اللہ تعالیٰ کی صفتِ قدرت و ارادہ
تحریر: سید محمد حسن رضوی
02/02/2025
لغت میں قدرت کا معنی ملکیت میں ہونا اور غنی ہونا یا ایک شیء کا اپنی آخری حد تک پہنچنا ہے۔ راغب اصفہانی کے مطابق قدرت کو اگر انسان کے ساتھ متصف کیا جائے تو اس سے مراد وہ حالت ہے جس میں انسان کسی بھی فعل کو انجام دینے کی طاقت و استعداد رکھتا ہے لیکن جب اسے اللہ تعالیٰ سے متصف کیا جائے تو اس سے مراد اللہ کا عاجز نہ ہونا ہے اور محال ہے کہ غیرِ اللہ کے پاس قدرتِ مطلقہ ہو۔[1]راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن، ص ۲۹۴۔ راغب اصفہانی کے بیان کردہ معنی پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس کے مطابق قدرتِ الہٰی اللہ سبحانہ کی صفتِ سلبی ہے نہ کہ صفت ثبوتی جبکہ بلا شک وشبہ قدرت صفتِ ثبوتی و عینِ ذات الہٰی ہے۔
فہرست مقالہ
قدرت کا فلسفی معنی:
فلسفی اصطلاح میں قدرت سے مراد مشیت یعنی چاہت کے وقت فعل کا آغاز اور ابتداء کر سکے اور ترک کرنا چاہے تو آغازنہ کر دے۔ بالفاظِ دیگر فاعل اپنی ذات میں اس طرح سے ہو کہ اگر چاہے تو فعل کو انجام دے اور اگر نہ چاہے تو فعل ترک کر دے۔ فلسفی تعریف میں تین قیود پائی جاتی ہیں:
۱۔ فعل اور آغازِ ہونا چاہیے نہ انفعال و اثر پذیری۔
۲۔ علم ، کیونکہ قدرت کا تعلق اس فعل سے ہوتا ہے جس کا فاعل کو علم ہو۔
۳۔ اختیار، کیونکہ فعل کے بارے میں فاعل کو علم ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اختیار کے ساتھ فعل کو انجام دینے پر وہ قادر ہو۔قیدِ سوم یہ ہے کہ قعل کی جانب بڑھنا قصد اور اختیار کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اگر ایک فعل جبر یا الزامی طور پر صادر ہو تو اس فاعل کو قادر نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہاں اس نے اختیار سے فعل کو انجام نہیں دیا۔
قوت اور قدرت میں فرق:
قوت اور قدرت میں فرق ہے۔ قوّت کا اطلاق فعل وآغازِ فعل پر بھی ہوتا ہے انفعال و آغازِ انفعال پر بھی جبکہ قدرت کا طلاق فقط فعل و فعل کی ابتداء کرنے پر ہوتا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ قوت اعم تر از قدرت ہے کیونکہ قوت فعل و انفعال ہر دو کو شامل ہے لیکن قدرت انفعال کو شامل نہیں ہے۔ جہاں فعل اور کسی عمل کے علم کی بات ہے تو قدرت تب کہلاتی ہے جب آغازِ فعل علم کی بناء پر ہو اور فاعل کے علم کا فعل صادر کرنے میں دخل ہو۔ لہٰذا طبیعی و مزاجی قوتوں کو قدرت نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں شعور مفقود ہوتا ہے ، مثلاًآگ جلانی کی قدرت رکھتی ہے لیکن اس کو اصطلاح میں قادر نہیں کہیں گے کیونکہ آگ کو اپنے فعل کا علم و شعور نہیں ہے، اسی طرح انسان کا معدہ جب غذا ہضم کرتا ہے تو اسے اصطلاح میں قدرتِ ہاضمہ نہیں کہیں گے کیونکہ معدہ کو کھانا ہضم کرنے کی قدرت کا علم و شعور حاصل نہیں ہے۔ اگرچے ہم اپنی محاورتی زبان میں معدہ کی طرف قدرت کی نسبت دیتے ہیں لیکن اصطلاحی طور پر نسبت نہیں دے سکتے کیونکہ وہ علم و اختیار سے یہ عمل انجام نہیں دے رہا۔ اسی طرح انسانیِ نفس کی طرف بھی معدہ کے غذا کو ہضم کرنے کی نسبت نہیں دے سکتے کیونکہ انسانی نفس کے علم کی عملِِ ہضم میں کسی قسم کی دخالت نہیں ہے۔ اگر انسان جان بھی لے تو بھی علم کی وجہ سے معدہ یہ کام نہیں کر رہا۔ لہٰذا انسانی نفس یہاں فاعل نہیں ہے بلکہ کوئی اور فاعل ہے جوکہ معدہ ہے وہ یہ فعل انجام دے رہا ہے۔
