{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۶}
مغربی تہذیب اور خاندانی نظام
ميرا ايك دوست علاج كى غرض سے آسٹريليا گيا ہوا تھا جب اس كا آپريشن ہوگيا ايك روز وہ اور اس كا بيٹا رستوران ميں كھانا كھا رہےتھے اس كا بيٹا اس كى بہت تيمار دارى كر رہا تھا ۔ اسى دوران انكى ميز كے سامنے مرد اور عورت آكر بيٹھے جو بظاہر مياں بيوى لگ رہے تھے اور بہت ہى دقت سے ان باپ اور بيٹأ كى طرف ديكھے جا رہے تھے ۔يہاں تك كہ انہوں نے ميرے بيٹے سے پوچھ ہى ليا كہ تم اس شخص كى اتنى خدمت كيوں كررہے ہو؟ تو ميرے دوست كے بيٹے نے جواب ديا كہ وہ ميرے والدہيں اس ليے۔انہيں يہ جواب سن كر بہت حيرت ہوئى۔جب ميرے دوست نے ان كے بارے مىں پوچھا تو انہوں نے جواب ديا كہ ہم تيس سال قبل ملے تھے اور ہم نے طے كيا كہ كچھ مدت ايك ساتھ رہيں گے اگر ہمارے مزاج آپس مىں مل گئے توہم شادى كر ليں گے ليكن اب تك ہميں شادى كى فرصت نہيں ملى۔[1] شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۷۴۔
منابع:
↑1 | شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۷۴۔ |
---|