loading
{سياست}

تنظیم تعاون اسلامی(O.I.C)پر ایک تبصرہ

کتاب: سازمان های بين المللی و منطقه ای
مصنف: حجت الاسلام آقاى هادی شجاعی
تحرير: عون نقوی 

مقدمہ

تنظیم تعاون اسلامی(Organisation of Islamic Cooperation) ایک بین الاقوامی تنظیم ہے۔ ۵۷ اکثریتی مسلم ممالک  کی یہ تنظیم ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے تاسيس ہوئی۔ اس تنظيم کے پاس بہت سی توانائیاں اور فرصتیں موجود ہیں۔ اگران توانائیوں سے بہتر شكل میں استفادہ حاصل کیا جاۓ تو امت مسلمہ اور اسلامی ممالک کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔  افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس تنظیم کی تاسیس کے دن سے ہی اس  تنظیم کو مغربی استعمار نے اغوا کر لیا اور اسے اپنے اعلی اہداف کی طرف بڑھنے نہ دیا۔ اگر ہم اختصار کے ساتھ تنظیم  پر تبصرہ کریں تو اسے چار ادوارمیں تقسیم کر سکتے ہیں۔

تاسیس کا دورہ (۱۹۶۹تا۱۹۷۲)

یہ تنظیم ۲۱اگست ۱۹۶۹ کو وجود میں آئی۔ صیہونیوں کے مسجد اقصی پر حملے کے رد عمل میں مراکش کے شہر میں اس تنظیم کی تاسیس ہوئی۔ اقوام متحدہ کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے۔  شروع میں ۲۵ سے ۳۵ ممالک اس تنظیم میں شامل تھے۔ اسی دوران تنظیم کا منشور لکھا گیا۔ بعض ممالک اس لیے تنظیم کا حصہ بننے سے کترا رہے تھے کیونکہ انہیں تنظیم کا منشور قبول نہیں تھا۔ بعض نیشنلسٹ ممالک اس تنظیم کے مخالف تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ قومیتی بنیادوں پر عالمی تنظیم بنائی جاۓ۔ تنظیم کااصلی مقصد صیہونیت کا مقابلہ کرنا تھا۔مزید یہ کہ مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصی کو صیہونیوں کے قبضہ سے آزاد کروایا جاۓ۔ لیکن اس تنظیم کے بعض عضو ممالک ایسے تھے جن کی اسرائیل کے ساتھ بہت گہری دوستی تھی۔ مثلا شاہ ِایران صیہونیوں کا بہت گہرا دوست تھا بھلا وہ کیسے صیہونیوں سے مسجد اقصی کو آزاد کروانے جا سکتا تھا؟ باقی ممالک کے بھی اسی نوعیت کے اسرائیل کے ساتھ مفادات جڑے تھے ۔ یہ ممالک ظاہری طور پر تو فلسطین کی آزادی کا نعرہ لگا رہے تھے لیکن پیچھے سے اسرائیل کے ساتھ ملے ہوۓ تھے۔ یہ وجہ تھی کہ بعض ممالک نے اس تنظیم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ پہلے اس تنظیم اور اس کے عضو ممالک کا حسن عمل ثابت ہو پھر عضویت اختیار کی جاۓ۔ اس تنظیم کی تاسیس میں ایک بہت بڑا ہاتھ آل سعود کا موجود ہے۔ مبصرین کی یہ راۓ ہے کہ اس تنظیم کو اگرچہ مسلمان ممالک نے بنایا ہے لیکن پیچھے سے ماسٹر مائنڈ مغربی و صیہونی مفکرین تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ فلسطین کا مسئلہ ایسے ممالک کے ذریعے حل کروایا جاۓ جو مغربی و امریکی بلاک میں ہیں۔ اور یہ تحلیل ایک حد تک قابل قبول ہو سکتی ہے کہ جس دن سے اس تنظیم کی تاسیس ہوئی اسی دن سے مسئلہ فلسطین کو امت کے صفحہ اول کے مسائل سے نکال دیا گیا۔

تنظیم کے اوج کا دور (۱۹۷۳)