پس اگر انسان کسی فعل کے خیر ہونے کا علم حاصل کرے اور اس کے انجام دینے کا میلان و شوق اضطراری طور پر اس میں جنم لے ، جیسے بھوکا انسان جب کھانے کو دیکھتا ہے تو اس میں شوق اور رغبت پیدا ہوتی ہے اور وہ کھانے کے عمل کو انجام دینے کا ارادہ اور قصد کرتا ہے جوکہ اس کا اپنے عزم کو جمع کرکے اپنے جسم کے اعضاء و جوارح کو متحرک کرنا ہے تو خارج میں کھانے کا عمل انجام پا جاتا ہے۔ اگر وہ اس فعل کو انجام نہ دینے کو اختیار کرے جیسے حالتِ روزہ میں ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو روک سکتا ہے اگرچے اس کے وجود میں فعل کی انجام دہی کی رغبت و شوق پایا جاتا ہے لیکن وہ اپنی مرضی سے نہ کھانے کو اختیار کرتا ہے اور کھانے کے ارادہ کو جنم نہیں دیتا۔ اس کو قادر کہتے ہیں۔
یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ رغبت و میلان کے بعد تو خود بخود اضطراری طور پر ارادہ بن جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ارادہ اضطراری ہوتا ہے نہ کہ اختیاری ، پھر عمل کیسے ارادی و اختیاری ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں عرض کرتے ہیں کہ شوق و رغبت و میلان کے بعد ارادہ کا حصول اضطراری نہیں ہے بلکہ ارادہ ہمیشہ چاہنے اور اختیار کرنے کے بعد بنتا ہے۔ اگر فاعل اگر فعل کو انجام دینے چاہے تو وہ ارادہ کرے گا اور اگر نہ چاہے تو اصلاً ارادہ جنم نہیں لے گا۔ پس یہاں ارادہ اختیاری ہے جس کی بناء پر انجام پانے والا فعل بھی اختیاری ہو گا۔
قدرت کا کلامی معنی:
متکلمین نے قدرت کا یہ معنی صحتِ فعل اور ترکِ فعل کیا ہے۔ ملا صدراؒ اسفارِ اربعہ میں بیان کرتے ہیں کہ قدرت کی کلامی تعریف یہ ہے کہ صحتِ فعل و ترکِ فعل جبکہ فلسفی تعریف یہ ہے کہ فاعل اپنی ذات میں ایسا ہونا کہ جب چاہے فعل کو انجام دے اور جب چاہے فعل کو ترک کر دے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت:
قدرت وجودی کمالات میں سے ایک کمال ہے اور بلا شک و شبہ اللہ سبحانہ اپنی ذات میں اس وجودی کمال کا مالک ہے۔ کلامی اور فلسفی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ثبوتیہ میں سے قدرت کا شمار ان صفات میں ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عینِ ذات ہے۔ قدرت کے جو مراحل سابقہ سطور میں بیان کی گئے ہیں ان کے مطابق اللہ تعالیٰ سے تمام کمالات سے متصف کرنا اور ہر قسم کے نقص و عیب سے منزّہ کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا انسان کی قدرت میں درکار مراحل جیسے علم یعنی تصور و تصدیق ، شوق و رغبت و میلان، ارادہ اور پھر تحرکِ اعضاء میں جو نقص اور محتاجی پر دلالت کرے اس سے اللہ تعالیٰ پاک اور منزّہ ہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ تصور و تصدیق سے منزہ ہے کیونکہ یہ علم حصولی کی اقسام ہیں جس کا اللہ تعالیٰ کے ثابت ہونا محال ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ میں شوق و رغبت کی احتیاج نہیں پائی جاتی کیونکہ شوق اور رغبت اس کمال کی طرف ہوتا ہے جو موجود نہ ہو اور فقدان مستلزمِ نقص ہے اس لیے اللہ تعالیٰ ہر نقص سے پاک و منزّہ ہے۔اس پر ہمارے پاس متعدد دلائل ہیں جن میں سے چند دلائل درج ذیل ہیں:
دلیل اوّل: ارادہ بمعنی عزم کا جمع کرنا تو اس معنی میں اللہ تعالیٰ کے لیے ارادہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس معنی میں ارادہ کیفیتِ نفسانی ہے جو علم و شوق کے بعد حاصل ہوتا ہے اور کیفیتِ نفسانی مقولہِ کیف میں سے ہے جو کہ مقولاتِ ماہوی میں اعراض تسعہ میں سے ایک مقولہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالی ماہیت اور اعراض میں سے قرار پائے جبکہ بالاتفاق اللہ سبحانہ تمام ماہیات و مقولات و امکان سے مبرّہ و منزّہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے لیے علمِ حصولی، شوق و رغبت اور ارادہ بمعنی عزم کرنا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
دلیل دوم: ارادہ بمعنی عزم سے اللہ تعالیٰ کا منزّہ ہونے پر دوسری دلیل یہے ہے کہ اس معنی میں ارادہ کا شمار ان واقع ہونے والے ان امور میں ہوتا ہے جو کسی زمانے میں وقوع پذیر ہوئے اور مراد (جس کا ارادہ کیا گیا ہے) کے ہمراہ یہ ارادہ پایا جاتا ہے اور مراد کے تحقق کے بعد ارادہ ختم ہو جاتا ہے۔ اگر قدرتِ الہٰی میں ہم ارادہ کو بطورِ قید اخذ کریں تو اس سے لازم آئے گا کہ ذات ِ مقدس سے ارادہ اس وقت ختم ہو جائے جب مراد متحقق ہو جائے جبکہ قدرت اللہ تعالیٰ کی صفت عین ذات ہے ، اس سے ذاتِ اقدس میں تغیرات و حوادث کا عارض ہونا لازم آئے گا اور کسی زمانے میں کمال سے اتصاف کے بعد تغیرات کی صورت میں کمال سے ذاتِ الہٰی کا فاقد ہونا لازم آتا ہے جوکہ محال ہے۔ پس اس معنی میں ارادہ کا اللہ تعالیٰ کے ماننا محال ہے۔ اس یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے وصفِ قدرت ثابت کرنے کے لیے تین قیود کو معتبر قرار نہیں دیا جائے گا !! بلکہ یہ تین قیود قدرتِ الہٰی کے معنی میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کی گئی قدرت میں پہلی قید فعل کے لیے مبدء اور آغاز ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کا اصلح اور بہترین نظام کے بارے میں علم ہونا ہے اور یہ علم عینِ ذات ہے۔ اسی طرح تیسری قید معنیِ قدرت میں اللہ تعالیٰ کا اعلیٰ ترین مراتب میں اختیار کا حامل ہونا ہےکیونکہ ذاتِ الہٰی کسی بھی عاملِ داخلی یا خارجی کی تاثیر کے ماتحت نہیں آ سکتی۔
خیر کا محبوبِ الہٰی ہونا
قدرتِ الہٰی کی بحث میں ایک اور قید خصوصی طور پر معتبر ہے جوکہ شوق و میلان کی جگہ محبت کا ہونا ہے۔ خیر مطلق طور پر محبوبِ الہٰی ہے۔ فرق نہیں پڑتا خیر موجود ہو یا مفقود ہو ہر دو صورت میں اللہ تعالیٰ کے لیے خیر موجود ہے کیونکہ حق تعالیٰ کسی خیر یا کمال سے فاقد و عاری نہیں ہے۔ اس بناء پر واجب تعالیٰ خیر سے محبت کرتا ہے۔ اس کو اصطلاح میں ابتہاجِ ذاتی اور حبِّ ذاتی کہا جاتا ہے جوکہ اللہ تعالیٰ کے فعلِ اختیاری کا منشأ ہے۔ اللہ سبحانہ جب کسی شیء سے محبت کرتا ہے تو اس شیء کے آثار سے بھی محبت کرنا ہے ، ورنہ اگر حبّ ِ ذاتی نہ پائی جاتی تو اصلاً حق تعالیٰ سے کوئی فعل صادر نہ ہوتا۔ پس فعل کا اللہ تعالیٰ سے صادر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ محبوبِ الہٰی ہے۔ اگر یہ محبوب بالذات نہیں ہے کیونکہ محبوب بالذات فقط ذاتِ اقدس الہٰی ہے جبکہ بقیہ محبوب بالعرض ہیں۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ خارج میں فعل کے متحقق ہونے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ذاتِ اقدس الہٰی میں اس سے محبت پائی جاتی تھی اور یہی اختیاری فعل کا منشأ ہے۔
