loading

فلسفہ و عرفان كى ردّ میں امام عسكرى ؑ سے منسوب حديث كى تحقیق

تحرير:   سيد محمد حسن رضوى

تاریخ:6/28/2021

عموما ايك سوال كيا جاتا ہے كہ فلسفہ اور عرفان كى مذمت ميں امام حسن عسكرى عليہ السلام سے ايك روايت حديقة الشيعة ميں نقل كى گئى ہے كيا وہ حديث صحيح اور قابل اعتماد ہے اور اگر وہ قابل اعتماد ہے تو پھر كيوں ہمارے بزرگان ان علوم كو پڑھتے پڑھاتے رہے ہيں اور اب بھى حوزات علميہ قم و نجف ميں آزادنہ طور پر تدريس كيے جاتے ہيں ؟

اس كے جواب ميں عرض ہے كہ فقہ و اصول و تفسير و علم حديث كى مانند عالم اسلام ميں ’’ فلسفہ و عرفان و تصوف‘‘ كے عنوان سے اسلامى علوم موجود ہيں جو بلا شك و شبہ قرآن و احاديث سے وجود ميں آئے ہيں اور ہر دور ميں اس مزاج اور ان علوم سے آراستہ شخصيات عالم اسلام ميں موجود رہى ہيں۔ ايك حديث بالعموم فلسفہ و تصوف كى ردّ ميں پيش كى جاتى ہے جوكہ كئى جہات سے سند و متن ہر دو لحاظ سے قابل اعتراض اور غير قابل قبول ہے ۔ ہم پہلے حديث كو پيش كرتے ہيں اور اس كے بعد اس كى سندى اور متن كا جائزہ ليتے ہيں :

امام حسن عسكرى علیہ السلام سے منسوب حديث:

الْعَلَّامَةُ الْأَرْدَبِيلِيُّ فِي حَدِيقَةِ الشِّيعَةِ، نَقْلًا عَنِ السَّيِّدِ الْمُرْتَضَى بْنِ الدَّاعِي الْحُسَيْنِيِّ الرَّازِيِّ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الشَّيْخِ الْمُفِيدِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الْوَلِيدِ عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ الْإِمَامِ الْحَسَنِ الْعَسْكَرِيِّ عليہ السلام :

أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ يَا أَبَا هَاشِمٍ سَيَأْتِي زَمَانٌ عَلَى النَّاسِ وُجُوهُهُمْ ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ وَ قُلُوبُهُمْ مُظْلِمَةٌ مُتَكَدِّرَةٌ السُّنَّةُ فِيهِمْ بِدْعَةٌ وَ الْبِدْعَةُ فِيهِمْ سُنَّةٌ الْمُؤْمِنُ بَيْنَهُمْ مُحَقَّرٌ وَ الْفَاسِقُ بَيْنَهُمْ مُوَقَّرٌ أُمَرَاؤُهُمْ جَاهِلُونَ جَائِرُونَ وَ عُلَمَاؤُهُمْ فِي أَبْوَابِ الظَّلَمَةِ [سَائِرُونَ‏] أَغْنِيَاؤُهُمْ يَسْرِقُونَ زَادَ الْفُقَرَاءِ وَ أَصَاغِرُهُمْ يَتَقَدَّمُونَ عَلَى الْكُبَرَاءِ وَ كُلُّ جَاهِلٍ عِنْدَهُمْ خَبِيرٌ وَ كُلُّ مُحِيلٍ عِنْدَهُمْ فَقِيرٌ لَا يُمَيِّزُونَ بَيْنَ الْمُخْلِصِ وَ الْمُرْتَابِ لَا يَعْرِفُونَ الضَّأْنِ مِنَ الذِّئَابِ عُلَمَاؤُهُمْ شِرَارُ خَلْقِ اللَّهِ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ لِأَنَّهُمْ يَمِيلُونَ إِلَى الْفَلْسَفَةِ وَ التَّصَوُّفِ وَ ايْمُ اللَّهِ إِنَّهُمْ مِنْ أَهْلِ الْعُدُولِ وَ التَّحَرُّفِ يُبَالِغُونَ فِي حُبِّ مُخَالِفِينَا وَ يُضِلُّونَ شِيعَتَنَا وَ مُوَالِيَنَا إِنْ نَالُوا مَنْصَباً لَمْ يَشْبَعُوا عَنِ الرِّشَاءِ وَ إِنْ خُذِلُوا عَبَدُوا اللَّهَ عَلَى الرِّيَاءِ أَلَا إِنَّهُمْ قُطَّاعُ طَرِيقِ الْمُؤْمِنِينَ وَ الدُّعَاةُ إِلَى نِحْلَةِ الْمُلْحِدِينَ فَمَنْ أَدْرَكَهُمْ فَلْيَحْذَرْهُمْ وَ لْيَصُنْ دِينَهُ وَ إِيمَانَهُ ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا هَاشِمٍ هَذَا مَا حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ آبَائِهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع وَ هُوَ مِنْ أَسْرَارِنَا فَاكْتُمْهُ إِلَّا عَنْ أَهْلِه‏۔