اعراب کی اسرائیل کے ساتھ جنگ کے بعد تنظیم ایک حد تک دوبارہ فعال ہوئی۔ اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ممالک کے اندر وحدت و یگانگت حاصل ہوئی۔ در اصل یہ وہ دور تھا جب اس تنظیم کی اہمیت کا اندازہ پوری دنیا کو ہوا۔ صیہونیوں کی جنگ کے خلاف تنظیم نے یہ اقدام اٹھایا کہ اسرائیل اور اس کا ساتھ دینے والے مغربی ممالک پر پابندیاں لگائیں۔ حتی خود سعودی عرب نے گیس اور انرجی ذرائع کی مغربی ممالک کو درآمد پر پابندی لگائی۔ اس اقدام کے بعد استعمار کو علم ہوا کہ تنظیم اگر حقیقی معنوں میں فعال ہو جاۓ تو پوری دنیا کو متاثر کر سکتی ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں اسلامی ممالک تیل و گیس کے ذخائر سے مالا مال ہیں۔ اگر ایک دن کے لیے بھی متحد ہو کر یورپ اور امریکہ کو تیل اور گیس دینا بند کر دیں پورا یورپ بھوک سے مر جاۓ۔ اور فلسطین و کشمیر کا مسئلہ گھنٹوں میں حل ہو جاۓ۔ لیکن ایسا ہونا صرف ایک خواب ہے۔ اس اقدام کے بعد تنظیم کو اندر سے کھوکھلا کیا جانے لگا، ملک فیصل کا قتل، مصر کا تنظیم سے نکالا جانا، ایران عراق جنگ اور بعض دیگر مسائل باعث بنے تنظیم کو مزید تقویت نہ مل سکی۔ 

تنزلی کا دور (۱۹۸۱ء)

یہ وہ دور ہے جہاں سے بین الاقوامی سطح پر اس تنظیم کا اعتبار ختم ہونا شروع ہوا۔ لبنان پر حملے کے موقع پر اس تنظیم نے چھوٹا سا ردعمل تک سامنے نہ آیا۔ تاہم بیانات اور مذمت کی حد تک اخباروں کی سرخیاں سامنے آتی رہیں۔ لیکن باقاعدہ طور پر تنظیم کے عضو ممالک نے کوئی ردعمل دکھایا ہو یا کسی ملک کا اقتصادی یا سیاسی بائیکاٹ کیا ہو، ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ استکبار صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے اسے اخلاقیات کے درس سنانا اور یہ کہنا کہ جنگ کرنا بری بات ہے ہم اس کو اچھا نہیں سمجھتے وغیرہ، یہ کلمات مستکبر طاقتوں کو سمجھ نہیں آتے۔ ان کو صرف طاقت کی زبان سمجھ آتی ہے اگر یہ تنظیم اپنی بھرپور توانائی سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ تھوڑی سی بھی استقامت دکھاتی کسی ملک کی جرات نہ ہوتی اسلامی ممالک کی حدود پر حملہ کرے۔

تنظیم کی احیاء کا موقع(۱۹۹۲)

سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد اس تنظیم کو دوبارہ جان پکڑنے کا موقع ملا۔ مشرقی بلاک اور مغربی بلاک والی بات ختم ہو چکی تھی اور بہت سے ممالک آزاد ہو چکے تھے۔ یہ موقع تھا کہ مشرق زمین پر مسلمان ممالک ایک قوت اختیار کریں۔ لیکن امریکہ اور اس کے حواری اس بات کو پہلے سے جانتے تھے کہ اس فرصت سے مسلم ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ پہلے سے منصوبہ بنا چکا تھا اور تنظیم کے اندر نفوذ بڑھا کر تنظیم کو مثبت فعالیت کرنے سے مانع واقع ہوا۔ حالانکہ اس دور کی جنگیں مسلمانوں کو ایک بار پھر آپس میں متحد کر سکتی تھیں۔ بوسنی، کشمیر، عراق، افغانستان پر امریکیوں کے حملے نے کسی ملک نے مؤثر آواز نہ اٹھائی۔

