلسل مسخرکردیا گیا تو تم دیکھتے ہو کہ قوم بالکل مردہ پڑی ہوئی ہے جیسے کھوکھلے کھجور کے درخت کے تنے، تو کیا تم ان کا کوئی باقی رہنے والا حصہّ دیکھ رہے ہو۔‘‘ [26]سورہ حاقۃ: آیت ۴-۸۔

سورہ الحاقۃ میں بھی قومِ عاد کی تباہی کے متعدد اوصاف بیان کیے گئے ہیں : 

{ كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ ‎﴿٤﴾‏ فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ ‎﴿٥﴾‏ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ‎﴿٦﴾‏ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ‎﴿٧﴾‏ فَهَلْ تَرَىٰ لَهُم مِّن بَاقِيَةٍ}

ترجمہ:’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا ہے، ستون والے ارم والے، جس کا مثل دوسرے شہروں میں نہیں پیدا ہوا ہے۔‘‘ [27]سورہ فجر: آیت ۶-۸۔

 

Views: 121

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حضرت ہودؑ کے بارے میں قرآنی آیات
اگلا مقالہ: آیت مباہلہ