حوالہ :

مستدرك الوسائل ، ج ۱۱، ص ۳۸۰۔

يہ حديث امام عسكرى عليہ السلام كے دور جو كہ تيسرى صدى ہجرى كا دور ہے سے سات سو سال تك كسى بھى كتاب ميں موجود نہيں تھى اور سب سے پہلے حديقة الشيعة نامى كتاب جس كى نسبت مقدس اردبيلى كى طرف ثابت نہيں ہے ميں ضعيف سند سے آئى ہے اور اس كے بعد نہ علامہ مجلسى نے اس كو بحار ميں نقل كيا ہے اور نہ شيخ حر عاملى نے وسائل الشيعة ميں ، پہلى مرتبہ معاصر محدث ’’ محدث نورى‘‘ نے مستدرك ميں نقل كيا ہے ۔ يہ نكتہ بذاتِ خود انتہائى قابل دقت ہے ۔

🔴 سندى تحقيق :

اس حديث ميں اگر تمام ان افراد كو ملاحظہ كريں جو حديث كو نقل كرنے كى فہرست ميں آتے ہيں تو يہ كل آٹھ ۸ افراد ہيں، جن ميں سے تين علماء معروف ہيں جوكہ مقدس اردبيلى ، مرتضى بن داعى اور شيخ مفيد ہيں۔ جبكہ بقيہ پانچ راوى حضرات ہيں جن كے حالات كتب رجاليہ سے جاننا ضرورى ہيں ۔ ان كى تفصيل درج ذيل ہے ۔

۱۔ الْعَلَّامَةُ الْأَرْدَبِيلِيُّ فِي حَدِيقَةِ الشِّيعَة: جہاں مقدس اردبيلى كا تعلق ہے تو آپ دسويں صدى ہجرى (وفات ۹۹۳ ھج ) كى مايہ ناز شخصيت گزرى ہيں ۔ حديقة الشيعة آپ كى طرف منسوب كتاب ہے جس كى نسبت آپ سے ثابت نہيں ہے كيونكہ اس ميں كثير ضعيف روايات ہيں اور بعض ايسے قرائن ہيں جن سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ كتاب آپ كى نہيں ہے ۔ بہتر ہے اس سلسلہ ميں اس كتاب كى تحقيق ميں لكھے گئے مقالہ جات كى طرف رجوع كيا جائے ۔

۲۔ السَّيِّدِ الْمُرْتَضَى بْنِ الدَّاعِي الْحُسَيْنِيِّ الرَّازِيِّ : آپ چھٹى صدى ہجرى ميں گزرے ہيں اور آپ كے حالات كتب ميں وارد نہيں ہوئے سوائے معروف رجالى ’’ شيخ منتجب الدين جوكہ ساتويں صدى ہجرى سے تعلق ركھتے ہيں نے ان كو اپنا شيخ اور استاد قرار ديا ہے ۔ علماء كے نزديك يہ شيخ منتجب الدين كى وجہ سے قابل قبول شخصيت شمار ہوتے ہيں ۔

۳۔ الشَّيْخِ الْمُفِيدِ : آپ كى عظمت و جلالت اور شہرت ہى آپ كى تصديق كے ليے كافى ہے ۔ شيخ مفيد پانچويں صدى ہجرى كے محدث و متكلم و فقيہ ہيں ۔ ان كے اور مقدس اردبيلى كے درميان ۵ سو سال كا جبكہ مرتضى بن داعى كے درميان ۱ صدى كا فاصلہ ہے ۔

۴۔ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الْوَلِيدِ: آيت اللہ خوئى نے ان كو مجہول قرار ديا ہے اور ان كے سلسلہ سند سے آنے والى روايت كو ضعيف قرار ديا ہے ۔ آپ شيخ مفيد كے شيخ تھے ۔ان كے حالات كے بارے ميں آيت اللہ خوئى كى عبارت ملاحظہ كيجيے