loading

کیا توحید کا انکار کرنے والا واجب القتل ہے؟

سوال :

سلام علیکم ۔اگر اسلام میں عقیدہ جبری طور پر مسلط کرنے کی ممانعت کی گئ ہے تو عقیدے سے جبر منسلک رہنے کے حق میں کیوں ہے؟ مثلاً اگر کوئی مسلمان عقیدہِ توحید کا انکار کر دیتا ہے تو وہ واجب القتل ہے حالانکہ پہلے اُسے آزادئ عقیدہ دی گئ تھی۔

جواب:

اللہ تعالى نے انسانى معاشروں كى حيات اور بقاء قوانين پر قرار دى ہے ۔ اگر ان قوانين كى رعايت نہ كريں تو معاشرے فتنہ و فساد كا شكار ہو جاتے ہيں ۔ اسلام ابتدائى طور پر ہر ایک كو آزادى سے دين اور قانون اختيار كرنے كا حق ديتا ہے ۔ خصوصا اعتقادات كو اختيار كرنے كا حق ديتا ہے ۔ اس ميں كوئى جبر نہيں ہے ۔

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

« لا إكراہ فى الدين ». [1] بقره:۲۵۵۔ ليكن جب ايك مرتبہ افكار اور قوانين كو تسليم كر ليا تو اس كے مطابق عمل ضرورى ہے۔ ورنہ ہر كوئى يہ كرے گا كہ جب اس پر زحمت ، مشقت يا طبيعت پر ناگوارى آئے تو وہ فكر و قانون كو ترك كر دے گا اور اس طرح معاشرے ميں بدنظمى اور غير قانونيت رائج ہو جائے گى ۔ دوسرى بڑى وجہ معاشرے ميں انتشار كا پھيلنا ہے ، كيونكہ اگر كوئى شخص دل ہى دل ميں عقيدہ سے ہاتھ اٹھا ليتا ہے اور يہ دل ميں قانون كا انكار كر ديتا ہے تو اس كى كوئى سزا نہيں ہے اور وہ قيامت والے دن كافر اٹھايا جائے گا ۔ ليكن اگر وہ اتنى مقدار ميں اپنے ارتداد كو آشكار كرتا ہے كہ گواہ پورے ہو جاتے ہيں تو اس كا يہ مطلب ہے كہ اب يہ معاشرے كو فاسد اور خراب كر رہا ہے ۔ كيونكہ لوگ ديكھا ديكھى اعمال انجام دينا شروع كر ديتے ہيں ۔۔ پس اعلانيہ گناہ ، جرم اور انحراف پورے معاشرے كى بربادى كا باعث بنتا ہے ۔ اس ليے اسلام نے اس مسئلہ ميں سختى كى ہے كہ اسلامى نظريات اور قوانين كو مذاق مت سمجھو ، كہ ايك دن قبول كيا تو دوسرے دن اس كا انكار كر ديا ۔۔ نيز معاشرے كو مت برباد كرو ۔۔ كہ اپنے انحراف كو معاشرے ميں سرايت دينا شروع كر دو ۔۔ اس ليے اگر وہ اپنے ارتداد كو چھپائے ركھتا ہے تو كوئى سزا نہيں ہے اور صرف قيامت والے دن سزا ہے ۔ اسى طرح اگر معاشرے ميں گواہ كى مقدار تك آشكار نہيں كرتا صرف ايك يا دو افراد كو معلوم ہے تو بھى سزا نہيں ہے ، نيز اگر وہ قيد كر ليا جائے اور گواہ گواہى ديں اور توبہ كر لے يا انكار كر دے تو بھى بعض صورتوں كے علاوہ سزا نہيں ہے ۔۔ ليكن اگر اقرار كرے اور اپنے انحراف ميں ڈٹا رہ جائے تو وہ سزا كا مستحق ہے۔ ہم اس دورِ جديد ميں بھى ديكھتے ہيں كہ ہر ملك ميں بعض نظريات اور قوانين كے بارے ميں پہلے اختيار ديتے ہيں كہ قبول كرو يا نہ كرو ليكن قبول كر لو تو پھر انكار يا خلاف ورزى پر سزا ہے ، مثلا
ہر ملك كہتا ہے كہ ملك ميں داخل ہونے يا نہ ہونے كى تمہيں آزادى ہے ليكن اگر داخل ہوئے تو
۱) نہ ہمارے صدر ، وزير اعظم يا مذہبى شخصيت كو برملا برا بھلا كہہ سكتے ہو اور نہ ہمارے دين كو برا بھلا كہہ سكتے ہو
۲) نہ ہمارے قوانين كو تم توڑوں گے۔
اب تمہارى مرضى ہے كہ يہ بات تمہيں قبول ہے يا نہيں ؟ اگر قبول ہے تو ہمارے ملك آ جاؤ ، اب جو قبول كر كے چلا جائے اور وہاں اعلانيہ صدر كى توہين كرے ، يا ان كے مذہب كا مذاق اڑائے يا ان كے قوانين پامال كرے تو پورى دنيا اس كو سزا كا حقدار قرار ديتى ہے ۔ يہى صورت دينِ الہى ميں بھى ہے۔

منابع:

منابع:
1 بقره:۲۵۵۔