قرآنى آيات كے معانى اور مصاديق ميں فرق
دنيا كا نظام اس طرح سے خلق ہوا ہے كہ ايك انسان دوسرے انسان كے ذہن اور باطن كو نہيں پڑھ سكتا اس ليے دوسرے كى ذھن يا باطن ميں موجود معنى كو سمجھنے كے ليے الفاظ ايجاد كيے گئے ہيں ۔ يہى وجہ بنى كہ جب سے بشرِ خاكى نے اس كرہِ ارض پر قدم ركھا ہے وہ زبان كے ذريعے الفاظ ايجاد كرتا ہے اور يہ الفاظ معانى كو اٹھائے ہوئے ہوتے ہيں اور فضاء كى لہروں ميں سفر كرتے ہوئے دوسرے شخص كے كانوں ميں دستك ديتے ہوئے داخل ہو جاتے ہيں ۔ ’’الفاظ‘‘ كان ميں داخل ہو كر اٹھائے ہوئے معنى كو سننے والے كے باطن ميں گرا ديتے ہيں اور اس طرح ايك دوسرے كو اپنى بات پہنچائى جاتى ہے يا گفتگو كى جاتى ہے۔
اللہ تعالى نے انسان كو اسى طرح خلق كيا ہے كہ وہ اپنى بات سمجھانے ، اپنے وجود ميں محفوظ مطلب بيان كرنے اور دوسرے كى باتيں سمجھنے كے ليے كسى ’’زبان و لغت‘‘ كا محتاج ہے ۔ كوئى بھى بولى جانے والى زبان تين چيزوں سے وجود ميں آتى ہے :
الف) مصداق ، وہ اصل حقيقت جو موجود ہے ۔
ب) اس حقيقت كا معنى ، جو انسان نے سمجھا ہے اور اس كے باطن ميں ہے ۔
ج ) الفاظ : جو اس معنى كو بيان كرتے ہيں اور معنى كے ذريعے ايك انسان مصداق تك پہنچتا ہے ۔
ممكن ہے آپ كے ليے يہ تينوں الفاظ ’’ لفظ ، معنى ، مصداق‘‘ مبہم ہو ، ليكن اگر آپ پچھلے دروس توجہ سے پڑھيں اور ان كلمات كو پہلے ياد كر ليں تو نفس ميں اجنبيت كا احساس ختم ہو جائے گا اور سيكھنے كى طرف بآسانى آئيں گے ۔ ہم قرآن كريم كے الفاظ معانى كا آغاز براہِ راست نہيں كر سكتے بلكہ ضرورى ہے كہ ہم اللہ تعالى كے اس حكيمانہ نظام كو پہلے سمجھيں جو نظام اللہ تعالى نے افہام و تفہيم اور سمجھ بوجھ كے ليے قرار ديا ہے ۔ اس نظام كا نام ’’ لفظ، معنى اور مصداق‘‘ ہے۔
بدون نظر