قدرتِ الہٰی پر ایک اور دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے لیے بھی آغازِ فعل، علم اور اختیار کا معنی پایا جاتا ہے۔ مبدءِ فعل اور اس فعل کی فاعلیّت تمام عالمِ امکان میں اللہ سبحانہ کی عینِ ذات ہے کیونکہ ذاتِ اقدس الہٰی کسی کمالِ وجودی سے عاری نہیں ہے اور اس کے علم کا تعلق نظامِ اصلح اور بہترین نظام سے ہے اور یہ علم بھی عینِ ذاتِ الہٰی ہے۔ پس مبدءِ فعل بھی عینِ ذات ہے اور علمِ الہٰی بھی عینِ ذات ہے۔ جہاں اختیار کی بات ہے تو یہ اختیار بھی ذاتِ اقدس کی نسبت ست عینِ ذاتِ الہٰی ہے کیونکہ بذاتِہ اللہ تعالیٰ فعل کو صادر کرنے کا اختیار رکھتا ہے نہ کہ اس کا غیر کسی فعل کے صادر کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ سبحانہ کی قدرت بذاتِہ ہے اور یہ قدرتِ عین ذات ہے۔
تمام بحث سے ثابت ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فعل کے تحقق کا سبب اور منشأ حبِ الہٰی ہے جبکہ انسانوں کے فعل کا سبب رغبت و شوق ہے۔ نیز یہاں سے اس نظریہ کا بھی ردّ ہو جاتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ خارج میں اللہ تعالیٰ کے فعل کی وجہ علمِ الہٰی ہے کیونکہ اگر علمِ الہٰی فعل کا سبب ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے علم میں نظامِ احسن و اصلح کے ساتھ ساتھ نظامِ غیر احسن کا بھی علم ہے لیکن خارج میں فقط نظامِ احسن وجود رکھتا ہے اور غیر احسن نظام اصلاً وجود نہیں رکھتا !! البتہ اگر فعلِ الہٰی کا منشأ حبِّ الہٰی کو مان لیا جائے تو یہ اشکال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو نظامِ احسن و اکمل و اصلح سے محبت ہے اس لیے اسے وجود دیا اور نظامِ غیر احسن کو اس لیے وجود نہیں دیا کیونکہ حبّ الہٰی کا اس سے تعلق نہیں ہے۔
ارادہِ الہٰی سے مراد:
بحثِ قدرت میں اللہ سبحانہ کے ارادہ سے مراد عزم کا جمع ہونا نہیں ہو سکتا کیونکہ اس معنی میں ارادہ کیفِ نفسانی میں سے ہے جس سے اللہ سبحانہ پاک و منزہ ہے۔ اس مقام پر حکماء نے ارادہِ الہٰی سے مراد تمام کائنات کے لیے نظامِ اصلح و احسن کا علم ہونا لیا ہے۔ یہ معنی بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں ارادہ کو علم کہا جا رہا ہے جبکہ مفہومِ ارادہ جدا ہے اور مفہومِ علم جدا ہے۔ ملا صدراؒ بیان کرتے ہیں کہ حکماء کی نظر میں ارادہِ الہٰی سے مراداللہ تعالیٰ کو عوالم کے لیے اکمل، اتم، اصلح و احسن نظام کا علم ہونا ہے۔نظامِ اتم و اکمل کے وجود کے لیے علمِ الہٰی میں اس کا ہونا کافی ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ اس نظامِ اکمل و اتم کے وجود کو اس کے عدم پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ کہلاتا ہے۔ بعید نہیں ہے کہ علمِ ازلی الہٰی تمام کائنات کے وجود کا سبب قرار پائے۔ نیز ہمارے وجود میں بھی جب علم گہرے اور اکید صورت میں ہوتا ہے تو وہ وجودِ خارجی کا سبب بن جاتا ہے، جیسے ایک پتلی سی دیوار پر چلنے والے شخص کو گرنے کا توہم ہوتا ہے تو وہ دیوار سے گر جاتا ہے۔ پس حکماء نے قدرتِ الہٰی کی تعریف میں علم و اختیار کے بعد ارادہِ الہٰی سے مراد نظامِ احسن و اتم و اکمل کا علم ہونا قرار دیا ہے۔ حکماء کے مطابق مشیت بمعنی ارادہ ہے اور اور ارادہ بمعنی نظامِ اصلح کا علم ہونا ہے۔ یہ مطلب اس لیے قابلِ اعتراض قرار پاتا ہے کہ مفہومِ علم جدا ہے اور مفہومِ ارادہ جدا ہے، جیساکہ علامہ طباطبائی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ نظامِ احسن کے علم کو ارادہ و مشیت کہنا صحیح نہیں ہے۔ علامہ طباطبائی کے مطابق صحیح موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ارادہ کی صفت سے مجازًا متصف کریں گے بالکل اسی طرح جیسے صفتِ رحمت سے مراد انسان کا کسی مسکین و محتاج کو دیکھ کر قلبی اثر لینا ہے جس لازمہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اس مسکین کی حاجت پوری کر دے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اثر لینے اور انفعال سے پاک و منزّہ ہے۔ لہٰذا رحمت کا معنی مطابقی تاثیر وانفعال کو حاصل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت نہیں ہوتا لیکن معنیِ التزامی یعنی حاجت اور ضرورت کا پورا کرنے سے اللہ تعالیٰ کو متصف کر سکتے ہین۔ اس لازمہ کی بناء پر اللہ تعالیٰ کو رحیم کہا جاتا ہے۔
بالکل اسی طرح ارادہ کا معنی مطابقی جمعِ عزم ہے جوکہ کیف نفسانی ہے اور اللہ تعالیٰ ان نقائص سے منزّہ و مبرّہ ہے لیکن ارادہ کا معنیِ التزامی علتِ تامہ کا متحقق ہونا ہے جس کی وجہ سے اعضاءِ انسانی میں تحرک پیدا ہوتا ہے اور خارج میں ایک عمل انجام پا جاتا ہے۔ یہاں اللہ سبحانہ ارادہ کے معنیِ مطابقی سے منزہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے ارادہ کا معنیِ التزامی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اور وہ علتِ تامہ کا تحقق ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ حق تعالیٰ مرید یعنی ارادہ کرنے والا ہے تو اس سے مراد کسی عمل یا فعل کی علتِ تامہ کا تمام شرائط کے ساتھ متحقق ہو جانا اور تمام موانع اور رکاوٹوں کا دور ہو جانا ہے۔ پس ارادہ کا معنیِ التزام علتِ تامہ کا تحقق ہے اور کسی بھی فعل کے لیے اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے مراد یہی علتِ تامہ کا متحقق ہونا اور تمام موانع کا برطرف ہونا ہے۔ جب علت تام ہو اور موانع برطرف ہوں تو خارج میں فعلِ الہٰی متحقق ہو جائے گا۔
ارادہِ تکوینی :
ارادہِ تکوینی سے مراد ارادہ اور خارج میں فعل کے متحقق ہونے میں کسی اور فاعل کے ارادہ کے توسط کا نہ ہونا ہے۔ جب ارادہ کیا تو فعل خارج میں متحقق ہو جائے ، اسے ارادہ تکوینی کہتے ہیں۔ ارادہِ تکوینی انسان کے لیے ثابت ہے کیونکہ انسان فاعلِ علمی ہے ، یعنی انسان کے فعل کی انجام دہی میں اس کا علم دخالت رکھتا ہے۔ انسان کو علم حاصل ہوتا ہے، اس کے بعد شوق و رغبت اور پھر ارادہ جنم لیتا ہے۔ فاعلِ علمی کے مقابلے میں فاعلِ بالطبع آتا ہے جس میں انسان کے علم کا فعل کی انجام دہی میں کوئی دخل نہیں ہوتا، مثلاً انسانی معدہ کا غذا کو ہضم کرنا، انسان کو علم ہے کہ اس کا معدہ غذا کو ہضم کرتا ہے لیکن اس کے علم کے فعلِ معدہ اور ہضم میں کوئی دخالت حاصل نہیں۔ اس کو فاعل بالطبع کہتے ہیں جس کے مقابلے میں فاعلِ علمی آتا ہے۔ فاعلِ علمی اختیاری افعال صادر ہوتے ہیں جبکہ فاعل بالطبع سے غیر اختیاری افعال صادر ہوتے ہیں۔ دوسری طرف انسان تمام کمالات کو واجد نہیں ہے بلکہ حتماً بعض کمالات اس کی ذات میں فاقد ہیں۔ اس بناء پر ایک فعل کے خیر ہونے کے علم کے بعد انسان کو اس عملِ خیر کی جانب شوق و رغبت و میلان پیدا ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ اسے انجام دینے کا عزم و ارادہ کرتا ہے جس کے بعد جسمِ انسانی کے اعضاء و جوارح میں تحرّک ایجاد ہوتا ہے۔ اس ایجادِ فعل کو ارادہِ تکوینی کہا جاتا ہے۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کے لیے ارادہِ تکوینی ثابت کرنا محال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کمال کو فاقد نہیں ہے کہ اس کمال کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ارادہ کرے!!
