loading

{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۵۷}

وقت کے امام کی تلاش میں

ترجمہ: عون نقوی

شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے:

کلبی النسابہ بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ میں وقت کے امام کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہا تھا۔میں مسجد میں داخل ہوا۔ وہاں قریش کے چند افراد موجود تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اہل بیتؑ میں سے جو سب سے اعلم ہیں اس کا مجھے پتہ بتاؤ۔ انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن حسن کے پاس جاؤ وہ گھرانہ محمد و آل محمدؑ میں سب سے بڑے عالم دین ہیں۔ میں عبداللہ بن حسن کے گھر کی طرف نکل گیا۔ دروازہ کھٹکٹایا تو ایک شخص باہر نکلا۔ ظاہری طور پر غلام لگ رہا تھا میں نے اس سے کہا کہ اپنے مولا کو کہو کہ آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔ وہ اندر گیا اور کچھ دیر بعد واپس آیا اور مجھے اندر داخل ہونے کا کہا۔  جب میں اندر داخل ہوا تو دیکھتاہوں کہ ایک بزرگ  شدید سختی کی حالت میں عبادت خدا میں مصروف ہیں۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کون ہوں؟ میں نے کہا کہ میں کلبی النسابہ ہوں۔ اس نے کہا کہ کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا کہ آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ اس نے کہا کہ کیا تم میرے بیٹے محمد کی طرف گئے ؟(وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ سوال پوچھنے کے لیے اس کے پاس چلے جاتے)میں نے کہا کہ مجھے آپ سے ہی سوال کرنا تھے۔ انہوں نے کہا کہ سوال کرو۔ میں نے کہا کہ ایک شخص ہے اس نے اپنی بیوی کو ایک ہی نشست میں آسمان کے ستاروں کی تعداد میں طلاق دی ہے؟(سوال یہ تھا کہ کیا ایک ہی دفعہ تین طلاقیں جاری ہوتی ہیں یا نہیں؟)انہوں نے کہا کہ تینوں طلاقیں جاری ہو جائیں گی۔میں نے ان کا جواب سن کر دل ہی دل میں کہا کہ یہ شخص وہ نہیں ہے کہ جس کی تلاش میں نکلا ہوں اور ایک جواب تو اس نے غلط دے دیا ہے۔پھر میں نے کہا کہ کیا موزوں  پر مسح کر سکتے ہیں؟انہوں نے کہا کہ صالح افراد مسح کرتے ہیں البتہ ہم اہل بیتؑ یہ کام نہیں کرتے۔(مطلب موزوں کے اوپر مسح کرنا بھی غلط نہیں سمجھتے بلکہ کہہ رہے ہیں کہ صالح افراد اس پر مسح کرتے ہیں ، مطلب اس کو زیادہ سے زیادہ مکروہ سمجھتے ہیں)میں نے دوسرا جواب سن کر خود سے کہا کہ دو سوال اور دونوں کے غلط جواب۔میں نے اگلا سوال کیا کہ بغیر چھلکے کی مچھلی کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟کھانا حلال ہے یا حرام؟انہوں نے کہا کہ حلال ہے لیکن ہم اہل بیتؑ نہیں کھاتے۔میں نے دل میں کہا کہ تین غلطیاں ہو گئیں۔پھر میں نے آخری سوال کیا کہ کیا نبیذ جو کی شراب پینا جائز ہے؟ انہوں نے کہا کہ پینا جائز ہے لیکن ہم اہل بیتؑ نہیں پیتے۔ میں نے دل میں کہا کہ چاروں سوالات کے جواب غلط دیے ہیں اور اٹھ کر چلا گیا۔مجھے دل ہی دل میں بہت افسوس ہور ہا تھا کہ اہل مدینہ کیسے اس شخص کی طرف رجوع کر رہے ہیں؟اور اہل بیتؑ پر جھوٹ بول رہے ہیں؟پھر میں مسجد آیا اور وہاں کچھ لوگوں سے پوچھا کہ اہل بیتؑ میں سب سے زیادہ عالم کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن حسن۔ میں نے کہا ان سے تو میں مل آیا ہوں ان کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے ، ان میں سے ایک شخص نے سر اٹھایا اور کہا تم جعفر بن محمد(امام جعفر صادقؑ)کے پاس جاؤ۔وہ اہل بیتؑ  میں سب سے بڑے عالم ہیں۔ لوگوں نے اس شخص کی ملامت کی اور کہنے لگے کہ تم نے اس کا نام کیوں لیا؟