loading

شبہ :

ہمارے معاشرے میں بہت سے خود ساختہ اعمال دین کے نام پر داخل ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ شک پڑتا ہے کہ ہم میلاد اور شہادت کے عنوان سے اہل بیت ؑ کے جو دن مناتے ہیں کیا ان کا  حکم کسی صحیح السندحدیث میں آیا ہے؟

جواب:

دین کے نام سے خود ساختہ اعمال ایجاد کرنا اہل بیت& کی نظر میں قابل مذمت عمل ہے۔ البتہ ثقافتِ تشیع میں مراسمِ میلاد و عزا کے عنوان سے جو محافل برپا کی جاتی ہیں اور آئمہ معصومین& کا تذکرہ کیا جاتا ہے اس کا حکم  آئمہ اطہار& کی متعدد معتبر احادیث میں دیا گیا ہے۔   روایات میں وارد ہوا ہے کہ اہل بیت& کی خوشی میں خوش ہوا جائے اور ان کے حزن میں غمگین و محزون ہوا جائے۔ یقیناً ہر جگہ خوشی اور غمی کے طریقے مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اگر یہ طریقے دین اسلام اور آئمہ اطہار& کی تعلیمات کے منافی نہ ہو تو بلا شک و شبہ ان طریقوں کو اختیار کر کے خوشی اور غمی کو برپا کیا جا سکتا ہے۔ اوّلًا ہم صحیح السند احادیث کا پہلے جائزہ لیتے ہیں اور اس کے بعد خوشی اور غمی کے طریقوں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

حدیث : ۱

شیخ صدوق~ نے اپنی امالی میں ریان بن شبیب> سے صحیح السند روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ مَاجِيلَوَيْهِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ ( إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَاشِم‏ ) عَنِ الرَّيَّانِ بْنِ شَبِيبٍ > قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى الرِّضَا # فِي أَوَّلِ يَوْمٍ مِنَ الْمُحَرَّم‏ …ِ يَا ابْنَ شَبِيبٍ! إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ لَكَ مِنَ الثَّوَابِ مِثْلَ مَا لِمَنِ اسْتُشْهِدَ مَعَ الْحُسَيْنِ # فَقُلْ مَتَى مَا ذَكَرْتَهُ‏: { يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً } ، يَا ابْنَ شَبِيبٍ! إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ مَعَنَا فِي الدَّرَجَاتِ الْعُلَى مِنَ الْجِنَانِ فَاحْزَنْ لِحُزْنِنَا وَافْرَحْ‏ لِفَرَحِنَا وَعَلَيْكَ بِوَلَايَتِنَا، فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا تَوَلَّى حَجَراً لَحَشَرَهُ اللَّهُ مَعَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
ترجمہ:
ریان بن شبیب> کہتے ہیں کہ میں امام رضا#کی خدمت میں پہلی محرم کو حاضر ہوا … امام# نے فرمایا: اے فرزندِ شبیب! اگر تم چاہتے کہ تمہارے لیے اس شخص جیسا ثواب ہو جو امام حسین #کے ساتھ شہید کر دیا گیا تو جب بھی تم امام حسین #کا ذکر کرو یہ کہو: { يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً، اے کاش میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم ترین سعادت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا}،  اے ابنِ شبیب ! اگر تم چاہتے ہو کہ تم جنّتوں میں بلندترین درجات میں ہمارے ساتھ ہو تو تمہیں چاہیے کہ ہمارے حزن میں محزون ہو  اور ہماری خوشی میں خوش ہو، تمہارے اوپر ہماری ولایت و محبت لازم ہے، کیونکہ اگر ایک شخص پتھر سے بھی محبت کرے گا تو اللہ روزِ قیامت اس کو اس پتھر کے ساتھ محشور فرمائے گا۔

حدیث: ۲ 

شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، ص ۱۳۰، مجلس: ۲۷، حدیث: ۵۔ محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۲، ص ۲۲۳، حدیث: ۱۲۵۴

امام رضا# کے ان کلمات پر دقت کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آئمہ اطہار& کی خوشی میں خوشی کا اظہار کریں اور ان کے حزن و غمی میں حزن و غمی کا اظہار کریں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خوشی و غم میں اظہار کا طریقہ کار کیا ہو؟ تو اس کے جواب میں عرض کیا جائے گا کہ معاشروں میں رائج خوشی و غمی کا ہر وہ طریقہ اختیار کرنا مباح ہے جس سے دین اسلام و تعلیمات آل محمد& نے منع نہیں کیا۔

حدیث: ۳

شیخ صدوق نے کتاب الخصال میں امام علی سے روایت نقل کی ہے جس کی سند معتبر اور صحیح ہے، اس میں امام علیؑ فرماتے ہیں:

إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى اطَّلَعَ إِلَى الْأَرْضِ فَاخْتَارَنَا وَاخْتَارَ لَنَا شِيعَةً يَنْصُرُونَنَا وَيَفْرَحُونَ لِفَرَحِنَا وَيَحْزَنُونَ لِحُزْنِنَا وَيَبْذُلُونَ أَمْوَالَهُمْ وَأَنْفُسَهُمْ فِينَا أُولَئِكَ مِنَّا وَإِلَيْنَا.[1]شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج 2، ص 635.

 

Views: 274

پڑھنا جاری رکھیں

اگلا مقالہ: قرآن کریم میں تحریف کا قائل کون؟