تنظیم پر چند نقد

۱۔ تنظیم کی تاسیس کا بنیادی مقصد قبلہ اول اور فلسطین کو صیہونی قبضے سے آزاد کروانا تھا۔ لیکن اس کے لیے آج تک کوئی عملی چارہ جوئی نہیں کی۔
۲۔ اسلام ستیزی کے خلاف کسی بھی مغربی ملک کے خلاف عملی اقدامات انجام نہیں دیا۔ عرصہ دراز سے اسلام ہراسی (Islamophobia)کا سوچا سمجھا منصوبہ مغرب کی جانب سے جاری ہے لیکن اس تنظیم کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
۳۔ تنظیم کے اہداف اور اس کی عملی روش ایک دوسرے کے ساتھ تطبیق نہیں رکھتی۔ مثلا دنیا میں قوت شرق سے غرب منتقل ہو رہی ہے تو اس تنظیم نے کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے اور کیا کرنا ہے؟ اس کے اہداف اور مسیر اب کیا ہونگے؟ ان اہم سوالوں کے جواب کسی بھی عضو ممالک کی جانب سے تحلیل کے طور پر پیش نہیں کئے گئے۔
۴۔ امت مسلمہ اور اسلامی ممالک کی کسی ایک تمنا اور توقعات کو پورا نہیں کر سکے۔ تنظیم کا ڈھانچہ ابھی تک نہیں بدلا۔ تاسیس سے لے کر آج تک وہ اسٹریکچر ہے صرف نام بدل دیا، سال میں تین اجلاس رکھتے ہیں وہاں بحث کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا دیدار کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔
۵۔ تنظیم کا رہبر و آخری بات کرنے والا موجود نہیں ہے۔ بالآخر ایک ایسا شخص ہونا ضروری ہے جو تعیین کرے کہ کیا کرنا ہے؟ بے شک غلط فیصلہ ہی کیوں نہ کرے یہ اس سے بہتر ہے کہ کوئی رہبر ہی موجود نہ ہو۔
۶۔ تنظیم کے عضو ممالک کا شدید نظریاتی تضاد۔ اس وقت ایران، سعودی عرب، اور ترکی تینوں ہی مسلم امہ کے رہبر ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ اور تینوں ہی آپس میں شدید اختلاف رکھتے ہیں جو باعث بنتا ہے کہ کسی بنیادی نکتہ اشتراک پر اتحاد نہ کر سکیں۔ ممکن تھا کہ اسلام ان کے درمیان نکتہ اشتراک بن جاتا لیکن تینوں ممالک اسلام کی اپنی تشریح و تعریف کرتے ہیں۔
۷۔ چند ممالک کو چھوڑ کر تقریبا باقی تمام عضو مغرب کی افراطی حد تک پیروی کرتے ہیں۔حتی بعض ممالک کو امریکہ نے دودھ دینے والی گاۓ تک کہہ دیا لیکن ان کو مشکل پیش نہیں آئی۔ امت مسلمہ کے مفادات کو ترک کر کے مغربی مفادات کو پورا کرنا تنظیم کے وجود ی فلسفہ کے برخلاف ہے۔
۸۔ تنظیم کے اندر ۵۷ اسلامی ممالک شامل ہیں۔ جو تقریبا دنیا کی ایک ارب سے زائد آبادی بنتی ہے۔ اگر ان ممالک کا حقیقی معنی میں آپس میں اتحاد ہو جاۓ، ان کا اقتصاد، سیاست، امنیت اور دیگر مسائل پر مشترک تفاہم ہو جاۓ تو پوری دنیا پر حاکمیت کر سکتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ یورپی یونین متحد ہو گئی، ان کی کرنسی ایک ہے، ان کی فوج ایک ہے اور انہوں نے بارڈرز کی محدودیتیں بھی اٹھا لی ہیں، وہ متحد ہیں ۔ جبکہ اس تنظیم کے عضو ممالک کا مذہب ایک ہے،ان کے پاس دنیا کی آدھی سے زیادہ انرجی موجود ہے، تیل، گیس، اور پانی مہیا ہے۔ ان سب فرصتوں کے باوجود خاطر خواہ استفادہ حاصل نہیں کیا۔
۹۔ تنظیم کے بہت سے عضو ممالک انتہائی حد تک فقیر ہیں۔ عرب ممالک اور دیگر امیر ممالک کو یورپ اور امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے کی بجاۓ ان فقیر ممالک میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ امت مسلمہ مقتدر ہو اور مغربی طاقتوں کی محتاج نہ ہو۔
۱۰۔ تنظیم کے عضو ممالک کے مابین جو طے پاتا ہے اس کی اجرائی ضمانت موجود نہیں ہے۔ مثلا اگر کوئی تنظیم کے طے شدہ منشور کے مطابق عمل نہ کرے اس کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ کیا اس کو سزا کے طور پر مؤاخذہ کیا جاۓ گا یا نہیں؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تنظیم کے منشور میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اس پر اجراء نہیں ہوتا۔

Views: 13