loading

انسان کے افکار و اعمال کا نفع و نقصان

تحریر: سید محمد حسن رضوی

2021-10-03

اللہ تعالیٰ نے انسان کے کمال اور بلند مقامات تک رسائی کے لیے اس کو دنیا میں امتحان کےلیے بھیجا اور اس کو نظام ہدایت میں ڈھلنے کا اختیار دے کر آزمایا۔ ہدایت کے بغیر زندگی کو گھاٹے اور مصیبت کی زندگی قرار دیا جس کی تلخی اور تکلیف انسان دنیا و آخرت ہر جہاں میں چھکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہدایت اور بصیرت کی زندگی کو نفع اور سعادت کی زندگی قرار دیا جس کے خوشگوار نتائج اس دنیا اور آخرت ہر دو جگہ میسر آتے ہیں۔ اگرچے دنیا کی آزمائشوں بالخصوص نعمات کی آسائشوں اور مصائب کی تلخیوں سے کوئی ذی روح مستثنی نہیں ہے۔ بلکہ ایمان اور عمل صالح مزید نعمات اور مصائب کے آنے کا باعث بنتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کے مطابق فلسفہِ خلقت دنیا ابتلاء اور آزمائش ہے نہ کہ راحت، سکون ، عیش و عشرت اور لذات و آرام کوہمیشہ کے لیے میسر آنا۔ انسان اپنی نادانی کی وجہ سے دنیا کو راحت، آرام، لذت اور سکون کی جگہ دیکھنا چاہتا ہے جبکہ خالق دو جہاں نے اس کو فناء اور بربادی کے لیے خلق کیا اور حَسین نظارے کرا کے رخ پھیر لینے سے آزمائش کو جنم دیا۔ اب اگر انسان ان سب حقائق کا منکر ہو کر خیالی دنیا کو عملی شکل دینا چاہے تو یہ انسان کی بے شعوری اور نادانی ہے کیونکہ ہمارے تخیل سے حقائق تبدیل نہیں ہو جاتے اور نہ ہماری کوششوں سے اللہ تعالیٰ اپنی خلقت کو نادانوں کے تقاضوں پر ڈھالے گا۔ پس ہمیں اپنی اصلاح کرنا ہو گیااور اپنی فکر و عمل کو خالق و مالک کے ماتحت لانا ہو گا۔قرآن کریم نے انسان کے افکار و اعمال کے اثرات کو اسی کی شخصیت کے ساتھ خاص قرار دیا ہے۔ اگر انسان ہدایت یافتہ ہوتا ہے اور عمل کرتا ہے تو اسی کو اس کا فائدہ میسر آئے گا اور اگر گمراہ ہو تو کا خمیازہ بھی ہوئی اٹھائے گا ۔ قرآن کریم نے درج ذیل افکار و اعمال کے بارے میں خصوصی طور پر رہنمائی کی ہے کہ ان کا فائدہ بھی انسان کو ہے اور نقصان بھی :

۱۔ ہدایت اور گمراہی
۲۔ عمل صالح اور عمل سیئہ
۳۔ تزکیہ نفس
۴۔ شکر اور کفر
۵۔ راہِ الہٰی میں جہاد
۶۔ بصیرت و اندھا پن 

ہدایت اور گمراہی

قرآن کریم نے واضح الفاظ میں ہدایت کا فائدہ اور گمراہی کی آفات کا خمیازہ خود انسان کی شخصیت کو قرار دیتا ہے۔ اگر کوئی ہدایت پا جائے تو اس کا فائدہ انسان ہی کو ہے اور اگر وہ گمراہ ہو جائے تو اس سے کسی قبر خراب نہیں ہوتی بلکہ اس کی دنیا و آخرت اجڑتی ہے۔ پس ہدایت اور گمراہی ایسے افکار و اعمال ہیں جن کا اثر خود انسان پر پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے اولیاء اس سے مبرا اور بے نیاز ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نہ کسی کی ہدایت سے فائدہ حاصل ہوتا ہے اور نہ کسی کی گمراہی سے نقصان۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس مطلب کو بیان کرتی ہیں:

  {قُلْ يا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جاءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدى‏ فَإِنَّما يَهْتَدي لِنَفْسِهِ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها وَ ما أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكيل‏}
ترجمہ: کہہ دیجیے اے لوگو! تمہار ے ربّ کی جانب سے تمہارے پاس حق آیا ہے ، لہٰذا جو ہدایت پا لے پس اس نے اپنے آپ کو اس ہدایت پا کر نفع دیا اور جو گمراہ ہو تو اس کی گمراہی کا خمیازہ اسی پر آئے گا اور میں تمہارے اوپر وکیل مقرر نہیں ہوں۔ [1]سوره یونس، آيت: ۱۰۸

یہی مطلب قرآن کریمہ میں سورہ اسراء میں تکرار ہوا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:

  {مَنِ اهْتَدى‏ فَإِنَّما يَهْتَدي لِنَفْسِهِ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها وَ لا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى‏ وَ ما كُنَّا مُعَذِّبينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا}
ترجمہ: جس نے ہدایت حاصل کی اس کا ہدایت یافتہ ہونا اس کے اپنے لیے ہی ہے اور جو گمراہ ہوا اس کی گمراہی کا خمیازہ اس کو اٹھانا ہو گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک رسول مبعوث نہ کر دیں۔ [2]سوره اسراء، آيت:۱۵
سورہ نمل میں اس مطلب کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
  {وَأَنْ أَتْلُوَا الْقُرْآنَ فَمَنِ اهْتَدى‏ فَإِنَّما يَهْتَدي لِنَفْسِهِ وَ مَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِريۡنَ‏}
ترجمہ: اور میں قرآن کی تلاوت کرتا ہوں، پس جو ہدایت یافتہ ہو جائے تو اسی کو یہ ہدایت یافتہ ہونا فائدہ دے اور جو گمراہ ہوا تو آپ کہہ دیجیے میں تو صرف انذار کرنے والوں میں سے ہوں۔ [3]سوره نمل، آيت:۹۲
سورہ زمر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{إِنَّا أَنْزَلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ فَمَنِ اهْتَدى‏ فَلِنَفْسِهِ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها وَ ما أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكيل‏}
ترجمہ: بے شک ہم نے لوگوں کے لیے حق کے ساتھ آپ پر کتاب کو نازل کیا ، پس جو ہدایت یافتہ ہوااسی کو اس کا فائدہ ہے اور جو گمراہ ہوا تو اس کی گمراہی اس کے اوپر آئے گی اور آپ ان پر وکیل نہیں بنائے گئے۔ [4]سورہ زمر، آيت:۴۱

عمل صالح اور عمل طالح

قرآن کریم میں عمل صالح اور عملِ سیئہ کے بارے میں بھی اسی طرح کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

{مَنْ عَمِلَ صالِحاً فَلِنَفْسِهِ وَ مَنْ أَساءَ فَعَلَيْها وَ ما رَبُّكَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبيد}
ترجمہ: جس نے صالح عمل انجام دیا وہ اس کے فائدہ کے لیے ہے اور جس نے بُرا عمل انجام دیا اس کا نقصان اسی کو ہو گا اور آپ کا ربّ بندے پر ظلم نہیں کرتا۔ [5]سورہ فصلت، آيت:۴۶
سورہ جاثیہ میں اسی تقابل کا تذکرہ ان الہٰی کلمات کے ساتھ کرایا گیا ہے:
{مَنْ عَمِلَ صالِحاً فَلِنَفْسِهِ وَ مَنْ أَساءَ فَعَلَيْها ثُمَّ إِلى‏ رَبِّكُمْ تُرْجَعُون‏}
ترجمہ:جس نے صالح عمل انجام دیا وہ اسی کے فائدہ کے لیے ہے اور جس نے بُرا عمل انجام دیا اس کا خمیازہ وہی بھگتے گا ،پھر تم اپنے ربّ کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔ [6]سورہ جاثیہ، آيت:۱۵

تزکیہ نفس

قرآن کریم نے تزکیہ نفس کے لیے انہی کلمات کو استعمال کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ جس نے تزکیہ نفس کیا اس کا اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا فائدہ اسی شخص کو ہو گا:

{وَ مَنْ تَزَكَّى فَإِنَّما يَتَزَكَّى لِنَفْسِهِ وَ إِلَى اللَّهِ الْمَصير}
ترجمہ: اور جس نے تزکیہ نفس کیا اس نے اپنے لیے تزکیہ کیا ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے۔[7]سورہ فاطر، آيت:۱۸

شکر اور کفر

اللہ تعالی ٰ کا اگر کوئی شکر گزار اور مطیع عبد بنتا ہے تو اس کی اطاعت اور شکرگزاری کا اللہ تعالیٰ کو کوئی نفع حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ اسی شخص کے فائدہ کے لیے ہے۔ قرآن کریم میں دو مقامات پر شکر و کفر کے اس تقابل کو ذکر کیا گیا ہے جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے: 

{ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَريم‏}
ترجمہ: اور جس نے شکر ادا کیا اس نے اپنی ہی لیے شکر کا فائدہ پایا اور جس نے کفر کیا تو میرا ربّ بے نیاز کریم (ذات) ہے۔ [8]سورہ نمل، آيت:۴۰
قرآن کریم میں سورہ لقمان میں اسی تقابل کو اس طرح سے ذکر کیا گیا ہے:
{وَ مَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَميد}
ترجمہ: اور جو شکر بجا لاتا ہے تو اس کے شکر کرنے کا فائدہ اسی کو حاصل ہے اور جس نے کفر کیا تو اللہ غنی حمید ہے۔ [9]سورہ لقمان، آيت:۱۲

راہِ الہٰی میں سخت جدوجہد

ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے: 

{ وَ مَنْ جاهَدَ فَإِنَّما يُجاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعالَمين‏‏}
ترجمہ: اور جس نے جد و جہد کی تو اس کی جدوجہد کا فائدہ اسی کو ہے ، بے شک اللہ عالمین سے غنی و بے نیاز ہے۔  [10]سورہ عنکبوت، آيت:۶

بصیرت اور بے بصیرتی

 ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے: 

{ قَدْ جاءَكُمْ بَصائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَ مَنْ عَمِيَ فَعَلَيْها وَ ما أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفيظ‏}
ترجمہ:  ۔  [11]سورہ انعام، آيت:۱۰۴

منابع:

منابع:
1 سوره یونس، آيت: ۱۰۸
2 سوره اسراء، آيت:۱۵
3 سوره نمل، آيت:۹۲
4 سورہ زمر، آيت:۴۱
5 سورہ فصلت، آيت:۴۶
6 سورہ جاثیہ، آيت:۱۵
7 سورہ فاطر، آيت:۱۸
8 سورہ نمل، آيت:۴۰
9 سورہ لقمان، آيت:۱۲
10 سورہ عنکبوت، آيت:۶
11 سورہ انعام، آيت:۱۰۴
Views: 17

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حضرت ہودؑ قرآنی آیات کے تناظر میں
اگلا مقالہ: حضرت صالح ؑ اور ان کی قوم