مجھے بھی اندازہ ہو گیا کہ لوگوں نے از روۓ حسادت ان کے پاس جانے سے روکا ۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ کیا تم مجھے جعفر بن محمد کے پاس لے جا سکتے ہو؟ میں ان کے پاس گیا اور دروازہ کھٹکٹایا ایک غلام نکلا اس نے کہا کہ اے کلبی بھائی اندر آ جاؤ۔میں دہشت زدہ ہو گیا اور دل ہی دل میں کہا کہ جب اس شخص نے مجھے کبھی دیکھا ہی نہیں تو مجھے میرے نام سے کیسے پکارا؟میں گھبرایا ہوا اندر گیا اور ایک بزرگ کو دیکھا جو ایک مصلے پر بیٹھے ہیں جس کا کوئی فرض نہیں اور نہ کوئی تکیہ لگا ہوا تھا۔جب میں نے سلام کیا توانہوں پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا سبحان اللہ! نوکر نے دراوزے پر مجھے پہچان لیا اور کلبی کہہ کر پکارا، لیکن اس کا آقا پوچھ رہا ہے کہ میں کون ہوں؟ میں نے کہا کلبی ہوں نسب شناس ہوں۔عرب کا سب سے بڑا نسب شناس۔  امامؑ نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ عادلوں نے جھوٹ بولا اور پوری طرح سے گمراہ ہوۓ۔(امام فرمانا چاہ رہے تھے کہ نسب شناسی کا علم ظن و قیاس پر مشتمل ہے اور جو شخص بغیر وحی کے از روۓ قیاس اور ظن چیزیں بیان کرتا ہے وہ گمرا ہ ہے)پھر امام نے فرمایا کہ اے کلبی بھائی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم نے عاد و ثمود کی قوموں کو ہلاک کیا اور ان کنویں والوں کو جنہون نے اپنے نبی کی نافرمانی کی اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ ہلاک ہوۓ۔تو کیا تم ان سب کے نسب کو جانتے ہو؟ ان قوموں کا آدمؑ تک سلسلہ نسب بیان کر سکتے ہو؟ میں نے کہا کہ اتنا تو میں بھی نہیں جانتا ۔پھر امامؑ نے فرمایا اچھاا پنے نسب کے بارے میں تو جانتے ہوگے؟ میں نے کہا جی ہاں!میں فلاں بن فلاں ہوں، او راسی طرح سے اپنے دادا ،پڑدادا اور ان کے دادا کا نام بتاتا گیا۔ ایک جگہ پر امام نے فرمایا کہ رک جاؤ۔ جیسا تم بتا رہے ہو ایسا نہیں ہے۔ تم نے کہا کہ فلاں بن فلاں ہے اور تمہارا فلاں دادا فلاں کا بیٹا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ میں نے کہا مجھے  علم ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، امام نے فرمایا کہ نہیں! فلاں تمہارا دادا فلاں کا بیٹا نہیں تھا بلکہ ایک چرواہے عمرو کا بیٹا تھا۔ یہ چرواہا بکریاں چراتا تھا اور فلاں قبیلے سے تھا۔ وہ چرواہا ایک دن بکریاں چراتا ہوااس عورت کے پاس آیا ، اس عورت کا شوہر وہاں موجود نہیں تھا اس چرواہے نے اس عورت سے کچھ کھانے کو طلب کیا اور بعد میں اس سے ہمبستر ہوا۔(زنا کیا)اور اس کے نتیجے میں تمہارا فلاں دادا پیدا ہوا۔ تمہارا فلاں دادا در اصل اس چرواہے کے نطفے سے ہے پھر امام نے فرمایاکہ تمہیں جو نام بتاۓ گئے کیا اس کا علم تھا؟ میں نے کہا نہیں!میں نے کہا کہ اگر مناسب سمجھیں تو اس بات کا کسی سے ذکر مت کریں۔ امام نے فرمایا کہ خود تم نے میرے سامنے نسب شناسی کا دعوی کیا تو اس لیے میں نے کہا۔(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں امام کی خدمت میں اظہار وجود نہیں کرنا چاہیے، یعنی امام کی خدمت میں ہم یہ مت کہیں کہ ہم عالم ہیں، یا ہمیں فلاں علم آتا ہے امام کے آگے خود کو ہیچ قرار دیں)میں نے کہا کہ اب میں ایسا نہیں کروں گا۔ فرمایا ہم بھی کسی سے اس شجرے کا ذکر نہیں کریں گے ۔ اس کے بعد امام نے فرمایا اب وہ سوالات کر جو پوچھنے کے لیے آیا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے ایک ایسے شخص کے بارے میں بتائیں جس نے اپنی زوجہ کو کہا تجھے ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دیتا ہوں۔ امام نے فرمایا کہ کیا تم نے سورہ طلاق نہیں پڑھی؟ میں نے کہا ہاں! پڑھی ہے۔فرمایا پڑھو، میں نے پڑھا:

فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ‌ وَ أَحْصُوا الْعِدَّةَ.