ارادہِ تشریعی:
اگر ارادہ اور خارج میں فعل کے تحقق میں کسی اور فاعل کے ارادہ کا توسط اور احتیاج ہو تو اسے ارادہِ تشریعی کہتے ہیں، مثلاً انسان ارادہ کرتا ہے کہ پانی پیے، اس کے لیے وہ پانی پینے کا تصور کرتا ہے ، پھر اس کی طرف رغبت و میلان پیدا کرتے ہوئے ارادہ و عزم کرتا ہے اور پانی کی طرف ہاتھ بڑھا کر پانی پی لیتا ہے تو انسان کا یہ ارادہ ’’ارادہِ تکوینی‘‘ کہلائے گا۔ لیکن اگر پانی پینے کے ارادہ کرنے کے بعد وہ کسی دوسرے شخص کے ارادہ کا سہارا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں شخص مجھے پانی پلاؤ، یہاں دوسرے شخص کے توسط سے پانی پینا ارادہِ تشریعی کہلائے گا۔ ان دو اقسام سے معلوم ہوا کہ انسان کے ارادہ کا لازمہ کمال کا فقدان ہے جسے حاصل کرنے کے لیے وہ انسان ارادہ کرتا ہے۔ انسانی ارادہ کا منشأ اور سبب نفسِ انسانی کا کسی کمال سے عاری ہونا ہے اور وہ ارادہ کے ذریعے اس کمال کو طلب کرتا ہے۔ لہٰذا اس کمال کا علم ہونے کے ساتھ ہی انسان کو اس کا شوق پیدا ہوتا ہے اور پھر انسان اس کمال کو حاصل کرنے کے لیے ارادہ کرتا ہے۔
ارادہ اور مشیت میں فرق
ارادہ اور مشیت میں صرف اعتباری فرق ہے بالکل اسی طرح جیسے وجود اور ایجاد میں فرق ہے۔ اگر معلول کی نسبت فاعل کی طرف دی جائے تو اس کو ایجاد کہتے ہیں اور اگر معلول کی طرف وجود بما ھو موجود کے اعتبار سے دیکھیں تو اس معلول کو وجود کہا جائے گا۔ پس وجود اور ایجاد ایک شیء ہیں لیکن جہت مختلف ہونے کی وجہ سے وجود اور ایجاد کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ارادہ اور مشیت ایک شیء ہیں لیکن جہت مختلف ہونے کی وجہ سے نام مختلف پڑ گئے۔ اگر شیءِ مراد جسے انجام دینے کا ارادہ کیا گیا ہے کو فعل کی طرف نسبت دی جائے تو اسے ارادہ کہیں گے لیکن اگر شیءِ مراد کی نسبت فاعل کی طرف دی جائے تو اسے مشیت کہا جائے گا۔ پس ارادہ مراد یعنی فعل کی نسبت سے ہے اور مرید کی نسبت سے اسے مشیت کہا جائے گا۔ مرید ارادہ کرنے والے کو کہتے ہیں اور مراد اس شیء کو کہتے ہیں جس کا مرید نے ارادہ کیا ہے۔ شیءِ مراد کو خودِ فعل یعنی مراد کی جہت سے دیکھیں تو اسے ارادہ کہتے ہیں اور اس فعل کو انجام دینے والے فاعل کو مدنظر رکھیں تو اس کو مشیت کہیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے ارادہ کا معنیِ دوم
اللہ تعالیٰ کے ارادہ بمعنی عزم کو جمع کرنا اور شوقِ شدید محال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر کمال کو واجد ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے لیے اس معنی میں ارادہ تکوینی کو بھی ثابت نہیں کر سکتے جو کسی کمال کے حصول کے لیے ارادہ کیا جاتا ہے۔ یہاں ارادہ کا ایک اورمعنی اللہ تعالیٰ پر صدق کرتا ہے اور وہ ارادہِ فعلی ہےجوکہ مقامِ فعل سے صفتِ فعلی کے طور پر منتزع ہوتا ہے۔ خارجی عمل کو جب اللہ تعالیٰ کا مراد قرار دیا جاتا ہے تو ارادہِ الہٰی کے جلوے سے یہ عمل و فعل خارج میں ایجاد ہوا ہے۔ اس طور پر ارادہ کو صفتِ فعل قرار دیا جاتا ہے۔ روایات میں جہاں ارادہ کو اللہ تعالیٰ کی صفتِ فعل قرار دیا گیا ہے وہاں ارادہ سے مراد یہی ارادہِ فعلی ہے جو مقامِ فعل سے انتزاع ہوتا ہے۔ اسی طرح روایات میں مشیت کو محدثہ کہا گیا ہے تو وہ بھی اسی معنی میں ہے کہ جو مشیت مقامِ فعل سے انتزاع ہوتی ہے۔
ارادہِ الہٰی کا معنیِ سوم
اللہ تعالی کے لیے ارادہ بمعنی حب اور رغبت لیا جاتا ہے جوکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عملِ تنزیہ کے بعد قابل قبول ہے۔ حب اور رغبت کے جو لوازمِ نقائص ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کو منزہ قرار دینے کے بعد اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف دی جا سکتی ہے۔ اس صورت میں یہ ارادہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ذاتی میں شمار ہو گا، جیساکہ علم و قدرت اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ذاتی ہیں۔ پس ارادہ کا ایک معنی عزم باندھنا یا عزم کو بھر پور طریقے سے جمع کرنا لیا گیا جوکہ ان نفوس میں پایا جاتا ہے جن کا عالم مادہ سے تعلق ہے۔ اس ارادہ کے مالک کو متحرّک بالارادہ کہتے ہیں۔ یہ معنی اللہ تعالی کے لیے غیر قابل قبول ہے۔ اسی طرح ارادہ کا ایک معنی نظامِ اکمل کا علم لیا گیا جوکہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ معنی علم اور معنی ارادہ میں واضح فرق ہے۔ یہاں تک ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے تین مختلف معانی آ جاتے ہیں جن کی نسبت اللہ سبحانہ کی طرف دی جا سکتی ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ارادہ کا ایک معنی علتِ تامہ کا متحقق ہونا لیا گیا ہے جوکہ ذاتِ اقدس سے ساز گار ہے۔
۲۔ مقامِ فعل سے اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور مشیت کا انتزاع ہونا۔ اس معنی میں ارادہِ الہیٰ صفتِ فعل ہے۔
۳۔ ارادہِ بمعنی حبّ و رغبت، علم ِ الہٰی سے حبِ الہٰی کا سامنے آنا۔ اس معنی کو بعض پیدا ہونے والے نقائص سے مبرّا کر کے اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اس اعتبار سے ارادہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ذاتی قرار پائے گا۔ملاصدراؒ بیان کرتے ہیں کہ ارادہ اور محبتِ الہٰی ایک معنی ہے، جیساکہ علم ہے کہ علم حق تعالیٰ کی صفت عینِ ذات ہے اور یہی صفت داعی بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ میں قدرت، ارادہ اور داعی عینِ ذاتِ احدیت ہے لیکن انسان میں یہ تینوں صفات زائد اور جدا ہیں۔
منابع:
↑1 | راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن، ص ۲۹۴۔ |
---|