loading

{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۷}

مغربی تہذیب کی جھلک

مرحوم محققى كہ جو آىت اللہ بروجردىؒ كى جانب سے جرمنى گئے تھے انہوں نے اىك بڑا عجىب واقعہ سناىا:كہا كہ ہمارے زمانے مىں جو لوگ مسلمان ہوۓ ان مىں اىك پروفىسر بھى تھے وہ بڑے فاضل شخص تھے ان سے ہمارى اكثر ملاقات ہوتى تھى ۔انہىں سرطان كا مرض لاحق تھا اور وہ ہسپتال مىں داخل تھے۔ اىك روز انہوں نے كہا كہ جب مىں بىمار ہو كر بستر سے لگ گىا اور ڈاكٹروں نے تشخىص كر دى كہ مجھے سرطان ہے اور مىرے بچنے كى كوئى امىد نہىں تو مىرى بىوى اور بىٹا دونوں آۓ اور كہنے لگے كہ معلوم ہوا ہے كہ آپ كے بچنے كى كوئى امىد نہىں لہذہ ہم خدا حافظ كہنے آۓ ہىں ۔ىہ كہہ كر وہ دونوں چلے گئے۔اور انہوں نے ىہ بھى نہ سوچا كہ بىمار اور بدقسمت انسان محبت و مہربانى كا محتاج ہے ۔كچھ عرصے بعد ان كے انتقال كى اطلاع دى گئى تو ہم نے ان كے كفن و دفن كے لئے ہسپتال كے عملے سے بات كى۔تو پتہ چلا كہ اس كا بىٹا وہاں آىا ہوا ہے اور اس نے باپ كى لاش پہلے ہى كسى ہسپتال كو بىچ دى اور اب اس لئے آىا ہے كہ باپ كى لاش اس ہسپتال كے حوالے كردے اور قىمت لے كر چلتا بنے۔[1] شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۷۴۔

منابع:

منابع:
1 شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۷۴۔