ترجمہ:ان کی عدت کے لیے طلاق دے دیا کرو اور عدت کا شمار رکھو ۔[1] طلاق:۱۔

فرمایا اس آیت میں نجوم سما کا ذکر ہے میں نے کہا نہیں! پھر فرمایا طلاق نہیں دی جاتی مگر طُہر میں جبکہ جماع نہ کیا ہو اور اس کے گواہ دو عادل ہوں۔امام کا جواب سن کر میں نے دل میں کہا کہ پہلے سوال کا جواب درست دیا ہے۔ ان کی امامت  کا یہ پہلا ثبوت ہوگیا ہے۔پھر میں نے دوسرا سوال کیا کہ موزوں پر مسح کرنے کا کیا حکم ہے؟ یہ سن کر امام مسکرا دیے۔ اور پھر فرمایا کہ روز قیامت خدا ہر شے کواس کی صورت پر لے آۓ گا پس جنہوں نے موزہ پر مسح کیا ان کے پیروں پر بکری کی کھال ہوگی اب غور کر  ایسے مسح کرنے والوں کا وضو کیسے ہوگا؟ فرمانا چاہتے تھے کہ موزوں پر مسح نہیں کر سکتے۔ پھر میں نے تیسرا سوال کیا بے چھلکے کی مچھلی کے بارے میں۔ امام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو مسخ کیا جو دریا کے حصے میں آئی یہ وہی مچھلی تھی جس کے بارے میں تم نے سوال کیا ہے۔ اور جو خشکی کے حصے میں آۓ وہ بندر، سور اور ایک قسم کی بلی ہے۔ ایک قسم گوہ کی ہے وہ بھی مسخ ہوئی۔ (جو جانور مسخ شدہ ہے وہ حرام ہیں)میں نے دل میں کہا کہ تین سوالات کے درست جواب دیے ہیں۔ امام نے فرمایا کہ اب آخری سوال پوچھ اور اٹھ جا۔میں نے کہا کہ جو کی شراب کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا حلال ہے۔ میں نے کہا کہ ہم نبیذ میں خاص قسم کی ادویات ڈالتے ہیں  تاکہ اس میں ابل آ جاۓ، فرمانے لگے اس سے دور رہو، دور رہو یہ تو شراب ہے جو کہ حرام ہے۔ میں نے کہا جو نبیذ حلال ہے وہ کونسی ہے؟ فرمایا سنو، اہل مدینہ نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کہ کہ مدینہ کا پانی تلخ ہو گیا ہے اور اس کے پینے سے صحت بھی خراب ہو جاتی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو فرمایا کہ اس  میں کھجور ڈال دو۔ایک شخص نے ایسا ہی کیا اور اپنے غلام کو کہا کہ ایک مٹھی کھجور پانی میں ڈال دے، اس نے اس کو پیا اور طہارت کی یعنی وضو و غسل بھی کیا۔ میں نے کہا وہ کھجور کتنی مقدار میں ہو ؟ یعنی اس شخص کی مٹھی میں کتنی کھجور تھی؟ امام نے فرمایا جتنے ایک عام شخص کی مٹھی میں کھجور آ جاتے ہیں۔ میں نے کہا دونوں مٹھیوں میں کھجور ہوں یا ایک مٹھی میں؟ فرمایا ممکن ہے کبھی ایک ہو اور کبھی دو۔ (یعنی ممکن ہے کبھی پانی زیادہ او ر کبھی کم)میں نے کہا پانی کتنا تھا؟ فرمایا چالیس سے لے کر یا اس سے کچھ زیادہ،میں نے کہا چالیس رطل؟ فرمایا ہاں! چالیس عراقی رطل۔پھر امام اٹھ کھڑے ہوۓ اور میں بھی باہر نکل گیا۔ میں نے باہر نکل کر اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور خود سے کہا کہ اگر کوئی شخص ہے تو وہ یہ ہے۔[2] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۳۴۹،ح۷۔